ہندی فلموں میں موسمِ برسات اور فلموں کی کامیابی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-24

ہندی فلموں میں موسمِ برسات اور فلموں کی کامیابی

bollywood-barsaat-movies

فلم سازوں کو برسات کا موسم ہمیشہ سے لبھاتا رہا ہے اور فلمیں بھی کامیاب ہوتی رہی ہیں
راج کپور، بمل رائے، بی آر چوپڑہ، محبوب خان، اے آر کاردار اور کمال امروہوی جیسے بڑے فلمسازوں نے بارش اور موسم باراں کے مناظر کا بہت خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا ہے اور فلم انڈسٹری کو کئی کامیاب اور یادگار فلمیں دی ہیں


جس طرح ہندوستان مختلف تہذیبوں، زبانوں اور سماجوں کا رنگارنگ ملک ہے، اسی طرح یہاں مختلف موسم بھی الگ الگ علاقوں میں اپنا رنگ دکھاتے ہیں اور ہندوستان کے علاوہ شاید ہی کوئی دوسرا ایسا ملک ہو جہاں ہر 15 دن کے بعد موسم بدلتا ہو۔ خاص طور پر ہمارے ملک میں تین بڑے موسم ہوتے ہیں۔ سردی گرمی اور برسات۔۔۔۔
اور یہ تینوں ہی موسم بعض علاقوں میں اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ دکھاتے ہیں۔ ماہ جون کے آخری ہفتے تک انتہائی گرمی سے جھلسے ہوئے ملک کے بعض حصوں میں برسات کا موسم شروع ہوتا ہے تو لوگ راحت کا سانس لیتے ہیں۔۔۔ اور پھر ستمبر کے آخر تک لوگ ساون بھادوں کا مزہ لیتے رہتے ہیں۔


ہماری فلموں میں مختلف موسموں کو بھی خاص مقام دیا گیا ہے۔ گرمی اور سردی کے علاوہ برسات کے موسم پر ہمارے فلمساز و ہدایتکار ہمیشہ ہی سے کچھ زیادہ مہربان رہے ہیں۔ برسات کے موسم اور بارش کے ماحول کو لے کر بہت سے فلمی نغمے لکھے گئے ہیں اور ان کی خوبصورت فلمبندی سے ناظرین متاثر بھی ہوئے ہیں۔ کئی فلموں کے تو نام بھی برسات کے موسم کی مناسبت سے رکھے گئے ہیں۔ جیسے برسات، برسات کی رات، آیا ساون جھوم کے، ساون کو آنے دو اور برسات کی ایک رات وغیرہ۔


جہاں تک فلموں میں برسات سے متعلق نغموں کی بات ہے تو اس سلسلے میں سب سے پہلے جو نغمہ کانوں میں گونجتا ہے، وہ ہے راج کپور کی مشہور زمانہ فلم شری 420 کا نغمہ۔۔۔
پیار ہوا، اقرار ہوا، پیار سے پھر کیوں ڈرتا ہے دل
یاد کیجئے، سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چائے والے کی کیتلی سے بھاپ نکل رہی ہے اور ہیرو پیالے میں انڈیل کر چائے کے گھونٹ بھرتا ہے اور ہیروئن کو پیار بھری نظروں سے دیکھتا ہے اور پھر دونوں ایک ہی چھتری کے نیچے بارش میں بھیگتے ہیں اور چند قدموں کے فاصلے پر تین بچے برساتی کپڑے پہنے ہوئے بارش میں بھیگتے ہوئے چلے جارہے ہیں۔


شیلندر کے اس نغمے کی دھن شنکر جے کشن نے بنائی تھی۔مناڈے اور لتا منگیشکر نے اپنی سریلی آوازوں میں یہ گانا گایا تھا۔ برسات اور بارش کے تعلق سے یہ گانا میل کا پتھر بن گیا ہے۔
اسی طرح فلم 'برسات کی رات' کا گانا۔۔۔ "زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات" جب ہم دیکھتے ہیں تو برسات کا موسم اور بھی زیادہ رومانی لگنے لگتا ہے۔ ہیرو بھارت بھوشن بارش میں بھیگتا ہوا ہیروئن مدھو بالا سے ٹکراتا ہے اور برسات میں ہونے والی اس یادگار ملاقات کو اپنی ایک نظم میں بیان کرتا ہے۔ خوبصورت مدھو بالا ریڈیو پر یہ نظم سنتی ہے اور بہت خوبصورت ایکسپریشن دیتی ہے۔ ساحر لدھیانوی کے لکھے اس گیت نے ایک زمانے میں بڑی مقبولیت حاصل کی تھی اور آج بھی اس نغمے کی تازگی برقرار ہے۔


بارش کے موسم میں محبت کا احساس زیادہ سلگ اٹھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلمسازوں اور نغمہ نگاروں نے برسات کے نغمے اور مناظر کا فلموں میں جی کھول کر استعمال کیا ہے۔ ناظرین کو بھی اس قسم کے نغمے اور مناظر متاثر کرتے رہے ہیں۔ آج کل تو "آئٹم سانگ" کا زمانہ ہے، ورنہ ایک دور تھا کہ ہر دوسری یا تیسری فلم میں برسات کے مناظر اور نغمے ہوا کرتے تھے۔ فلم "دھول کا پھول" کے ایک سین کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں جب راجندر کمار اور مالاسنہا کالج کی ایک تقریب سے واپس ہو رہے ہوتے ہیں، راستے میں اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے اور ۔۔۔ پھر پوری فلم کی کہانی بارش کے اس منظر ہی پر ٹکی ہوئی ہے۔


فلم "شری 420" سے پہلے راج کپور نے "برسات" کے ٹائٹل سے ایک فلم بنائی تھی جو بہت کامیاب ہوئی تھی۔ اس فلم میں گیت کار شیلندر کا لکھا گیت "برسات میں ہم سے ملے تم، سجن تم سے ملے ہم" آج بھی ناظرین کو بارش کی رم جھم میں شرابور کر دیتا ہے۔
راج کپور ہی کیا، بالی ووڈ کے سبھی بڑے فلمسازوں کو برسات نے ہمیشہ متوجہ کیا ہے۔ بمل رائے، بی آر چوپڑہ ،محبوب خان، اے آر کاردار اور کمال امروہوی جیسے بڑے فلمساز بھی بارش اور برسات کے مناظر یا نغمے فلموں میں استعمال کرنے سے کبھی نہیں چوکے۔ "دو بیگھ زمین" میں بمل رائے نے بارش کے سین کا بہترین استعمال کیا ہے۔


برسات کے گانوں کو فلمانے سے فلمساز اور ہدایتکار ایک تیر سے کئی نشانے لگاتے ہیں۔ ایک طرف ایسے سین ناظرین کا رومانٹک موڈ بناتے ہیں، تو دوسری طرف ہیروئن کے ایکسپوز کیلئے بھی پورا موقع مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آٹھویں دہائی کے ختم ہوتے ہوتے فلم والوں نے برسات کے موسم کو ایکسپوزر کا بھرپور ذریعہ بنا دیا۔ 1984ء میں بنی فلم "بیتاب" کا نغمہ۔۔۔ "بادل یوں گرجتا ہے، ڈر کچھ ایسا لگتا ہے" اس بات کی صاف مثال ہے جبکہ سنی دیول اور امرتا سنگھ کی یہ پہلی فلم تھی۔


فلم کالا بازار (1960ء) میں دیوآنند اور مدھو بالا پر فلمایا گیا گیت "رم جھم کے ترانے لے کے آئی برسات" شیلندر اور ایس ڈی برمن کے فن کا بہترین نمونہ ہے۔ 1970ء میں ریلیز فلم 'ہمجولی' میں جتیندر اور لینا چندراورکر نے بھی بھیگ بھیگ کر برساتی گانا گایا تھا۔۔۔۔ "ہائے رے ہائے، نیند نہیں آئے" یہ گانا آج بھی نوجوان دلوں میں ہلچل پیدا کر دیتا ہے۔ 1967ء میں ریلیز ہونے والی فلم 'ملن' کا ایک نغمہ کشور کمار اور لتا منگیشکر کی آواز میں بے حد مقبول ہوا تھا۔ یہ نغمہ "ساون کا مہینہ، پون کرے شور" اداکار سنیل دت اور نوتن پر فلمایا گیا تھا۔ برسات کے گانوں کے سلسلے میں یہ نغمہ اپنی مقبولیت کی وجہ سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔


1971ء میں راج شری کی فلم 'جیون مرتیو' میں دھرمیندر اور راکھی کو بھی برسات میں بھگو کر گیت فلمایا گیا "جھلمل ستاروں کا آنگن ہوگا، رم جھم برستا ساون ہوگا"۔ راجندر کمار اور ببیتا پر بھی اسی قسم کا برساتی گیت فلم 'انجانا' میں "رم جھم کے گیت ساون گائے ، ہائے بھیگی بھیگی راتوں میں" فلمایا گیا تھا۔ کمال امروہوی کی مشہور زمانہ فلم 'پاکیزہ' کا وہ گانا بھی بہت مقبول ہوا تھا جس میں مینا کماری راجکمار کے کپڑے پہن کر گاتی ہے "موسم ہے عاشقانہ، اے دل کہیں سے ان کو ۔۔۔"
اس گانے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں سیدھے برسات کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی مینا کماری کو بھگویا گیا ہے بلکہ موسم برسات کا ذکر شاعرانہ انداز میں یوں کیا گیا ہے:
کہنا کہ رت جواں ہے اور ہم ترس رہے ہیں
کالی گھٹا کے سائے برہن کو ڈس رہے ہیں
ڈر ہے نہ مار ڈالے ساون کا کیا ٹھکانہ


رشی کیش مکھرجی بھی فلمی دنیا کے ایک کامیاب فلمساز و ہدایتکار تھے۔ انہوں نے بھی اپنی فلم 'چپکے چپکے' میں ہیروئن شرمیلا ٹیگور کو بغیر بھگوئے ایک گانا برسات کے موسم کو ذہن میں رکھ کر فلمایا تھا: "اب کے سجن ساون میں، آگ لگے گی بدن میں"۔ موسیقار ایس ڈی برمن کی خوبصورت دھن پر لتا کی آواز میں یہ گانا بےحد پسند کیا گیا تھا۔
اسی طرح منوج کمار نے دیش بھکتی کے نام پر "ایکسپوزر" کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ چاہے فلم 'روٹی، کپڑا اور مکان' کا گیت "ہائے ہائے یہ مجبوری، یہ موسم اور یہ دوری" ہو یا پھر 'کرانتی' فلم میں ہیما مالنی کا بارش میں بھیگ کر گایا ہوا گیت "زندگی کی نہ ٹوٹے لڑی، پیار کر لے گھڑی دو گھڑی" ہو۔


امیتابھ بچن بھی کئی فلموں میں خوب بھیگے ہیں۔ فلم 'منزل' میں موسمی چٹرجی کے ساتھ بمبئی کے مرین ڈرائیو پر بھیگتے ہوئے فلمایا گیا گیت "رم جھم کرے ساون" آج بھی ناظرین کے دل و دماغ میں تازہ ہے۔ اسی طرح فلم 'نمک حلال' میں سمتا پاٹل کے ساتھ گیت "آج رپٹ جائیں تو ہمیں نہ اٹھائیو" کافی پسند کیا گیا تھا۔ اسی سلسلے میں ودھو ونود چوپڑہ کی ہدایت میں فلم '1942، اے لو اسٹوری' میں برسات پر فلمایا گیا نغمہ "رم جھم رم جھم" کافی مقبول ہوا۔ شاہ رخ خان کی فلم 'دل والے دلہنیا لے جائیں گے' اور عامر خان کی فلم 'لگان' میں بھی بارش میں بھیگتے ہوئے گیتوں کو کافی پسند کیا گیا۔ فلم 'مسٹر انڈیا' میں شری دیوی کو بارش میں بھگو کر انل کپور کے ساتھ ایک گیت "کاٹے نہیں کٹتے یہ دن یہ رات" فلمایا گیا ہے۔ یش چوپڑہ کی فلم 'دل تو پاگل ہے' کا گیت "کوئی لڑکی ہے، جب وہ گاتی ہے، ساون آتا ہے، اسے ڈراتا ہے" اس گانے میں شاہ رخ خان، مادھوری ڈکشت اور کرشمہ کپور ایک گروپ کے ساتھ مل کر اسٹیج شو کرتے ہیں اور بھگتے ہوئے ناچ کر گیت گاتے ہیں۔


اس قسم کے چند نغمے جن کی بہترین فلمبندی بھی ہوئی ہے اور جو عوام میں مقبول بھی ہوئے ہیں، اس طرح ہیں:

  • برکھا رانی ذرا جم کے برسو ( فلم: سبق)
  • برسات ہو رہی ہے، برسات ہونے دو (فلم : جان کی قسم)
  • بارش کا بہانہ ہے، ذرا دیر لگے گی (فلم: یلغار)
  • برسات کا بہانہ اچھا ہے، ملاقات کا۔۔۔ (فلم: پلیٹ فارم)
  • چلو سجنا، جہاں تک گھٹا۔۔۔ (فلم: میرے ہمدم میرے دوست)
  • چھتری نہ کھول برسات میں بھیگ ۔۔۔ (فلم: بھیگی رات میں)
  • میگھا چھائے آدھی رات برہن بن گئی نندیا (فلم: شرمیلی)
  • جارے کارے بدرا (فلم: دھرتی کہے پکار کے )
  • برسات میں جب آئے گا ساون کا مہینہ (فلم: ماں)

وغیرہ گانے کافی مقبول ہوئے۔


بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں موسیقار نوشاد کی کی دھنوں سے سجی ایک فلم "رتن" ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں زہرہ بائی امبالے والی کے ذریعہ گائے ہوئے دو ساون گیت تھے:
"پردیسی بلما ساون آیا" اور
"ساون کے بادلو، ان سے یہ جا کہو"
یہ دونوں گیت بےحد مقبول ہوئے تھے اور فلم "رتن" اپنے زمانے کی سپر ہٹ فلم بن گئی تھی۔ اس کے بعد تو ہر دوسری یا تیسری فلم میں برساتی گیتوں کی روایت چل پڑی اور یہ روایت مختلف شکلوں میں چلتی ہوئی آج تک قائم ہے۔
اب شاید اسی روایت کو "آئٹم نمبر" کا نام دے دیا گیا ہے۔ مگر اب اس میں نہ وہ مٹھاس ہے، نہ نغمگی، نہ وہ حسن ہے اور نہ ہی وہ بھیگا بھیگا احساس۔ اب تو بس بے ڈھنگے شور میں تھرکتے ہوئے سائے رہ گئے ہیں۔ موسمِ برسات کی بارش میں بجلی کی چمک اور کڑک کے ساتھ، ہولے ہولے سلگتے ہوئے پیار کے جذبات والے خوبصورت نغمے تو بس اب خواب و خیال بن گئے ہیں۔


***
بشکریہ: روزنامہ انقلاب (ممبئی) (فلم/ٹی وی صفحہ: 12)، 24/جولائی 2022ء
انیس امروہوی (دہلی)۔ ایمیل: qissey[@]rediffmail.com

Rainy season in Bollywood Movies. Article: Anees Amrohvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں