مایۂ ناز علمی و ادبی شخصیت سید سعید اختر نقوی - ایک خصوصی ملاقات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-11

مایۂ ناز علمی و ادبی شخصیت سید سعید اختر نقوی - ایک خصوصی ملاقات

علم و ادب ایک ایسی میراث ہے جو تسلسل کے ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی رہی ہے زندگی انھیں ادبی سطور کے درمیان اپنے ہونے کا پتہ دیتی ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس سے ہٹ کر زندگی اپنا وجود نہیں رکھتی منشائے لفظ یہ ہے کہ ادبی اسلوب میں زندگی کو اس قرینے سے پیش کیا جاتا ہے کہ گذرتے وقت کے ساتھ یہ ایک اثاثے کی طرح ہمیں عزیز ہو جاتی ہے۔


ادب خواہ کسی بھی زبان کا ہو اس بات پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے اگر نظریات کی تشکیل میں ایک اہم کردار کیا ہے تو یہ بھی ایک سچ ہے کہ اس نے روایتی نظریات کی تردید بھی کی ہے۔ سچ ہی کہتے ہیں کہ ادب زندگی کے ہر رخ کا آئینہ دار ہوتا ہے اور یہ زندگی کے کم و بیش سارے ہی شعبوں میں اصلاح کا فریضہ سر انجام دیتا ہے خواہ وہ افسانہ نگاری کی صورت میں ہو یا شاعری ، ترجمہ نویسی ، اور تنقید نگاری کی شکل میں ہو اس کے ذریعے لکھاری اپنے ان احساسات کو قلمبند کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ تجربات و مشاہدات اور مطالعوں کے ذریعے اس کے اندر پیدا ہوتے ہیں اس تناظر میں یہ بات بنا کسی رد و کدح کے کہی جا سکتی ہے کہ ایک لکھاری کسی بھی معاشرے کا ایک قیمتی اثاثہ ہوتا ہے اس کے نظریات و تجربات کو جاننے کی تگ و دو کرنا معاشرتی و انفرادی ارتقاء کا ضامن ہے۔


بہترین لکھاری وہی ہوتا ہے جو زمانے میں پیش آمدہ واقعات و حادثات کو پیشگی طور پر محسوس کر کے اس کے سد باب کی نہ صرف نشاندھی کرتا ہے بلکہ اس کے فروغ پانے کی صورت میں پیدا ہونے والے منفی مضمرات کو بھی بیان کرتا ہے۔ جو ادب کی تخلیق کسی بار گراں کی طرح نہیں بلکہ اپنا فرض سمجھ کر انجام دیتا ہو۔
ادب مضمون نگاری، شاعری، خاکہ نگاری، ترجمہ نگاری اور دیگر صورتوں میں نمو پاتا ہے ادب کی تاریخ میں ایسی بیشتر شخصیات گذری ہیں جنھیں ان تمام صنف ادب پہ کمال حاصل تھا اب بھی کئی ایسی نابغہء روزگار ہستیاں ہیں جنھوں نے ادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائیوں کے لئے خود کو وقف کر رکھا ہے ان میں سے ایک نام سید سعید اختر نقوی کا ہے جن کی شخصیت کے دروں سہ رکنی تہذیب کے عناصر پائے جاتے ہیں ان کے آباء و اجداد ہندوستان کی مٹی سے تعلق رکھتے تھے تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان ہجرت کر گئے پھر حصوں علم اور کسب معاش کے لئے وہ مغرب کے سر زمین میں قیام پزیر ہو گئے اگرچہ ہند و پاک کی تہذیبوں کے درمیان زیادہ حد فاصل نہیں پھر بھی جینز میں اس کے اثرات کسی نہ کسی شکل میں منتقل ضرور ہوتے ہیں۔


سعید نقوی صاحب ہمہ جہت صلاحیتوں کی حامل شخصیت ہیں جنھوں نے افسانوں، غزلوں، نظموں، ترجمہ نگاری میں اپنی پہچان کو مسلم بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اگرچہ ان کا تعلق شعبۂ طب سے ہے لیکن ان کے ادبی ذوق نے انھیں ادب کی بساط پر ایک کامیاب مہرہ بنا کر ہی چھوڑا۔ آئیے ان سے بات کرتے ہیں اور ان کے زندگی کے سفر اور ادب کے جنون اور ان کے نظریات و خیالات کو انھیں کی زبانی جانتے ہیں۔


علیزے نجف:
سب سے پہلے آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں اور یہ بھی بتاتے چلیں کہ آپ کا تعلق کس خطے سے ہے اور فی الوقت آپ کہاں مقیم ہیں؟
سعید نقوی:
میرا پورا نام سید سعید اختر نقوی ہے۔ میری پیدائش کراچی میں ہوئی لیکن ایک برس کی عمر میں والد کا حیدرآباد ٹرانسفر ہوگیا، تو ساری پرورش اور پہلی جماعت سے میڈیکل کالج تک تعلیم حیدرآباد میں ہوئی۔ فی الحال میں گزشتہ اٹھائیس برسوں سے نیویارک میں مقیم ہوں۔


علیزے نجف:
آپ ہمیں کچھ اپنے خاندان کے بارے میں بھی بتائیں آپ کے بھائی بہن کتنے ہیں اور وہ کن شعبوں سے وابستہ ہیں میں نے کہیں پڑھا تھا آپ کا خاندان انڈیا سے پاکستان ہجرت کر گیا تھا انڈیا کے کس خطے میں آپ کے اجداد رہائش پزیر تھے؟
سعید نقوی :
میرے والد فتح پور انڈیا سے ہجرت کرکے ُکرا چی آئے تھے۔میرے سات بہن بھائی ہیں، جن میں میرا نمبر دوسرا ہے۔ والدین ۱۹۸۸ میں کینیڈا منتقل ہوگئے تھے۔ وہیں ٹورنٹو میں ہی دونوں دفن ہیں۔ میرے پانچ بہن بھائی ٹورنٹو میں اور ایک روچسٹر، نیویارک میں ہے۔ ایک چھوٹا بھائی ڈاکٹر ہے۔بہن بھائی مخلتف تجارتی پیشوں سے وابستہ ہیں۔بیوی بینک میں ملاز م۔ دونوں بیٹیاں اور داماد بھی طب کے پیشے سے وابستہ ہیں۔


علیزے نجف:
آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی اور حصول علم کے لئے کہاں کہاں کا سفر کیا اور آپ نے یہ تعلیمی مراحل کس طرح طئے کئے کیا اس کے لئے کوئ خاص اصول بھی آپ نے طئےکئے تھے ؟
سعید نقوی:
پاکستان میں میری تعلیم ایم بی بی ایس تک محدود تھی، پھر انگلستان، آئرلینڈ اور امریکہ سے مزید پیشہ ورانہ ڈگریاں اور تربیت حاصل تھی۔


علیزے نجف:
آپ کے بچپن میں آپ کے ارد گرد اور گھر کا ماحول کیسا تھا اور آپ کی پرورش میں کس نے کلیدی کردار ادا کیا ان کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
سعید نقوی:
میری پرورش کا سارا سہرا میرے والدین کے سر جاتا ہے۔ ہمارا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ والد صاحب نے تعلیم ، محنت اور ایمانداری پر بہت زور دیا اور خود اس کی مثال قائم کی۔ والدہ نے بھی ملنساری ، اور اپنے اطراف کا خیال رکھنا سکھایا۔


علیزے نجف:
آپ نے حصول تعلیم کے بعد اپنی ملازمت کا آغاز کہاں سے کیا اور موجودہ مقام تک پہنچنے کے سفر کو آپ نے کیسے طئے کیا؟
سعید نقوی:
ڈاکٹر بننے کے بعد میری پہلی ملازمت اٹامک انرجی کمیشن کے لیے تھی، جس کے لیے جامشورو میں تعیناتی ہوئی۔میں نے ۱۹۸۶ میں پہلا بیرون ملک سفر انگلستان کا کیا۔ پھر کوئی ڈیڑھ سال بعد واپس آکر پاکستان میں گزارے۔ اب کوئی چونتیس برس سے ملک سے باہر ہوں۔


علیزے نجف:
آپ شعبۂ طب سے وابستہ ہیں جب کہ آپ کا ادبی ذوق بھی کمال کا ہے پھر آپ نے لٹریچر سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بجائے میڈیکل سے کیوں کیا؟ کیا اس کے پیچھے آپ کا ذاتی رجحان تھا یا میڈیکل آپ کی فیملی کا انتخاب تھا ؟
سعید نقوی:
ادب اور طب دونوں ہی کی طرف رجحان تھا۔ طب میں زیادہ عزت، کمائی اور دشواری محسوس ہوتی تھی، اس میں داخل ہوگئے۔ ادب کی خلش اندر سے بے چین رکھتی تو اسے بھی اوڑھ لیا۔ میں نے انٹر تک تعلیم پبلک اسکول حیدرآباد میں حاصل کی۔ وہاں اردو ادب یا زبان میں پی ایچ ڈی کا کلچر ہی نہیں تھا۔ زیادہ تر امرا کے طبقے کی اولادیں تھیں ، جنہیں ایسی سوچ رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس میں چند ہی مجھ جیسے اوسط طبقے کے طلبہ تھے۔ میرے خیال میں اس ماحول نے بھی طب کے حق میں فیصلہ کردیا۔


علیزے نجف :
میڈیکل اور ادب دو متضاد شعبے ہیں آپ ان دونوں کو کیسے متوازن وقت دے پاتے ہیں کیا کبھی آپ کو دقت محسوس ہوتی ہے یا اس کے لئے آپ نے کچھ اصول بنا رکھے ہیں ؟
سعید نقوی:
نوجوانی کا بہت وقت طب کی خدمت میں ضائع کیا۔ کچھ لکھا نہیں۔ لیکن ادب پڑھتا رہا۔ اس سے بعد میں میری تحریر کو بہت فائدہ ہوا۔ لکھنا کوئی پچیس برس پہلے شروع کیا ، اب طب کا کام صرف اخراجات پورے کرنے کی حد تک ہے۔ طب میں ترقی کے کئی مواقع اس لیے چھوڑ دیے کہ پھر ادب کے لیے وقت کم ہوجاتا۔


علیزے نجف:
آپ ایک مترجم ہیں جو کہ آپ کی اعلی ادبی صلاحیتوں کی عکاسی کرتا ہے آپ نے اب تک کتنی کتابوں کے ترجمے کئے ہیں اور کن زبانوں سے کن زبانوں میں ترجمے کئے ہیں ذرا اس کے بارے میں ہمارے قارئین کو کچھ بتائیں؟
سعید نقوی:
میں نے اب تک کوئی اٹھارہ کتابوں کے تراجم کیے ہیں۔ ان میں سے سترہ انگریزی سے اردو اور ایک اردو سے اںگریزی میں ہے۔ فارسی سے کچھ شد بد ہے مگر اتنی اچھی نہیں کہ براہ راست ترجمہ کرسکوں۔ اس کے علاوہ میں اور کوئی زبان نہیں جانتا۔ جن کتابوں کے انگریزی سے تراجم کیے ہیں، ان میں سے کی اپنی زبان کچھ اور تھی۔


علیزے نجف:
اردو ادب کا اپنا سرمایہ بےشک گراں قدر اور بےشمار ہے لیکن وقت کی جدت پسندی کا تقاضہ ہے اور عالمی سطح پہ اسے لانے کے لئے ضروری ہے کہ دوسری زبانوں کے اردو میں اور اردو ادب کو دوسری زبانوں میں منتقل کیا جائے بحیثیت مترجم کیا اس سلسلے میں کی جانے والی پیش رفت سے آپ مطمئن ہیں؟
سعید نقوی:
انگریزی سے اردو تراجم کے سلسلے میں بہت کام ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ کئی عالمی کلاسیکل ادبی شہ پاروں کا اچھا اردو ترجمہ موجود ہے۔ اردو سے انگریزی تراجم خال خال ہیں اور معیاری تو بالکل ناپید۔


علیزے نجف:
آپ افسانہ نگار اور ناول نگار بھی ہیں آپ کے اب تک کتنے افسانوی مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں آپ کا سب سے پہلا افسانوی مجموعہ کون سا ہے اور اس میں آپ نے کس معاشرتی پہلو کو منعکس کرنے کی کوشش کی ہے؟
سعید نقوی:
میرے اب تک پانچ افسانوں کے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ پہلا مجموعہ تھا نامہ بر۔ میں کوئی خاص معاشرتی پہلو اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کوئی بات مضطرب کرتی ہے تو اس کی کہانی سنا دیتا ہوں۔


علیزے نجف:
جب آپ کسی ناول کے لکھنے کی ابتدا کرتے ہیں تو آپ اس کی پلاننگ کرنے میں کن باتوں کو مد نظر رکھتے ہیں آپ کے ناول کا وہ کونسا کردار تھا جس سے آپ ازحد متاثر ہوئے ہیں؟
سعید نقوی:
ناول کے لیے ابتدائی پلاننگ میں مرکزی خیال، پھر اس کی ایک آؤٹ لائن سے بات شروع ہوتی ہے۔کم از کم میرے معاملے میں باقی کردار، واقعات ناول شروع ہو جانے کے بعد وارد ہوتے ہیں۔ یوں کہیے کہ ناول خود طے کرتا ہے کہ اب اسے کہاں جانا ہے۔


علیزے نجف:
آپ ایک شاعر بھی ہیں بحیثیت ایک شاعر کے کن شعراء کے کلام نے آپ کے اندر شعری صلاحیت کو مہمیز دی اور جدید شاعری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا وہ مستقبل میں ادب کے کینوس پر کلاسیکیت کا مقام حاصل کرنے کی خود میں صلاحیت رکھتے ہیں؟
سعید نقوی:
نئے شعرا میں بہت سے نئے لوگ بہت عمدہ کہہ رہے ہیں۔ تابش ،فارغ، رضوان، فہمی، مقصود وفا، مقسط ندیم، سعود، ناطق وغیرہ، خواتین شعرا میں حمیدہ شاہین، یاسمین حمید، عشرت آفرین، عنبرین صلاح الدین۔ ایسے سوالات دشوار ہوتے ہیں کہ کئی بہت سے بہت اعلی درجے کے تخلیق کاروں کے نام وقت پر یاد نہیں آتے۔ یہاں ظاہر ہے آپ کے سوال کی نوعیت کے اعتبار سے میں نے افتخار عارف، انور شعور، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض ، امجد اسلام امجد، انور مسعود، منیب الرحمن، ظفر اقبال، سلیم کوثر وغیرہ کے نام نہیں لکھے کہ وہ اپنا سکہ جاری کروا چکے ہیں۔


علیزے نجف:
انسانی زندگی میں احساس کا ہونا کس قدر ضروری ہے اور کیا وجہ ہےکہ اب احساس کا دائرہ اس قدر تنگ ہوتا جا رہا ہے کہ رشتے اپنا وقار کھوتے جا رہے ہیں اور تعلق مادیت کے زہر سے آلودہ ہوتے جا رہے ہیں آپ کے نزدیک اس کے پیچھے کا وجوہات کارفرما ہیں؟
سعید نقوی:
احساس ہی تو ہمیں جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔ جب یہ کھو جاتا ہے تو ہم پھر جانور بن جاتے ہیں۔میرے خیال میں بنی نوع انسان اس وقت پھر ایک اہم ارتقا سے گزر رہی ہے۔ کمپیوٹر اور جینیات نے ہمارے ارتقائی سفر میں ایک انقلاب پیدا کردیا ہے۔ ہمیشہ کسی نئی معرکتہ الآرا ایجاد کے بعد انسان کو اس سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے چند سو سال مل جاتے ہیں۔ کمپیوٹر ایسی حیرت انگیز ایجاد ہے جس نے ہمارے وجود کے ہر گوشے کو ہلا دیا ہے۔ جس اضطراب کی آپ بات کررہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں کمپیوٹر سے مطابقت پیدا کرنے کا ابھی اتنا وقت نہیں ملا۔ ہم ابھی اس کی اخلاقیات وضع کرنے میں مصروف ہیں۔ اس سے پیدا ہونے والی بیروزگاری نے ہمیں وقت ہی نہیں دیا کہ ہم متبادل پیشے تراش سکیں۔ اس نے دنیا سمیٹ دی ہے۔لیکن اس عظیم ایجاد سے صحیح معنوں میں استفادہ حاصل کرنے اور اس کے نقصان دہ استعمال ہر پابندیاں پیدا کرنے میں ابھی سو سال لگیں گے۔


علیزے نجف:
آپ ملک بیرون ملک دونوں ہی جگہوں پہ زندگی گذارنے کا تجربہ رکھتے ہیں کیا آپ ان دونوں جگہوں کی طرز زندگی میں کوئی محسوس کرتے ہیں اگر ہاں تو وہ فرق کیا ہے ؟
سعید نقوی:
مشرق اور مغرب میں بعد آج بھی اتنا ہے جتنا سو سال پہلے تھا۔ اس کی وجہ صرف مادی ترقی یا ٹیکنالوجی نہیں۔ اس کی وجہ معاشرتی ہیں۔ مغرب زیادہ مہذب ہوگیا ہے، ہم اور زیادہ پستی میں چلے گئے ہیں۔


علیزے نجف:
زندگی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا آپ نے اپنی زندگی کو کسی خاص اصول کے تحت گذارا ہے یا حالات کے تقاضوں کے تئیں اپنے نظریات بدلتے گئے ہیں اور یوں ہی زندگی گزرتی چلی گئ ہے؟
سعید نقوی:
زندگی تمام عمر تعلیم دیتی رہی ہے۔ اصول تو بنیادی طور پر وہی تھے جو والدین نے خمیر میں گوندھ دیے تھے، محنت ، ہر ممکنہ ایمانداری اور اپنے اطراف کا خیال۔ اس میں کہاں تک کامیابی ہوئی اس کا تعین دوسرے کر سکتے ہیں۔
میرے خیال میں تمام فنون ہائے لطیفہ ودیعت ہوتے ہیں۔ قدرت کی طرف سے ایک بنیادی چنگاری کی موجودگی ضروری ہے۔ آپ مطالعے سے اسے بالیدگی دے سکتے ہیں۔ مشق سے اسے بہتر کرسکتے ہیں۔ پہلی پینٹنگ اور پانچ سال بعد کی پینٹنگ میں اکثر بہت فرق ہوتا ہے، جس کی بنیاد مشق اور تعلیم پر ہے۔ یہی معاملہ تحریر کا ہے۔ مطالعہ لازمی ہے، اور مشق درکار ہے۔

***
انٹرویو نگار: علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizeysikander[@]gmail.com

Interview with Dr. Syed Sayeed Naqvi, a renown Urdu litterateur. Interviewer: Alizey Najaf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں