حیدرآباد دکن کی اولین افسانہ نگار خواتین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-13

حیدرآباد دکن کی اولین افسانہ نگار خواتین

hyderabad-deccan-first-female-urdu-fiction-writers

مختصر افسانہ بیسویں صدی کے اوائل کی پیداوار ہے۔ بیسویں صدی میں تیز تر ترقیوں نے زندگی کے تقاضوں کو بھی متاثر کیا۔ لہذا ادب کے متعلق قاری کے بیانات بھی بدلے۔ برق رفتار زمانہ میں کم وقت میں افسانہ پڑھ کر قاری اپنے ذہن کو سکون و انبساط مہیا کرتا ہے۔ افسانے کی اسی خصوصیت نے مشینی و تیز رفتار دور میں اسے سب سے مقبول صنف بنا دیا ہے۔ حیدر آباد کئی صدیوں سے علم و ادب کا گہوارہ اور شعروسخن کامسکن رہا ہے۔ یہاں ہر دور کے حکمراں علم و ادب سے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ ان کی علم اور ادب پرستی نے عوام میں بھی ذوق اور دلچسپی پیدا کی۔ ان کے حوصلے بڑھائے اور ادبی ذوق کی آبیاری کی۔ عرصہ دراز سے ادیب ، داستان ، اور طویل قصے کہنے اور لکھنے کے ہنر سے واقف تو تھے ہی ، زمانے کی ضرورتوں اور بدلتے تقاضوں نے ابتدائی افسانہ نگاروں سے مختصر کہانیاں بھی لکھوائیں، مگر داستانی رنگ و روایت سے وہ پورے طور پر اپنا دامن نہ بچا سکے۔ حیدرآباد کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں بیگم صغرا ہمایوں مرزا ، عظمت اللہ خاں اور رگھوناتھ راو درد خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جامعہ عثمانیہ سے وابستہ ڈاکٹرمحی الدین قادری زور اور پروفیسر عبدالقادر سروری نے بھی اس جدید صنف ادب کے ابتدائی دور میں خیر مقدم کیا اور کئی افسانے تحریر کیے۔


حیدرآباد کی خواتین میں صغرا ہمایوں مرزا (1884ء۔1959ء) پہلی مسلم خاتون ہیں جنہوں نے کہانیاں لکھیں اور اپنی تصانیف اور کارناموں سے بین الاقوامی شہرت کی حامل ہوئیں۔
صغرا ہمایوں مرزا 1884ء میں حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر علی مرزا فوج میں سرجن تھے۔ صغرا ہمایوں مرزا کی شادی 1901ء میں پٹنہ کے بیرسٹر ہمایوں مرزا سے ہوئی۔ ہمایوں مرزا ترقی نسواں کے حامی تھے۔ انھوں نے خواتین کی تعلیم وترقی کے لیے حیدر آباد کے دیگر افراد کے ساتھ مل کر بڑی کوششیں کیں۔ صغرا ہمایوں مرزاخوش قسمت تھیں کہ تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئیں اور انھیں اعلی تعلیم یافتہ اور روشن خیال شخص کا ساتھ نصیب ہوا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ صغرا ہمایوں مرزاکے مزاج میں بھی ترقی پسندی اور روشن خیالی تھی۔ انہوں نے خواتین کی ترقی اور اصلاح کے لیے ایک ایسے دور میں پردے سے آزاد ہو کر جلسوں میں تقریریں کیں جس دور میں سخت پردے کا نظام رائج تھا۔ وہ ایک بہترین شاعرہ بھی تھیں۔ اور انھوں نے اپنی ادارت میں رسالے نکالے۔ ان کی طبیعت کو نثر نگاری سے زیادہ مناسبت تھی۔ اسی لیے زیادہ تر نثر ہی میں ان کی تصانیف ہیں۔ انہوں نے افسانوں کے علاوہ کئی ناول بھی لکھے مثلا سرگزشت ہاجرہ ،مشیر نسواں اور موہنی قابل ذکر ہیں۔ ان کی ابتدائی کہانیوں یا افسانوں کے تعلق سے انیس قیوم فیاض رقمطراز ہیں:


"اردو میں پریم چند افسانہ نگاری کے باوا آدم کہلائے جاتے ہیں۔ انہوں نے پہلا افسانہ "دنیا کا سب سے انمول رتن" غالباً 1905ء میں لکھا تھا جو بعد میں سوز وطن میں شامل ہوا۔ پریم چند کے سوز وطن اور سجاد حیدری کے خارستان و گلستان سے قبل بیگم صاحبہ کے قصے وجود میں آ چکے تھے۔"
(حیدرآباد میں افسانہ نگاری۔ص 32)


نصیر الدین ہاشمی نے صغرا ہمایوں مرزا کو حیدرآباد کی پہلی افسانہ نگار قرار دیا ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون "حیدرآباد کی افسانہ نگار خواتین" میں لکھتے ہیں کہ:
"صغرا ہمایوں مرزا حیدر آباد کی قدیم افسانہ نگار خاتون ہیں اگر چہ آپ افسانہ نگاری کی طرف متوجہ نہیں ہیں مگر یہ واقعہ ہے کہ صغرا بیگم حیدرآباد کی پہلی افسانہ نگار خاتون ہیں۔"
(ماہنامہ آجکل جلد 10 ، نمبر2 ستمبر1951 ، ص:26)


اگرچہ کہ ان کے قصوں میں قدیم روایات کا عکس اور داستان اور ناول کے ملے جلےاجزاء موجود ہیں۔ لیکن انھیں صنف افسانہ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹرش اختر نے صغرا ہمایوں مرزا کی پہلی تصنيف"مشیرنسواں یاز ہرہ" کو پہلا افسانوی مجموعہ قرار دیا ہے جو 1904ء میں وجود میں آ چکی تھی۔
(عدسہ، خواتین افسانہ نگار کا ایک تقابلی اور تجزیاتی مطالعہ، ص15۔16)


ڈاکٹر زینت ساجدہ نے بھی کچھ اسی طرح کی بات کی ہے۔
"ان کے ناولوں کو قصہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔"
(حیدرآباد کے ادیب ، انتخاب نثر جلد دوم ص 249)


اس قضیہ کی بنیاد در اصل یہ ہے کہ ایک تو ان کے ناول بہت مختصر ہیں اور ان قصوں میں افسانہ کے تمام فنی لوازم اور اجزاء موجود نہیں ہیں۔ دوسرے یہ ناول اور قصوں کی ٹیکنک میں لکھے گئے ہیں۔ اپنے ابتدائی دور میں کسی بھی تحریک یا صنف ادب کے خدوخال اکثر پوری طرح واضح نہیں ہوتے۔ صغرا ہمایوں مرزا کی تصنیفات میں بھی اسی طرح کی کیفیت موجود ہے۔ تاہم یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ افسانے کے آغاز اور نقوش اول کی بات جب بھی ہوگی حیدرآباد کی اس خاتون کا نام ضرور لیا جائے گا۔


جہاں بانو نقوی 1909ء میں ضلع رائچور کر ناٹک میں پیدا ہوئیں۔ وہ ننھیال سے ایرانی تھیں۔ ان کے نانا مرزا نصرالله مشاہیر ایران میں سے تھے۔ وہ نہ صرف سرکار نظام کے اعلی عہدیدار، بلند پایہ مورخ اور ادیب تھے بلکہ اعلی حضرت میر عثمان علی خان کے اتالیق بھی تھے۔ جہاں بانو نقوی کی مشہور مطبوعات میں رموز خانہ داری ، فتراک ، بربط ناہید ، مولانا محمد حسین آزاد، ولی کا فن شاعری ، عرب اور عربستان کے علاوہ رفتار خیال ہے۔ "رفتار خیال" میں سات مضامین کے علاوہ دس افسانے بھی شامل ہیں: قید حیات بندِ غم، محبت کی اندھیر نگری، شہید تغافل، زخم پنہاں ، دریچہ ، امتداد زمانہ، بادہ تلخ، ثمرہ غفلت ، صلہ کامیابی، نئی اور پرانی گڑیا ہیں۔ ان افسانوں میں ان کا اسلوب بڑادلکش ہے۔ نثر میں شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ جس سے قاری لطف اندوز ہوتا ہے۔ رفتار خیال کے افسانے عورت کے مسائل پر مبنی معاشرت کے عمدہ مرقعے ہیں ، عورت کے جذبات اور احساسات کی تصویرکشی میں جہاں بانو نقوی کو قدرت حاصل تھی۔ انہوں نے ہمیشہ عورت کو با وفا ثابت کیا ہے۔ جو شوہر کی مرضی کا ہمیشہ احترام کرتی ہے۔


عزیر النساء حبیبی کا شمار جامعہ عثمانیہ کے ترقی پسند دور کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق حیدرآباد کے رئیس اور تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ" تم بڑی سنگ دل ہو" ہے۔ جس میں چند رومانی اور مابقیہ معاشرتی افسانے ہیں۔ عزیز النساء کے افسانے پڑھنے سے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ عورت مرد کی بنسبت معصوم، نیک دل، باوفا ، اور جذبہ ایثار کا نمونہ ہوتی ہے۔ افسانہ "شہلا" محبت کی ایسی کہانی ہے جس میں عورت جب ایک بار راہ محبت میں قدم اٹھاتی ہے تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتی۔


عزیز النساء نے اپنے افسانوں میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک مشرقی عورت خواہ جتنی بھی بیباک اور ترقی پسند ہومگر اس کا دل مشرقی ہوتا ہے۔ وہ اپنے شوہر سے بہت پیار کرتی ہے اور ان سے بھی محبت ، ہمدردی اور اعتماد کی تمنا کرتی ہے۔ عزیز النساء نے اپنے تجربوں اور مشاہد وں کو اپنے افسانوں میں سمو دیا ہے۔ جس سے معاشرے کا رنگ حقیقی نظر آتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں کے بارے میں لکھتی ہیں:
"ہندوستانی عورت کی بے بسی کو دیکھ کر میں نے بارہا سوچا کہ وہ عورت جس کے بغیر مرد ایک پل ٹک نہیں سکتا، جو بیوی بن کر لاکھوں دلوں پر حکومت کرتی ہے جو سرتاپا ہمدرد ہوتی ہے۔ ماںبن کر قربانی کا جیتا جاگتا نمونہ نظر آتی ہے حضور نے جس کے قدموں تلے جنت کی نشاندہی کی ہے وہ مشرق میں کمزور ہے بس کنیز کے سوا کچھ نہیں ، انہیں پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے میں افسانےلکھتیہوں۔"


افسانہ "چاند بے نور ہو گیا" عورت کی بے بسی اور بے چارگی کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ عزیز النساء نے سماج کی خرابیاں اور عورت کے ساتھ جو نا انصافیاں دیکھیں انہیں اپنے افسانوں میں پیش کر دیا۔ ان کا ہر افسانہ عورت کی زندگی کے کسی نہ کسیخاص پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔ ابراہیم جلیس" بڑ ی سنگ دل ہو "کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں:
عزیز النساء کو سماج میں عورت کی توہین پر غصہ ہے۔ ان کی نظر میں عورت ایک قابل فروخت جنس کے سوا کچھ نہیں۔ عورت کو سماج نے انسان بھی نہیں سمجھا۔ وہ سماج کی اس نا انصافی پر شدت سے احتجاج کرتی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ عورت کو عورت سمجھا جائے۔ عورتجنس نہیں انسان ہے، وہ خریدی جائے نہ بیچی جائے۔"


رفیعہ منظور الامین اپنے افسانوں اور ناولوں کے انفرادی لب و لہجہ اور طرز ادا کی بناء پر ادب کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ وہ حیدر آباد کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ انکے تین ناول ، سارے جہاں کا درد (1974ء)، عالم پناہ (1983ء)، یہ راستے یہمرحلے (1995ء) ہیں۔ اور دو افسانوی مجموعے" دستک سی در دل پر" (1989ء) ، اور" آہنگ" (2000ء ) ہیں۔ رفیعہ منظور الامین کو اردو ادب سے بہت دلچسپی تھی اور بچپن ہی سے کہانیاں لکھنے کا بڑا شوق تھا۔ ان کے افسانے سماج کے لیے آئینہ کا کام کرتے ہیں۔ زبان عام فہم اور آسان ہوتی ہے، ان کے افسانے مختلف رسائل میں چھپتے رہے ہیں۔ اردو ادب میں ان کی حیثیت بلند اور مستحکم ہے۔


ادبی دنیا میں ایک مقبول و معروف نام زینت ساجدہ کا ہے۔ جو حیدرآباد کی خواتین افسانہ نگاروں میں ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ انہوں نے بڑی جرأت کے ساتھ سماج کے گھناونے واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔ یہی ترقی پسند ادیب کا کمٹمنٹ بھی تھا۔ بے پناہ حقیقت نگاری کے بناء پر ان کے کردار زندہ اورمتحرک معلوم ہوتے ہیں۔ انہیں سماج میں عورت کی ناقدری کا احساس ہے، وہ انسانی نفسیات سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ انہیں خصوصیات کی وجہ سے ان کے افسانے دل کو چھوتے اور ہمیں متاثر کرتے ہیں۔
زینت ساجدہ کا پہلا افسانوی مجموعہ "جلترنگ "ہے۔ جو حیدرآباد کے ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا اور ان کی شہرت کا باعث بنا۔ اس مجموعہ میں دس افسانے ہیں۔ جن کے موضوعات مختلف ہیں مگر ہیں بڑے خوبصورت مثلا: پروانے ، کھلاڑی، بی بی ، کنول رانی ، یو نیورسٹی روڈ پر، شہزادی ، مذاق، پارو، بجھتا ہوا شعلہ، آخری لمحہ۔ اس مجموعہ میں شامل افسانہ "بی بی "کوخودزینت ساجدہ سب سے بہتر کہانی قرار دیتی ہیں، جلترنگ میں ص 16 پر وہ رقمطراز ہیں:
"یہ ساری کہانیاں حقیقی ہیں صرف افسانوی مبالغہ سے کام لیا گیا ہے۔"


جلترنگ کے بعد بھی ان کی کئی کہانیاں شائع ہوئیں جو فکرو شعور موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے جلترنگ کی کہانیوں سے بلند معیار کی ہیں۔ شاید اسی لیے جلترنگ کی کہانیوں کو وہ تجربے کا نام دیتی ہیں۔ جلترنگ پررومانیت غالب ہے مگر بعد کی کہانیاں خواتین کے مسائل، ان کی مظلومیت اور عدم مساوات پر مبنی ہیں جو کئی مقام پر ہمیں دعوت فکر دیتی ہیں۔ افسانہ روشنی، اوتار، زنجیر یں اور اجنبی اس کی روشن مثالیں ہیں۔ یونیورسٹی روڈ پر ایسا افسانہ ہے جس میں امراء اور اونچے طبقے کی خود غرضی، مطلب پرستی ، اور بےحسی پرلطیف انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔


پروفیسر رفیعہ سلطانہ صرف بلند پایہ محقق اور نقاد ہی نہیں بہترین افسانہ نگار بھی ہیں۔ آپکی پیدائش 24 ؍دسمبر 1924 کو اورنگ آباد میں ہوئی جہاں ان کے آباء واجدا دلکھنؤ سے آکر بس گئے تھے۔ آپ کو بچپن ہی سے علم و ادب سے لگاؤ تھا۔ آپ نے کئی علمی وادبی کارنامے انجام دیے ہیں۔ 1949ء میں دلچسپ اصلاحی افسانوں کا مجموعہ" کچے دھاگے" ترتیب دیا جس میں 19 افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے کے بیشتر افسانے نفسیاتی حقائق پر مبنی ہیں۔ افسانہ کھنڈر ایک ایسے ہی نفسیاتی الجھن کے شکار مرد کی کہانی ہے جس کا دل اور زندگی ایک کھنڈر کی مانند ہے جس میں بھی کوئی عورت آباد نہیں ہوسکی۔
رفیعہ سلطانہ انگریزی ادب اور مغربی تحریکوں سے بھی متاثر معلوم ہوتی ہیں " کچے دھاگے" میں رفیعہ سلطانہ نے اعلی تعلیم یافتہ سوسائٹی پر خوب گرفت کی ہے اور چند بڑی فکر انگیز باتیں کہی ہیں جو ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور کر تی ہیں۔ ایسی باتیں جو معیاری سماج کی تشکیل و تعمیر میں معاون ہوسکتی ہیں۔ ان کے افسانوں کے بارے میں نصیرالدین ہاشمی لکھتے ہیں:
"موجودہ دور کے افسانوں کے کرداروں کی بڑی اچھی تصویرکشی کی گئی ہے جو کردار کے تحت الشعور کی کیفیات کو بھی واضح کرتی ہیں جنسی کشمکش کو بھی پیش کرتی ہیں مگر ساتھ ساتھ عورت کے وقار کو صدمہ ہوتا ہے اور نہ عریانی پائی جاتی ہے۔ مردوں کی ہر جائیت اجاگر کرنے میں ان کا قلم بڑ از دور دکھاتا ہے۔"


تقسیم ہند کے بعد اردو افسانے میں ابھرنے والے نئے فنکاروں میں جیلانی با نوکا نام سر فہرست ہے۔ ان کا شمار ملک کے با صلاحیت ترقی پسند اور بین الاقوامی شہرت کے حامل ادیبوں میں ہوتا ہے۔ یہ 14/ جولائی 1936ء میں پیدا ہوئیں۔ اور افسانوی سفر کا آغاز 1953ءسے کیا۔ "ایک نظر ادھر بھی" (1953 ء ) ان کا پہلا افسانہ ہے۔ ان کے بیشتر افسانوں کا پس منظر حیدرآباد دکن ہے۔ علاقائی اثر رکھنے کے باوجود مسائل اور پیشکش کا انداز ایسا ہے جو ان کے افسانوں کو آفاقیت عطا کرتا ہے۔ قدروں کی شکست و ریخت اور عصری مسائل کو مختلف طریقوں سے پیش کرتی ہیں۔ ان کے بیشتر افسانے رومانی اور سماجی حقیقت نگاری کا پرتو ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے، روشنی کے مینار ، نروان، پرایا گھر، روز کا قصہ ، یہ کون ہنسا، تریاق، پی کے سوا’ بات پھولوں کی ، سوکھی ریت ، قابل ذکر ہیں۔ مجموعہ پرایا گھر کا افسانہ "تماشہ" ہمارے سماج کی بے رحمی کانمونہ اور غیر انسانی سلوک کا مظہر ہے۔ افسانہ پرایا گھر مادیت پرستی اور زر پرستی کے ایسے موضوع پر مبنی ہے جو تمام رشتوں پر حاوی ہو کر جذبات اور احساسات کو مجروح کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر ریحانہ خان رقمطراز ہیں:
"سماجی حقیقت نگاروں کی صف میں جیلانی با نوایک اہم مقام رکھتی ہیں۔ ان کی فکر پراشتراکیت کا گہرا اثر ہے لیکن یہ اشتراکی حقیقت نگاری رومانیت کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہے۔"
اردو مختصر افسانہ:فنی و تکنیکی مطالعہ 1947ء کے بعد ص139 - 138 )


جیلانی بانو نے افسانے کے باب میں نئی راہیں پیدا کیں اور اسے نئی منزلوں سے ہمکنار کیا۔ ان کا پسندیدہ موضوع امن، بورژوائی طبقہ کی شکست اور پرولتاری طبقہ کی بحالی ہے، ان موضوعات پر انہوں نے بہترین افسانے تحریر کیے ہیں۔ ان کے افسانوں کی خصوصیت کے بارے میں خورشید الاسلام لکھتے ہیں:
"وہ سماج کا مطالعہ نہایت ہمدردی اور خلوص کے ساتھ کرتی ہیں۔ اس لیے وہ کردار اور سماج کی آویزش کو ہمارے سامنے اجاگر کرنے میں زیادہ کامیاب ہیں۔ معاشرے پر تنقید کرتے ہوئے وہ افراد کا داخلی کردار بھی ہمارے سامنے مخصوص انداز میں پیش کرتی ہیں۔"


جیلانی بانو اردو کی ہمہ جہت ادیبہ ہیں ان کے دو ناول بھی قابل ذکر ہیں۔ "ایوان غزل "(1976ء) اور" بارش سنگ" (1984ء) کا انگریزی اور ہندی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ چند ناولٹ بھی ہیں جو مقبول عام کہلائے جاسکتے ہیں۔


واجدہ تبسم نے 1955ء سے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ تین چار سال کے کم عرصہ میں شہر ممنوع ، گلستان سے قبرستان تک ، ساتواں شہزادہ جیسی کہانیاں لکھ کر شہرت حاصل کی۔" شہر ممنوع "کے افسانے فن برائے فن کے لیے لکھے گئے ہیں جس میں سماج کے مختلف طبقوں پر ایک خاص انداز سے نظر ڈالی گئی ہے۔ ان کا افسانہ گلستان سے قبرستان تک بڑادلکش افسانہ ہے۔ افسانہ کا ماحول، افسانہ نگار کے انداز بیان اور اسلوب میں قاری کھو سا جاتا ہے۔ اور خود کو اسی ماحول کا فرد محسوس کرنے لگتا ہے۔ بہرحال بہترین افسانوں کی تخلیق کے بعد واجدہ تبسم نے پھر حیدرآباد کے بگڑے نوابوں کی ایسی کہانیاں لکھیں جس سے تصویر کے ایک ہی رخ پر روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے نوابوں کی خوبیوں کا کہیں ذکر ہی نہیں کیا۔ صرف ان کی نظر یں ان کی کمزوریوں کو تلاش کرنے میں لگی رہیں۔ ان مسخکردہ کرداروں نے نوابوں کی شخصیت اور شبیہ کو خاصا مجروح کردیا ہے۔


نجمہ نکہت 24 مئی 1936ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ 1950ء سے لکھنا شروع کیا۔ پہلا اور آخری افسانوی مجموعہ" سیب کا درخت" ہے جس میں 15 افسانے ہیں۔ مجموعی اعتبارسے یہ سبھی افسانے ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ ان کے بیشتر افسانوں میں جاگیرداری نظام کی وجہ سے استحصال کا شکار ہونے والے کرداروں کے حالات ، معاشی پستی ، انحطاط اخلاق ، نفسیاتی الجھنوں اور زندگی کا دکھ درد اور کرب کا اظہار ملتا ہے۔ نجمہ نکہت کے کئی افسانوں کا دوسری زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔


آمنہ ابوالحسن 10 مئی 1941 کو حیدرآباد کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک ذہین اور باصلاحیت فنکارہ ہیں۔ ان کی آٹھ تصنیفات منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جن میں دو افسانوی مجموعے ہیں" کہانی" اور’ ‘بانی فوکل"۔ ان دو مجموعوں کے علاوہ بہت سے افسانے ہندوستان اور پاکستان کے رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ "اڑان" ان کے چند بہترین افسانوں میں سے ایک ہے۔ وہ زندگی میں نئی تبدیلی کو بہت ضروری سمجھتی ہیں اور روایات اور ان اقدار کو بھی قابل قدر مانتی ہیں۔ اسی وجہ سے فرد اور سماج کاٹکراؤان کے افسانوں کا خاصہ بن جاتا ہے۔عصری دور کا تناؤ ، زمانے کا انتشار اور ایسا ماحول جس میں سکون اور چین کا فقدان ہے۔ زندگی کا یہ سب سے بڑاسچ آئینہ بن کر ہمارےسامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ بحیثیت ناول نگار بھی مشہور ہیں۔ کئی ناول مثلا سیاہ سرخ و سفید ،تم کون ہو؟ ، واپسی ، یادش بخیر ، آواز ،ان کی ادبی یادگار ہیں۔


عفت موہانی کا اصلی نام خورشید سلطانہ ہے۔ 24 جولائی 1937ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ حیدر آباد کی ممتاز ناول نگار اور افسانہ نگاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ عفت موہانی نے 85 ناول لکھے ہیں جو اخلاقی ، اصلاحی ،سماجی ، معاشرتی و نفسیاتی اور قومی یکجہتی کے مسائل اور موضوعات پرمبنی ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ "تماشہ "ہے جو رسالہ بیسویں صدی میں شائع ہوا۔ انہوں نے بیشمار افسانے لکھے مگر کوئی مجموعہ ترتیب نہیں دیا۔ یہ تمام افسانے ہندوستان اور پاکستان کے مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔ عفت موہانی نے ہر طرح کے افسانے لکھے۔ ان کے افسانوں میں رومان ، سیاست ، سماجی مسائل اور اخلاقی اقدارسبھی کچھ ہے۔ یہ سب ان کے عمیق مشاہدے غور و فکر اور شعور و ادراک کا نتیجہ ہے۔ افسانہ" خون بہا کیا شکست پیماں کا" میں دوستی کی اہمیت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ان کا ایک خوبصورت افسانہ"بیٹی" ہے جو ہمارے معاشرے کی سوچ پر ایک تازیانہ ہے۔ عفت موہانی کے اکثر افسانے سبق آموز ہیں۔


حیدرآباد کی افسانہ نگار خواتین نے مرد افسانہ نگاروں کے شانہ بشانہ چل کر اپنی خدمات انجام دیں اور افسانہ کے سرمایہ میں اضافہ کیا۔ خواتین نے اپنے افسانوں میں انسانیت کی اہمیت ، زندگی اور سماج کے بیشمار مسائل پر غور و فکر کی دعوت دی۔ بالخصوص معاشرے کی علت و نقائص کو نمایاں کرنے میں خلوص اور جرات کا ثبوت دیا۔ ان افسانوں کے مطالعے کے بعد بلا خوف وجھجھک یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تمام افسانہ نگار خواتین ہر دور میں ظلم اور نا انصافی کو ختم کر کے زندگی کوخوبصورت بنانے کی متمنی رہی ہیں۔ اسی لیے اصلاح معاشرہ کی خاطر بھی اس بات پر متفق ہیں کہ معاشرے کی ذہنی اور فکری پسماندگی کو ختم کرنا ناگزیر ہے۔تبھی ہمارے افکار ونظریات اور روئیوں میں تبد یلی ممکن ہو سکتی ہے۔


ان اولین افسانہ نگار خواتین کے علاوہ عہد حاضر میں بھی حیدرآباد کی چند افسانہ نگار خواتین ایسی ہیں جن کا شمار ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ مثلا قمر جمالی ، فریدہ زین ، عابدہ محبوب ، انیس قیوم فیاض ، افروز سعیدہ، فاطمہ تاج ،صبیحہ نسرین ،طیبہ خسرو، ساجدہ عابد ، سلطانہ شرف الدین ،محمودہ یاسمین، ہادیہ شبنم ، اور شبینہ اسلم فرشوری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔


***
ماخوذ از کتاب: حیدرآباد میں اردو کا نسائی ادب (تحقیق و ترتیب)
مرتب و ناشر: ڈاکٹر آمنہ تحسین، حیدرآباد (سن اشاعت: 2016ء)

Hyderabad Deccan's first female urdu fiction writers. Essay: Masood Hussain Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں