شعری اصناف - جن کی شناخت موضوع یا ہئیت نہیں ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-01

شعری اصناف - جن کی شناخت موضوع یا ہئیت نہیں ہے

sheri-asnaaf

نظم
ہماری کلاسیکی تنقید میں "نظم" سے جملہ شاعری مراد لی گئی ہے ، لہٰذا بلاغت کی دستیاب کتابوں میں یہ لفظ ان ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے لیکن یہاں ہماری مراد نظم سے وہ مخصوص صنف سخن ہے جسے بالعموم ہم غزل کے مقابلے پر رکھتے ہیں۔


غزل کی ہیئت مخصوص ہوتی ہے۔ نظم کے لئے کسی خاص ہیئت کی تخصیص نہیں۔ غزل کے اشعار میں باہمی تسلسل نہیں ہوتا لیکن نظم کے اشعار موضوع اور خیال کے اعتبار سے ایک دوسرے سے پیوست ہوتے ہیں، چنانچہ یہ وہ صنف سخن ہے جو غزل کے مقابل ہر زمانے میں موجود رہی ہے اور جس کی مثالیں قلی قطب شاہ سے لے کر عہد جدید تک بہ کثرت ملتی ہیں۔


معنوی اعتبار سے "نظم" ایک نہایت بسیط ووسیع اور ہمہ گیر اصطلاح ہے یہاں تک کہ اگر اصناف سخن میں سے غزل کو منہا کردیاجائے تو دیگر تمام اصناف مثلاً قصیدہ ، مثنوی مرثیہ، واسوخت اور شہر آشوب در حقیقت نظم ہی کے مختلف موضوعات و اسالیب قرار پائیں گے ، یعنی ہر وہ شعری تخلیق جو خیال کی ریزہ کاری پر نہیں خیال و فکر کی شیرازہ بندی تسلسل اور ربط پر مبنی ہے وہ وسیع تر معنوں میں نظم ہے لیکن نظم سے یہاں ہماری مراد نہ قصیدہ ہے، نہ مرثیہ ، نہ مثنوی ، نہ شہر آشوب، نہ واسوخت بلکہ وہ صنف ہے جسے ہم محض "نظم" ہی کہتے ہیں۔


نظم محض ، یا وزیر آغا کے الفاظ میں خالص نظم کا بہ حیثیت صنف سخن زیادہ صحیح تصور جدید تناظر میں واضح ہوگا۔ غزل کے ماسوا دیگر اصناف سخن مثلاً قصیدہ ، مثنوی، مرثیہ وغیرہ کا جدید شاعری میں وہ رواج باقی نہیں رہا جو کلاسیکی شاعری میں تھا اور جہاں یہ چاروں اصناف اردو شاعری کی اہم اور بڑی اصناف سمجھی جاتی تھیں۔ عہد جدید میں نظم کے ارتقا اور اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اسے اردو شاعری کی پانچویں اہم اور بڑی صنف قراردیاجاسکتا ہے بلکہ موجودہ عہد میں تو اگر غزل کے دوش بدوش کوئی صنف سخن زندہ ہے اور پوری طاقت و توانائی کے ساتھ آگے بڑھی اور بڑھ رہی ہے تو وہ نظم ہی ہے اس لحاظ سے جدید شاعری کی سب سے بڑی دوہی اصناف غزل اور نظم ہیں۔


ایک مخصوص اور معروف صنف سخن کی حیثیت سے نظم نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں نظر آتی ہے اور حالی کے زمانے سے اس کی روایت کا استحکام ہوتا ہے۔ شاعر کی حیثیت سے نظیر اکبر آبادی، حالی، اقبال، چکبست ، جوش، فیض، ن۔ م۔راشد، میراجی، اختر الایمان ، سردار جعفری، مخدوم وغیرہ کی شناخت اسی صنف سے وابستہ ہے۔


نظم موضوعات اور ہیئتوں کے لحاظ سے اس قدر متنوع اور ہمہ گیر صنف ہے کہ اس کے ساتھ کسی ایک یا چند موضوعات اور ہیئتوں کو مخصوص نہیں کیاجاسکتا۔ زندگی کے ہر واقعہ، ہر واردات ، ہر مظہر، ہر رنگ، ہر جذبہ، ہر احساس، ہر کیفیت کو نظم کا موضوع بنایاجاسکتا ہے۔ لہذا یہ صنف موضوعاً موضوعی اصناف کی صف میں بھی نہیں بٹھائی جاسکتی اور نہ اسے موضوعی ہیتء اصناف کے خانے میں رکھاجاسکتا ہے اور نہ ہیئتی اصناف میں اسے شمار کیاجاسکتا ہے ، اس لئے کہ اس کی کوئی مخصوص ہیئت بھی نہیں ہے۔ قدیم زمانے ہی سے یہ مختلف ہیئتوں میں پیش کی جاتی رہی ہے۔ مسمط کی جملہ شکلوں یعنی مثلث، مربع، مخمس، مسدس، مسبع، مثمن، متسع اور معشر کے علاوہ غزل، مثنوی، ترکیب بند ، ترجیع بند اور انگریزی شاعریی کے اثر سے اردو میں رواج پانے والی مغربی ہیئتوں مثلاً نظم معری اور آزاد نظم میں اس صنف کو پیش کیا گیا ہے۔


گیت
اردو شاعری کا بیشتر سرمایہ چونکہ فارسی اور عربی سے حاصل ہوا ہے ، اس لئے بلاغت کی کتابوں میں اس صنف سخن کا ، جو ہندی الاصل ہے، ذکر نہیں ملتا۔ اردو میں گیت ہندی شاعری کے اثر سے داخل ہوا۔ ہماری شعری اصناف میں اس کا ذکر کم از کم آج کے زمانے میں ناگزیر ہے۔
صنف کے لحاظ سے گیت بھی موضوعات کا تنوع رکھتا ہے ، اس لئے نظم کی طرح اسے بھی کسی خاص موضوع تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ جذبہ و احساس کی نازک تر اور باریک سے باریک کیفیات گیت کا موضوع بن سکتی ہیں۔ عشق ، بھگتی، عبادت، محنت، رزم ، بزم غرض کہ ہر وہ شے جو انسانی احساس کا حصہ ہے، گیت میں اس کا اظہار کیاجاسکتا ہے۔


اصلاً گیت کا مزاج ان کیفیات کا آئینہ دار ہے جنہیں نسوانی کہاجاتا ہے ، یعنی شاعری کی یہ وہ صنف ہے جس میں نغمہ وصوت کے آمیزے سے نسوانیت کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ عورت کی وہ دلآویز اور مکمل شخصیت جو کسی اور صنف سخن کے قالب میں نہیں سما سکتی، گیت کے رنگ و آہنگ میں بہ کمال و خوبی رچ بس جاتی ہے۔ بہ قول وزیر آغاز:
"گیت میں عورت کی نسوانیت سمٹ کر یک جا ہوگئی ہے۔ اس کا حسن ، آواز جسم کا لوچ ، یہ تمام پہلو گیت میں مجتمع ہوگئے ہیں۔"
(اردو شاعری کا مزاج: ص 164)


گیت کی ایک مخصوص و منفرد تہذیبی و تمدنی فضا ہے۔ ہندوستان کے تمدنی ورثے میں محبت اور نغمے کی آمیزش سے پیدا ہونے والی نہایت لطیف و دل کش روایت بھی شامل ہے۔ چنانچہ گیت شاعری کا وہ اسلوب ہے جہاں محبت اور نغمے کا سنگم پوری لطافت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تو گیت کی صنف دراصل موسیقی کا ایک صوتی اسلوب ہے، اس لئے اس کے بین السطور کم و بیش وہ ساری خصوصیات موجود ہیں جو موسیقی سے تعلق رکھتی ہیں، مثلاً ترنم اور لے اور جھنکار اور تھاپ وغیرہ۔
دیکھاجائے تو گیت دراصل پڑھنے سے زیادہ سننے کی چیز ہے جس طرح ڈرامہ پڑھنے سے زیادہ دیکھنے کی چیز ہے۔ ڈرامہ عمل (Action) اور گیت سر اور تال کے ذریعے ہی موثر تخلیقی اظہار کرپاتے ہیں، لہذا کامیاب ڈرامہ وہ ہے جس کے منظر وپس منظر اور مکالموں میں عمل کی بھرپور قوت موجود ہو اور کامیاب گیت وہ ہے جس کے بولوں اور مصرعووں کے بطن میں نغمہ موجیں مار رہا ہو۔
عورت جب مرد سے والہانہ عشق کرتی ہے تو تخلیقی فنون میں اس کا بہترین اظہار رقص اور گیت میں ہوتا ہے اور یہ خاص ہندوستانی فنون ہیں جن کی ایک نہایت اور مضبوط روایت ہے۔ اردو شاعری کی کسی صنف میں اگر ہندوستانی مزاج کی صحیح اور مکمل عکاسی نظر آتی ہے تو وہ گیت ہے۔


غزل کے برخلاف گیت میں عورت عاشق کی حیثیت سے سامنے آتی ہے اور مرد اس کا محبوب ہوتا ہے۔ عورت کی طرف سے اظہار عشق کے سبب گیت کو ریختی سے خلط ملط نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ ریختی، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ، سوقیانہ ، کثی اور مبتذل خیالات کی پروردہ ہے جب کہ گیت لطیف و متین، مہذب و شائستہ اور پاکیزہ و شریفانہ جذبات و محسوسات کے اظہار کا ایک نہایت پر اثر ذریعہ ہے۔
نسوانیت اور عورت کی جانب سے اظہار عشق کے ان مخصوص اوصاف کی وجہ سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ صنف سخن کی حیثیت سے گیت کا محض یہی میدان ہے یا صرف یہی اس کا مخصوص موضوع یا مزاج ہے۔
گیت کی موضوعاتی کائنات بہت وسیع ہے۔ یہ انسان اور انسان کی فطرت، عمل، جذبے ، احساس اور اس کے تمام تر خارجی و داخلی مسئلوں سے جڑی ہوئی ہے۔ چنانچہ عاشقانہ گیتوں کی کیف و نشاط اور سوزوگداز سے مملوکیفیتوں کے علاوہ دیگر موضوعات پر مشتمل محسوسات کے حامل گیتوں کی بھی اردو شاعری میں کمی نہیں۔ وطن سے محبت، بہادری، جاں بازی اور جنگجو یانہ جوش و خروش سے بھرے ہوے گیت بھی ہیں۔ اور ملاحوں، مزدوروں، مچھیاروں، کسانوں وغیرہ کے گیتوں کے علاوہ رسم و رواج ، شادی بیاہ اور تہواروں اور موسموں پر بھی کافی گیت لکھے گئے ہیں۔ لہذا یہ صنف موضوعات کا خاصہ تنوع رکھتی ہے اور اس لئے اس کی صنفی شناخت کسی خاص موضوع پر انحصار نہیں کرتی۔


یہی صورت اس کی ہیئت کی ہے ، یعنی گیت کے لئے کوئی خاص ہیئت مخصوص نہیں رہی اور نہ اب ہے۔ اس لئے جیسا کہ عرض کیا، اس کی صنفی شناخت نہ کسی خاص موضوع سے ہے اور نہ کسی خاص ہیئت سے۔ اس کی شناخت دراصل اس مخصوص تمدنی اور تہذیبی مزاج سے ہوتی ہے جسے ہم بجا طور پر دیسی مزاج سے تعبیر کر سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے زیادہ تر گیت ہندی یا ہندی الاصل بحروں میں لکھے گئے ہیں۔
گیت کی یہ ایک مثال دیکھئے ؎


روپ نگریا آنے والے
چاندی میری نغمے تیرے
جھن جھن تیری گھنگھرو میرے


نین کٹیلے، ہونٹ رسیلے
ابھرے سینے روپ سجیلے
زلفوں کی چھایا میں جی لے
گیا سمے پھر ہاتھ نہ آئے


روپ نگریا آنے والے
چاندی میری نغمے تیرے


پاپی دنیا ، پاپی بندے
نگری نگری پاپ کے پھندے
گالی، گھونسہ، لہجے گندے
پاپ کی ندیا بڑھتی جائے


روپ نگریا آنے والے
چاندی میری نغمے تیرے
جھن جھن تیری گھنگھرو میرے
(زبیر رضوی)


***
ماخوذ از کتاب: اصنافِ سخن اور شعری ہئیتیں
تصنیف: شمیم احمد۔ ناشر: انڈیا بک امپوریم، بھوپال (سن اشاعت: 1981ء)

Poetic genres of nil subject or form. Essay: Shamim Ahmed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں