توہین رسالت کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں تشدد - ذمہ دار کون؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-12

توہین رسالت کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں تشدد - ذمہ دار کون؟

tashaddud-ka-zimmedar-kaun

توہینِ رسالتﷺ کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں تشدد کا کون ہے ذمہ دار ؟
کون ہے رانچی کے سولہ سالہ شہید مدثر ولد محمد پرویز اور شہید ساحل کا مجرم ؟


کون ذمہ دار ہے اُن نوجوانوں کے جسموں پر لگے زخموں کا ، جو عشقِ رسول ﷺ میں احتجاج کے لیے سڑکوں پر اترے تھے ؟
یہ کیوں رانچی سے لے کر اتر پردیش اور مغربی بنگال تک ، اندھا دھند گرفتاریاں کی جا رہی ہیں ، اور کون ہے اِن گرفتاریوں کے پیچھے ؟
کیا شہید مدثر اور ساحل کے مجرم خود احتجاجی ہیں ، یا سیاسی اور مذہبی قائدین ، یا حکومت اور پولیس ؟
کیا یہ کہنا درست ہوگا ، کہ احتجاجی خود اپنے زخموں اور اپنی گرفتاریوں کے قصوروار ہیں ، انہوں نے جو بویا وہی کاٹا ؟
ان سوالوں کے جواب ایسا نہیں ہے کہ نہیں مل رہے ہیں ، مل رہے ہیں ، کوئی سارا قصور ، سارا الزام احتجاجیوں کے سر ڈال رہا ہے ، تو کوئی سیاسی اور مذہبی قائدین کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے ، اور کوئی حکومتوں ( مرکزی و ریاستی ) ، پولیس اور انتظامیہ کو مجرم کہہ رہا ہے۔


یہ سچ ہے کہ جمعہ 10/ جون کو کسی بھی تنظیم ، جماعت یا کسی ادارے کی جانب سے ، کسی بھی طرح کے احتجاج کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ ہاں ، اس روز ، عالم اسلام میں ' جمعتہ نصرۃ رسول اللہ ﷺ ' کے عنوان سے احتجاج کا اعلان تھا ، اور عالمِ اسلام نے جمعہ کو مظاہرے کر کے ، رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا بھی۔
بھارت میں کسی بند کا اعلان نہ ہونے کے باوجود ملک گیر سطح پر مظاہرے ہوئے ، احتجاج کیا گیا ، نعرے لگا کر غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ گستاخ نوپور شرما اور نوین جندل کو گرفتار کیا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
سوال یہ ہے ، کہ جب احتجاج کا کوئی اعلان ، مسلم تنظیموں و جماعتوں کی طرف سے نہیں تھا ، تو احتجاج ہوا کیسے؟ اس سوال کے تین ممکنہ جواب ہو سکتے ہیں :
اوّل یہ کہ ہو سکتا ہے عام مسلمانوں نے ' جمعتہ نصرۃ رسول اللہ ﷺ ' کے اعلان میں بھارت کو بھی شامل سمجھ لیا ہو اور احتجاج کے لیے تیار ہو گئے ہوں ، کیونکہ ذمہ داران کی جانب سے ، بالفاظ دیگر ملّی جماعتوں کی طرف سے کوئی ایسا اعلان یا وضاحت نہیں آئی تھی کہ ' جمعتہ نصرۃ رسول اللہ ﷺ ' سے ہمارا ، ہم ہندوستانی مسلمانوں کا ، کوئی لینا دینا نہیں ہے ، لہٰذا اس سے دور رہیں۔
دوم یہ کہ سوشل میڈیا پر ایک اعلان ' جمعہ کے بند اور احتجاج ' کا مسلسل گردش میں تھا ، حالانکہ اس ' اعلان ' کے نیچے نہ کسی تنظیم کا نام تھا نہ ہی کسی شخص کا ، لیکن ' اعلان ' چونکہ وائرل ہو چکا تھا ، اس لیے یہ ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں نے اسے ' احتجاج کا اعلان ' سمجھ لیا ہو اور جمعہ کو احتجاج کا ارادہ کر لیا ہو۔ یہ سچ ہے کہ بعض مسلم تنظیموں اور بعض قائدین نے سوشل میڈیا پر بھی اور اخبارات میں بھی ' اعلان ' کو فرضی بتایا اور لوگوں کو ' بند ' نہ کرنے کی تاکید کی ، لیکن اس تاکید کے آنے سے پہلے ' بند کا اعلان ' اپنا اثر ڈال چکا تھا۔ ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ ' بند کے اعلان ' کو ' نامعلوم افراد کی کارستانی اور فرضی بتانے ' کے باوجود ، اور اس وضاحت کے بعد بھی ، کہ کسی بھی مسلم تنظیم یا جماعت نے ' بند کا اعلان ' نہیں کیا ہے ، کیوں عام لوگوں نے قائدین کی باتوں پر توجہ نہیں دی ؟ شاید اس سوال کا جواب بہتوں کو اچھا نہ لگے ، لیکن تلخ سہی جواب ایک ہی ہے ، لوگ اب قائدین کے ' رویّوں ' سے عاجز آ چکے ہیں۔
میں مولانا محمود مدنی کا مخالف نہیں ہوں ، اور ممکن ہے کہ انہوں نے کسی مصلحت کی بنا پر '' بی جے پی کو ذمہ دار سیاسی پارٹی کہہ کر اس کی سراہنا کی ہو '' ، لیکن یہ بات عام مسلمانوں کو بھائی نہیں ہے ، انہیں یہ لگ رہا ہے کہ جیسے مولانا محمود مدنی نے اہانتِ رسولﷺ کے مرتکبین کے آگے گٹھنے ٹیک دیے ہوں۔
اسی طرح مولانا توقیر رضا خان کا یہ بیان کہ '' یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے '' ، لوگوں کے لیے حیرت اور غصے کا باعث بنا ہے۔ بھلا کیسے اہانتِ رسول ﷺ کا شرمناک معاملہ '' صرف اندرونی معاملہ '' ہو گیا ؟ کیا اللہ کے رسول ﷺ کو رحمۃاللعالمین نہیں کہا جاتا ، اور کیا ساری دنیا کے مسلمانوں کا اپنے نبی پر کوئی حق نہیں ہے؟
لوگ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ آپ نے بھلا کون سا ایسا اقدام کیا کہ جس سے مرکز کی مودی سرکار اور ملک کی بی جے پی کی ریاستی سرکاریں ، گستاخوں کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہوتیں ؟ کچھ نہیں کیا سوائے گفتار کے۔ آپ کا تعلق اعلیحضرت ؒ کے خٓانوادے سے ہے ، جنہوں نے ساری زندگی عشقِ رسول ﷺ میں گذار دی ، کیا اعلیحضرت ؒ یہ گستاخی برداشت کرتے ؟ کبھی نہیں۔


سچ یہ ہے کہ اس معاملہ میں چند ایک کو چھوڑ کر ساری مذہبی قیادت کٹگھرے میں کھڑی ہے۔ اکابر نے ان حالات میں کیا کیا تھا ، اس کی ایک مثال ملاحظہ کر لیں :
شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنیؒ کے تلامذہ میں سے ایک حضرت مولانا قمر عثمانی صاحب ؒ نے اپنی ایک کتاب '' علماء دیوبند کے تابندہ نقوش '' میں ایک واقعہ لکھا ہے ، کہ ۔۔۔۔
' مجھے یاد ہے یو پی میں پنتھ جی وزیراعلیٰ تھے ، اس وقت توہین رسولﷺ کا واقعہ پیش آیا ، تمام مسلمان اس سے متاثر اور مشتعل ہوئے۔ حضرت مدنی ؒ نے اس موقع پر دارالعلوم دیوبند میں ایک تقریر کی۔ تقریر کیا تھی دل کے داغ تھے ، جو الفاظ کی شکل میں ظاہر ہو رہے تھے۔ آپ نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
'' ہم نے آزادی کے لیے اس واسطے قربانیاں نہیں دی تھیں کہ ہمارے مذہب یا ہمارے مذہبی پیشوا اور پیغمبروں کی توہین کی جائے ، اگر حکومت نے اس کو روکنے کی کوشش نہ کی ، اور گستاخی کرنے والے کو قرار واقعی سزا نہ دی ، تو سول نافرمانی کرتے ہوئے جو شخص سب سے پہلے جیل جائے گا وہ ' حسین احمد ' ہوگا ، ہم انگریزوں کی جیلوں سے نہیں ڈرے ، اب کیا ڈریں گے۔ ''
اس وقت پنڈت نہرو وزیراعظم تھے ، ساری حکومت حرکت میں آ گئی تھی۔ مانا کہ آج پنڈت جی کی حکومت نہیں ہے ، راج مودی اور یوگی کا ہے ، لیکن اس کے باوجود اپنی بات صاف صاف کہنے کا دروازہ کوئی بند تو ہے نہیں ، اور اگر بند بھی ہو تب بھی اس معاملہ میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اپنی بات رکھنا چاہیے تھی ، خاص کر یہ بات کہ اب تک گستاخوں کی گرفتاری کیوں نہیں کی گئی ہے ؟


اب آئیں تیسری وجہ کی بات کر لیں۔ جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے ، ایک ' بند کا اعلان ' سوشل میڈیا پر گردش کر رہا تھا ، تو سوال یہ ہے کہ اس ' اعلان ' کے پسِ پشت کون تھا ؟ انگلیاں ' شرپسندوں ' کی جانب اٹھ رہی ہیں۔ یہ شرپسند وہ ہیں جو مسلمانوں کو پھنسانے کے لیے کمر بستہ ہیں ، اگر کوئی یہ کہے کہ ان میں مسلمان بھی شامل ہو سکتے ہیں تو حیرت نہیں ہونا چاہیے ، کہ مسلمان ایسے کام کر چکے ہیں۔
بی جے پی کا آئی ٹی سیل ایسے کاموں کے لیے بڑا ہی ' مشہور ' ہے ، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس نے ' بند کا اعلان ' وائرل کیا ہو ؟ ایک تیر سے کئی شکار کھیلنے کی کوشش کی گئی ، ایک تو یہ کہ مسلمانوں پر الزام ڈال دیا گیا کہ وہ ' تشدد ' کرتے ہیں ،' شرپسند ' ہیں اور مندروں پر پتھراؤ کرنے والے ہیں۔ اس الزام کے نتیجے میں دونوں فرقوں ہندوؤں اور مسلمانوں میں مزید خلیج بڑھ سکتی ہے ، اور فرقہ پرست اپنے مفادات کی تکمیل کےلیے یہی چاہتے ہیں۔


مزید یہ کہ توہینِ رسالتﷺ کا معاملہ ' اندرونی لڑائی ' میں تبدیل ہو سکتا ہے ، گرفتاریوں کا مزید موقع مل سکتا ہے ، مسلم فرقے کی معاشی کمر توڑی جا سکتی ہے اور انہیں احساسِ ذلت اور احساسِ محرومی کے ساتھ خوف کی نفسیات میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔ اب تو ' بلڈوزروں کی سیاست ' بھی زوروں پر ہے ، لہٰذا ان کے گھروں کو بھی مسمار کیا جا سکتا اور انہیں در در پھرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ سازش کی طرف اشارہ کر رہی ہیں ،انتظامیہ ، پولیس اور حکومت کو اس سب کے پیچھے بتایا جا رہا ہے۔ سارا معاملہ منصوبہ بند تھا ، وہ لوگ جو مسلمانوں کے احتجاج میں گھسے اور پتھراؤ کیا ان کے چہرے بھی سامنے آ گیے ہیں۔ سارا کھیل کانپور ، جہانگیرپوری اور کھرگون کی طرح کھیلا گیا ہے۔
ایک اہم بات ' پروپیگنڈا ' بھی ہے ، مسلمانوں کے خلاف جم کر نفرت پھیلانے کا ماحول بنایا جا سکتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ مسلمان بالخصوص نوجوان ، جو ان مظاہروں میں شریک رہے ہیں ، جو شہید اور زخمی ہوئے ہیں اور جنہیں گرفتار کیا جا رہا ہے ، ان پر ہی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ اور انگلیاں اٹھانے والوں میں مسلمان پیش پیش ہیں۔ سوشل میڈیا پر کئی ایسے پوسٹ نظر آ جائیں گے جن میں احتجاجیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ سڑکوں پر ہڑ بونگ مچانے والے لوگ ہیں ، یہ رسول ﷺ کی بے ادبی کے مرتکب ہوئے ہیں ، انہوں نے احترام کو تج دیا ہے ، یہ غیروں کی مشابہت کے مجرم ہیں وغیرہ وغیرہ۔


یہ ہے ' غیروں کے پروپیگنڈے ' کا ' اثر ' کہ جو عشق رسول ﷺ میں سڑکوں پر اتریں وہ ' بےادب ' کہلائیں اور جو گھروں میں بیٹھ کر لیکچر دیں وہ خود کو عاشقِ رسول ﷺ قرار دیں ! خیر بات چل رہی تھی ' اعلان ' کی ، جس کا وائرل کرنے والا یا وائرل کرنے والے ' نامعلوم ' ہیں۔ یہ ' اعلان ' ممکن ہے کہ مسلمانوں کو اکسانے کی سازش رہا ہو۔ خیر یہ جو بھی ہیں ، شاطر لوگ ہیں ، ان کی عیاری اور مکاری کا کوئی توڑ ضروری ہے۔ بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے کی روایت اب بند ہونی چاہیے۔


ایک سوال یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کہیں یہ ' اعلان ' مسلمانوں ہی کی طرف سے تو نہیں تھا ، کہ ' اعلان ' دیا ہو اور نام نہ ظاہر کیا ہو ؟یہ ممکن ہو سکتا ہے ، ایسے لوگ موجود ہیں۔ اسی لیےعام مسلمانوں کو بھی اور مسلمانوں کی سیاسی و مذہبی قیادت کو بھی بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ یقیناً بے قیادت احتجاج کے نقصانات ہیں ، جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ، لیکن :
'بگڑتی ہے جب ظالم کی نیت ، نہیں کام آتی دلیل اور حجت'
کے مصداق باقیادت مظاہروں کا حشر بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ مالیگاؤں کا مظاہرہ باقیادت تھا۔ آج بھی ساٹھ ستّر لوگ سلاخوں کے پیچھے ہیں ، یوپی اور شاہین باغ کے این آر سی مخالف مظاہرے باقیادت تھے ، ان کے ذمہ داران پر مقدمے بن گئے ہیں ، یوپی میں تو قرقیاں ہو چکی ہیں۔


ایک جمہوری ملک میں بھی آپ احتجاج کے لیے آزاد نہیں ہیں۔ تو کیا احتجاج بند کر دیا جائے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے ، اور اس پر غور کرنے کی کہ اگر احتجاج بند کیا گیا تو دوسرا راستہ کیا ہوسکتاہے؟ کچھ بات نوپور شرما اور نوین جندل کی کر لیتےہیں۔ یہ لکھے جانے تک دونوں گرفتار نہیں کیے گئے ہیں ، عرب ممالک کی ناراضگی بی جے پی سے ان کی معطلی کا باعث بنی ہے ، ہندوستانی مسلمانوں کا احتجاج نہیں۔ اور یہ بات اگر کہی جائے تو غلط نہیں ہو گی کہ ان دونوں کی گرفتاری کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔


مقدمہ کر دیا ، عرب ممالک کو بتا دیا ، کام ہو گیا۔ بی جے پی کی سیاست ہی ہندوتوا کی سیاست ہے ، وہ کبھی بھی ' ہندوتوادیوں ' کے خلاف سخت کارروائی نہیں کر سکتی ، لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو صد فیصد سچ ہوگا کہ یہ پارٹی ' ذمہ داری ' کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے ، اگر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی تو اب تک پی ایم مودی ، بی جے پی صدر نڈا اور یوگی و امیت شاہ کا ، دونوں کی مخالفت میں بیان آ چکا ہوتا۔ نہ بیان آیا ہے اور نہ آنے کی امید ہے۔


Violence Over Prophet Remark Row. Analysis: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں