یقین محکم عمل پیہم کی مثال : محمد ثاقب عالم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-22

یقین محکم عمل پیہم کی مثال : محمد ثاقب عالم

(حالیہ یو پی ایس سی امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے محمد ثاقب عالم سے زید مشکور کی خاص بات چیت)


یوپی ایس سی یعنی یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحان کو ہندوستانی معاشرہ میں جو اہمیت حاصل ہے ، وہ ہندوستان کے کسی اور مقابلہ جاتی امتحان کو نہیں، یہ ہندوستان کا سب سے اہم اور عظیم امتحان تصور کیا جاتا ہے، اسی لئے ہر ایک طالب علم کی دلی تمنا ہوتی ہے، کہ وہ اس امتحان میں کامیابی حاصل کرے، اور ہر اک والدین کی بھی دیرینہ خواہش ہوتی ہے، کہ اس کا بچہ اس عظیم حصولیابی تک پہنچ کر ملک و ملت کی خدمت کرے، اور ان کا نام روشن کرے۔
اس منزل کی طرف کوچ کے لیے لاکھوں مسافرین رخت سفر باندھتے ہیں، کچھ چند میل ہی چل کر راہ کی مشکلات پر شکوہ کناں ہو جاتے ہیں، تو کچھ منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی حوصلہ توڑ جاتے ہیں، لیکن ان کے درمیان کچھ ایسے بھی ہوتے جو راستہ کی ساری مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیتے ہیں، راہ کی کوئی چٹان اور موسم کا کوئی طوفان ان کے فولادی عزم توڑ نہیں پاتا ہے۔
آئیے ! آپ کو ایسے ہی ایک حوصلہ مند نوجوان اور لکھنؤ کے لال محمد ثاقب عالم سے روبرو کراتے ہیں، جنھوں نے کئی بار ناکامی کے باوجود اپنے آپ کو ثابت قدم رکھا، اور بالآخر اس بار کے یو پی ایس سی امتحان میں آل انڈیا 279 واں رینک حاصل کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔


زید مشکور :
سب سے اپنا تعارف کرانے کی آپ سے گزارش ہے۔
محمد ثاقب :
میرا نام محمد ثاقب عالم ہے، میں لکھنؤ کے ابرار نگر کا باشندہ ہوں، والد صاحب کا نام محمد شمشاد عالم ہے، جو کہ پنجاب نیشنل بینک میں بینک منیجر کے عہدے سبکدوش ہوئے ہیں، اور ماں کا نام افسر جہاں ہے، جو کہ خاتون خانہ ہیں، میرے بڑے بھائی محمد عامر عالم صاحب ہیں، جو فی الحال بینک میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔


زید مشکور :
اپنے تعلیمی سفر سے بھی قارئین کو روشناس کروائیں۔
محمد ثاقب :
میری تعلیم کی شروعات لکھنؤ سے ہی ہوئی ہے، میں نے یہاں کے فورٹ ولیم کالج سے انٹر تک کی تعلیم حاصل کی ہے، پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے منسلک ہوکر میکینکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا ہے، اور گریجویشن مکمل کرنے کے بعد مہندرا کمپنی پونے میں ملازمت کے لئے میرا تقرر ہوا۔


زید مشکور :
آپ کا اس بار کون سا اٹیمپ تھا، اس سے پہلے آپ نے کتنی بار یو پی ایس سی امتحان میں شرکت کی، اور کہاں تک پہنچے؟
محمد ثاقب :
یہ میرا چھٹا اور آخری اٹیمپ تھا، کیونکہ جنرل امیدوار کے لئے چھ ہی مواقع ہوتے ہیں، اس سے پہلے میں نے دو پریلمس اور تین مینس لکھے، اور اس بار الحمدللہ میں انٹرویو تک پہنچا۔


زید مشکور :
آپ نے کب سے اس کی تیاری شروع کی، اور کس طرح سے کی ؟
محمد ثاقب :
اس کی طرف 2016 میں میرا خیال گیا، میں نے ملازمت کے ساتھ ساتھ یو پی ایس سی امتحان کی تیاری شروع کی تھی، دو سال تک ملازمت اور پڑھائی دونوں ساتھ ساتھ جاری رہیں، دس گیارہ گھنٹے آفس میں کام کے بعد چار پانچ گھنٹے پڑھتا تھا، بہت مشکل ہوتا تھا مگر کرتا تھا، میں نے ملازمت کے ساتھ دو اٹیمپ دیئے، مگر خاطر خواہ نتائج نہ ملنے پر 2018 میں ملازمت سے مستعفی ہو کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریزیڈنشیل کوچنگ کا داخلہ امتحان دیا، اور کامیاب رہا۔ پھر وہیں سے منسلک ہو کر پڑھائی و تیاری پر مکمل وقت دینا شروع کیا، کئی بار ناکامی ہاتھ لگنے کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری، اور نہ ہی اپنے حوصلہ کو ٹوٹنے دیا، میں جہد مسلسل اور عمل پیہم کے ساتھ اپنی منزل کے طرف رواں دواں رہا، بالآخر کامیابی نے قدم چوما، اور الحمدللہ اس بار کے امتحان میں 279 رینک حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔


زید مشکور :
کئی بار ناکام ہونے کے باوجود اس میدان کو چھوڑ دینے کے بات آپ کے ذہن میں نہیں آئی ؟
محمد ثاقب :
نہیں ! میں نے کبھی ہمت نہیں ہاری، ہر بار نئے جوش ولولہ کے ساتھ کمر کسی، میں نے جنون کی حد تک محنت کی، اور مکمل نظام کے ساتھ اپنے خاص طریقے پر امتحان کی تیاری کی، جس کا مجھے فائدہ ہوا، اور اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے، مجھے‌ پہلے بھی یقین تھا، اور اب تو پورا یقین ہو گیا ہے، کہ محنت کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی، میرا ماننا ہے جو محنت کرے گا، اس کو محنت کا پھل ضرور ملے گا، خواہ دیر میں ہی کیوں نا ملے، محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی ہے۔


زید مشکور :
اپنی پڑھائی کے اس خاص طریقہ کار کی وضاحت کیجئے، جس کو آپ نے اپنی تیاری میں مسلسل شامل رکھا۔
محمد ثاقب :
تیاری کے دوران میری عادت رہی ہے، کہ میں نے ایک مضمون کو مکمل کرکے ہی دوسرے مضمون کو ہاتھ لگایا، یہ نہیں کہ ایک دن میں چند اوراق پالیٹیکس، چند اوراق ہسٹری، اور چند اوراق جغرافی کے پڑھے ہوں، ایسا تو نہیں کیا۔ اگر ہسٹری کو اٹھایا تو پہلے سے ہی متعین کر لیا، کہ ایک ہفتہ میں ہسٹری کو ختم کر دینا ہے، اور پھر ہسٹری مکمل کر کے ہی اگلے ہفتہ کے لئے کوئی نیا مضمون متعین کیا، البتہ کرینٹ افریئرس کو روزانہ وقت دیا، یہ میرا اپنا طریقہ کار رہا ہے، ہر کسی کا اس متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


زید مشکور :
آپ نے اپنے آپشنل میں کس سبجیکٹ کا انتخاب کیا اور کیوں کیا ؟
محمد ثاقب :
میں نے اپنے آپشنل سبجیکٹ میں سائکلوجی کا انتخاب کیا، حالانکہ یہ میرا اکیڈمک مضمون نہیں رہا ہے، مگر مجھے پچپن سے ہی نا معلوم اشیاء کے بارے میں جستجو کا شوق رہا ہے، انسانی رویہ اور مزاج بھی کچھ ہی ایسی چیزیں ہیں، جو بہت حد تک مخفی رہتی ہیں، یہ سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے، کہ ہمارے سامنے والے انسان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، اور کیا سوچ رہا ہے ، سو مجھے شروع سے ہی انسانی رویہ کے سلسلے میں تجسّس رہا ہے، اور تھوڑا سا مجھے لگا کہ میں انسانی مزاج کو اچھے سے پرکھ اور سمجھ سکتا ہوں، لہذا میں نے سوچا چلو اس کو سائنسٹفک طریقے سے کرتے ہیں، کیونکہ سائکلوجی میں بھی سائنٹفک اکسپرمنٹ اور میتھمیٹکل ماڈلس ہوتے ہیں، کل ملا کر اس کا نصاب میرے موافق تھا، مگر اس مضمون کے ساتھ مسئلہ یہ ہے، کہ اس کا زیادہ مواد و مٹیریئل فراہم نہیں ہے، اور نا ہی اس کےخاص وسائل موجود ہیں، مگر پھر بھی میں نے ذاتی طور پر اس کی تیاری کی، اور بہت حد تک کامیاب رہا۔


زید مشکور :
تب تو مستقبل میں آپ کے لئے آسانی رہے گی، کہ آپ تو فریادی کے چہرے کو ہی پڑھ کر معاملہ کی حقیقت تک پہنچ جائیں گے۔
محمد ثاقب :
جی بھائی ( ہنستے ہوئے) کیوں نہیں مجھے تو یہ شوق شروع سے ہی رہا ہے، کام کرتے وقت آسانی ہی رہے گی۔


زید مشکور :
آپ سے وہی گلہ و شکوے والا سوال ہے، ( مسکراتے ہوئے ) کیا انگلش میڈیم والوں کو بالمقابل دیگر کے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے؟ ویسے آپ بھی انگلش میڈیم سے ہی ہیں۔
محمد ثاقب :
نہیں زید صاحب ! ایسی بات ہرگز نہیں ہے، یہ بات معاشرے میں غلط رائج ہے، اس بار دیکھیں تو ہندی میڈم والوں نے کافی اچھا کیا ہے، ہندی میڈم کا رزلٹ بہتر رہا ہے، یو پی ایس سی میں آپ کا کنٹنٹ (معلومات و مواد ) معنی رکھتا ہے، نہ کہ لنگویج، جتنا اچھا کنٹنٹ ہوگا، اتنا اچھا نتیجہ آئے گا۔


زید مشکور :
اب آپ کس سروس کو منتخب کرنا پسند کریں گے ؟
محمد ثاقب :
سروس کا انتخاب انڈین گورنمنٹ کے ایک سسٹامیک پروسیس سے ہوتا ہے، اس میں رینکنگ ، کٹیگری کا بڑا دخل ہوتا ہے، نہ کہ ذاتی خواہشات کا، لہذا اس سلسلے میں کوئی بات کہنا قبل از وقت ہوگی۔


زید مشکور :
ساری چیزوں کا انتخاب سسٹامیک ہوتا مگر پھر بھی آپ کس کیڈر میں جانا پسند کریں گے۔
محمد ثاقب :
جی بھائی ! اس کا بھی انتخاب زون وایز اور پھر اسٹیٹ وائز وغیرہ کے پروسیس سے ہو کر گزرتا ہے ، ویسے میں نے اترپردیش، راجستھان، مہاراشٹر اور بنگال وغیرہ کو اپنی چوائس فلنگ میں جگہ دی ہے۔


زید مشکور :
آپ کو کیا لگتا ہے کہ کس شعبہ میں آپ کو کام کرنے کی ضرورت ہے؟
محمد ثاقب :
تقریباً سارے شعبہ ہی ہماری خدمات کے ضرورت مند ہوتے ہیں، مگر پھر بھی میں تعلیمی شعبہ کو اولیت دوں گا، کیوں کہ میرے حساب سے اس شعبہ میں ابھی بھی کام کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور سے دیہی علاقوں میں اچھی اور ٹیکنیکل تعلیم کی اشد ضرورت ہے، اور تعلیم تو انسان کا زیور ہے۔


زید مشکور :
آپ سے ایک خاص اور میرے نزدیک بہت اہم سوال ہے، کہ یو پی ایس سی جیسے گہرے سمندر میں اردو کی کشتی پر سوار مسافروں کو آپ کہاں پر دیکھتے ہیں ، اور ان کے لئے کیا مشورہ ہے ؟
محمد ثاقب :
زید صاحب ! آپ نے بڑا خوبصورت سوال رکھا ہے ( مسکراتے ہوئے) اردو ایک پیاری زبان ہے، مجھے اچھی اردو سیکھنے کی خواہش ہے، اردو والوں کو اس میدان میں آنا چاہیے، کیوں کہ جہاں ایک طرف ان کا تلفظ بڑا پیارا ہوتا ہے، تو وہیں دوسری طرف شعر و شاعری اور ادبی اقتباس پڑھتے پڑھتے ان کا تخیل کافی اعلی ہوتا ہے۔ اور یہ چیز ان کی ذہنی ترقی میں معاون اور شخصی خود اعتمادی میں مددگار ثابت ہوتی ہے، میرے کئی جاننے والے اردو میڈیم سے ہیں، جنھوں نے کافی اچھا مظاہرہ کیا ہے۔ اور آج سول سروس میں اپنی خدمات دے رہے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ اس امتحان میں زبان کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کرتی ہے، لنگویج کی بنیاد پر کسی کو نظرانداز نہیں کیا جاتا ہے، آپ کی معلومات اور کنٹنٹ ( مواد ) اہمیت رکھتا ہے، آپ خراب معلومات لکھیں ، غلط جواب دیں، اور صرف لنگویج پر ڈپینڈ ہو کر اچھے نمبرات کے متمنی رہیں، تو آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ لہذا اردو میڈیم والوں کو بھی بغیر کسی تردد کے اس میدان آنا چاہیے، ان کے لیے بھی بغیر کسی رکاوٹ کے یو پی ایس سی کے تمام دروازے کھلے ہیں۔


زید مشکور :
آپ سے ایک آخری سوال کہ اس میدان میں آنے کے خواہشمند افراد کو آپ عمومی طور پر کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
محمد ثاقب :
اس میدان میں آنے کے متمنی طلبہ سے یہ کہنا چاہوں گا، کہ اچھی نوکری، عمدہ سہولیات اور بہترین اتھارٹی کی لالچ میں اس میدان کو منتخب مت کریں، ملک و ملت کی خدمات کا جذبہ لے کر ہی آئیں۔ اور نہ ہی فوری جذبات میں آکر اس میدان کا انتخاب کریں، کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے، کہ یو پی ایس سی آپ سے طویل وقت مانگتی، اس دوران جب آپ کئی بار ناکام ہوتے ہیں، تو آپ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، اور کبھی کبھی ڈسپریشن کا میں بھی چلے جاتے ہیں۔ اور اس کے نتیجہ میں آگے کے مواقع بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ آپ بیرونی تحریک کے بجائے اندرونی محرکات کے سہارے اس میدان میں قدم رکھیں، کیونکہ یو پی ایس سی کے طویل سفر میں بسااوقات ناکامی کے باوجود بھی یہ چیز آپ کو حوصلہ مند رکھتی ہے۔

***
زید مشکور (لکھنؤ، اترپردیش)
ای-میل: shaikhzaid947[@]gmail.com
زید مشکور

UPSC 2021 qualified Mohammad Saquib Alam, an interview. Interviewer: Zaid Mashkoor

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں