بات ایک خوفناک رات کی - انشائیہ از حمنہ کبیر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-11

بات ایک خوفناک رات کی - انشائیہ از حمنہ کبیر

baat-aik-khaufnaak-raat-ki-bakrid

عید الاضحی کا دن بڑی مصروفیت میں گزرا تھا۔ میں نے زیادہ کام کیا تو نہیں تھا ، لیکن تھکن تو نیا کپڑا ہی پہن کر ہو جاتی ہے۔ کیوں بہنو!!! ؟؟ اب کاہل ہی مت سمجھ لیجئے گا مجھے کیوں کہ تھکن کے باوجود بھی میں نے گھوم گھوم کر کباب کھائے تھے۔
تو اب بس رات کی منتظر تھی کہ جلدی سے سونے کا دور دورہ شروع ہو۔ اللہ اللہ کر کے رات اپنی کالی چادر پھیلانے لگی۔ جیسے جیسے رات گہری ہو رہی تھی، آس پاس خاموشی بھی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے جلدی سے ایک دو کباب ٹھونسے اور سونے کے لئے بستر پر دراز ہو گئی۔ سوچا تھا لیٹ کر ایکٹیو رہنے کے فوائد پر نظر ثانی کروں گی۔ لیکن اس قدر گہری نیند نے آ دبوچا کہ کچھ بھی ہوش نہ رہا۔ خواب خرگوش کے مزے لے ہی رہی تھی کہ کسی نے زور سے کندھے پر ٹہوکا دیا۔ میری بے چین آتما کی ایک بڑی پریشانی یہ ہے کہ چاہے کتنی ہی گہری نیند میں رہوں، ہلکی سی آواز ہی میری نیند اڑانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
آدھی آنکھ کھلی تھی اور اپنے سامنے جسے کھڑا پایا اسے دیکھ کر بنا محنت کے پوری آنکھیں نا صرف کھل گئیں بلکہ پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کیوں کہ میرے سامنے جو ذات شریف کھڑی تھی وہ کوئی اور نہیں بلکہ آج ہی کے دن ذبح ہونے والا ہمارا بکرا تھا ، پورا کا پورا بکرا بھلا چنگا اپنے چار پیروں پر کھڑا تھا، جس کے لذیذ کباب میں نے کچھ دیر پہلے ہی کھائے تھے۔


بکرا کھڑا مجھے گھور بھی رہا تھا۔ میرے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہونے لگے۔ اچانک بکرے کا منھ کھلا اور "میں۔ میں" کرنے کے بجائے وہ صاف تلفظ کے ساتھ اردو میں بولا :
" کیوں کمبخت۔ پورا بکرا سب مل کر کھا گئے؟ یا کچھ بچا بھی ہے؟"
میرے حلق سے بڑی مشکل سے آواز نکلی: " محترم جناب عا۔۔عا۔۔۔عالی۔۔آپ تو۔۔تو۔۔ جن۔۔جن۔۔جنت میں گھاس کھا۔۔۔۔رہے تھے نا؟"
بکرا بپھر کر بولا:" گھاس تم کھا گئی ہو شائد ، خود تو مٹن توڑو اور ہمیں گھاس پر رکھو۔ چلو شاباش اٹھو اور میرے گوشت کے بنے کباب لے آؤ۔ ذرا دیکھوں تو کیسا بنایا ہے۔"


میں واقعی ڈر گئی تھی۔ اس لئے اٹھی اور کچھ کباب لیتی چلی آئی اور بکرے کے سامنے پیش کر دیا۔ بکرا ٹوٹ پڑا کبابوں پر۔ بڑا عجیب لگ رہا تھا مجھے یہ دیکھ کر کہ بکرا اپنے ہی گوشت سے بنے کباب کھا رہا ہے۔ کچھ وحشت زدہ بھی لگ رہا تھا یہ منظر۔ کباب کھانے کے بعد بکرے نے مجھ سے نیپکن مانگا اور پھر منھ پونچھتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب وہ فریج کی طرف بڑھ رہا ہے۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ میں اٹھی اور جلدی سے فریج کے سامنے ہاتھ پیر پھیلا کر کھڑی ہوگئی۔ " یار ایسا نا کرو ، فریج میں کچھ نہیں ہے۔" بکرے نے یہ سن کر ایک لات جو میری کمر پر لگائی تو میں "آؤچ" کہتے ہوئے اوندھے منھ گر پڑی۔ ادھر بکرے نے فریج کا جائزہ لینا شروع کر دیا تھا۔


" اف ندیدو ! کچھ بانٹ بھی دیتے میرا گوشت غریبوں میں، سارا فریج میں بھر رکھا ہے، شرم تم کو مگر نہیں آتی۔"
۔۔۔ پھر اس نے گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا اٹھایا اور اس کا جائزہ لیتے ہوئے بولا:" کافی گوشت نکال لیا بھئی مجھ سے۔ دوست بکرے تو میرا بہت مذاق بناتے تھے، سنگل پسلی کہتے تھے"۔
میں کمر پکڑ کر اٹھی اور دانت پیس کر بولی: " بانٹا ہے بھئی۔ تم کب تک فریج میں رہوگے باہر نکلو۔"
بکرے نے ایک لمحے کے لئے مجھے دیکھا اور پھر فریج کے اندر پیر رکھنے لگا۔ شائد اس کی نظر کبابوں پر پڑی تھی۔ "بھئی بہت گرمی ہے میں فریج میں ہی بیٹھ جاتا ہوں۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ فریج میں میرا گوشت رہے یا بذات خود میں"۔


یہ سن کر میں نے جلدی سے اس کا پیر پکڑ لیا۔ چار پیروں میں سے ایک پیر ہاتھ میں آیا تھا اور میں اسے کھینچنے لگی۔"نکلو یار۔ فریج میں بیٹھنے کے لئے پہلے تمہیں ذبح کرنا پڑے گا"۔
بکرا ٹانگ چھڑانے لگا۔ " ابے چھوڑ میری ٹانگ کیوں کھینچ رہی ہو، پایا بنانے کا ارادہ تو نہیں ہے۔"
میں نے مزید زور لگاتے ہوئے کہا۔" نہیں پایا وایا نہیں پسند مجھے ،تم بس فریج سے نکلو"۔
بکرا فریج سے ٹانگ باہر نکالتے ہوئے بولا" اچھا ٹھیک ہے۔ نکل رہا ہوں۔۔ٹانگ چھوڑو۔ اور جائزہ لینے دو کہ اور کیا کیا اسٹور کر رکھا ہے۔ ابھی دور ہٹ جاؤ ورنہ چار ٹانگیں ہیں میری اور پڑی صرف ایک ہی ہے۔ "


میں دانت پیستے ہوئے پیچھے ہٹ گئی۔ بکرے نے اب فریزر کھولا تھا اور چونک کر بولا: "۔ ارے کم بخت۔ یہ میرے سینے کی ہڈیاں کیوں جمع کر رکھی ہیں"؟
"چاپ بنانے کے لئے۔" میں نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔
بکرا ناک بھوں چڑھاتے ہوئے بولا۔ : " اچھا۔اور چمڑے کا کیا کیا ؟ اس کا کیا بناتے ہو؟"
" میں نے بکرے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: اس کا جوتا وغیرہ بنتا ہے"
بکرا بانچھیں پھیلاتے ہوئے بولا:" سنو چار جوتے میرے بھی بنوا دو۔"


ابھی میں اسے اس کے چمڑے کا مزید استعمال بتانے ہی والی تھی کہ کسی نے مجھے جھنجھوڑا۔ اور میری آنکھ کھل گئی۔ اوہ شکر ہے ، تو میں خواب دیکھ رہی تھی۔ سامنے امی ہاتھوں میں کباب کی پلیٹ لئے کھڑی تھیں اور کہہ رہی تھیں: " اٹھو تم نے کچھ کھایا نہیں ڈھنگ سے۔ لو کباب ہی کھا لو، تمہیں بہت پسند ہے۔"
میں نے کباب کی طرف دیکھا اور مجھے جھرجھری سی آگئی۔ میں نے انکار کرتے ہوئے کہا: " نہیں امی مجھے نہیں کھانا گوشت سے بنا کچھ بھی۔ آپ میرے لئے آملیٹ ہی بنا دیں۔ " لیکن پھر اچانک خیال آیا کہ کہیں کسی مرغے نے اپنی مرغی کے انڈے کا ، بکرے کی طرح حساب لینا شروع کر دیا تب۔
میں جلدی سے بات بدلتے ہوئے منھ بسورتے ہوئے بولی:" نہیں آملیٹ بھی نہیں ، ایسا کریں۔ سبزی روٹی دے دیں۔ وہی کھانا ہے مجھے اب۔"
امی نے مجھے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا:" بیٹا سو جاؤ! نیند میں ہو شائد ابھی۔کل کھانا اب جو بھی کھانا ہے تمہیں۔"


میں نے جیسے ہی آنکھیں بند کیں۔ مجھے بکرا مسکراتے ہوئے نظر آیا۔ گھبرا کر میں نے پھر سے آنکھیں کھول دیں اور اب نیند کوسوں دور ہے میری آنکھوں سے۔

***
حمنہ کبیر (وارانسی)
Email: hamnaahvazi[@]gmail.com

Baat aik khaufnaak raat ki. Light Essay by: Hamna Kabir

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں