تبسم اعظمی کی کتاب 'جہاں کوئی نہ ہو' کا ایک تجزیاتی مطالعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-25

تبسم اعظمی کی کتاب 'جہاں کوئی نہ ہو' کا ایک تجزیاتی مطالعہ

jahan-koi-na-ho-nazms-by-tabassum-azmi

کہا جاتا ہے کہ تخلیق کائنات اور خلق آدم کے بعد انسان جیسے جیسے معاشرتی سطح پہ شعور یافتہ ہوتا گیا ویسے ویسے وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور طرز معاشرت کا معیار بھی بلند تر کرتا گیا۔ انسان جو کہ اپنے حاسۂ اخلاقی اور فکری صفت کے ساتھ ساتھ دیگر خوبیوں کی وجہ سے بےشمار مخلوقات کے مقابلے میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اس کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس نے صنف ادب کو دریافت کر کے اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو مہمیز دی ہے۔ ادب ایک لطیف احساس کی طرح ہے جو کہ دل کے ساز پہ ایک ردھم کی طرح ہوتا ہے جو علامتی سماعتوں سے کہیں آگے تک اپنی رسائی رکھتا ہے۔ اس کی سحرانگیزی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اصول و ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فکر و خیال کو اس طرح دوسروں تک منتقل کرتا ہے کہ مخاطب شخص ادب شناس ہو تو اختلاف کے باوجود اس پر غور کرنے سے کبھی گریزاں نہیں ہوتا۔ ادب تہذیب و ثقافت کی منتقلی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور زبان و بیان کی خوبیوں سے خود کو مرصع کر کے انسانیت اور اخلاقیات کے ورثے کی حفاظت بھی کرتا ہے۔


شاعری اسی ادب کی کوکھ سے جنم لینی والی ایک صنف ہے۔ شاعری کو احساسات کا اہک ایسا دلفریب جامہ کہتے ہیں جو قوت بیان کی اثر افرینی کو سَوا کر دیتی ہے اور فکر و فن کی بساط پہ اسے نمایاں مقام حاصل ہے۔ اور وہ ایسے جذبات کی ترجمانی کا ایک عمدہ ذریعہ ہے جو کہ اکثر اوقات دل میں ہی رہ جاتے ہیں۔ کیوں کہ شاعری کی زبان بالکل ایسی ہی ہے جیسے پردۂ زنگاری میں رہتے ہوئے محبوب اپنا دیدار بھی کرا جاتا ہے اور تشنگی کی کسک بھی چھوڑ جاتا ہے۔ بالکل ایسا ہی شاعری میں بھی ہوتا ہے کہ ان کہی باتیں احساسات کے در کو چھو آتی ہیں اور کہی ہوئ باتیں اس ناز و انداز سے ادا ہوتی ہیں کہ یوں لگتا ہے ابھی مزید اس کے گرد لفظوں کے حصار کو بنے جانے کی ضرورت ہے اور یہ تشنہ احساس ادب کی تخلیق میں ایک معاون کا کردار ادا کرتے ہیں اس کے زیر اثر ایک شاعر و ادیب تا زندگی اس احساس کو لکھنے کی تگ و دو کرتا رہتا ہے جو کہ اس کے دل میں کہیں جاگزیں ہو کر لمحہ لمحہ اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ یہ کسک یہ تشنگی ہی ہے جو کسی فنی صلاحیت کو مہمیز دے کر اس اوج پہ لے جاتی ہے جہاں پہنچ کر وہ فن پارہ ہر خاص و عام کی نگاہوں کا مرکز بن جاتا ہے۔


فن شاعری میں بےشمار صنف ہیں جس پہ کہ اب تک لکھا جا چکا ہے اور کچھ اصناف مخصوص دور تک اپنی جلوہ سامانیوں کو باقی رکھ پائے اگر چہ بعد کے دور میں بھی اس پہ لکھا گیا لیکن اس کی رفتار و معیار کو قابل تشفی نہیں خیال کیا گیا ان تمام اصناف میں غزل کو مقبولیت عام کا مقام حاصل رہا ہے جس نے ہر دور میں ہی اپنے سکے کو رائج الوقت بنایا۔ غزل کی غنائی اور اس میں لطیف احساسات کے شامل ہونے کی وجہ سے اس کو ہر دور میں خوب سراہا گیا ہے اور غزل نے اپنے دامن کو وقت کے ساتھ اتنا وسیع تر بنا دیا کہ اس نے خود کو رومان پسند عناصر تک محدود ہونے کے بجائے عہد حاضر کے ہر موضوع کو اپنے دامن میں سمو لیا۔ ہر موضوع سے شغف رکھنے والا انسان تمہید بیانی اور غیر ضروری وضاحت کی حد سے آگے نکل کر شاعری کے لطیف لفظوں کا اسیر ہو گیا اب ہر طرح کے شعراء و ادباء اپنے خیالات و احساسات کا اظہار کرتے وقت بہتر معیار کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور انھوں نے اس کوشش کے دوران ادب کے معیار کو مجروح کرنے کی کبھی دانستہ کوشش نہیں کی انھوں نے رمز و اشارہ اور تشبیہات و استعارہ کا سہارا لیتے وقت ادبی ساخت کو مزید بہتر کرنے کی ہی کوشش کی ہے۔ اور بےشک ادب نے ان علامتوں سے اپنی تاثر پزیری کو مزید بہتر اور مستحکم بنایا ہے جس سے کہ ہم میں سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔


غزل کی صنف کے علاوہ نظم بھی ایک ایسی صنف ہے جس میں کہ احساسات اور نظریات کو اس ہم آہنگی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ وہ ذوق کی تشنہ سامانی اور جذبات کی ترجمانی اس نغمگی اور تسلسل کے ساتھ کرتی ہے کہ پڑھنے والا سحر انگیزی کا تجربہ کئے بغیر نہیں رہتا۔ شاید اسی لئے شاعری کو الہامی زبان کہا جاتا ہے مطلب یہ کہ وہ جو کچھ محسوس کرتا ہے اور جو اپںے اطراف میں ہوتے دیکھتا ہے کبھی درپردہ اور کبھی دوبدو ان کو اپنے لفظوں کے ذریعے منعکس کرنے کی کوشش کرتا ہے اور شاعر شعور کی بلندی پر پہنچ کر جو کلام کہتا ہے وہ صرف اس کے قلم تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ ہر خاص و عام کی زبان پہ رواں ہو کر فن پارے کا مقام حاصل کر لیتا ہے۔
ادب کی ہر صنف کی طرح شاعری بھی ہمیشہ اپنے عہد میں رائج تہذیب و ثقافت سے متاثر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری میں موضوعات اور ہیئت کی فراوانی رہی ہے۔ اس وسعت کے باوجود صرف وہی اشعار کلاسیکیت کی حدوں کو چھو سکے جس میں اپنے عہد کے غالب رجحان کے ساتھ لطیف ادب اور ذوق کی موزونیت کا امتزاج شامل رہا۔ مظلب یہ کہ ہم شاعری کے معیار اور تقاضوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کر سکتے اور اس میں حقیقی اور فطری رنگ جس قدر نمایاں ہوں گے کلام اتنا ہی زوداثر اور مقبول ہوگا۔


ہر دور میں شعراء پیدا ہوتے رہے جنھوں نے اپنے قلم کی جولانیوں سے ادبی اثاثہ میں اپنا حصہ ڈالا ہے ان کی شخصیت کی طرح ان کے فن پارے بھی انفرادیت کے حامل رہے ہیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر شاعر ادیب کے قلم میں کسی خاص فکر و تہذیب کا عکس نظر آتا ہے وہ عکس یا تو ان کے ارد گرد کے ماحول سے اخذ شدہ ہوتا ہے یا کسی خاص شخصیت کے زاویۂ نظر سے متاثر معلوم ہو رہا ہوتا ہے اور کبھی اس کے تجربات و مشاہدات پر مشتمل ہوتا ہے مطلب یہ کہ اس کی اپنی ایک انفرادیت ہوتی ہے جو کبھی معمولی سطح پہ ہوتی ہے اور کبھی غیر معمولی حد تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے۔ غرضیکہ ہر دور کے شاعر و ادیب نے قرطاس ادب پہ اپے نقش فکر ثبت کئے ہیں۔
انھیں میں سے ایک شاعرہ تبسم اعظمی بھی ہیں جو اپنی ایک جدا شناخت رکھتی ہیں جنھوں نے اپنی فطری صلاحیت اور اپنے ادبی ذوق کو اس خوبصورتی سے تراشا کہ وہ ایک شاہکار کی طرح نمودار ہوئیں۔ ان کا ممتاز مقام یہ ہے کہ انھیں آعظم گڈھ کی سرزمین پہ پہلی صاحب کتاب شاعرہ کا خطاب حاصل ہے۔ اعظم گڈھ کی مٹی کی علمی زرخیزی کی داستان کافی لمبی ہے میرے خیال میں کتابوں سے شغف رکھنے والا ہر انسان اس سے واقف ہے۔ کیوں کہ شبلی نعمانی، حمیدالدین فراہی اقبال سہیل جیسی شخصیات کی وجہ سے اس سرزمین کی تاریخی حیثیت مسلم ہے۔


تبسم اعظمی جن کے اب تک دو مجموعۂ کلام منظر عام پر آ جکے ہیں جس میں ایک مجموعہ 'دھنک' جو کہ غزلوں پر مشتمل ہے ادبی حلقے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے بعد ان کا دوسرا مجموعۂ کلام 'جہاں کوئی نہ ہو' اشاعت کے مرحلے سے گزر کر منظر عام پر آ چکا ہے جو کہ نثری نظم پر مشتمل ہے۔ اس وقت یہی مجموعہ میرے ہاتھوں میں موجود ہے۔
مجموعہ کا سرورق اور مواد دونوں کے اعتبار سے کافی پرکشش ہے۔ تبسم اعظمی نے ایسے دور میں اپنے قلم کو حرکت دی جب کہ تعلیم نسواں کو لے کر کوئی خاص آگہی ان کے اطراف میں نہیں پائی جاتی تھی آج سے کئی دہائی قبل جب کہ عورتوں کا دائرۂ کار ان کے گھروں تک ہی محدود تھا تعلیم نسواں کی شرح بھی انتہائی کم تھی ایسے میں تبسم آعظمی صاحبہ کا احساس آشنا ہونا پھر خود شناس لفظوں کے ذریعے بساط ہستی پہ زندگی کی قدروں کو مرتسم کرنا درحقیقت ایک ایسا نقش پا ہے جو آنے والے وقتوں میں اس راہ پہ چلنے والے بےشمار راہیوں کے لئے سنگ میل ثذبت ہوگا۔


تبسم اعظمی کی شاعری میں سادگی اور عام فہم اسالیب کے ساتھ ساتھ کھرے پن، برجستگی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ کسی بھی کلام کی اثریت میں سادگی اور روانی کا ہمیشہ سے ایک اہم کردار رہا ہے فصاحت و بلاغت کو برتنے کے لئے جس قدر مشاقی کی ضرورت ہوتی ہے وہ اکثر ہمارے یہاں کمیاب نظر آتی ہے جس کی وجہ سے شاعری میں بوجھل پن کا سا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ اور سادہ بیانی بھی ایک ایسا طرز بیان ہے جس کو اگر بحسن خوبی برتا جائے تبھی ایسے اشعار کی تخلیق ہوتی ہے جس پر غالب جیسا اعلی سخن شناس اور ادب نواز انسان اپنے دیوان کو قربان کرنے کی بات کرتا ہے۔ بےشک ہم میں آج غالب اور مومن نہیں لیکن ان کے نقوش پا اج بھی ہماری رہنمائی کرنے کے لئے موجود ہیں۔ اگر بات تبسم اعظمی کے کلام کی بنیادی صفات کی کی جائے تو بلاشبہ ان میں سادگی اور نفاست کا عکس صاف طور پہ دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے معاشرے کے کم و بیش ہر موضوع پہ لکھا ہے۔ ان کے سارے موضوعات عہد حاضر سے متعلق ہیں یوں تو ان کی شاعری کے اپنے کئی سارے خصائص ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پہ ان کے حقیقت پسند رویے نے کافی متاثر کیا انھوں نے قاری کو جھوٹے بہلاووں اور تخیلاتی دنیا کی سیر کرانے کے بجائے ان کو زندگی کی زندہ حقیقتوں کے قریب رکھا نہ صرف انھوں نے معاشرتی اقدار کی اونچ نیچ کی تصویر کشی کی ہے بلکہ انھوں نے اپنے شعور و سمجھ کے مطابق اس کے سد باب کی صورتوں کو بھی اپنی نظم کا موضوع بنایا ہے وہ اپنے مجموعۂ نظم 'جہاں کوئی نہ ہو' میں لکھتی ہیں:


طیش سے مسئلے
حل ہوئے ہیں کہاں
آگ سے آگ بجھتی نہیں
کوئی ہتھیار
چھوٹا ہو
یا ہو بڑا
آخرش ہے تو ہتھیار ہی
جب بھی اٹھے گا یہ
چوٹ پہنچائے گا
۔۔۔۔
بغض و نفرت
عداوت کے اس زہر کا
بس محبت ہی تریاق ہے۔


یہ نظم اپنی پوری سادگی و پرکاری کے ساتھ انسانی فطرت کے ایسے پہلوؤں کو منکشف کرتی نظر آ رہی ہے جو انسانی معاشرت میں اس قدر عام ہوگئ ہے کہ اس کو معیوب ہی خیال نہیں کیا جاتا اس کے بدترین نتائج ہمارے ارد گرد بآسانی نظر آسکتے ہیں انھوں نے نہایت ہی سادگی کے ساتھ قاری کے ذہن کو طیش ، غصہ و نفرت سے ہٹا کر محبت کی طرف مائل کر دیا ہے۔


کسی بھی شاعر کے کلام کی تاثر پذیری کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے لفظوں کے ردھم کو صرف اپنے ہی احساس کے گرد کے باندھنے کے بجائے اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں کے جذبات و احساسات کی بھی عکاسی کرنے کا ہنر رکھتا ہو کچھ اس طرح کہ جب وہ لفظ شعروں کی صورت میں ڈھل کر قاری کی نظروں سے گذرے تو اس کو اس سے اپنائیت کا احساس ہو اور اسے بطور حوالہ اپنی گفگو میں شامل کرے۔ تبسم اعظمی جنھوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنی صلاحیتوں کی پرواز کو کبھی معطل نہیں کیا انھوں نے جو کچھ بھی زندگی میں مطالعہ و مشاہدہ کیا تھا انھیں بیان کرنے کہیں بھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اور نہ ہی اپنے حوصلوں کو کبھی پست ہونے دیا وہ اپنے مجموعہ میں ایک جگہ لکھتی ہیں:


نقش مٹتا ہے
تو مٹ جائے
قدم ہیں ثابت
موج سرکش ہے اگر
ہم بھی بہت ضدی ہیں
روز ایک نقش نیا ثبت کریں گے یوں ہی
پر اگر کٹ بھی گئے
حوصلہ شہپر ہوگا
جاری تخئیل کی پرواز رہے گی یوں ہی
ہم نہیں دریاؤں کے انجام سے ڈرنے والے
راستہ کر کے سمندر کو گذر جائیں گے


تبسم اعظمی کی یہ نظم ان کے ان احساسات کو سمجھنے میں ہمیں مدد دیتی ہے جس کے تحت انھوں نے اب تک کی زندگی کا سفر طئے کیا ہے یہ زندگی بےشک ہر کسی کے لئے ایک الگ زائچہ رکھتی ہے لیکن ان سب میں ایک چیز قدر مشترک ہے وہ ہے مشکلات اور آزمائشوں کا ہونا کیوں کہ اس کائنات کی تخلیق انھیں اصولوں پر امتحان کے غرض سے کی گئی ہے۔ ایسے میں سب اہم پہلو انسان کا وہ رویہ یوتا ہے جو وہ ان مشکلات سے نمٹنے کے لئے اپناتا ہے اس نظم میں تبسم اعظمی کا وہی رویہ نظر آ رہا ہے جسے زاد راہ بنا کر انھوں نے زندگی اور اپنی ذات کا سفر طئے کیا ہے۔
زندگی کو جینے کا صحیح سلیقہ تبھی آتا ہے جب ہم حقیقت پسندی اور حوصلہ مندی کے ساتھ اس کے اسرار و رموز کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں کیوں کہ بند انکھوں میں پنپنے والا تصور خواہ کتنا ہی کیوں نہ خوبصورت ہو کبھی بھی اس کے سہارے زندگی کی حقیقتوں کو بدلا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے ایسے میں ضروری ہے کہ ہمارے پاس وہ دیدۂ بینا ہو جو ہمارے حوصلوں کو کمک بھی دے اور ساتھ ہی زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی تبسم اعظمی کی یہ نظم انھیں خیالات کی عکاسی کر رہی ہے۔


تبسم اعظمی کی نظم نگاری کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے الفاظ اور احساسات پہ نقالی کے رنگ کو غالب نہیں آنے دیا انھوں نے ہر کسی سے بہت کچھ سیکھا لیکن اپنی انفرادیت کو مضمحل نہیں ہونے دیا جو کہ ان کی وجہِ شناخت ہے۔ جب ہم ہر رنگ کو غیر متوازن انداز میں اپنے فکر و تخیل کے کینوس میں شامل کر لیتے ہیں تو اس کی دلکشی جاتی رہتی ہے تبسم اعظمی نے جو کچھ بھی لکھا اس میں انھوں نے اپنی فکر و تدبر کو کہیں بھی گم نہیں ہونے دیا۔


بڑی حسرت سے بولی
کوزہ گر سے چاک کی مٹی
تو اپنی کوششوں سے
لاکھ سندر روپ دے مجھ کو
مگر ہستی کا میری ہے
فقط اتنا سا افسانہ
سنورنا ٹوٹ جانا
چور ہونا، اور بکھر جانا
۔۔۔۔۔
مجھے بزدل کا تحفہ مت بناؤ
نہیں ہوں بزدلی کی میں علامت
کبھی دیکھا نہیں کیا غور سے؟
مجھے جن ہاتھوں نے بھی
توڑنے کی کوششیں کیں
خراشیں ڈال دی ہیں میں نے ان پر


یہ دونوں ہی نظمیں بظاہر اپنے مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے متضاد ہیں ایک میں وہ خود ٹوٹ جانے کی باتیں کر رہی ہیں اور دوسری نظم میں وہ اپنے ہمت و حوصلے کا بلند و بانگ اظہار کر رہی ہیں اور ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ اس کی گہرائی میں پائی جانے والی حقیقت کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں کیوں کہ ہم میں سے ہر ذی شعور اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ انسان کے عمل ردعمل کی ہیئت صورتحال کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے یہ تبدیلی اس کی بقا اور تحفظ کا ضامن ہوتی ہے تبسم اعظمی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مانا کہ میں صنف نازک اور اور نزاکت و نفاست کا پیکر ہوں میں رویوں کی تپش اور بےگانگی کی ضرب سے ٹوٹتی بکھرتی رہتی ہوں لیکن مجھے کمزور خیال کر کے میری عزت نفس اور خودداری کو مجروح کرنے کی کوشش کبھی مت کرنا کیوں کہ مجھے اپنی ذات کو تحفظ دینا آتا ہے میں صنف نازک سے صنف آہن بننے کا ہنر رکھتی ہوں۔


تبسم اعظمی کی تمام تر تخلیقات پر نظر ڈالتے ہوئے اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی زبان و بیان کو سادہ اور عام فہم بنائے رکھنے کے لئے ان لفظوں کا بہ کثرت استعمال کیا ہے جو ایک عام انسان کی گفتگو کا حصہ ہوتے ہیں اب اسے عیب خیال کیا جائے یا ہنر بہر حال یہ ان کے کلام میں اہم کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔
اگر ہر شاعر یا ادیب اپنے ما فی الذہن کے اظہار کے لئے مشکل اور فصیح لفظوں کے انتخاب کو ترجیح دینے لگ جائے تو شاید ادب صرف ادبی حلقوں کے درمیان محدود ہو کے رہ جائے ادب کی تشییع و ترسیل کی رفتار سست پڑ جائے اور یکسانیت ادبی فضا کو بوجھل کر دے اور شاید ایسے میں ایک ادیب اور شاعر ایسا فصیح ادب لکھتے ہوئے وہ تسکین حاصل نہ کر سکے جو وہ اپنے فطری رجحانات کے بہاؤ میں بہہ کر حاصل کر سکتا ہے۔ جب ہم اس پہلو سے غور کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے کہ تبسم اعظمی لفظوں کے الجھاؤ میں الجھنے کے بجائے اپنے احساسات کو اس کے فطری بہاؤ میں بہنے دینے کی قائل ہیں۔ ہر شاعر کا اپنا ایک تشخص ہوتا ہے اپنی پہچان ہوتی ہے اگر اسے سچائی کے ساتھ پنپنے دیا جائے تو اپنے ہونے کو ایک دن وہ تسلیم کروا ہی لیتا ہے۔


یہ کیسی ضد ہے
ہر جذبے کو بس
اظہار کے قالب میں ڈھالا جائے
کبھی آنکھوں کی تحریریں بھی
پڑھنے کی کریں کوشش
کبھی خاموشیوں میں پنہان
پیغامات کو سمجھیں
ضروری تو نہیں
ہر جذبے کو
الفاظ کے تابع بنایا جائے


بےشک لفظ اپنی اثرانگیزی رکھتے ہیں اور لفظ تعلق کو ہموار کرنے ہیں اور جذبات کے سیل رواں کو جاری بھی کرتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب لفظوں کی حدیں گم سی ہو جاتی ہیں صرف خاموشی کی فضائے بسیط تاحد نظر باقی رہ جاتی ہے اس وقت خاموشی اپنے راز کھولتی ہے اپنی اثریت کو رگ و پے میں اتار دیتی ہے اس وقت لفظ بےمعنی ہو جاتے ہیں صرف احساس اور خاموشی کا ہی رقص ہوتا ہے۔ تبسم اعظمی نے ایسے ہی لمحے کی طرف اپنے قاری کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر جذبے کو الفاظ کا قالب نہیں دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انھیں الفاظ کے تابع بنایا جا سکتا ہے۔ خاموشی کی اپنی ایک پراسرار دنیا ہے جسے خاموش رہ کر ہی دریافت کیا جا سکتا ہے۔


تبسم اعظمی فضائے ادب میں ایک ایسے پرندے کی طرح اپنی پرواز کو جاری رکھا ہوا ہیں جو ہر گزرتے وقت کے ساتھ نئے اسالیب اور منفر انداز بیان کی فضا کو سر کرتا جا رہا ہے ان کے آگے غول در غول ایسے ہی پرندے اڑان بھر رہے ہیں ان کے نقوش ان کے سفر کے لئے ایک سنگ میل ہے یہ ایسے لوگوں کے لئے ایک انسپریشن ہیں جو نامساعد حالات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں جو محدود وسائل کا شکوہ کرتے رہتے ہیں تبسم اعظمی انھیں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ عزم مصمم اور انتھک جدو جہد سے کسی بھی قلعے کو سر کیا جا سکتا ہے۔


***
علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizeysikander[@]gmail.com

Nazms of Tabassum Azmi in her book 'Jahan koi na ho'. Essay by: Alizey Najaf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں