ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ حیدرآباد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-03

ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ حیدرآباد

abulkalam-azad-oriental-research-institute-hyderabad

مولانا ابوالکلام آزاد کی دیر پا عملی یادگار قائم کرنے کے لئے 1959ء میں حیدرآباد میں ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا۔ اس ادارے کے بانیوں میں ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ، ڈاکٹر ذاکر حسین، ایل این گپتا ، محامدعلی عباسی ، ڈاکٹر مہندر راج سکسینہ اور دیگر حضرات شامل ہیں۔
11/جولائی 1959ء کو مرکزی وزیر ثقافتی امور و سائنسی تحقیق پروفیسر ہمایوں کبیر نے اس ادارے کا افتتاح کیا۔ اس ادارے کو پہلے صدر نواب مہدی نواز جنگ اور معتمد ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور تھے۔ ان دونوں حضرات کی وفات کے بعد 1967ء میں بیرسٹر اکبر علی خاں صدر کی حیثیت سے اور ڈاکٹر مہند ر ارج سکسینہ معتمد ادارہ کی حیثیت سے فائز رہے۔ اس وقت ادارہ کے معتمد خواجہ محمد احمد ہیں۔


ابتداء میں انسٹی ٹیوٹ ادارہ ادبیات اردو کی عمارت میں قائم تھا ، بعد ازاں باغ عامہ کی پر فضا عمارت میں منتقل کیا گیا۔ یہ ادارہ، عملی، ادبی و ثقافتی زندگی کا ایک اہم مرکز بن گیا۔ اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ان تمام علوم و فنون جن کا مولانا آزاد سے براہ راست یا ضمناً تعلق تھا، اعلیٰ درجہ کا تحقیقاتی کام کروایا جائے اور ادارے کے شایان شان کتب خانہ قائم کیاجائے۔اس کے مقاصد میں تاریخ، فلسفہ، ثقافت، لسانیات، اور دیگر علوم میں تحقیق و تدوین کا کام شامل ہے اس کے علاوہ جو اشاعتی کام ادارے کی امدا د سے انجام پائیں ان کا شائع کیاجائے۔
ادارے کے کتب خانے میں مختلف موضوعات پر تقریباً(15) ہزار کتابیں موجود ہیں۔ جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ میں تراجیم کے جو مسودات موجود تھے وہ بھی اسی انسٹی ٹیوٹ میں محفوظ کردئے گئے ہیں۔ کتب خانے سے ملحق ایک دارالمطالعہ بھی ہے جس میں اخبارات کے علاوہ علمی و ادبی رسائل موجود ہیں۔


نواب سالار جنگ کی مالی امداد سے دکنی لٹریچر کو محفوظ کرنے کے لئے ایک ادارہ "مجلس اشاعت دکنی مخطوطات" کے نام سے قائم کیا گیا تھا جس نے کافی تعداد میں دکنی کتابیں شائع کیں۔ نواب سالار جنگ کے انتقال کے بعد 1963ء میں اس ادارہ کی مطبوعات ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو دے دی گئیں۔ ادارہ کی علمی و ادبی سر گرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے حکومت ہند ، حکومت آندھر ا پردیش، حکومت جموں و کشمیر کے علاوہ جامعہ عثمانیہ سے بھی رقمی امداد م لتی ہے ، اس ادارے کے زیر اہتمام وقتاً فوقتاً علمی مذاکرات کا اہتمام کیاجاتا رہا جن میں قابل ذکر یہ ہیں۔ دکنی ہسٹری سیمینار ، حضرت امیر خسرو سیمنار، صد سالہ جشن اقبال، مولانا محمد علی صدسالہ یوم پیدائش اور امام بخاری کا ہزارسالہ جشن وغیرہ۔
اس ادارے کے شعبہ اشاعت میں دوسری زبانوں کے ترجموں کی اشاعت کا بھی کام شامل ہے۔ اردو کتابوں کو دیوناگری رسم الخط میں لکھا جائے یہ بھی ادارے کا ایک اہم مقصد ہے اس ادارے کی جانب سے ہر سال ریسرچ اسکالر کا انتخاب بھی کیاجاتا ہے اور انہیں ماہانہ دو سو روپے امداد دی جاتی ہے۔


اس ادارے کے دو اہم پراجکٹ تھے ایک دکنی ہسٹری اور دوسرا اردو انسائیکلو پیڈیا۔ مولانا آزاد نے 1904ء میں اپنے رسالہ"لسان الصدق" کے ذریعہ اردو انسائیکلو پیڈیا تیار کرنے لئے سب سے پہلے توجہ دلائی۔ افادات مہدی کے مصنف مہدی افادی نے بھی 1907ء میں اس کی یاد تازہ کی۔ مولانا شبلی نے بھی اس کی اہمیت جتائی۔ آخری مرتبہ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور نے حکومت آصفیہ کے سامنے اس پراجکٹ کو پیش کیا، لیکن انہیں بھی کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اس انسٹیٹیوٹ نے 1962ء سے حکومت کو بار بار توجہ دلائی اور بالآخر 1970ء میں حکومت ہند نے اس کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کیا اور مختلف اداروں سے اس عظیم کام کی تکمیل کی خواہش کی۔ نتیجتاً یہ پراجکٹ ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے تفویض کیا گیا اس پراجکٹ کی باقاعدہ منظوری کے لئے تقریباً 3 سال صرف ہوگئے اور 1973ء سے ترقی اردو بورڈ دہلی کے زیر نگرانی اس کام کا آغاز کیا گیا۔


انتظامی کمیٹی کے صدر بیرسٹر اکبر علی خان، نائب صدر محامد علی عباسی ، چیف ایڈیٹر فضل الرحمن صاحب اور معتمد خواجہ محمد احمد ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا کا یہ عظیم کام ایک ایڈیٹوریل بورڈ کے تحت انجام پاچکا ہے۔ ترقی اردو بورڈ کے ایک عہدہ دار بہ حیثیت عہدہ اس کے رکن رہتے ہیں۔ ایڈیٹو ریل بورڈ کے پہلے صدر جناب اکبر علی خاں، معتمد خواجہ محمد احمد اور چیف ایڈیٹر جناب فضل الرحمن ہیں جن کی ادارت میں 151/ماہرین کی مدد سے یہ کام جوش و خروش اور تیزی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہونچ چکا ہے اگرچہ کہ یہ کام آندھرا پردیش میں انجام پایا لیکن اس کام میں سارے ہندوستان کے دانشوروں کا عملی تعاون حاصل رہا اس کے تمام اخراجات ترقی اردو بورڈ نے برداشت کئے۔ اس پراجکٹ کے لئے گیارہ لاکھ روپے منظور کئے گئے تھے 1972ء تا 1980ء کی مدت میں یہ کام تکمیل کو پہونچا۔ اس کی ضخامت چھ ہزار صفحات پر مشتمل ہے جس کو بارہ جلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، تقریبا ً46کلیدی مضامین مثلاً معاشیات ، سیاسیات، فلسفہ، طبعیات، کیمیا وغیرہ کے پیانلس بنائے گئے جس میں ہندوستان کے مستند علماء کو شریک کیا گیا جن کے مشوروں سے مضامین لکھنے والوں اور اصطلاحات کی فہرست تیار کرنے والوں کا انتخاب کیا گیا۔ اس بات کی کوشش کی گئی کہ مضامین ایسے دانشوروں سے لکھائے جائیں جو اپنے فن میں ماہر ہوں۔ تمام ہندوستان سے علماء کا انتخاب کیا گیا۔ اس وقت ٹائپ شدہ مواد تیار ہے جس کی طباعت کا مسئلہ حکومت ہند کے زیر غور ہے۔


اس ادارے کا دوسرا پراجکٹ دکنی ہسٹری کی تیاری ہے ہندوستان کی ثقافت کی تکمیل میں دکن نے جو حصہ لیا ہے عام طور پر وہ زیادہ نمایاں نہیں ہے اس گوشہ کو اجاگر کرنے کے لئے دکن کی سیاسی و ثقافتی شان نمایاں کرنے کا کام اسی صدی کے وسط میں شروع کیا گیا۔ چھٹے دہے میں قدیم دکن کی تاریخ کا کام دو جلدوں میں شائع کیا گیا اور 1972ء میں قرونِ وسطی کا کام تکمیل پایا دور جدید کی تاریخ لکھنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی۔
ابوالکلام آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں اس کے متعلق علی یاور جنگ کی چیف ایڈیٹری میں پورا خاکہ تیار کیا گیا جس کو بیرسٹر اکبر علی خاں صدر انسٹی ٹیوٹ نے حکومت آندھر ا پ ردیش کے پاس منظوری کے لئے پیش کیا۔ حکومت آندھرا پردیش نے اس کی ذمہ داری لی ہے۔


اس پراجکٹ کی انتظامی کمیٹی کے اراکین میں بیرسٹر اکبر علی خان کے علاوہ ڈاکٹر رمیش جوشی، ڈاکٹر کلکرنی اور خواجہ محمد احمد وغیرہ شامل ہیں۔ ایڈیٹوریل بورڈ کے اجلاس، مجلس انتظامی کے تحت ہوتے ہیں جس میں ڈاکٹر کلکرنی ، ڈاکٹر جوشی، سید ہاشم علی ، اختر وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی ، ڈاکٹر ریگانی ڈاکٹر نعیم اور خواجہ نظام الدین احمد جیسے مستند علمائے دکن شامل ہیں۔
دکن کے دور حاضر کے حالات دو جلدوں پر مشتمل ہوں گے ایک جلد سیاسی امور سے متعلق رہے گی اور دوسری جلد معاشرتی و معاشی امور سے متعلق رہے گی۔ 1953ء میں پہلی دو جلدیں شائع ہوئیں۔ 1973ء میں دوسری جلد یں شائع ہوئیں اور 1985ء تک توقع ہے کہ آخری دو جلدیں بھی شائع ہوجائیں گی۔
یہ ادارہ اپنے علمی و ادبی سر گرمیوں میں مختلف علمی و ادبی اداروں مثلاً انجمن ترقی اردو ، ادارہ ادبیات اردو، گولکنڈہ سوسائٹی وغیرہ سے تعاون کرتا ہے۔ اس ادارے میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ممتاز شخصیتوں کو مدعو کیاجاتا ہے تاکہ ان کے خیالات سے استفادہ کیاجائے۔ ادارے کی جانب سے جن عمائدین کو مدعو کیا گیا ان یں چند قابل ذکر نام یہ ہیں:
ڈاکٹر راجندر پرشاد ، ڈاکٹر رادھا کرشن، ڈاکٹر ذاکر حسین ، فخر الدین علی احمد، ڈاکٹر وی وی گیری شریمنی اندرا گاندھی اور خواجہ حسن نظامی وغیرہ۔


اس ادارے نے اردو انسائیکلو پیڈیا ، دکنی ہسٹری کی تدوین جیسے اہم کام کے علاوہ مختلف علمی موضوعات پر حیدرآباد کے مستند اہل علم سے متعدد کتابیں لکھواکر شائع کی ہیں جن میں انگریزی کتابوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس ادارے نے گزشتہ 35/ برس کے دوران انگریزی، تلگو ، ہندی اور ادو کی بلند پایہ کتابیں شائع کیں جن میں قابل ذکر کچھ نام یہ ہیں مثنوی ، چندربدن و مہیار، مثنوی تصویر جاناں، پنچھی باچھا، مثنوی رضوان شاہ روح افزا ، حضرت امیر خسرو ، تذکرہ ابوالکلام آزاد،ماسٹر چندر ، من سمجھا دن، مہدی نواز جنگ یادگار والیوم ، قطب شاہی دور کا فارسی ادب، اردو ادب میں مولانا آزاد کا حصہ ، حضرت خواجہ بندہ نواز کی صوفیانہ نگارشات، ذکر حسین۔


***
ماخوذ از کتاب: حیدرآباد کے علمی و ادبی ادارے (مصنفہ: شفیعہ قادری)
ناشر: مکتبہ شعر و حکمت، حیدرآباد (سن اشاعت: دسمبر 1983ء)

Abul Kalam Azad Oriental Research Institute at Public Gardens, Hyderabad.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں