خاموش راستوں پر چھیڑتا احساس کا ساز - مکرم نیاز : راستے خاموش ہیں : کے تناظر میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-02

خاموش راستوں پر چھیڑتا احساس کا ساز - مکرم نیاز : راستے خاموش ہیں : کے تناظر میں

mukarram-niyaz-book-rkh-review-by-naseem-ashk

بقول کرشن چندر: "کرب چاہے کسی قسم کا ہو، زندگی سےنکل جائے تو فن مر جاتا ہے"


فن کی دیوار پر کنندہ اس تاریخی جملے سے میں سو فیصد اتفاق رکھتا ہوں۔ کرب کچھ کھونے کا، کچھ ہونے کا، کچھ ہوئے کا، کچھ غیر ارادی طور پر بدلنے کا اور کچھ ارادی طور پر بدلنے کا۔ کرب کی وضاحت کلی طور پر الفاظوں سے ممکن نہیں۔ ہاں ممکن ہے ایک صورت بس جب ہمارا دل کسی کرب سے آشنا ہو جائے تو ہم کرب کی تعریف نہیں سمجھتے بلکہ اس کرب کا احساس کرتے ہیں۔ جی کرب وہی ہے جو آپ کے رگ و پے میں سرایت کر جائے جو پل پل ستاتا رہے، رلاتا رہے۔

کوئی یہ پوچھے کہ سنگ تراش مجسمے کیوں تراشتا ہے؟ اس کا افادی پہلو کیا ہے؟ کوئی راستے پر چاک پنسل سے تصویریں کیوں بناتا ہے؟ اس سے کیا فائدہ ہونے کو ہے؟کوئی رات ڈھلے نغمیں کیوں گاتا ہے؟ ایسے سوالات یقیناً فن کار اور نہ فن کے حق میں ہوتے ہیں۔ ایسا ذہن یقیناً بیمار ہوتا ہے جو فن سے بے گانہ ہو دوسرے لفظوں میں کرب سے نا آشنا ہے۔
حسن فن کی پرکھ اور تعریف الگ بات ہے اور اظہار فن الگ بات۔ اظہار اس کیفیت کا نام ہے جو وجود میں آتے آتے مظاہر کے وجود کو نگلنے لگتی ہے۔ احساس کی شدت جب سرحد ضبط لانگھتی ہے تو فن اظہار کا کرب اٹھاتا ہے اور فن پاروں کا جنم ہوتا ہے۔


افسانے کے متعلق ایک اچھے افسانہ نگار اور افسانوں کے اچھے پارکھ سعادت حسن منٹو نے کہا ہے:
"ایک تاثر خواہ وہ کسی کا ہو اپنے اوپر مسلط کرکے اس انداز سے بیان کردینا کہ وہ سننے والا پر وہی اثر کرے ، افسانہ ہے"


چونکہ زیر نظر مجموعہ افسانوں کا ہے لہذا گفتگو کو افسانوی ادب سے ہی علاقہ ہے۔ افسانے کی خصوصیات کیا ہونی چاہئے اس ضمن میں وقار عظیم کی رائے بہت مناسب معلوم ہوتی ہے:
"افسانہ کہانی میں پہلی مرتبہ وحدت کی اہمیت کا مظہر بنا۔ کسی ایک واقعہ ، ایک جذبہ، ایک احساس، ایک تاثر، ایک اصلاحی مقصد، ایک رومانی کیفیت کو اس طرح کہانی میں بیان کرنا کہ وہ دوسری چیزوں سے الگ نمایاں ہوکر پڑھنے والے کے جذبات و احساسات پر اثر انداز ہو افسانہ کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جس نے اسے داستان اور ناول سے الگ کیا ہے۔ مختصر افسانہ میں اختصار اور ایجاز کی دوسری امتیازی خصوصیت نے اس فن میں سادگی، حسن ترتیب و توازن کی ضرورت پیدا کی"


مکرم نیاز نے اپنے جذبات و احساسات کی ترسیل کے لئے افسانہ نگاری کا انتخاب کیا۔ ادب سے ان کی وابستگی پرانی بھی ہے اور وراثتی بھی۔ ان کے والد محترم رؤف خلش ایک کہنہ مشق شاعر تھے۔ مکرم نیاز کا افسانوی مجموعہ "راستے خاموش ہیں" ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے مگر ان کے افسانوں کو پڑھنے کے بعد اس بات کی تردید ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں میں جہاں تصورات کا ایک جہاں آباد ہے وہی فکر کے نئے گوشے عیاں ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کچھ مخصوص چیزیں مخصوص لوگوں کے لئے ہوتی ہیں۔ مکرم نیاز کا افسانوی مجموعہ پڑھنے کے بعد یہ احساس جاگتا ہے کہ اس روشن اور شناسا ہیولیٰ کو بہت پہلے ہی موصوف کو بیدار کرنا چاہئے تھا جس کا ذکر انہوں نے "جو کہا نہیں وہ سنا کرو" کے تحت کیا ہے۔ بہت دنوں بعد اس طرح کے افسانوں کو پڑھنے کا موقع ملا۔ سج مچ کا افسانہ اور وہ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ۔


افسانے کی عمر ذیادہ نہیں ہے مگر یہ صنف کئ مرحلوں اور تجربوں سے گزر چکی ہے لیکن ہر حال اپنی شناخت بچائے رکھی۔ فن ہو یا کہ ادب زمانے کا متقاضی ہوتا ہے جو وقت کے ہمراہ نہیں چلتے یا تو اپنے ہونے کے نقش ڈھونڈتے ہیں یا سرد آہیں بھرتے ہیں۔ افسانہ وقت کے ہمراہ چلتا رہا ہر تبدیلیوں کو قبول کرتا ہوا رواں دواں رہا۔ اجتماعیت کی پکار ہو یا فرد واحد کی تلاش، حقیقت نگاری ہو یا علامت نگاری سب کے رنگ سے رنگین اس صنف نے اپنا سفر جاری رکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جہاں تجربوں سے نقصان پہنچا وہی اظہار و موضوعات کے نئے دریچے وا ہوئے۔


"راستے خاموش ہیں"میں کل 13 افسانے شامل ہیں۔ مجموعے میں شامل موصوف نے اپنی بات کو جس افسانوی انداز میں بیان کیا ہے داد طلب ہے۔ موصوف کے افسانوں میں فکر کی بلندی اور اظہار کی سائستگی قابل دید ہے۔ کھردری حقیقتوں کو بھی بیان کرتے وقت ان کا لہجہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔


مجموعے کا پہلا افسانہ "تیری تلاش میں" بہت پر تاثیر افسانہ ہے۔ جذبات محبت اور رشتوں کا رشتہ ضرورت اور غرض سے بہت خوب جڑتا ہے۔ یہ افسانہ عصر حاضر کے تناظر میں رقم کیا گیا ہے اور حقیقت کی آئینہ داری کر رہا ہے۔ موصوف نے اس تلخ حقیقت کو نہایت ہنر مندی سے پیش کیا ہے اور افسانہ اپنے پاؤں پر چلتا دکھائی دیتا ہے۔ افسانے کے بیان میں کہیں بھی قاری اور افسانہ نہیں بھٹکتے اور خراماں خراماں اپنی منزل پر پہنچتے ہیں، جہاں مصنف کا "وہ"مل جاتا ہے جس کی تلاش میں وہ سرگرداں رہتا ہے یقیناً آج اس "وہ"کی تلاش میں انسانیت بھٹک رہی ہے۔ افسانے کے آخر میں افسانہ نگار نے کہانی کو وہی لا کر چھوڑ دیا ہے جہاں سے لے کر چلا تھا، پھر ایک نئی جستجو کے لئے۔ حقیقی محبت سمجھ بوجھ آنے کے بعد دل سے کیوں نکل جاتی ہے ؟ اس کی تلاش ہنوز جاری ہے۔


مجموعے کا ٹائٹل افسانہ "راستے خاموش ہیں" فرد کی تلاش ہے‌ جو ترقی کی سرپٹ دوڑ میں بہت آگے نکل گیا ہے جہاں اس کا کوئی شناسا نہیں یا اس کا وجود اپنی شناخت ڈھونڈ رہا ہے۔ انسانی زندگی نے ترقی کے لاتعداد منازل طئے کر لی ہیں اور ایک ایسی جگہ پہنچ گئی ہے جہاں سے وہ چاہ کر بھی نہیں لوٹ سکتی۔ اس کے پاس عیش و عشرت کے تمام چیزیں مہیا ہیں پھر بھی وہ مشینی ذہن و دل کی گرفت سے خود کو دور نہیں رکھ سکتی۔ یہ المیہ ہو تو ہوا کرے پر اکثریت اسی کی دلدادہ ہے اسی رفتار کو زندگی کا حاصل مانتی ہے پھر برق رفتار زندگی چہروں کی بجھی لکیروں کو کیوں پڑھنا چاہتی ہے؟انہیں ان کے چھوڑے راستے اب انہیں خاموش ہی ملیں گے۔
افسانے میں موصوف کی افسانوی تکنیک کمال کی ہے۔ موصوف اپنے افسانے کو ویسا ہی بیان کرتے ہیں جیسا وہ چاہتے ہیں۔ افسانے میں باہری لوازمات تو دکھائی دیتے ہیں مگر ان لوازمات کو موصوف نے وہیں رکھا ہے جہاں انہیں رکھنا چاہتے ہیں اور افسانے کو اپنی فکر و نظر کے مطابق کنٹرول کرتے ہیں۔


افسانہ "سوکھی باؤلی" میں دادی جان کو اس باؤلی کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو پانی کی قلیل مقدار کے لئے دوسرے کی محتاج تھیں۔ یہاں ہر ایک آدمی کو اپنی ضرورت پوری کرنے کی فکر لاحق ہے۔ ہاں اگر اس کے وجود میں نمی ہو تو وہ اپنے بعد دوسرے کی سوچ سکتا ہے۔ افسانے کا تھیم گھر اور ماحول میں پیدا ہونے والے مختلف نظریات ہیں۔ موصوف نے افسانے میں ایک جملہ کہا ہے دراصل وہی اس افسانے کا تھیم بھی ہے اور موصوف کا نقطہ اظہار: وہ جملہ پیش خدمت ہے۔
"مشکلات اور آسانیاں جو کل تھیں، اب بھی وہی ہیں۔۔۔ بس آج شائد نظریات کا فرق پیدا ہوگیا ہے"


مجموعے میں شامل افسانے قاری کے احساسات کے دروازے پر کھٹ۔۔۔ کھٹ۔۔۔ کھٹ کرتے ہیں اور انہیں اس بدلاؤ کی ندامت کھٹکتی ہے۔
موصوف کے افسانے ہمیں احساس کے ایسے سفر پر لے جاتے ہیں جہاں قدم بہ قدم ایک پڑاؤ ہے جہاں ٹھہر کر ہمارا دل پیچھے چھوٹے مناظر کو نہ صرف یاد کرتا ہے بلکہ کف افسوس بھی ملتا ہے مگر سفر جاری رہتا ہے سدباب ڈھونڈتا ہے کبھی نظریں بچا کر اور کبھی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر کہ جیسا موصوف نے کیا ہے۔


افسانہ "گلاب، کانٹے اور کونپل" مایوسی کی ظلمت میں امید کا چراغ روشن کرتا ہے۔ اس افسانے میں مصنف کا ایک پر امید اور صحت مند نظریہ ابھر کر آتا ہے۔ کتاب اللہ میں بھی ہےکہ مایوسی کفر ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے کے بعد چمکیلی صبح ضرور ہوتی ہے اور قدرت کے یہ نظارے ہمیں درس دیتے ہیں کہ

where there is will, there is way.

لاکھ برائیاں جنم لیں اچھائی جینے کا حوصلہ دیتی رہتی ہے۔ یہاں مصنف کا ایک نقطہ فکر یہ بھی ہے کہ ہم صرف طالب کیوں ہیں؟کیا ہم سماج کو دنیا کو کچھ دےنہیں سکتے ؟ اس افسانے کا مرکزی کردار صدر مجلس کو یہ احساس ستاتا ہے کہ ہم محض اپنےلئے جیتے ہیں اور ہماری ذہنی وسعت اس بات پر آکر رک جاتی ہے کہ کچھ نہیں ہو سکتا، یہ افسانہ ایسے شکست خوردہ احساس کی تردید کرتا ہے۔ افسانے کا یہ اقتباس دیکھیں جو نوجوان صدر کی زبانی ادا کیا جاتا ہے، اچھا کرنے کی ہمت اور حوصلے کو کتنا بڑھاتا ہے۔
"مانا کہ سب کچھ تباہ ہو چکا ہے، گلاب کے پودے میں گلاب کم کھلے ہیں اور کانٹے بےشمار ، لیکن ہم نت نئی پھوٹتی کونپلوں کے وجود سے بے خبر ہیں۔ ہمیں اس لئے اس پودے کی آبیاری کرنا ہے کہ ابھی امید کی کونپلیں زندہ ہیں"
متذکرہ افسانے کو ملک کے بدلتے حالات کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔


موصوف کا نظریہ ان کے افسانوں میں مثبت ملتا ہے ویسا ہی ایک مثبت پیغام افسانہ "اداس رات کا چاند" میں بھی ملتا ہے۔ افسانہ نگار نے چاند کی بے لوث خدمت سے ایک پیغام دیا ہے کہ جس طرح چاند اندھیرے کو چیر کر اپنی بساط تک روشنی پہنچاتا ہے اور اسے کسی کے ردعمل سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اپنا نصب العین جانتا ہے۔ ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں ہر سمت ہزاروں سوالات چنگھاڑتے پھرتے ہیں اور ایک بھی معقول جواب نہیں ملتا ایسی صورت میں عمل کے ذریعہ ان سوالوں کا جواب دینا قدرے بہتر ہے۔ افسانے میں صنف نازک کی مناسبت سے چاند کا استعارہ بہت خوب ہے۔ چاند کی جو قدر و منزلت ہے اس کی خوبصورتی سے زیادہ اس کے کام سے ہے جو وہ روز ازل سے انجام دیتا آ رہا ہے۔ موصوف نے تعلیم کیحصولیابی کا مقصد بھی واضح کیا ہے کہ اچھی طرز زندگی ہی تعلیم کا مقصد نہیں بلکہ معیاری زندگی اور فکر و عمل کی خوبصورتی کا حاصل ہونا ہی اس کا اصل حاصل ہے۔


افسانہ "کرن" کا موضوع نیا نہیں اور نہ ہی افسانوی فضا بندی سے مزین ہے مگر ایک اصلاحی پہلو ہے جو قاری کو دعوت فکر دے رہا ہے۔ مفاد پرستی کی اس دنیا میں انسان اس قدر مصروف ہو گیا ہے کہ اس میں اور مشین میں صرف سانس لینے کا فرق رہ گیا ہے۔ اخلاقی اقدار کب کے پامال ہو چکے ہیں اب ان کی راکھ اٹھانی باقی ہے۔ موصوف نے اپنے اس افسانے میں سیدھی بات کی ہے اور لکھاری کا یہ انداز تخاطب بھی اس کی انفرادیت مختص کرتی ہے۔ اس افسانے میں تخیل کے ساتھ زمانے کے بدلتے مزاج کا امتزاج ملتا ہے۔ حقیقت نگاری کی فضا میں رقم کیا ہوا یہ افسانہ ہمیں اس مدبر کی یاد دلاتا ہے جو دادی کی کہانیوں میں کار خیر کو توشۃ آخرت بتاتا تھا مگر ترقی کے اس دور میں اس مدبر کی بات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ مصلحت کی ردا اوڑھا آدمی زمین پر رہ کر بھی زمین کا نہیں۔ نام و نمود کی خاطر لمحوں کی محبت یا محبت کی نمائش سے لوگوں کی واہ واہی تو بٹوری جا سکتی ہے پر اسے کار خیر گرداننا قطعئ خام خیالی ہے۔


مجموعے میں شامل افسانے موصوف کے بیدار ذہن کا پتہ دیتے ہیں۔ ان تمام افسانوں میں احساس کا ایک سفر ملتا ہے۔ مکرم نیاز کے افسانوں میں ایک حساس دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں وہ جو ان کے فن کی معنویت میں اضافے کا باعث ہے۔ ان کا اسلوب بہت شگفتہ ہے اور قوت اظہار میں فنی مہارت کے نقوش ابھرے اور خوش رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں کو پڑھنے کے بعد یہ تاثر بھی قائم ہوتا ہے کہ انہوں نے افسانے کو محض تسکین ذوق کی خاطر رقم نہیں کیا بلکہ اپنے افسانوں میں ایک توانا فکر اور پر امید نظریہ بھی پیش کیا ہے۔


ایک تخلیق کار کا ذاتی تجربہ ہمیشہ اس کے پیش نگاہ رہتا ہی ہے۔ حسن کی متلاشی نگاہیں جمالیات ڈھونڈ ہی لیتی ہے ٹھیک وہیں سے، جہاں حسن کی تلاش سنگلاخ چٹانوں میں پھول کھلانے کی مماثل ہے۔ موصوف کے ذاتی تجربے کی جھلک کہیں کہیں افسانوں کی اوٹ سے جھانکتی دکھائی دیتی ہے مگر پرواز فکر نے ان کے موضوعات کا کینوس وسیع کر دیا ہے اور ان کا رخ اجتماعیت کی جانب موڑ دیا ہے، اسے فنکاری کہتے ہیں۔ ایک بہترین فنکار موضوعات کی تلاش میں صحراؤں کے چکر نہیں کاٹتا اور جنگلوں میں صدائے بے حاصل نہیں لگاتا۔ اس کے موضوعات اس کی آنکھوں کے سامنے اپنے رقم ہونے کا متمنی ہوتے ہیں اور مکرم نیاز جیسے فنکاروں کی زینت قلم بننے کا مشتاق ہوتے ہیں۔


مجموعہ ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے حسین ہے۔ متن کے قبل افسانوں کے تعلق سے جو اشارہ ملتا ہے بہت خوب ذہنی اپج ہے، بہت خوب لگا۔ افسانوں کے اختتام پر اس افسانے کی اشاعت کی تفصیل بہت متاثر کرتی ہے۔ ترتیب و تزئین لاجواب ہے۔ عمدہ کاغذ کے ساتھ طباعت کا حسن خراج تحسین کا حقدار ہے۔ سرورق کا تصور بہت واضح اور دلکش ہے۔ مجموعے میں شامل آراء موصوف کے فن سے جامع گفتگو پیش کرتے ہیں نیز قاری سے متعارف کراتے ہیں۔ کتاب کی پشت پر پروفیسر شافع قدوائی کی رائے بہت خوب ہے۔ ایک بات کی داد پیش نہ کرنا غیر دیانتداری ہوگی کے موصوف نے ان آراء کو بھی شامل کیا ہے جو فیس بک پر انکے افسانے کے تعلق سے پیش کی گئی ہیں۔
میں پر امید ہوں کہ ادبی حلقوں میں اس مجموعے کی بھر پور پذیرائی ہوگی۔ میں اس خوبصورت مجموعے کی اشاعت پر مکرم نیاز کو ڈھیروں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید قوی رکھتا ہوں کہ ان کا قلم افسانوی ادب میں ایسے ہی گل بوٹے کھلاتا رہے گا۔ آمین


ماخوذ بشکریہ از: بلاغ-18 ڈاٹ کام
***
nasimashk78[@]gmail.com
موبائل : 09339966398
ہولڈنگ نمبر 10/9، گلی نمبر 3، جگتدل، 24 پرگنہ، مغربی بنگال۔
نسیم اشک

Raaste khamosh hain, A collection of short stories by Mukarram Niyaz. - Reviewer: Nasim Ashk

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں