دلت ادب نظریہ و رجحان - ڈاکٹر اعظم انصاری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-12

دلت ادب نظریہ و رجحان - ڈاکٹر اعظم انصاری

dalit-literature-theory-and-trends

شہر مؤ کا شمار اردو ادب کے حوالے سے ادبی اہمیت کا حامل ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ مؤ کے دامن میں اردو کے پروانوں نے ادب کے صفحوں پر روشنی نہ بکھیری ہو۔ ایک سے بڑھ کر ایک ادب شناس نے مؤ کی زمین میں نثرونظم کے عظیم خیمے لگائے ہیں۔مثال کے طور پر حبیب الرحمان اعظمی، فضا ابن فیضیؔ، شکیل احمد، ایم نسیم اعظمی ،اثرؔ انصاری ، سردار شفیق ؔ،وغیرہ وغیرہ۔
مؤ کے گھروں سے آنے والی مشینی آواز میں بھی ایک طرح کی "دھن"، ترنم" اور ایک طرح کی روداد (افسانہ) چھپا ہوتا ہے۔ بلاشبہ مؤ کی ادبی زمین نے اردو ادب کے پروانوں کو ادبی پرواز عطا کرنے میں کوئی کسر نہ رکھی۔ ان ہی پروانوں میں ایک اہم نام ڈاکٹر وصی احمد اعظم انصاری کا بھی ہے ،جنہوں نے ادبی دنیا میں اپنے قدم جمانے کے لیے لاتعداد ایثار وقربانی کی مثالیں پیش کی ہیں۔30/دسمبر 1981ء میں شہر مؤ میں ایک ادبی پروانے کا اضافہ ہوا۔ والدین نے "وصی احمد" نام تجویز کیا۔ مگر قلمی نام ڈاکٹر اعظم انصاری مشہور ہوا۔ ابتدائی تعلیم مؤ سے ہی حاصل کی۔گریجویشن کے لیے الہ آباد کا رخ کیا۔ اب تعلیم کی چاہ بہتر سے بہتر کی تلاش میں لگ گئی۔ آگے کی تعلیم کے لیے دہلی کی مشہور یونیورسٹی کا انتخاب عمل میں آیا۔ اس طرح ایم۔ اے۔ ایم۔ فل۔ اور پھر پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری جے ۔ این۔ یو سے حاصل کی۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد اب فکر روزگار ہوئی کوشش جاری تھی۔ ایم فل کے دوران B۔T۔Cمیں مؤ میں سلیکشن ہوا۔ مگر علمی پیاس ابھی تشنہ لب تھی اس لیے نوکری سے دستبردار ہوکر علمی سفر کی طرف رخ کیا۔


مزاجاً آپ نہایت سیکولر اور سوشل ہیں، آپ دوران گفتگو کبھی موضوع سے ہٹ کر بات نہیں کرتے۔ سب سے خاص بات یہ کہ اعظم انصاری صاحب دوسروں کی بات کو اتنی ہی توجہ سے سنتے ہیں جتنا وہ چاہتے ہیں لوگ ان کی باتوں کو توجہ دیں۔ دوسری بات جو آپ کی شخصیت کو مزید بلند کرتی ہے وہ یہ کہ آپ وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کے معمول میں اکثر پڑھنا لکھنا شامل رہتا ہے۔افسانے پر اچھی خاصی معلومات رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر اعظم انصاری کی نگاہیں تحریر کی لطافت حسن وخامی کو دور سے بھانپ لیتی ہیں۔آپ ایک اصول پسند شخص ہیں بے ربطی چاہے وہ تحریر میں ہو یا تقریر میں آپ کو ناگوار لگتی ہے۔ اعظم صاحب کی ایک بات واقعی قابل تعریف ہے۔ وہ یہ کہ آپ سے اگر کبھی کسی تحریر یا تقریر میں غلطی ہوجائے تو آپ بلاجھجھک قبول کرلیتے ہیں اور یہ ایک شجر ثمردار کاہی وصف ہوسکتا ہے۔


ڈاکٹر اعظم انصاری ایک خاموش طبع ،کم گو، سنجیدہ شخص ہیں ۔ہر معاملے میں بہت غوروفکر کرنے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں۔ تمام اسکالر کے ساتھ مشفقانہ اور مساویانہ سلوک روا رکھتے ہیں۔ آپ بلاشبہ ایک سلجھے ہوئے مشفق استاد ہیں۔ ڈاکٹر اعظم انصاری بہت مددگار اور ہمدرد طبیعت رکھتے ہیں۔ آپ کے پاس اکثر وہ بچے بھی مدد طلب کرنے آتے رہتے ہیں جو کسی اورکے نگرانی میں اپنی ریسرچ کررہے ہوتے ہیں اور آپ ان کو بھی اپنے عمدہ مشوروں سے نوازتے ہیں۔اکثر بچے آپ کے پاس سے اپنی پریشانیوں کا حل لے کر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اعظم انصاری کی گفتگو کوزے میں سمندر کی مانند ہے۔ آپ کی طبیعت میں نہایت انکساری ہے۔ٹھیک اسی طرح آپ کی تحریر بھی نپے تلے انداز میں ہوتی ہے۔ اب تک آپ کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ حیرت اور خوشی بھی ہوتی ہے آپ نے اپنی دونوں کتابیں کا موضوع انتخاب بالکل منفرد رکھا ہے۔ "ڈاکٹر اعظم انصاری " کی دونوں ہی کتابوں میں ایک طرح کا احتجاج ہے۔ آپ کی پہلی کتاب "پریم چند کے نمائندہ دلت افسانے" جو 2014ء میں منظر عام پر آئی جو کل 216 صفحے پر مشتمل ہے۔ جس کی ادبی دنیا میں خوب پذیرائی ہوئی جس کا انتساب آپ نے (رائج روایت سے ذرا مختلف) "جیوتی باپھولے" کے ادبی گرو "سنت کبیر داس" کے نام کیا ہے۔اس میں آپ نے پریم چند کے کل سترہ افسانوں کو ترتیب دیا ہے۔ اور ان افسانوں میں دلت سماج کے حق میں اٹھتی (بلند) ہوئی آواز کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔ آپ نے ان افسانوں کے ذریعے قوم کے دبے کچلے لوگوں کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کے ان چنندہ افسانوں کے انتخاب سے دلت سماج کی اجیرن بھری زندگی کی تصویر کشی ہوتی ہے۔ گویا ایک طرح سے یہ کتاب سماج کے اس طبقے کی آواز ہے جس کے وجود کو ہمیشہ سے ہی نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ جن کی ذات کو کیڑے مکوڑے سے بھی بدتر سمجھاجاتا رہا ہے۔ جن کو کسی بھی طرح کی آرائش وزیبائش کا حق نہیں۔ گویا سماج کا یہ طبقہ صرف اور صرف غلامی کے لیے بنایا گیا ہو۔ڈاکٹر وصی احمد اعظم انصاری نے پریم چند کے ان افسانوں کو ترتیب دے کر اس ذلت کی شکار قوم کی آواز کی عوام وخواص تک پہنچانے کا کام کیا ہے۔
ہندوستان میں صدیوں کی یہ روایت چلی آئی ہے کہ ان کی مذہبی کتاب یہ ثابت کرتی ہے کہ انسانی سماج کو چار طبقے میں باآسانی بانٹاجاستا ہے۔اس کے مطابق "برہما" (دنیا کو تخلیق کرنے والا) کے معنی برہمن، بازو سے چھتری پیٹ سے ویشیہ اور پیر سے شودر پیدا ہوئے۔"
(پریم چند کے نمائندہ دلت افسانے، ڈاکٹر اعظم انصاری، ص/7)
مگر اس تفہیم سے مراد وہ نہیں جو برہمن اور چھتریوں نے سمجھا مگر انسان کی ابدی خواہش بادشاہ بننے کی دوسروں پر حکومت کرنے کی۔ یہی وہ خواہشات تھی جس نے اس تقسیم کو اونچ نیچ اور بھید بھاؤ کو بڑھاوا دیااور سماج کو ایک شودر (دلت) کا طبقہ فراہم کیا۔


ایک طرح سے یہ کتاب دکھتے سماج کا جیتا جاگتا آئینہ ہے جسے اعظم انصاری نے پریم چند کے افسانوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر اعظم انصاری کا تقریباً 36 پیج کا مبسوط مقدمہ موجود ہے جو کتاب کو تقویت دیتا ہے اور مزید مدلل ثابت کرتا ہے۔آپ نے اس کتاب کے مقدمے میں (پیج نمبر 6 سے پیج نمبر 42) تک ایک مدلل بحث کی ہے۔ مذکورہ 17/افسانے کو ہرزاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔آریا سماج سے لے کر پریم چند کے شودرتک کے حالات قلم بند کئے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کوشش کی ہے کہ صرف ہندوستانی سماج کو دلتوں کے حالات کے آئینے نہ دکھائے جائیں بلکہ دلتوں کے پرابلمز ان کی پریشانیوں کا حل بھی بتانے کی کوشش کی ہے۔
آپ کی تحریر میں نہ صرف سوالیہ نشان ہے۔ ایسا کیوں ویسا کیوں؟ بلکہ آپ نے ان سوالیہ نشان کے جوابات بھی تلاشنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کی نظر انتخاب نے سماج کے ایک ایسے طبقے کے درد کو چھونے کی کوشش کی ہے جہاں اس دو رمیں بہت سارے لوگوں کے قلم مصلحت کاشکار ہوکر خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔چونکہ آپ فطری طور پر حق بولنے کے عادی ہیں اور بلاتامل حق بات کہہ دیتے ہیں۔ پھر چاہے وہ بات کسی کے حق میں ہو۔ آپ خالص طبیعت کے مالک ہیں جی حضوری آپ کے مزاج کا حصہ نہیں ہے اور یہی وہ خوبیاں ہیں جو جابجا آپ کی تحریر میں بھی نظر آتی ہے۔ مقدمہ پڑھتے ہوئے محسوس ہوا کہ جس طرح پریم چند نے دلتوں کے اس کرب کو شدت کے ساتھ محسوس کیا ٹھیک اسی طرح آپ کو بھی سماج کے اس مظلوم طبقے سے بے انتہا ہمدردی ہے۔ آپ بھی پریم چند کی آواز میں آواز ملاکر دلتوں اور شودروں کو ان کا حق دلانا چاہتے ہیں۔
آپ کی دوسری کتاب۔ "دلت ادب نظر یہ ورجحان" یہ کتاب بھی آپ کا انتخاب اور ترتیب ہے۔ یہ کتاب 2015ء میں منظر عام پر آئی۔ یہ 224/صفحات پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کا انتساب بھی آپ نے ان کے نام کیا جو حقیقتاً اس کے مستحق ہیں۔
"انتساب
ان بہادر اور نڈر سپوتوں کے نام جو دلت اور حاشیہ پر ڈال دئیے گئے لوگوں کو ان کے مساویانہ حقوق دلانے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔"
(دلت ادب:نظریہ ورجحان۔ ڈاکٹر اعظم انصاری)


یہ کتاب اس معنی میں اہم ہے کہ اس میں (دلت ادب) کے عنوان سے کل 14/معتبر لوگوں کے مضمون کو یکجا کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اعظم انصاری نے ان مختلف مضمون کو ایک آواز بناکر برہمن سماج کے اونچے طبقے پر کاری ضرب لگائی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان مضامین کے ذریعے ڈاکٹر اعظم صاحب نے دلتوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کی گہار لگائی ہے۔ اس کے برعکس سماج ومعاشرے کے ان زمین داروں، ٹھیکے داروں، مذہبی رہنماؤں کے خلاف احتجاج کا علم بھی بلند کیا ہے۔


ڈاکٹر اعظم انصاری کی اس کتابی کاوش سے اس زمانے کی وہ تمام تصویریں ابھرکر سامنے آجاتی ہے جن کی آواز اور جن کا اثر آج بھی ہمیں اپنے موجودہ سماج میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس "دلت" طبقے کے اخترا ع کے لیے نہ صرف زمینی، حیلے، بہانے وشواہد کا سہارا لیا گیا بلکہ اس بار آسمانی کتابوں کا حوالہ اور شواہد جمع کیاگیا۔ بعد میں ان آسمانی کتابوں میں قانون اور اصول کی طرح درج کیے گئے اور سختی سے ان پر عمل کیا گیا۔ حالانکہ اس آسمانی قاعدے نے زمین میں بے شمار مسائل کھڑے کردئیے اور اس طرح یکا یک دلت اور شودر کوانسانوں سے باہر کردیا گیا ۔نیز دلتوں کے دائرہ حیات تنگ سے تنگ ہوتے چلے گئے۔ انہیں اچھوت کہہ کر ان کا شہر میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔ وہ کالایا نیلا کپڑا پہن کر ،کمر سے جھاڑو باندھ کر، گلے میں ہانڈی لٹکا کر اور آواز لگاتے ہوئے شہر میں داخل ہوتے تھے تاکہ لوگ ان کی آواز سن کر ہوشیار ہوجائیں اور ناپاک ہونے سے بچ جائیں۔انہیں تعلیم کی اجازت نہیں تھی اور اگر کوئی غلطی سے ویدوں کا پاٹھ سن لیتا تھا تو اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا تھا۔ انہیں شہر سے باہر سکونت دی جاتی۔دلتوں کو ان کے انسانی اور پیدائشی حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا ۔ یہاں تک دلتوں اور شودروں کی سوچنے سمجھنے کی طاقت بالکل سلب ہوگئی اور اس طبقے نے اپنے آپ کو غلام تسلیم کرلیا۔مگر کب تک۔ ظلم جب حد سے گذرے گا تو کہیں نہ کہیں تو انقلاب پیدا ہی ہوگا۔
پہلے پہل یہ آواز پست تھی چند لوگوں کے درمیان تھی۔پھر یہ آواز تقویت پانے لگی۔ بہت سے جواں مردوں نے اس آواز کو بلند کیا۔ مگر کامیابی کہیں نظر نہ آتی تھی۔ حتیٰ کہ گاندھی جی نے بھی اس آواز کا تعاون کیا مگر شاید یہاں ان کی آواز کشمکش کا شکار ہوگئی اور وہ نقارہ زمانہ نہ سن سکی۔وقت تیزی سے بدل رہا تھا۔ حساس قلم کار بھی بیدار ہورہے تھے۔ اب آواز اور قلم رفتہ رفتہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرتے جارہے تھے اور اس تحریک کی گونج ہندوستان سے باہر بھی سنائی دینے لگی۔امریکہ اور یورپ میں نیگرو (بلیک) کے برے سلوک ونسلی بھید بھاؤ کے خلاف ادب وجود میں آنا شروع ہوا۔ جب وہاں کے دانشوروں کی آواز یہاں سنائی دینے لگی تو ہندوستان کے لوگوں کو بھی مزید حوصلہ ملنے لگا۔اب باقاعدہ "مہاتما جیوتی باپھلے" ان سب سے متاثر ہوکر "غلام گیری" نام کی کتاب لکھی۔ اس میں انہوں نے برہمن اور شودر دونوں کی تصویر کشی کی بہترین مثال پیش کی ہے۔اس کے علاوہ سماجی کی بیداری کے لیے عملی اقدام کرتے ہوئے "ستیہ سودھک سماج" نام کی ایک تنظیم بھی بنائی۔ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اس تحریک کو عوامی سطح پر لانے کے لیے" موک نائک" اور "بہشکرت بھارت" نام کا اخبار بھی نکالا نیز ڈاکٹر امبیڈکر نے اس تحریک کو بام عروج عطا کیا۔ یہاں تک اب ہر ذی الشعور ادب اس کے شواہد بیان کرنے لگا۔اب مہاراشٹر سے دلت ادب کی شروعات ہوچکی تھی۔ شاعر وادیب ایسے میں کہاں بے خبر ہوجاتے۔ رفتہ رفتہ یہ گونج اردو ادب کے مختلف اصناف میں نظر آنے لگے۔

اعظم انصاری کی اس کتاب کے ذریعہ ہم شاعری سے لے کر افسانہ، ناول، کہانیوں میں دلت ادب کی باقاعدہ نشان دہی کرسکتے ہیں۔اگر ہم افسانے اور ناول میں دلت سماج کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس فہرست میں ایک اہم نام پریم چند کا آتا ہے جن کے افسانے اور ناول ایک طرح سے دلت طبقے کے حق میں ایوانوں میں گونجنے والی آواز ہے ساتھ ہی برہمنوں کے خلاف احتجاج کی علامت بھی۔پریم چند کے افسانے:کفن: نجات، دودھ کی قیمت، ٹھاکر کا کنواں، قوم کا خادم، مندر، اور ناول گوشۂ عافیت، میدان عمل اور گؤدان وغیرہ ایک طرح سے دلت سماج کا تعاون کرتے ہیں۔ اس روایت کو پریم چند کے بعد عصمت چغتائی، اعظم کریلوی، علی عباس حسینی وغیرہ نے آگے بڑھایا۔ اس فہرست میں ایک نام سلام بن رزاق کا ہے جن کا ایک مشہور افسانہ کلہاڑی بھی اسی نوعیت کا ہے، جس میں حد سے بڑھتے ظلم کے خلاف ایک عام عورت بغاوت پر اتر آتی ہے اس طرح کرشن چند کا ناول "جب کھیت جاگے"، شوکت صدیقی کا ناول "خدا کی بستی"، عبداللہ حسین کا "اداس نسلیں" بھی اسی کڑی کا ایک حصہ ہیں۔ یہ تمام ادبی اصناف دلت ادب کے سپورٹ میں لکھے گئے اور حتیٰ الامکان کامیاب بھی رہے۔
اسی طرح کہانیوں میں بھی دلت ادب کی تشکیل نظر آتی ہے۔ موہن داس نیمش رائے کی دلت کہانی "اپنا گاؤں" شیوراج سنگھ بے چین کی کہانی ‘ہڈیو کے الفاظ" ، پرہلاد چندر داس کی "لٹکی ہوئی شرط’، پریم کپاڈیا کی"ہریجن" ان سب کا شمار بھی دلت کہانیوں میں ہوتا ہے۔آپ نے اس کتاب کے ذریعے اردو ادب میں دلت طبقے کا عکس نیز دلتوں کی مظلومیت کو اردو شاعری میں تلاشنے کی کوشش کیا ہے۔
"مثال کے طور پر یہ نظم ملاحظہ کیجئے۔
"ہاں"
میں شودر ہوں
ہاتھ میں جھاڑو
ماتھے میں سوچ
میرا کام صفائی کرنا
میں اپنے حصے کی صفائی کرتا ہوں۔
پرتم؟؟؟"
(میں شودر ہوں۔ بدھ نیلوں)
(دلت ادب۔ نظریہ ورجحان۔ڈاکٹر اعظم انصاری۔ ص/43)


اسی طرح بلراج کومل کی نظم: ایک نیا روشنی کا سفر،نظم ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے۔
قتل و غارت، ظلم و دہشت
نوع انساں کے لیے ایک داغ ندامت
بن نہیں سکتے حروف افتخار
بن نہیں سکتے جواز افتخار
(ڈاکٹر اعظم نصاری۔ دلت ادب نظریہ و رجحان۔ص نمبر۔50)


المختصر ڈاکٹر اعظم انصاری کی یہ دونوں کتابیں دلت پس منظر دلت تحریک اور دلت ادب کے بارے میں نہایت اہم ہے۔آپ کی دونوں ہی کتابیں نہایت کارآمد ہیں۔ ایک طرح یہ کتابیں دلت ادب کا آئینہ گر ہیں، ان کتابوں میں دلت ادب کا زمانہ چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ اس میں زمانی ترتیب کا خاص خیال رکھا ہے۔بے شک دونوں ہی کتابیں ایک طبقے کے درد بھری تصویر کو اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں۔یہ دونوں کتابیں ہمیں دلت سماج کے ابتدا سے انتہا تک کا باآسانی سفر طے کراتی ہیں۔

***
عافیہ حمید۔ ریسرچ اسکالر، خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی، لکھنؤ
ای-میل: aafiyahameed6[@]gmail.com

Dalit literature, theory and trends. Essay: Aafiya Hameed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں