سردیاں شروع ہو چکی تھیں۔ راتیں طویل ہونے لگیں اور دن کا تو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا کب صبح ہوئی کب شام؟ ظہر عصر کے اہتمام میں مغرب کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ عشاء کی نماز میں دیر سے پڑھنے کی عادی تھی۔ نماز سے فارغ ہوکر حسب عادت میں چھت پر آ گئی۔ سردی کی رات اور ہلکی سرد ہوا۔ میں نے شال کو اپنے ارد گرد لپیٹا اور چاند کی طرف حسرت سے دیکھا۔ وہ اتنا خوبصورت ہوتے ہوئے بھی تنہا تھا۔ ایک لمحے کو محسوس ہوا کہ چاند بھی مجھے حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ اور وہی سوچ رہا ہے جو میں سوچ رہی تھی۔
میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ ستارے میری آنکھوں سے ہتھیلیوں میں جذب ہو گئے۔ میں بالکنی پر ٹیک لگائے دیر تک اندھیروں سے آنکھیں ملاتی رہی۔ اچانک ایک پرندہ میرے سامنے گرا۔ میں نے لپک کر اسے اٹھا لیا۔ روشنی کی طرف لاکر دیکھا، پرندہ زخمی تھا۔ میں نے زخم صاف کیا اور مرہم لگایا۔ پرندہ اپنے پنکھ پھڑپھڑا رہا تھا۔ مگر اڑنا اس کے بس میں نہیں تھا سو کچھ دیر میں خاموش ہو گیا۔ میں نے نرمی سے اسے اٹھایا اور اپنے قریب کیا، وہ بے حد خوبصورت تھا۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ تھوڑی دیر میں وہ زخمی پرندہ گہری نیند سو گیا۔
سویرے گھر کے ہنگاموں میں میں تو اس کو بالکل بھول ہی گئی مگر وہ رات والے انداز میں پھڑپھڑایا اور میں دوڑ کر اس کے پاس گئی۔ میں نے زخم دیکھا رات سے کچھ کم تھا۔ زخم پر دوبارہ مرہم لگانے کے بعد میں نے اس کے کھانے کا انتظام کیا۔ دو چار دن میں ہی زخم اچھا ہو گیا۔ مگر اس کے ساتھ ہی اب پرندے نے پھڑپھڑانا بند کر دیا۔ اور اکثر وہ اُڑ کر میرے کندھے پر بیٹھ جاتا۔
دن گزر رہے تھے، میں اس کی اور وہ میرا عادی ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی شرارتیں دن بدن بڑھتی جا رہی تھیں۔ اب وہ مجھے ہر وقت اپنے قریب چاہتا کبھی جب میں باہر جاتی تو میرے گھر واپس لوٹتے ہی اپنی مخصوص آواز میں چلاتا۔ کبھی اپنے پنکھ تیز تیز پھڑپھڑاتا۔ اور کبھی سر جھکا کر ناراضگی ظاہر کرتا۔ میں اس کو کافی حد تک سمجھنے لگی تھی۔ اس لیے گود میں اٹھا کر پیار کرتی۔ چمکارتی اور ذرا دیر میں وہ بھی ناراضگی ختم کر کے کبھی میرے کندھے پر ،کبھی گود میں آ بیٹھتا۔
گزرتے وقت کے ساتھ وہ پہلے سے زیادہ مجھ سے مانوس ہو گیا تھا۔ حتیٰ کہ اب وہ بستر پر میرے ساتھ سوتا۔ سردی میں اس کی گرمی مجھے سکون دیتی اور گرمی میں اس کا ٹھنڈا بدن میری نیند کا باعث ہوتا۔ اب رات کی تنہائی ختم ہو چکی تھی۔ مگر کچھ دنوں سے میں محسوس کر رہی تھی وہ رات میں میرے قریب آتے ہی کچھ بے چین سا ہو جاتا ہے۔ پھر ایک رات میں نے اپنے اور اس کے درمیان کا حجاب ختم کر دیا۔ صبح اس کے چہرے پر شگفتگی تھی۔ وہ پہلے کی طرح چہک رہا تھا۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اب ہر رات ہم دونوں کی سکون سے گزرتی۔
مگر پھر ایک صبح پرندہ مجھے نظر نہیں آیا۔ میں چھت پر آ گئی ،وہ چھت پر چاروں طرف پرواز میں مگن تھا۔ میں نے اسے اشارہ کیا مگر بجائے اس کے وہ میرے اشارے پر میرے کندھے پر آکر بیٹھتا وہ ہوا میں گشت کرتا رہا۔ میں اسے دیکھ کر مسکراتی رہی۔ مگر رات ہوتے ہی میرے قریب آ گیا اور پوری شدت سے مجھ سے لپٹا رہا۔ ایک لمحے کو میں نے بغور اس کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں کچھ تو عجیب تھا۔
میں دیر تک سوچتی رہی جانے کیا ہوا دن بدن وہ رات کو بے چین ہو اٹھتا۔ اور پھر دیر تک اپنے پنکھ پھڑپھڑاتا۔ مجھ سے اس کی بے چینی دیکھی نہ جاتی۔ پھر ایک صبح میں نے اسے چمکار کے اٹھایا اور دور پہاڑوں کے پاس لے آئی۔ اونچی پہاڑی پر چڑھ کر اسے میں نے ہوا میں اچھال دیا۔ اس نے پھڑپھڑا کر پنکھ پھیلائے اور دور فضاؤں میں پرواز کرنے لگا۔ میں نے دیکھا اس کی آنکھیں متشکر تھیں۔ وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
اب وہاں صرف خالی آسمان تھا اور میرے پاس سرد بدن اور تنہا راتیں تھیں۔
عافیہ حمید۔ ریسرچ اسکالر، خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی، لکھنؤ
ای-میل: aafiyahameed6[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں