جمالیاتی حس کو بجا طور پر چھٹی حس کہا گیا ہے جو صرف انسانوں کی خصوصیت ہے اور دوسرے جان دار اس سے محروم ہیں ، سننے، دیکھنے، سونگھنے، چکھنے اور چھونے کی پانچویں حسوں اور جمالیاتی حس میں ایک اور امتیاز یہ ہے کہ جمالیاتی حس تاریخ و تہذیب کی تربیت یافتہ ہے۔ یہ ایک تہذیبی ورثہ ہے جو انسانی سماجی ارتقا کی پوری تاریخ کی پیداوار ہے۔
مختصراً جمالیات کا تعلق حسن کے ادراک و اعتراف اور اس سے حاصل ہونے والے انبساط سے ہے۔
حسن پیدا ہوتا ہے ترتیب اور آہنگ سے، ایک قدرتی منظر بھی دیکھنے والے میں جمالیاتی انبساط پیدا کرسکتا ہے اس قدرتی منظر میں ایک جھرنا ہے ، کچھ پہاڑیاں ہیں، درخت ہیں اور جانے کیا کیا کچھ ہے۔ کئی حقیقتوں کا ایک اجتماع ہے۔ مگر اس اجتماع میں ایک ترتیب اور ایک آہنگ ہے جو جمالیاتی حس کو مہمیز کرتا ہے۔ یہی ترتیب اور یہی آہنگ ہے جو مجرد حقیقتوں کو ایک جمالیاتی حقیقت میں تبدیل کردیتا ہے۔
یہ ترتیب اوریہ آہنگ خو ارتقا کے کچھ قوانین کے تابع ہے اور یوں ہی معرض وجود میں نہیں آگیا۔ ارتقا کا ایک تسلسل ہے جس میں اشیا اور اجسام تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اور اس تبدیلی کے عمل میں ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ ان اشیا اور ان اجسام کے باہمی ربط کو نظر انداز کر کے ارتقا کے عمل کو نہیں جانچا جاسکتا۔ اسی عمل کے نتیجے میں وہ ترتیب اور وہ آہنگ معرض وجود میں آتا ہے جو چند مجرد حقیقتوں کو ایک جمالیاتی حقیقت میں بدل دیتا ہے۔
کسی اچھے گانے سے سننے والے کو ایک جمالیاتی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ گانے کے پیچھے بھی اسی ترتیب اور آہنگ کی کرشمہ سازی ہے۔ ذرا سونچئے ، ایک اچھے گانے کے عناصر ترکیبی کیا ہیں؟ آواز ہے، گیت ہے ، گیت کے الفاظ ہیں۔ ان الفاظ کے دو طرح کے معنی ہیں۔ ایک تو لغوی معنی ہیں اور دوسرے وہ معنی ہیں جو ماحول اور سچویشن نے الفاظ کو عطا کئے ہیں۔ ان معنوں کو الحاقی معنے کہہ لیجئے۔ لیکن لغوی معنوں سے نہیں۔ ان الحاقی معنوں سے آپ پھڑک جاتے ہیں۔ اور یہ ترتیب و تہذیب سے پیدا ہوتے ہیں۔
ہجوم بادہ و گل ہیں ہجوم یاراں میں
کسی نگاہ نے جھک کر مرے سلام لئے
سیدھے سادے الفاظ ہیں، جو ان دو مصرعوں میں کچھ اس طرح ترتیب دیے گئے ہیں کہ ایک واردات، ایک تصویر اور ایک سچویشن تصور کے پردے پر ابھرتا ہے۔ جھک کر سلام کرنے کے پیچھے ایک جذباتی اور جمالیاتی طوفان محسوس ہونے لگتا ہے ، اور ایک جمالیاتی حقیقت پیدا ہوجاتی ہے۔
پھر اس آواز اور اس غزل کو ، اور غزل کے ان الفاظ کو اور ان الفاظ میں پوشیدہ ان جذبات کو راگ میں مقید کیا گیا جو خود سازوں کے ایک آرکسٹرا کی گرفت میں ہے۔ بات یہیں نہیں ختم ہوتی کہ آواز، بول، راگ اور ساز کی ایک خاص مترنم ترتیب ہی سے وہ جمالیاتی حقیقت پیدا ہوئی جسے ہم گانا کہتے ہیں اور سن کر خوش ہوتے ہیں۔ اس ساری حقیقت کو دیے ہوئے ماحول سے بھی ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ شہنائی شادی ہی کے موقعے پر جمالیاتی انبساط پیدا کرتی ہے۔ کسی سوگ کے موقع پر نہیں۔
جمالیات جمالیاتی حس کی ترتبیت اور بیداری کے خارجی عوامل بھی ہیں اور داخلی سر چشمے بھی۔
سماجی بندھن اور ان بندھنوں سے پیدا ہونے والی ، کیفیتیں متضاد اثرات پید اکرسکتی ہیں۔ وہ فرد کی متناسب بالیدگی میں مددگار ہوسکتی ہیں یا مانع۔ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دے سکتی ہیں یا انہیں دبا سکتی ہیں۔ انسان کے بلند تر اور عظیم تر کے حاصل کرنے کے عزم کو بڑھاو دے سکتی ہیں یا اسے کچل کر رکھ دیتی ہیں۔ بد صورتی اور کمینگی کے خلاف جدو جہد میں فرد کی ہمت افزائی کرسکتی ہیں اور ہمت شکنی کا باعث بھی ہوسکتی ہیں۔ پہلی صورت طربیہ ہے تو دوسری المیہ۔ جمالیاتی انبساط کی خارجی بنیادیں سماجی تعلقات کے انہی طربیہ مظاہر میں ہیں۔
انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے آزادانہ اظہار سے ایک خاص مسرت حاصل کرتا ہے۔کھیل ہو کہ کام آدمی جی لگا کر اس میں اسی وقت مصروف ہوگا جب اس کے مقصود سے اسے جذباتی لگاؤ ہو، اور یہ جذباتی لگاؤ منحصر ہے مقصود کی سماجی افادیت پر۔ فٹ بال کے ایک میچ میں گول مقصود ہے اور دیکھنے والوں کے خوش ہونے کے احساس سے کھلاڑی گول سے جذباتی وابستگی اور بھی گہری ہوجاتی ہے۔
کام اور محنت کا بھی یہی حال ہے۔ محنت کرنے والا ایک چیز تیار کرتا ہے، اس چیز کی سماجی افادیت اور اس کی متناسب بناوٹ دونوں ہی اسے حسین بناتی ہیں۔ لوگ اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور بنانے والے کی محنت کی داد دیتے ہیں۔ بس یہی تو وہ سب کچھ ہے جو محنت کرنے والے اور محنت کے موضوع کے درمیان جذباتی لگاؤ پیدا کرتا ہے۔ یہی لگن اور لگاؤ جمالیاتی انبساط داخلی سرچشمہ ہے۔ خوبصورت حقیقتوں کی تخلیق اور تخلیق کے اس عمل ہی سے جمالیاتی تسکین حاصل ہوتی ہے اور یہی محنت کا جمالیاتی پہلو ہے۔
کھیل ہو کہ کام دونوں میں قوت ارادی ہی مخصوص جمالیاتی احساس کا تعین کرتی ہے اور قوت ارادی پیدا ہوتی ہے کھیل اور کام کے موضوع اور مقصود سے کھیلنے اور کام کرنے والے کے جذباتی لگاؤ سے۔ یہ ایک اہم انسانی خصوصیت ہے ، قوت ارادی شعور ہی کی وہ کیفیت ہے جو عمل کا روپ دھار لینے سے اسے حاصل ہوتی ہے اور عمل کا مقصود ہی عمل کی سمت اور عمل کی خصوصیت کی نشان دہی کرتا ہے۔
ڈھائی ہزار سال سے بھی زیادہ ہونے کہ جمالیات کی ابتدا بابل، مصر ہندوستان اور چین میں ہوئی پھر اس علم نے یونان میں اور رومائے قدیم میں خوب ترقی کی۔ لیکن چودھویں صدی عیسوی سے لے کر سترھویں صدی عیسوی تک یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک نے جمالیات کو حسن کو حسن ملکوتی کے سا منتی تصور سے آزاد کیا۔ فن کو اس کے اپنے فطری سر چشمہ زندگی سے وابستہ کیا ، اور اٹھارویں اور انیسویں صدی میں انقلابی جمہوری جمالیات کی بنیادیں استوار ہوئیں۔
آج لگتا ہے کہ جمالیات ایک نئی کشمکش کے دور سے گزر رہی ہے۔ ایک ایسی سماج جو مفادات حاصلہ کے اکتسابی اغراض پر قائم ہے۔ انسانیت کو جمالیاتی اعتبار سے مفلس بنادیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں صرف سرمایہ کو انفرادیت اور آزادی حاصل ہے۔ انسان محض سرمائے کا تابع دار ہے۔ یہاں سائنس داں فن کار ، ادیب، مزدور سب سرمائے کے تنخواہ یاب ملازم ہیں۔ اسی لئے محنت کا جمالیاتی مقصود مفقود ہے۔ جمالیاتی حس کی نہیں، اکتسابی حس کی تسکین معاشرے کا مقصد ہے۔ ایسے میں فرد کی شکست و ریخت نے ’’شق البشر‘‘ کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ انسانیت جمالیات اعتبار سے مفلس ہوگئی ہے اور ’’فن کی موت‘‘ کا قنوطی نظریہ پیدا ہوگیا ہے۔
قنوطیت کے اس گھیراؤ کو توڑ کر جمالیات کو آزاد کرانا ضروری ہے تاکہ فرد کو مقصود محنت سے جذباتی لگاؤ پیدا ہو اور محنت سے ایک جمالیاتی تسکین بھی حاصل ہو۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے فنی اور جمالیاتی تصورات پر کاری ضرب لگائی ہے۔ لیکن یہ جمالیات کی تاریخ اور سماجی ارتقا دونوں سے مکرنے کی بات ہوئی۔ ٹکنالوجی انسانی علم و فکر کے ارتقا کی ایک ایسی نئی منزل ہے جہاں پہنچ کر انسانی محنت کی افادیت ، کارکردگی اور اس کے امکانات میں لا متناہی اضافہ ہوگیا ہے۔ اور یہ بذات خود جمالیات کے نئے افق ہیں۔
جمالیات کا ٹکنالوجی پر اور ٹکنالوجی کا فن پر اثر پڑتا ہے۔ ٹکنالوجی کی وجہ سے محنت میں شگفتگی اور پیداوار محنت میں نیا حسن پیدا ہوتا ہے۔کام کے طریقے جو پرانے اور ازکار رفتہ ہوچکے ہیں۔ جمالیاتی کشش کھودیتے اور اکتاہٹ اور بے زاری پید اکرتے ہیں۔نئے طور طریقے ، نئی کشش اور دل فریبی رکھتے ہیں۔ زندگی تکمیل کی سمت مسلسل مصروف سفر ہے۔ تکمیل کی کوئی حد مقرر نہیں۔ سفر کی سمت متعین ہے۔ سنگ میل بھی راہ میں ہیں۔ لیکن ایسی کوئی منزل نہیں جہاں یہ سفر ختم ہو جائے گا۔یہی حسن ہے اور یہی جمالیات کی ابدیت کا راز۔
ماخوذ از کتاب: ادبی مطالعے
مصنف: ڈاکٹر راج بہادر گوڑ۔ ناشر: انجمن ترقی اردو آندھرا پردیش، حیدرآباد (سن اشاعت: 1978ء)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں