نیاز جیراج پوری کی نظمیں اپنے عہد کی عکاس - از علیزے نجف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-20

نیاز جیراج پوری کی نظمیں اپنے عہد کی عکاس - از علیزے نجف

nazms-of-neyaz-jairajpuri

اردو شعر و ادب کی تاریخ کا اگر حقیقت پسندانہ طریقے سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اردو ادب نے وقت کی فطری تبدیلی اور بدلتے تقاضوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے میں کبھی تامل نہیں کیا ہے۔ یوں اردو ادب کی ہیئت اور اس کے موضوعات وقت کے ساتھ تبدیل ہو کر ہمیشہ موضوع بیان بنے رہے۔ ایسا ہونا ضروری تھا کیوں کہ ادب کے ترویج و ارتقا میں تخلیق کار کے ساتھ قاری بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور وہ قاری جو کہ اپنے عہد کی بدلتی روایتوں کا علمبردار ہوتا ہے وہ کبھی بھی ایسے ادب کا مطالعہ نہیں کرنا چاہے گا جو گذرے وقتوں کی داستان ہو جس کا مواد موجودہ وقت میں ایک انجان موضوع بن گیا ہو۔ گویا شعر کی تخلیق کے ساتھ ساتھ تفہیم و تعبیر کے مراحل کو اس کے فنی آداب کے ساتھ طئے کرنا ضروری ہے۔ شعریات میں سخن گوئی کی طرح سخن فہمی کی اہمیت سے منکر نہیں ہوا جا سکتا شعر گوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے محقیقین نے یہ بات بھی بڑے وثوق کے ساتھ کہی ہے کہ شعروں کو سمجھنے کے لئے شعر کے آداب اور اس کے فنی تقاضوں کا علم ہونا بھی ضروری ہے کیوں کہ کبھی کبھی شاعر ایک لفظ میں کئ مفہوم کو سمو دیتا ہے وہ کوئ خاص واقعہ یا حالت یا کیفیت ہو سکتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ عصری تہذیب اور روایتی اسالیب کے درمیان ربط پیدا کیا جائے۔


ادباء و شعراء کا ذہن بھی اپنے وقت کی تہذیبوں اور قدروں کا مرقع ہوتا ہے ان کی سوچوں پر وہ اثرانداز ہوتے ہیں اگر ادب میں تبدیلیوں کے راستے بند کر دئیے جاتے تو ان ادباء و شعراء کی ذہنی کیفیت دو حصوں میں بٹ جاتی ایک حصہ وہ ہوتا ہے جہاں پہ بدلتے زمانے کی تہذیب انگڑائی لے رہی ہوتی اور دوسرا حصہ وہ ہوتا جہاں پہ ادب کی بوجھل اور غیر متعلق موضوعات توجہ کی منتظر ہوتے۔ خیر اردو ادب کے وسیع بساط پہ تبدیلی کے راستے کھلے ہونے کی وجہ سے ادباء اور شعرا کا ذہن اس ضیق کی اذیت سے محفوظ رہا اور ادب ہر دور میں ایک متعلق موضوع کے ساتھ ساتھ قاری کے ذوق و خیال کی ترجمانی کرتا رہا۔ شعروں کا لطف حاصل کرنے کے حوالے سے گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں "وہ چیز جس کی بدولت شاعری کو بطور شاعری پڑھا جاتا ہے فی نفسہٖ شاعری نہیں اور نہ ہی اس کے پڑھے کا تجربہ ہے بلکہ شاعری کے بارے میں وہ علم ہے جسے 'شعریات' کہتے ہیں۔ جس کا کچھ نہ کچھ تصور ہر زمانے میں موجود رہا ہے"


یہ بھی ایک سچائی ہے کہ زیادہ تر ادباء و شعراء نے معروف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے کیوں کہ وہ صغر سنی سے لے کر شعور کی حد تک پہنچتے ہوئے ان معروف اصناف پہ اتنا زیادہ پڑھا اور سنا ہوا ہوتا ہے کہ غیر شعوری طور پر ان کے الفاظ ان اصناف کے معیار میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔ بےشک یہ ایک سچائی ہے لیکن ہم اس تصویر کے دوسرے رخ سے گریزاں نہیں ہو سکتے ادب کی دوسری غیر معروف اصناف میں لکھنے والے شعراء و ادباء ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں جنھوں نے اصناف کی ہیئت و شناخت کو زندہ رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور اس طرح کے معاملات کم و بیش زندگی کے تمام ہی شعبوں میں پیش آتے ہیں اس لئے اس کو تشویشناک موضوع بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔


شعر و ادب کی سب سے مشہور اور قدیم صنف غزل کو قرار دیا گیا ہے بےشک اس سے زیادہ مقبول اور کوئی صنف نہیں ہو گی جس پر کہ سب سے زیادہ لکھا گیا ہو ۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ جب ساری دنیا ایک ہی ڈگر پر نکل پڑتی ہے اور اس پر چلے چلی جاتی ہے تو ان کے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی جنم لیتے ہیں جو اپنے وقت میں رائج یکسانیت کی تیزگامی سے ہٹ کر ایک الگ راہ بنانے کی سوچتے ہیں اور اپنی تخلیقی اور جدت پسندانہ ذہنیت کے ساتھ وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تبدیلی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے اور انسانی فطرت یکسانیت سے گھبراتی ہے اس لئے وہ روز نت نئے پہلو کی کھوج میں ہوتی ہے اور ہر نئی چیز انسانی ذہن کو متجسس بنا دیتی ہے۔ اور اس کے ذریعے انکشافات کے در وا ہوتے ہیں۔ یہ تبدیلی جس طرح دوسرے شعبوں میں لازمی جزو کا مقام رکھتی ہے ادب کے شعبے میں بھی اتنی ہی ضروری ہے۔
نظم نگاری اسی جذت پسند ذہنیت کی ایجاد ہے۔ نظم اگر چہ غزل کے ظہور پزیر ہونے کے عرصہ ہائے دراز کے بعد وجود میں آئی لیکن بہت جلد یہ ادب کی تاریخ میں اپنا منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوگئ یہاں تک کہ بعض مواقع پہ شعراء نے نظم نگاری کو غزل گوئی کے قریب قریب کردیا اس کی مثال ترقی پسند شعرا کے یہاں بہ کثرت ملتی ہے انھوں نے غزل سے زیادہ نظم کو اپنے اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔


اردو ادب میں نظم نگاری کی ابتداء محقیقین کی رائے کے مطابق محمد حسین آزاد اور حالی کے عہد سے ہوئی انھوں نے ہی اس کے لئے باقاعدہ تحریک چلائی اس کی تاریخ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین ایک جگہ لکھتے ہیں۔
"انیسویں صدی کا ہندوستان برٹش حکومت کے تابع تھا 1857ء کے بعد برٹش حکومت نے پورے ملک پر اپنا قبضہ کر لیا تھا۔ ان تغیرات کے نتائج کے طور پر اردو شاعری میں نظم نگاری کی تحریک کا آغاز ہوتا ہے۔ 1867ء کے آس پاس شروع ہوئی اس تحریک کے روح رواں محمد حسین آزاد تھے۔ 1874ء اور اس کے دوران ہونے والے مختلف مشاعروں اور شعری نشستوں میں شاعری کو نیچرل شاعری کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہی وہ دور تھا جب غزل کی شاعری سے نظم کی شاعری کا سفر شروع ہوتا ہے ۔ نئی شاعری کا پہلا تصور محمد حسین آزاد کے یہاں ہی ملتا ہے ان کا مجموعہء کلام 'نظم ازاد' بھی نیچرل شاعری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔"
اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ نظم نگاری کی ترویج و ارتقاء کی یہ تحریک آپ ہی آپ نہیں پیدا ہوئی بلکہ یہ اپنے عہد کی سرکردہ شخصیات کے زیر سایہ پروان چڑھی اور ادب کو تعمیری ذہن کے ساتھ تراشنے والوں نے نظم نگاری کی طرف خصوصی توجہ دی۔ ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں نے بھی غزل کے غلبہ زدہ ماحول سے باہر نکل کر نظم نگاری پہ خصوصی توجہ دی اور انھوں نے اردو نظم کے وقار و معیار کو بلند کرنے میں اپنے شب و روز صرف کر دیئے۔


کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض جیسے شعراء نے غزلوں سے زیادہ نظموں میں طبع آزمائی کی اور اپنے عہد کے تمام سلگتے موضوعات کو اپنی نظموں میں بیان کیا انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے نظم نگاری کا نہ صرف انتخاب کیا بلکہ اپنے ہمہ جہت آشنا فکر و زاویے کو اس میں سمو کر اردو نظم کو قارئین کے لئے عام فہم اور مرغوب بنا دیا۔ اردو نظم کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں مخصوص بحر اور قافیے کی پابندی نہ ہوتے ہوئے بھی اس میں جامعیت اور غنائیت دونوں کا ادراک ہوتا ہے یہ آزاد بھی ہوتی ہے اور مخصوص ہیئت کی پابند بھی۔ نثری نظم بلا امتیاز ہر مکتبہء فکر میں اپنی جڑیں پیوست کر رہی ہے نظم کی اس قسم میں اوزان اور بحور لازمی نہیں ہوتے اس پر بھی کثرت سے لکھا گیا ہے۔ نظم کی اس قسم میں ہر موضوع پر مربوط ، مسلسل اور منضبط تجربات و مشاہدات کو پڑھا جا سکتا ہے۔ اور اس طرح کی نظمیں عموما مختصر ہی لکھی جاتی ہیں۔ کسی بھی صنف کی کامیابی اور پائیداری کی شرط یہ ہے کہ اس کے موضوعات اور اسلوب سخن کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جدید اسالیب اور عام فہم زبان کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہو۔


اس طرح نظم نگاری وقت گذرنے کے ساتھ اپنا دائرہ وسیع کرتی گئی ہر دور میں اس پہ کثرت سے لکھا گیا۔ موجودہ دور میں بھی اس پر لکھنے والے کثیر تعداد میں موجود ہیں اور آج بھی اس صنف میں ہر موضوع پہ نظمیں لکھی اور پڑھی جا رہی ہیں۔ نظم موضوع سے مربوط ہونے کی وجہ سے تاثر پزیری کا آہنگ بھی رکھتی ہے اور پیرایہء بیان اور طرز اظہار کے اعتبار سے اپنے اندر ہمہ رنگی کا پہلو بھی رکھتی ہے۔ نظم کو صرف اظہار کے پیکر کا ہی نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس میں ہیئت اور مواد کی آمیزش بھی شامل ہوتی ہے۔


موجودہ وقت میں نظم کی صنف پہ طبع آزمائی کرنے والوں میں ایک معتبر نام نیاز جیراج پوری کا ہے۔ انھوں نے غزل گوئی کے ساتھ نظم نگاری کی صنف میں بھی ملکہ حاصل کیا۔ انھوں نے بےشمار نظمیں لکھ کر اپنے عہد کے مسائل اور زندگی کے نشیب و فراز اور بدلتے وقت کے تقاضوں کو لوگوں پر آشکار کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔


نیاز جیراج پوری کا تعلق دیار شبلی کے نام سے موسوم سرزمین اعظم گڈھ سے ہے جو کہ علم و ادب کے حوالے سے اپنی ایک جدا شناخت رکھتا ہے اس کے نقوش وقت کے ساتھ مزید گہرے ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ بےشک اس سرزمین سے بےشمار ایسے ذرات اٹھے ہیں جنھوں نے علم و ادب کے آسمان پر جلوہ فگن ہو کر اس کائنات کے بیشتر گوشوں میں اپنی روشنی کو بکھیرا ہے انھیں میں سے ایک تابندہ نام نیاز جیراج پوری کا بھی ہے۔
یہ اعظم گڈھ کے ایک نواحی گاؤں جیراج پور میں 21 مئی 1960ء میں پیدا ہوئے۔ اعظم گڈھ میں واقع یہ دیہی علاقہ بھی اپنی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے یہ وہ سر زمین ہے جہاں مولانا اسلم جیراج پوری، اور پروفیسر شمیم جیراج پوری مولانا عبداللہ جیراجپوری، علامہ شبلی نعمانی، مولانا سلامت اللہ جیراجپوری، مولانا شبلی فقیہ جیراجپوری, مولانا غفور جیراجپوری, مولانا ودود جیراجپوری، عبدالستار جیراجپوری، فیض الرحمن اعظمی جیسی قابل قدر شخصیات نے جنم لیا۔ نیاز صاحب بھی انھیں ہواؤں میں پلے بڑھے اور ابتدائی تعلیم بھی اپنے گاؤں کے مکتب میں حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنےکے بعد ثانوی تعلیم کے لئے اعظم گڈھ چلے آئے جہاں انھوں نے شبلی انٹر کالج میں داخلہ لیا اور وہاں کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا وہاں پہ انھوں نے حصول تعلیم کے لئے چودہ سال قیام کیا ۔ اس دوران انھوں نے بی۔یو۔سی۔، بی۔اے۔، ایم۔اے۔ معاشیات، ایل۔ایل۔بی۔، ایل۔ایل۔ایم۔، کی تعلیم مکمل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کرنے بعد یہ اپنے گاؤں جیراج پور واپس آگئے۔


اب ذکر آتا ہے علم و ادب کے تئیں ان کی دلچسپی اور قلم و قرطاس کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کا۔ بےشک نیاز جیراج پوری کو بچپن سے ہی علم و ادب کے ساتھ گہرا لگاؤ تھا اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ان کے ارد گرد کے ماحول میں بسنے والے علم و ادب سے گہری وابستگی رکھتے تھے خود ان کے والد عظیم اللہ عبد الرشید صاحب بھی شعر و سخن سے شغف رکھتے تھے۔ یوں انھیں بچپن سے ہی ایک ادبی ماحول ملا اور وہ شروع سے ہی ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں نغمگی لانے کی اپنی سی کوشش کرتے رہتے تھے اور ادبی اور غیر ادبی کتابیں بھی ان کے زیر مطالعہ ہوتی تھیں۔ اور یہ دلچسپی اور وابستگی کوئی عارضی نہیں تھی کہ وقت گذرنے کے ساتھ ختم ہو جاتی۔ اس طرح کی کوشش کرتے کرتے انھوں نے اپنی پہلی باقاعدہ غزل اس وقت کہی جب وہ علی گڈھ میں قیام پزیر تھے۔ اس کے بعد انھوں نے ہال میگزین 'مسعود' کے ایڈیٹر بننے کے بعد صحافت کی پر پیچ وادیوں میں بھی قدم رکھا ۔ باقاعدہ افسانہ نگاری بھی کی اگر چہ بعد میں اپنے آپ کو مکمل طور سے شعر و شاعری کے حوالے کردیا ان کی نظمیں غزلیں ریڈیو پہ بھی بارہا نشر ہوئیں اور عارضی طور پر فلمی دنیا میں بھی کام کیا اگر چہ اس کی فضا انھیں راس نہیں آئی جلد ہی وہ واپس اپنے دیار تشریف لے آئے ۔


ان کی تخلیقات ملک اور غیر ملک کے کم و بیش تمام ہی مؤقر جرائد و رسائل کی زینت بنے ان کا نام ادبی دنیا میں اب کسی کے لئے بھی اجنبی نہیں رہا ۔ ان۔کی ادبی خدمات کا یہ دورانیہ چالیس سال پر مشتمل ہے اس دوران انھوں نے ادب کی جس قدر خدمت کی ہے اس کا اعتراف ہم سب پر لازم ہے۔
انھوں نے نومبر 2003 میں اعظم گڈھ سے ماہنامہ 'شاندار' جاری کیا جو کہ اعظم گڈھ کی سرزمین سے نکلنے والا اعلی ادبی معیار سے آشنا ماہنامہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو وقتی قطع و تعطل کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔


نیاز جیراج پوری نے نظم نگاری میں بےشمار طبع آزمائیاں کی ہیں۔ انھوں نے اپنی نظموں میں اپنے عہد یعنی موجودہ عہد کے مسائل و معاملات اور زندگی کی حقیقتوں کو اس خوبصورتی کے ساتھ نظم کے پیرائے میں پرویا ہے کہ پڑھتے ہوئے بلکل بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کو سمجھنے کے لئے کسی بھی طرح کی فصاحت و بلاغت پہ دسترس حاصل کرنا ضروری ہے۔ ان کی نظموں میں بلاغت و سلاست کو بہت پی عام فہم اسلوب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ شاعری کا سب سے بڑا حسن یہ ہوتا ہے کہ اس میں احساسات کو نہایت قرینے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ۔ احساسات انسانی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس سے ہی زندگی کا پتہ چلتا ہے اگر یہ نہ ہو تو انسان ایک روبوٹ بن جائے جو ایک مدت تک اس دنیا میں اپنے مفوضہ کاموں کی تکمیل کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو جائے۔ مطلب یہ کہ وہ احساسات جو انسان کی سرشت میں ازل سے شامل ہے ۔ ان احساسات کو نیاز جیراج پوری کی کم و بیش تمام ہی نظموں میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
نیاز جیراج پوری کے یہاں موضوعات کا تنوع اس کثرت سے پایا جاتا ہے کہ بنا کسی تامل کے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انھوں نے اپنے عہد کے تمام موضوعات کو اپنی نظموں میں شامل کیا ہے۔ انھوں نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے ایک نہایت ہی شاندار نظم کہی ہے۔ اس نظم کا عنوان اللہ اکبر ہے جو کہ کافی لمبی نظم ہے اس کے چند مصرعے کچھ اس طرح ہیں ۔
سزاوار وہ حمد و ثنا کا اسی کی عظمت یہاں وہاں
وہی احکم الحاکمین اس کی ہی حکومت یہاں وہاں
آسمانوں میں اور زمیں پر سب کچھ اسی کے زیر اثر
اللہ اکبر
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الااللہ


یہ نظم پڑھتے ہوئے بےشک دل سے اللہ اکبر کی صدا اٹھتی ہے ۔یہ ساری حقیقتیں بےشک ہم میں سے اللہ پہ یقین رکھنے والا ہر انسان جانتا ہے کہ اللہ کی عظمت، رحمت، حکمت، حکومت سب لا ثانی ہے لیکن اس کو اس خوبصورتی کے ساتھ نغمگی عطا کرنے کا ہنر ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا نیاز جیراج پوری نے باقی کی نظم میں اللہ کی بزرگی و کبریائی کو بڑے دلسوز انداز میں بیان کیا ہے اور اس نظام ہائے دنیا میں اللہ کی قدرت اور اس کے مثالی نظام کی تعریف کرتے ہوئے اللہ کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔
نیاز جیراج پوری کی نظموں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بلیغ خیالات کو بھی سادہ بیانی کے ساتھ بیان کرنے کا ہنر رکھتی ہے۔ ان کی اردو ادب کی تئیں محبت اس قدر واضح ہے کہ ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی نیاز جیراج پوری کی شخصیت پہ خاکہ لکھتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:
"شعر و ادب میں بسیار گوئی اور زود نویسی عیب بھی یے اور ہنر بھی نیاز اور معاملات میں تو سست اور سبک خرام نظر آتے ہیں مگر شعر گوئی میں زود گو بھی ہیں اور بسیار گفتار بھی مگر ان کی زود گوئی اور بسیار گفتاری کا مقابلہ تو ڈاکٹر محبوب راہی سے کیا جا سکتا ہے نہ ہی ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی سے اس معاملے میں وہ اپنی انفرادیت ملحوظ رکھتے ہوئے مسلسل چار دہائیوں سے شاعری کرنے کے باوجود ان کا اب تک کوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہو سکا "
ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی جو کہ نیاز جیراج پوری کے قریبی اقارب میں شامل ہیں انھوں نے ان کی اردو ادب کے تئیں عقیدت کو بیان کرنے کے لئے یہی کہنا کافی سمجھا کہ وہ اس قدر لکھنے میں مسلسل چار دہائیوں سے مشغول ہیں کہ مجموعہء کلام کی اشاعت کے لئے کثیر تعداد میں کلام ہوتے ہوئے بھی ان کا ذہن اشاعت کی طرف عملی طور پر متوجہ ہی نہیں ہوا حالاں کہ شعراء عموما کلام کہتے ہوئے اس کی کثرت کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلے کتاب کی اشاعت کے حوالے سے ہی کوشاں نظر آتے ہیں۔
نیاز جیراج پوری کی نظموں میں ایسی نظمیں بھی شامل ہیں جن میں انھوں نے اردو کے تئیں اپنے جذبات و احساسات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔
میں اردو ہوں
کسی گل رنگ چہرے پر نمایاں تازگی میں ہوں
کسی کی چشم حسرت میں تمنا دید کی میں ہوں
عروس نو کے ہونٹوں پر مچلتی خامشی میں ہوں
کہیں پر خیمہء گل میں تھرکتی چاندنی میں ہوں
میں اردو ہوں وہی اردو کے جس کے بارے میں سچ ہی
کہا تھا داغ نے سارے جہاں میں دھوم ہے میری


یہ خاصیت نیاز جیراج پوری کے قلم کو ہی حاصل ہے کہ انھوں نے اردو کو ایسے خوبصورت استعارے اور تشبیہات کے ساتھ مرصع کیا ہے جس میں نزاکت بھی ہے اثر انگیزی بھی ہے اور تمنا و جستجو کی مرکزیت بھی ہے۔ بےشک اردو ادب کی شیرینی اور اس کی اثر انگیزی ایسی ہے جیسے روپہلی دھوپ اپنی کرنوں سے مشام جاں میں گرمائش بھردے اور ارد گرد روشنی کو ایسے بکھیر دے کہ ہر منظر نکھرے ہوئے روپ میں آنکھوں کو سکون دے۔ اردو جو کہ اپنے اندر کئی زبانوں کی لفظی لطافت کو کچھ یوں سموئے ہوئے ہے جیسے کہ یہ اسی کی ذات کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ نیاز جیراج پوری نے اردو زبان کے نگینوں کو مسلسل چار دہائیوں سے نہ صرف سنبھالے ہوئے ہیں بلکہ اس سے انھوں نے اب تک بےشمار شہکار کہ تخلیق بھی کئے ہیں ان کی یہ نظم انھیں میں سے ایک ہے۔


ہر انسان خواہ وہ ایک فنکار ہو یا ایک عام سا بشر اس کی محبت اپنی جائے پیدائش سے ہمیشہ ہی ایک سی ہوتی ہے۔ اپنی سرزمین سے محبت کرنے کے لئے کبھی شعوری کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ یہ محبت اس کی سرشت میں ہوتی ہے۔ اس کی خوشبو اس کا لمس اس کی مہربانیاں ہمیشہ اس کے لئے ایک خوبصورت یاد اور اثاثے کی طرح ہوتی ہے۔ اور جب یہ محبت کسی فنکار کے اندر اپنے چشموں کو جاری کرتی ہے تو وہ ایک فن پارے میں ڈھل جاتی ہے جب نیاز جیراج پوری جیسا شاعر اپنی مٹی اور سرزمین سے وابستہ اپنے جذبات کو بیان کرنے کی کوشش کرے تو وہ نغمگی کے پیراہن میں ڈھل کر نظم کی صورت اختیار کر لیتی ہے جو نہ جانے کتنے ہی دلوں کے احساسات کی عکاسی کرتی ہے
ہے یہ اعظم گڈھ دیار علم و فن
جاوداں شعر و ادب کی انجمن
میں نہیں کہتا زمانہ کہتا ہے
شمع علم و فن یہاں ہے ضو فگن
ہیں کھلے گلہائے تہذیب و طریق
مرکزہء رنگ و بو ہے یہ چمن
ذکر اس کا ہر جگہ ہے ہر طرف
ذکر اس کا انجمن در انجمن


بےشک یہ اعظم گڈھ کی شان مستحق ہے کہ اسے ایسے خوبصورت لفظوں سے اسے خراج عقیدت پیش کی جائے۔ یہ اپنے اسلاف کی روایتوں کا امین ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے علم و فن کا نقیب بھی ہوگا۔ یوں تو اپنی سرزمین سے محبت کرتے ہوئے کبھی بھی اس کی خامیوں و خوبیوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے ماں سے محبت کرتے ہوئے کبھی اس کا چہرہ نہیں دیکھا جاتا۔ اور ایسے میں جب اس مٹی کی خوشبو چہار دانگ عالم بکھری ہو تو محبت کے ساتھ فخر کا احساس پیدا ہو جانا فطری ہے جو کہ نیاز جیراج پوری کی نظموں سے مترشح ہے ۔
نیاز جیراج پوری نے نہ صرف اپنی سرزمین سے محبت کے احساس کو نظم میں سمیٹا ہے بلکہ ان کی محبت اپنے وطن کے لئے بھی اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ ان کی نظموں میں نظر آتی ہے کیوں کہ وطن سے محبت ایمان کا تقاضہ ہے انھوں نے اس تقاضے کو کبھی بھی پس پشت نہیں ڈالا ہمیشہ ہی اسے اپنے دھڑکتے دل میں بسائے رکھا۔ وطن بھی وہ جو کہ ہر طرح کی بندشوں سے آزاد ہو اور ہر غیر ملکی طاقتوں کی بالادستی سے پاک ہو تو ایسا وطن کسی نعمت سے کم نہیں ازادی کا جشن اور وطن کے لئے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے ایک نظم میں وہ لکھتے ہیں


سارے شکوے گلے بھول جائیں گے ہم
فاصلے دل سے دل کے مٹائیں گے ہم
ایکتا پیار کے گیت گائیں گے ہم
ایک تھے ایک ہیں یہ دکھائیں گے ہم
جشن آزادی ایسے منائیں گے ہم
۔۔
عہد یہ کر کے آج کے دن ہم کو جھنڈا پھہرانا ہے
دشمن ہیں جو دیش کے ہم کو ان کا نام مٹانا ہے
سورگ سے سندر اے ہم وطنو اپنا دیش بنانا ہے
آؤ یارو مان لیں ہم پیغام یہی آزادی کا
آؤ ہم سب جشن منائیں بھارت کی آزادی کا


یہ نظم پڑھتے ہوئے دل میں وطن کی محبت کسی کے بھی دل میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح سر اٹھا سکتی ہے ۔ لیکن جب لکھنے والا اسے لکھے تو بےشک اس ایک ایک احساس کو موتی کی مالا میں پرونا کسی بھی خوبصورت تجربے سے کم نہیں ہوگا۔ کیوں کہ کسی بھی شاعری میں لطافت و ملاحت کا احساس تبھی ہوتا ہے جب احساسات کو پورے خلوص کے ساتھ واشگاف کیا جائے اور اس کو تکلفات کی بےجا پابندیوں سے آزاد رکھا جائے۔ جس طرح رشتوں میں خلوص اور سچائی اس کو پائیدار بنانے میں معاون ہوتی ہے بالکل ایسے ہی فن بھی ہوتا ہے جو منافقت اور جھوٹی قدروں کے بوجھ سے مضمحل ہو جاتا ہے لیکن جب اسے سچائی کے حصار میں رکھا جاتا ہے تو اس کی تابناکی خود بخود دیکھنے والوں کی نظروں کو خیرہ کر دیتی ہے ۔
نیاز جیراج پوری نے ان دنوں، سلسلہ گجرات، نئی تاریخ، تخاطب، آخری خط، سزا کے عنوان سے نظمیں لکھیں ہیں یہ عنوان جتنے منفرد اور زمانے کی سچائیوں سے قریب ہیں اسی قدر اس کا نفس مضمون حقیقت پسندانہ الفاظ پہ مبنی ہیں ہر نظم کا ہر مصرعہ زمانے کی سچائیوں کو آشکار کرنے کی غرض سے لکھے گئے ہیں۔ یہ قطعا ایسی نظمیں نہیں ہیں جو طفلانہ طرز پہ محض ظاہری حقائق کے پس منظر پہ لکھی گئی ہیں۔انھوں نے اس میں معاشرے کے اعلی اقدار اور اسلاف کی تاریخ اور گذرے وقتوں کی یادوں کو سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
ان کی ایک نظم کالی یادیں ہیں اس میں انھوں نے سن بانوے میں بابری مسجد کی شہادت اور اس وقت کے فساد کے مناظر اپنی نظموں میں اس ربط و تسلسل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ گویا یہ کسی نثری مضمون کی تلخیص ہے اس نظم میں انھوں نے اس حادثے سے متاثرہ لوگوں کے جذبات کو زبان دی ہے ان کی کسک اور آہ و گریہ کو اپنے لفظوں کے ذریعہ دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ایک شاعر کا یہی تو سب سے بڑا فن ہوتا ہے جب وہ اپنے قاری کو تصوراتی دنیا کی بےبنیاد خوابناکیوں کی سیر کرانے کے بجائے جیتے جاگتے انسانوں کے درد سے متعارف کرواتا ہے ان کے جذبہء انسانیت کو للکارتا ہے اور درد زدہ لوگوں کے زخموں پر اپنے نرم لفظوں کا مرہم رکھتا ہے اور اس کے ذریعے ہم احساس ہوتے ہوئے تسلی دینے اور تسکین پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔


شر پسندوں سر پھروں کے حوصلے بھی خوب ہیں
لگتا ہے اقلیتیں اس دیش کی مغلوب ہیں
قتل کر دو یا جلا دو یا کسی کو لوٹ لو
نام پر مذہب دھرم کے خوب من مانی کرو
ہوتا ہے قانون اندھا یہ تو سنتے آئے ہیں
گونگا اور بہرا بھی اب یہ ہو گیا ہے دیکھ لو
جو یہاں قانون سے کھیلے وہی سرتاج ہے
خوف ہے دہشت ہے چاروں اور جنگل راج ہے
۔
یاد رکھنا تم مگر یہ دیش ہے ہندوستاں
ماننے والے سبھی دھرموں کے رہتے ہیں یہاں
ہے یہاں أن ایکتا میں ایکتا کی جھلکیاں
کرتا ہے تسلیم اس سچائی کو سارا جہاں
سن لو اے فرقہ پرستوں تم پہ ہی غرائیں گی
تھیلے سے باہر تمھاری بلیاں جب آئیں گی
۔
انتباہ کے عنوان سے موسوم اس نظم میں نیاز جیراج پوری نے ملک میں پنپنے والے فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیوں کو بیان کیا ہے ۔ ملک کے حالت زار کو بنا کسی رد و کدح کے پیش کرنے کی جرأت کی ہے۔ ان کے لفظوں کی بےباکی اور لہجوں کی جرات ان کی نظم سے بخوبی ظاہر ہو رہی ہے۔ انھوں نے فرقہ پرست سوچ کے علمبرداروں کو متنبہ کیا ہے کہ خواہ تم کتنی ہی کیوں نہ اس دیش کے امن و شانتی اور متنوع تہذیب کو مجروح کرنے کی کوشش کرلو لیکن اس ملک کی عوام اور اس کا دستور ہمیشہ تمھارے ناپاک عزائم کے آگے سینہ سپر رہے گا ۔ اور اس کو ناکام بنانے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے گا ۔ یہ نظم حب الوطنی کے جذبات کے ساتھ اعلی تہذیب کی بھی ترجمانی کر رہی ہے۔
نیاز جیراج پوری کی نظموں کے آئینے میں دنیا کے بیشتر سلگتے موضوعات کو دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ ان کے اندر فقط وطن ہی کی محبت کا دریا ٹھاٹھیں نہیں مار رہا ہے بلکہ انسانیت سے جڑا ہوا ہر درد ان کا اپنا درد ہوتا ہے اس کی مثال گجرات فساد اور نیوزی لینڈ حادثے، کورونا کی دہشت، پشاور سانحہ، فلسطینی عوام کی حالت زار، ماب لنچنگ وغیرہ جیسے حساس موضوعات پہ ان کی لکھی جانے والی نظمیں ان کے حساس طبعیت اور ضمیر کی زندگی کی گواہ ہیں۔


انھوں نے ان ساری نظموں میں مظلوموں کے احساس کو اپنے الفاظ دے کر ان کے درد کو محسوس کرنے کے ساتھ کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بےشک درد اور اذیت کو کسی شئے کی طرح دوسروں کو نہیں دیا جا سکتا لیکن کسی کے درد کو سن کر اور اسے سمجھ کر اس کی اذیت پر حوصلوں کا مرہم رکھنے اور نرم لفظوں کے لمس سے اپنے ہونے کا احساس دلانے سے درد کو بانٹا جا سکتا ہے اور ان کی اذیت کو کم کیا جا سکتا ہے ۔ نیاز جیراج پوری نے اپنی نظموں کے ذریعے پوری انسانیت کے درد کو اپنا درد بتایا ہے۔
نیاز جیراج پوری نے ابتدائی دنوں میں صحافت سے بھی وابستہ رہے تھے اگرچہ بعد میں انھوں نے اپنے آپ کو مکمل طور سے شعر و شاعری کے لئے وقف کر دیا۔ لیکن یہ صحافتی و سیاسی فہم ان کے اندر پلتے ہوئے نثر کے جامے سے جدا ہو کر نظمی آہنگ میں شامل ہو گیا۔ حالات حاضرہ پر ان کی گہری نظر ہے۔ انھوں نے سیاست کے نشیب و فراز کو اپنی نظموں میں سمو کر اپنی سیاسی بصیرت کو لوگوں تک پہنچایا ہے اور یہ بتایا ہے کہ نظمیں محض وقتی لطف کے لئے ہی نہیں لکھی جاتیں بلکہ یہ زندگی کے سنجیدہ موضوعات کو بڑے سادہ اور پرلطف انداز میں پیش کرنے کے لئے بھی کہی جاتی ہیں ۔ اور سیاست کو محض نثری دقیق پیرایوں کی قید میں نہیں رکھا جا سکتا اس کو نظموں میں بھی تمام تلخیوں سمیت پرویا جا سکتا ہے ۔ سیاست ہر انسان کو کسی نہ کسی طرح سے متاثر ضرور کرتی ہے لیکن اگر متاثر ہونے والا ایک فنکار ہو تو وہ فن کے لبادے میں ڈھل کر اس فن اور سیاست دونوں کو ہی مرکز توجہ بنایا جا سکتا ہے ۔


انھوں نے پاکستان کے وزیراعظم نواشریف کی دعوت پر فروری 1999ء میں ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دہلی سے لاہور تک کے سفر کو منظوم شکل عطا کی ہے جس کو کہ انھوں نے دوستی کا سفر کا عنوان دیا ہے اس کے مصرعے کچھ یوں ہیں


جشن سرحد پر خوشی کا دیکھ کر اچھا لگا
دہلی سے لاہور تک کا یہ سفر اچھا لگا


بن گیا تاریخ کا اک باب زریں یہ سفر
جگمگا اٹھے اندھیروں میں کئ شمس و قمر
ایٹمی ہتھیاروں کی اس دوڑ میں یہ دیکھ کر
رشتوں کی سوکھی زمیں نے اوڑھ لی دھانی چنر
بیتا پت جھڑ پھولوں کی کھلنے کا موسم آگیا
اب تو آپس میں گلے ملنے کا موسم آگیا


یہ مکمل نظم بےشک ان کے احساسات کی ایک عمدہ ترجمان ہے انھوں نے امن و انسانیت اور محبت و اخوت کی جس طرح چاہ کی ہے ہمارے سیاست دانوں کو عوام کے ان جذبات کا دھیان رکھنا چاہئے۔ لیکن کیا کریں سیاست کی بساط پہ ایسے معجزے شاذ ہی ہوتے ہیں کہ حکمران اپنے مفاد پر عوامی مفادات کو ترجیح دیں۔


نیاز جیراج پوری جن کی پرورش و پرداخت جیراج پور کے دیہی ماحول میں ہوئی جہاں فطرت کا حسن اور اس کے مناظر خالص روپ میں نظر آتے ہیں جن کی ہواؤں میں آلودگی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ جن کے کھیت کھلیان جب لہلہاتے ہیں تو یوں لگتا ہے قدرت انسانوں پر فیاضی کے ساتھ اپنا کرم لٹا رہی ہے۔ انھیں اپنے گاؤں سے گہری محبت و عقیدت ہے ان کی اپنے گاؤں سے یہ محبت ان کی نظموں میں جابجا نظر آتی ہے۔


گیہوں گنا سرسوں ارہر دھان کی باتیں کرو
کھیت کی پگڈنڈی کی کھلیان کی باتیں کرو
برکھا بدلی گیلی لکڑی گھن گرج بوچھار کی
چولھے کی انگنائی کی دالان کی باتیں کرو
نل ندی نلکوپ نالے پوکھرے تالاب کی
گھاٹ پنگھٹ تیراکی اسنان کی باتیں کرو
ہل ٹریکٹر پھاوڑا منریگا مڈ ڈے میل کی
لیکھ پال سکریٹری پردھان کی باتیں کرو


اس نظم کے آخر میں لکھتے ہیں
کولڈ ڈرنک سگریٹ منرل واٹر چائے کافی کیا
رس رساول حقہ بیڑی پان کی باتیں کرو
اے نیاز اس شہری بابو سے کہو مہمان جی
گاؤں آئے ہو تو ہندوستان کی باتیں کرو


اس نظم کے ہر لفظ میں نیاز جیراج پوری کی اپنے گاؤں سے محبت چھلک رہی ہے ۔ ان کی محبت میں عقیدت بھی ہے فخر بھی ہے مان بھی ہے اور اپنے پن کا احساس بھی ہے ۔ بےشک گاؤں کے قدرتی مناظر کا حسن ایک نعمت ہے فطرت کی خوبصورتی کا شاہکار ہے یوں تو ہر زندگی کا اپنا حسن ہوتا ہے شہری زندگی بھی اپنی خاصیت رکھتی ہے لیکن قدرتی مناظر کی لطافت گاؤں کی شام میں ہر جا محسوس کی جا سکتی ہے۔
نیاز جیراج پوری کی نظمیں اردو ادب کا ایک اثاثہ ہیں جن میں اردو کے اعلی اسالیب اور عام فہم تراکیب اور فصاحت و بلاغت اور متنوع موضوع سب کچھ شامل ہیں۔ انھوں نے چار دہائی کے عرصے میں اردو ادب کی جس طرح خدمت کی ہے اس کا جیتا جاگتا ثبوت ان کے سارے کلام ہیں جن میں غزلیں بھی شامل ہیں ۔ادب کی بساط پہ ان کے نام کو کبھی بھی دھندلایا نہیں جا سکتا


***
علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizeysikander[@]gmail.com

Nazms of Neyaz Jairajpuri. Reviewer: Alizey Najaf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں