اردو لغات اور فرہنگ سازی کے مسائل - مضمون از ڈاکٹر جمیل اختر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-23

اردو لغات اور فرہنگ سازی کے مسائل - مضمون از ڈاکٹر جمیل اختر

urdu-dictionaries-and-lexicography-problems

لغت نویسی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں ایک ہے۔ اس کام کے لئے مرتب ذہن، وسائنسی و تحقیقی مزاج، دوررس نگاہ اور علم و دانش کے ساتھ ساتھ صبروتحمل کی بھی ضرورت ہے۔ جس شخص کے اندر یہ تمام خصوصیات موجود ہوں گی وہی شخص لغت سازی کے تقاضوں کو کسی حد تک پورا کرسکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کام کے لئے جس وافر علم یعنی علوم پر دسترس اور نگاہ دوربیں کی ضرورت ہے اس کا کسی ایک شخص کے اندر مکمل طور پر ہونا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک اردو کی جتنی بھی لغات تیار ہوئی ہیں وہ خامیوں سے پاک نہیں ہیں۔ سب کی اپنی خوبیوں اور انفرادیت کے باوجود اس میں علمی ، تحقیقی، سائنسی اور الفاظ کے اندراج کی سطح پر بہت سی خامیاں موجود ہیں۔ محاورے اور روز مرہ بول چال کے بہت سے الفاظ آج بھی ان لغات میں موجود نہیں ہیں۔


دوسری بڑی خامی ان لغات میں علاقائی اثرات کی بھی ہے۔ فرہنگ آصفیہ اپنے تمام تر دعووں کے باوجود دہلویت کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکی ہے۔ نوراللغات دبستان لکھنوی کی ترجمانی کرتی ہے۔ ان دونوں لغات کی طباعت کے بعد 1935ء میں لاہور پنجاب کے خواجہ عبدالمجید نے جامع اللغات کے نام سے ایک ضخیم لغت چار جلدوں میں مرتب کی جس پر لاہوریت حاوی ہے۔ چونکہ ان کی مادری زبان اردو نہیں تھی دوسرے ان کا تعلق دہلی یا لکھنو سے نہیں تھا اس لئے اہل لکھنؤ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ کوئی فرد واحد اور وہ بھی پنجابی کس طرح ایسی لغت ترتیب دے سکتا ہے۔ لہذا یوپی اور پنجاب کے اردو دانوں ، ادیبوں اور شاعروں میں ادبی جنگ شروع ہوگئی۔ اودھ پنج میں لکھنو کے ادبا "خاکساران لکھنو" کے نام سے پنجاب کے ادیبوں پر پھبتیاں کسنے لگے یہاں تک کہ انہوں نے اقبال اور آغا حشر کاشمیری کو بھی نہیں بخشا۔ لاہور سے"زندہ دلان لاہور" کے نام سے ان اعتراضات کا جواب دیاجانے لگا۔ جواب لکھنے والوں میں مولانا عبدالمجید سالک، پطرس بخاری، امتیاز علی تاج اور صوفی غلام مصطفی تبسم شامل تھے۔ اس ادبی مجادلے میں جامع اللغات پر بھی خوب لے دے ہوئی جس سے اس لغت کو کافی نقصان پہنچا اور شہرت بھی ملی۔


لکھنو اور دہلی والے زبان کے معاملے میں کب کسی کو خاطر میں لاتے تھے۔ وہ لوگ تو اپنے علاوہ کسی کو عالم فاضل سمجھتے ہی نہیں تھے۔ بھلا ایسی صورت میں وہ دونوں یہ کیوں کر گوارا کرسکتے تھے کہ ان کی زبان دانی اور علم دانی کسی ایسے شخص کے ذریعے ہیچ و حقیر قرار پائے جو نہ لکھنو کا ہے اور نہ جس کی مادری زبان ہی اردو ہے۔ اس لئے کہ جامع اللغات کے شائع ہونے کے بعد ان لغات کی کمیاں اور خامیاإ عوام کے سامنے آگئی تھیں اور لوگ ان دونوں لغات کے مقابلے میں جامع اللغات کو ایک بہتر لغت تصور کرنے لگے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگیا۔


جامع اللغات کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اسی زمانے میں نظام حیدرآباد نے بھی اردو کی ایک اعلیٰ اور علمی لغت کی ترتیب و تدوین کے لئے جید علما کا ایک بورڈ قائم کررکھا تھا جو د س بارہ سال سے یہ کام کررہے تھے۔ مگر جب جامع اللغات نظام کی خدمت میں پیش کیا گیا تو وہ اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے اور اس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً اپنے یہاں کام رکوادیا اور جامع اللغات کو حیدرآباد کی تمام لائبریریوں ، اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں پہنچا دیا۔


اس قضیے کا تعلق بھی چونکہ لغت نویسی کے مسائل سے ہے اس لئے اس کا تفصیلی ذکر میں نے یہاں کیا ہے۔ پہلی دونوں لغات کے مرتبین کا تعلق اردو داں طبقے سے تھا۔ جب کہ جامع اللغات کے مرتب کا تعلق اردو داں طبقے سے نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود جامع اللغات کو کافی شہرت ملی اور ان لغات کی موجودگی میں زیادہ مستند قرار پائی۔ لہٰذا اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ صرف اہل زبان ہونا کافی نہیں بلکہ مختلف زبانوں اور علون و فنون سے واقفیت کے ساتھ ساتھ زباں داں بھی ہونا چاہئے اور اگر انشا کی طرح کئی زبانوں پر عبور حاصل ہو تو سونے پر سہاگا۔


صاحب جامع اللغات کا اپنا مضمون یون تو ریاضی تھا لیکن وہ فزیکل سائنس، فلکیات، تاریخ ، جغرافیہ، مذہبیات، موسیقی، علم نجوم اور ہیئت دانی میں بھی خاصی مہارت رکھتے تھے اور یہ تمام علوم تدوین لغت میں ان کے کام آئے۔ جب کہ فرہنگ آصفیہ اور نور اللغات کے مرتبین صرف اہل زبان تھے عصری علوم سے ان کی وقفیت برائے نام تھی جب کہ لغت نویسی کے لئے ہمہ داں ہونا ضروری ہے۔


اردو لغات سازی میں خامیوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اردو میں اب تک جتنی بھی لغات ترتیب دی گئی ہیں وہ فرد واحد کی کاوشوں کا نتیجہ رہی ہیں۔ لہذا ان کی ترتیب و تدوین کے اصول و ضوابط بھی خود فرد واحد کے وضع کردہ ہیں اور سبھوں نے لغت کے معیار کو اپنی اپنی میزان پر تولا ہے۔ موجودہ لغات سے استفادے کے باوجود ایسا کوئی معیار مقرر نہیں کیا گیا جس کی پابندی لغت نویس کے لئے لازمی ہوتی۔ ایک تو آج تک یہ بات ہی طے نہیں ہوپائی ہے کہ لغت میں کیا کچھ ہونا چاہئے اور کیا کچھ نہیں، دوسرے معیاری اردو لغت کا معیار کیا ہونا چاہئے۔ جب تک اصول و ضوابط طے نہ کرلئے جائیں کسی بھی لغت کو ہم معیاری لغت نہیں کہہ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں درجنوں لغات کی موجودگی کے باوجود معیاری اردو لغت کی کمی ہمیں شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ یہ کمی ہمیں الفاظ کے انتخاب ، ان کے معنی، ان کے تلفظ ، ان کی املا، محاوروں کے انتخاب، روز مرہ علاقائی زبانوں کی شمولیت ، تذکیروتانیث کے تعین، نئے الفاظ کے اندراج ، مختلف علوم و فنون کی اصطلاحات ، دفتری زبان کا اندراج، عام بول چال کے الفاظ، سبھی سطحوں پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کسی بھی اردو لغت میں تمام علوم و فنون کے الفاظ و اصطلاحات کا مکمل احاطہ نہیں کیا گیا ہے اور نہ یہ کسی فرد کی بات ہی ہے۔


ایک بڑا مسئلہ متروکات کا بھی ہے۔ آج تک یہی طے نہیں ہوسکا کہ متروکات بھی کوئی چیز ہے اور کون کون سے الفاظ متروک قرار دئے جاسکتے ہیں اور کون کون سے نہیں۔ اس کام کو سبھی لغت نویس نے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق انجام دیا ہے اور کچھ لغت نویس لفظ کو متروک قرار دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ جامع اللغات کے مرتب خواجہ عبدالمجید متروکات کو کلی طور پر رد نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں اردو بان کے کسی بھی ارتقائی مرحلے میں ان مردہ الفاظ کو حیات نو مل سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے :


"متروک الفاظ کو لغت سے نکال دینا میری رائے میں قرین عقل و دانش نہیں کیونکہ متروک الفاظ کی مثال ان بیجوں کی ہے جو مردوں کی طرح زمین میں مدفون سورہے ہیں لیکن جب وقت اور موقع آتا ہے انہیں خشک اور بظاہر مردہ بیجوں میں سے ہری ہری کونپلیں پھوٹ کر فضائے عالم میں شجر بن کر اپنی شاخیں پھیلا دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بات اور بھی ہے کہ جب ہم شعرائے قدیم یعنی ولی دکنی ، میر، سودا اور دیگر اساتذہ کی تصانیف کا مطالعہ کرتے ہیں تو متعدد اور بیش تر مواقع ایسے آتے ہیں جہاں مترو ک الفاظ نادر اسالیب، نرالی تراکیب اور غریب بندشیں آجاتی ہیں۔ جن کے سمجھنے والے کے لئے لغت کے سوا اور کہیں جائے پناہ نظر نہیں آتی۔"(جامع اللغات صفحہ12)


فیروز اللغات کے مطابق:
"صرف وہ متروک الفاظ و محاورات شامل کئے گئے ہیں جن کا اگرچہ چلن نہیں ہے مگر قدیم کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔" صفحہ 1


لہذا متروک اور غیر متروک الفاظ کی نشاندہی اور ان کے اندراج کا معاملہ بھی خاصاالجھا ہوا ہے اور پیچیدہ کام ہے۔ زیادہ تر لغت نویس متروکات کو درج کرنے کے حق مین ہیں اس لئے کہ وہ اسے زبان کے ارتقائی سلسلے کی ایک کڑی سمجھتے ہیں اور قدیم دواوین اور نثر پارے کے مطالعے اور ان کی تفہیم و تشریح کے لئے ان الفاظ کی لغت میں موجودگی ضروری قرار دیتے ہیں۔ یہ اصول کی بات ہے ، خود انگریزی لغت نویسی جو انتہائی ترقی یافتہ فن ہے اس کی لغات میں بھی قدیم الفاظ شامل ہیں اور ان کے لئے اصطلاح ہے آرکاکٹیٹ(Architect)


ایک مسئلہ تلفظ ا بھی ہے۔ ایک لفظ کے کئی کئی تلفظ مروج ہیں اور وہ لغت میں درج ہیں۔ تلفظ کا مسئلہ علاقائی اثرات کی وجہ سے بھی پیدا ہوا ہے اور آج تک بعض الفاظ کے تلفظ کے سلسلے میں کوئی حتمی معیاری تلفظ مقرر نہیں کیاجاسکا ہے۔ خود انگریزی میں ایس کا تلفظ اب زیڈ ہونے لگا ہے۔ شیڈ یول اور اسکیڈ یول رائج ہیں۔ ایمی جیٹ اور امیڈیٹ اور اوفٹن اور اوفن وغیرہ بھی رائج ہیں۔ کسی بھی معیاری زبان کے لئے تلفظ کے معیار کا تعین بے حد ضروری ہے۔


الفاظ کے املا کا مسئلہ بھی ہنوز حل طلب ہے۔ آج بھی لغات کے اندر ایک لفظ کے مختلف املے درج ہیں۔ اردو املا کی معیار بندی کے سلسلے میں بھی لغت نویسوں نے کوئی پیش رفت نہیں کی۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ اور رشید حسن خاں کی املا سفارشات کے باوجود لغات کے جدید ایڈیشنوں میں اس کا التزام نہیں برتا گیا اور ناشرین پرانی لغات کے عکس در عکس چھپاتے رہے اور خامیاں اپنی جگہ برقرار رہیں۔


املا کے سلسلے میں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ سب سے اہم چیز لفظ کی صورت نگاری ہے ، ایسی اصلاح املا میں بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی جس کی وجہ سے عہد حاضر کے لوگ ماضی میں لکھی اور چھپی ہوئی کتابیں نہ پڑھ سکیں۔


لغت کے لئے الفاظ کے انتخاب کا مسئلہ بھی بے حد اہم ہے۔ اس لئے کہ ماضی میں ترتیب دی گئی لغات اور آج کی مرتب کردہ لغات میں بہت برا فرق ہے۔ اردو کی قدیم فرہنگیں خاص نقطۂ نظر کے تحت لکھی گئی تھیں۔ اس وقت ہندوستان میں فارسی کا رواج تھا اور اردو اپنے ابتدائی دور سے گزر رہی تھی۔ ان لغتوں میں ارد والفاظ کے معنی فارسی میں لکھے گئے ہیں تاکہ فارسی جاننے والوں کو مقامی زبان سمجھنے میں آسانی ہو۔ اس کے بعد انگریزوں کا زمانہ آیا۔ ہندوستان پر جب ان کا تسلط پورے طور پر ہوگیا اور ان کے عملے پورے ملک میں پھیل گئے تو ان کو ہندوستانی زبان سیکھنے کی ضرورت ہوئی۔ اس ضرورت کے پیش نظر انگریز مولفین نے فرہنگیں تالیف کیں جو اردو سے انگریزی میں تھیں۔ یہ سب فرہنگیں سوداگروں اور کمپنی کے عہدے داروں کو اردو سکھانے کی غرض سے مرتب کی گئیں یہاں مقصد اردو کو ایک غیر ملکی زبان کی حیثیت سے سیکھنے کا تھا یعنی وہ لوگ اردو سیکھ رہے تھے جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی لہٰذا یہاں الفاظ کے انتخاب کا معاملہ بھی بالکل مختلف نوعیت کا تھا۔


لیکن جب ڈپٹی نذیر احمد نے کرمنل پروسیجر کوڈ کا ترجمہ" تعزیرات ہند" کے نام سے کیا تو اردو کی مخالفتوں کے باوجود سارے ملک کے انتظامیہ اور عدلیہ میں اردو بنیادی زبان ہوگئی اور یہ آج بھی زندہ ہے۔


اس کے بعد وہ دور آیا جب اردو سکاری دفتروں میں مروج ہوگئی اور ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے بھی اس کا رواج ہوا تو ایسی لغتیں شائع کرانے کی طرف بعض ناشرین کا خیال گیا جو نصاب کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ ان کی نوعیت ان لغتوں سے ایک حد تک مختلف تھی جو انگریزوں نے تیار کی تھیں۔ چونکہ یہ ایسے طلبا اور مدرسین کے لئے تھیں جن کی مادری زبان اردو تھی اس لئے ان میں عموماً ان الفاظ کو حذف کردیا گیا تھا جو روز مرہ بول چال میں مستعمل ہیں۔ یورپین مرتبین نے اپنے یہاں تمام الفاظ کا اندراج کیا تھا جو لغت کا قاعدہ ہے۔ ہندوستانی مرتبین کا زیادہ زور عربی اور فارسی کے الفاظ پر رہا کیونکہ وہی الفاظ پڑھنے پڑھانے میں مشکل معلوم ہوتے تھے اور انہیں کے معنوں کی تلاش میں لغتوں کے صفحے الٹے جاتے تھے۔ ایسی لغتوں میں فاسی اور عربی کے بہت سے ایسے الفاظ درج ہونے لگے جو اردو میں استعمال ہی نہیں ہوتے۔ لیکن اہم لغتوں میں اردو کے دیسی الفاظ کا ذخیرہ عربی فارسی الفاظ سے کہیں زیادہ ہے۔


اردو کی باضابطہ لغات تصدق حسین رضوی کی"لغات کشوری"(1890)امیر مینائی کی "امیر اللغات"(1891۔92) منشی چھمن لال بدایونی "لغات ہیرا’](1907) لال رام کشن و نشی امیر چند کی "اردو لغات"(1894) سید احمد دہلوی کی"فرہنگ آصفیہ"( 1908) مولوی فیروز الدین کی"فیروز اللغات"(1921) مولوی نورالحسن کی"نور اللغات"(1924) عطر چند کپور اینڈ سنز کی"تاج اللغات"(1932) خواجہ عبدالمجید کی"جامع اللغات"(1933) محمد عبداللہ خاں کی"فرہنگ عامرہ"1937) وغیرہ ہیں۔


بعد کی لغتوں میں نسیم امروہوی کی نسیم اللغات(1955) اثر لکھنوی کی"فرہنگ اثر"( 1961) مہذب لکھنوی کی مہذب اللغات(16 جلدیں۔1958-79)ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت ومقبولیت فرہنگ آصفیہ کو نصیب ہوئی۔


درج بالاتمام لغات میں مولفین نے انتخاب الفاظ کے سلسلے میں اپنے علم، تجربے اور اپنی معلومات کی حد تک کچھ عصری علوم کے الفاظ کو اپنی لغت کے لئے منتخب کیا ہے۔ لہذا تمام حروف تہجی کے تحت جو اندراجات ہیں ان میں لغت کی ضخامت کے لحاظ سے کافی فرق ہے۔ لیکن ضخیم لغتوں کا بھی اگر موازنہ کریں تو الفاظ کے انتخاب کا طریقہ سبھوں میں مختلف پائیں گے۔ کوئی لفظ کسی کے لئے اہم ہے تو کوئی کسی کے لئے، معنی کی سطح پر بھی اختلاف ہے۔ تلفظ کا مسئلہ بھی گمبھیر صورتوں میں سامنا آتا ہے۔ اکثر لغات میں اعراب نہ ہونے کی وجہ سے لفظ کا صحیح تلفظ کرنا مشکل ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں تو تلفظ کا التزام ہی نہیں رکھا گیا ہے۔ نوراللغات ، مہذب اللغات اور جامع اللغات میں اکثر الفاظ کے تلفظ اور فیروز اللغات میں تمام الفاظ کے تلفظ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ لیکن اس میں مختلف طریقے اپنائے گئے ہیں۔ کہیں اعراب کے ذریعے اور کہیں ہجائی تقسیم کے ذریعے۔


ان لغات میں الفاظ کے ماخذ لسانی یا مادے یا اصل سے متعلق بھی ان مولفین لغت کا نقطہ نظر واضح نہیں تھا۔ اکثر لغات میں عربی الاصل مرکبات کو بے محابا فارسی قرار دے دینے کی روایت کا عام مشاہدہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ مسعود ہاشمی کے نزدیک یہ ہے۔


"یہ حضرات ماخوذ لفظ کی اصل کی نشاندہی کے سلسلے میں اصل زبان اور وسیلے کی زبان کے درمیان امتیاز قائم نہیں کرسکتے تھے۔ فارسی کے وسیلے سے اردو میں دخیل عربی الاصل الفاظ کو عربی سے ہی منسوب کرنے کی بجائے فارسی قرار دینے کی اس روش سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے۔"(لغت نویسی کے مسائل، صفحہ 56۔155)


یہی بات کمال احمد صدیقی نے مختصر طریقے سے یوں کہی ہے کہ:


تقریباً عربی کے الفاظ مفرس ہونے کے بعد اردو میں آئے ہیں کیونکہ اردو سے پہلے فارسی رائج تھی اور عربی کے یہ الفاظ فارسی میں خاص طور سے شاعری میں رائج تھے۔"


لفظوں کے مآخذ لسانی کے ساتھ ساتھ ایک اور مسئلہ معنی کی سند کا بھی رہا ہے۔ سند یا فصاحت کے لئے صرف شعراء کے کلام کو ہی معیار بنایا گیا ہے جو کہ سرے سے غلط ہے اور اس سے کافی الجھنیں پیدا ہوئیں۔ بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو صرف نثر نگاروں نے استعمال کئے ہیں۔ شعراء نے نہیں ایسی صورت میں سند کے لئے شعرا کے علاوہ نثر نگاروں کا کلام بھی پیش کیا جانا چاہئے تھا۔ مالک رام کا کہنا ہے کہ:


"اردو میں آج تک یہ روایت رائج رہی ہے کہ الفاظ کے معنی کی سند میں شعرا کا کلام پیش کیاجاتا رہا ہے۔ یہ طریقہ ناکافی اور ناقص تھا۔"(لغت نویسی کے مسائل صفحہ 16)


لیکن کیا کیجئے یہ ناقص طریقہ آج تک اردو لغات میں رائج چلا آرہا ہے۔ شعرا کے کلا م کو حذف کرکے لغت کی ضخامت کو کم کیاجاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ تقری اردو بورڈ نے بھی نور اللغات کی طباعت کے وقت سہل انگاری کی۔ چار جلدوں پر مشتمل اس لغت کی جب دو جلدیں ترقی اردو بورڈ نے شائع کی تھی تو ڈاکٹر کمال احمد صدیقی نے اس کے اغلاط کی نشاندہی اپنے طویل مضمون میں کی تھی جو کئی قسطوں میں روزنامہ قومی آواز دلی میں چھپا تھا۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد اس کے فروخت پر پابندی لگادی گئی اور اسے سرد خانے میں رکھ دیا گیا۔


نئے نظام کے تحت جب 1997ء میں ترقی اردو بورڈ اردو کونسل میں تبدیل ہوگیا تو اس لغت کو1998ء میں صحت نامہ کے اضافے اور ابتدائی 36 صفحات کی تبدیلی کے بعد دونوں جلدوں کو فروخت کے لئے دوبارہ پیش کردیا گیا۔


ترقی اردو بورڈ نے عکسی ایڈیشن شائع کرنے کی بجائے نئے سرے سے ان دو جلدوں کی کتابت کرائی اور جدید املا کو ترجیح دی۔ اغلاط کے راہ پاجانے کی وجہ سے اس کی بقیہ دو جلدوں کا عکسی ایڈیشن لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب اس کی دو جلدوں کی کتابت اور املا جدید ہے اور آخر دو جلدوں کی املا قدیم۔


یہ تو نور اللغات کا حشر ہوا۔ اب ذرا فرہنگ آصفیہ کی حالت زار بھی ملاحظہ فرمائیے۔ عہد حاضر کے کئی بڑے محقق اور ناقد کے ذریعے اس کے اغلاط کی نشاندہی کے باوجود اس کے ایڈیشن پر ایڈیشن شائع ہورہے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ کے اغلاط کی نشاندہی کے لئے شمس الرحمن فاروقی کا مضمون"اردو لغت اور لغت نگاری" مسعود ہاشمی کی کتاب" اردو لغت نویسی کا تنقیدی جائزہ" اور قاضی عبدالودود کا تبصرہ فرہنگ آصفیہ جو خدا بخش لائبریری جرنل میں قسط وار شائع ہوا ہے ملاحظہ فرمائیں۔ اس لغت میں کون سے فحش الفاظ ایسے ہیں جو نہیں ہیں۔


اس لئے تدوین لغت کے سلسلے میں الفاظ کے انتخاب کا معاملہ خاصا اہم ہوتا ہے۔ لغت میں کیا کچھ ہونا چاہئے اور کیا نہیں اس کی تمیز بے حد اہم ہے۔ گالی نہ شرفا کی زبان ہے نہ ادب کی، نہ ہی مہذب سماج کی پر اسے لغت میں درج کرنے کا منطقی جواز کیا ہے۔


پروفیسر نذیر احمد کا کہنا ہے کہ:
"اردو زبان کا یہ المیہ ہے کہ اب تک اس زبان کے الفاظ کے تعین کا مسئلہ قابل اطمینان حد تک طے نہیں ہوسکا ہے۔"(لغت نویسی کے مسائل۔ صفحہ 21)


میں نے پچھلے صفحات میں اردو کی جن لغات کا ذکر کیا ہے فرہنگ آصفیہ کو چھوڑ کر زیادہ تر لغات کے مولفین کا تعلق کھنو سے ہے۔ اردو بولنے پڑھنے اور لکھنے والے سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ا ردو کا علاقہ پورا ہندوستان ہے۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی زبان خالص نہیں ہوتی اس میں مختلف زبانوں کے الفاظ شامل ہوتے ہیں۔ شاید اس لئے ٹیگور نے کہا تھا کہ دنیا میں دو چیزیں کبھی خالص نہیں ہوتیں ایک خون دوسرے زبان۔


دوسری زبانوں کی طرح اردو میں بھی عربی، فارسی،ترکی، سنسکرت، ہندی ، پرتگالی اور انگریزی زبانوں کے علاوہ ہندوستان کی علاقائی زبانوں اور بولیوں کے بہ کثرت الفاظ شامل ہیں، ہندوستان کی باقی تمام زبانوں کی طرح چاہے وہ آریائی ہو یا وراوڑی۔ ایسا اس لئے بھی ہوا ہے کہ جن علاقوں میں اسے استعمال کیاجاتا ہے وہاں کے مقامی الفاظ اس میں داخل ہوگئے ہیں۔ کیا آج اردو میں پنجابی ، ہریانوی ، پشتو، کنٹر، تلگو، تمل، بنگالی، اودھی، مگھی ، بھوجپوری اور میتھلی زبانوں کے الفاظ شامل نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن کیا آج اردو کی کوئی بھی لغت ایسی موجود ہے جس میں تمام زبانوں کے وہ الفاظ جو اردو نے قبول کرلئے ہیں ان کا احاطہ کیا گیا ہو اور جو ہندوستان کے ہر علاقے کے لوگوں کے لئے قابل استفادہ ہو۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس کمی کو نور اللغات کے مولف مولانا نور الحسن نے بھی شدت سے محسوس کیا تھا لکھتے ہیں:


"مدت سے اس ضرورت کو محسوس کررہا ہوں کہ اردو زبان کا کوئی مکمل مستند لغت تیار ہوجائے جس سے اہل ملک کو فائدہ پہنچے۔" (نور اللغات صفحہ16)


لیکن مولانا کی اس خواہش کی تکمیل آج تک نہیں ہوسکی۔ آج بھی اردو کی کوئی لغت ایسی نہیں ہے جو ہر علاقے کے لوگوں کے لئے قابل قبول ہو۔ لکھنو اور دہلی کے حصار سے باہر نکل کر ہندوستان گیر پیمانے پر جب تک اس پر منتھن نہیں ہوگا مسئلے کا حل نہیں نکلے گا اور یہ کام کسی ایک شخص کے بس کی بات نہیں بلکہ قومی سطح پر ایک بڑے گروپ کے ذریعے جس میں ہر علاقے کے ایسے ماہرین شامل ہونے چاہئیں ، جو مختلف علاقوں کی بولیوں اور زبانوں سے پوری واقفیت رکھتے ہوں۔ اس طرح ایک"ہمہ گیر قومی اردو لغت" کی تدوین عمل میں آسکے گی اور تشنگان ادب کی پیاس بجھ سکے گی۔ یہ بات مکمل طور پر ذہن میں رہنی چاہئے کہ اردو کی جامع و مکمل لغت وہی قرار پائے گی جو ہر علاقے کے لوگوں کے لئے قابل استفادہ ہو۔ اگر استفادہ کرنے والا اس کے ذریعے اپنے مسئلے کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہتا ہے تو پھر یہ لغت اس کے لئے بے کار ہے۔ لہذا تدوین لغت میں عام سے عام آدمی تک کا خیال رکھنا چاہئے۔ لغت صرف ادب کے پڑھانے کے لئے نہیں ہوتی۔ ہر پیشے اور ہر فن اور ہر علم اس کے دائرے میں ہونا چاہئے۔


اب آئیے معاملے کے دوسرے پہلو کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرائیں۔ اب تک میں نے جن لغات کا تذکرہ کیا ہے یہ تمام لغات فرد واحد کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ اور انفرادی کوشش کا نتیجہ اکثر عیب دار ہوتا ہے۔ ان مولفین لغت کی علمی استعداد ، زبان دانی ، محاورہ شناسی ان کی ان تھک محنت کے اعتراف کے باوجود یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ سائنسی طریقہ کار کی بے حد کمی محسوس ہوتی ہے۔ انفرادی کوششوں سے الگ ہٹ کر اردو میں لغت نویسی کے سلسلے میں کم از کم ہندوستان کی سطح پر کوئی بھی اجتماعی کاوش بڑے سرکاری اداروں کی موجودگی کے باوجود نہیں ہورہی ہے۔ جب کہ ہندوستان جیسے کثیر لسانی ملک میں ایک ایسی اردو لغت کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے جس میں اردو کے ذریعے اپنائے گئے وہ تمام ہندوستانی زبانوں کے الفاظ ہوں جسے اردو نے قبول کرلیا ہے اور جس کا چلن بول چالل اور لکھنے کی سطح پر ہورہا ہے۔ اس کام کے لئے ایک مستقل ادارہ اردو لغت بورڈ کا قیام ہونا چاہئے جس میں روز کام ہو ، جیسا کہ دنیا کی بڑی انگریزی ڈکشنری میں ہورہا ہے۔ اس لغت کی تیاری کے سلسلے میں قومی اردو کونسل کو آگے آنا چاہئے اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مختلف زبانوں کے باخبر ماہرین ا ایک ایسا بورڈ بنانا چاہئے جو اس کام کو انجا م دے۔ یہ بورڈ اب تک موجود تمام لغات کو سامنے رکھتے ہوئے لغت سازی کے سلسلے میں کچھ رہنما اصول متعین کرے اور پھر ان اصولوں کی روشنی میں لغت کی تیاری باضابطہ طریقے سے ہو۔


ہندوستان جیسے کثیر لسانی ملک میں ایک ایسی لغت کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی ہے جو کثیر لسانی ہو۔ یعنی ایک ایسی لغت تو ضرور ہو جس میں اردو کے ساتھ ساتھ دستور ہند میں ذکر تمام زبانیں بھی ہوں۔ یعنی اردو کا ایک لفظ ہندوستان کی مختلف زبانوں میں کیا معنی رکھتا ہے یا ایک لفظ کس طرح معمولی تبدیلی سے ایک زبان سے دوسری زبان کے ہوجاتے ہیں اس کا پتہ ہمیں اس کثیر لسانی لغت سے چل جائے گا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوگا کہ اردو کے کون کون سے الفاظ دوسری زبانوں میں رائج ہیں اور دوسری زبانوں کے کون کون سے الفاظ یہاں رائج ہیں اور یہ کہ ان کے تلفظ اور معنی میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں سے اردو کے روابط کا پتہ بھی چلے گا اور زبان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔


چھ اور سات زبانوں کی لغت تو ہمارے یہاں عرصۂ قدیم سے موجود ہے آپ میں سے بہت سے حضرات کو شاید یہ علم نہ ہو کہ ہندوستان کی ریاست بھوپال میں رئیسہ ریاست بھوپال شاہجہانی بیگم نے 2886ء میں"خزانۃ اللغات" کے نام سے چھ زبانوں کی لغت مرتب کی تھی۔ بڑے سائز کی اس لغت کے آمنے سامنے کے دو صحیفوں کو اردو، فارسی، عربی، سنسکرت، انگریزی، ترکی کے چھ خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور اردو کو بنیاد بناکر ہر زبان کی لغت کے لئے خانہ مخصوص کردیا گیا ہے۔ سنسکرت اور انگریزی کے خانوں اور رسم الخط کے ساتھ لغات کو دیوناگری رسم الخط اور انگریزی رسم الخط میں بھی لکھا گیا ہے۔ دو جلدوں کی اس لغت کو شاہجہانی بھوپال نے شائع کیا ہے۔ آج سے تقریباً 117 سال قبل ایک خاتون کے ذہن میں اس طرح کی لغت کے بنانے کا خیال پیدا ہوا اور اس خاتون نے اس کو عملی جامہ پہنایا۔


میری معلومات کے مطابق ہندوستان میں اب تک اس طرح کی لغت کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا ہے۔ نہ ہی صوتی لغت اور لغت تلفظ بنانے کی طرف کسی ادارے کی توجہ ہوسکی۔ اردو تھیسارس کا معاملہ تو اس کے بعد کا ہے۔ دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کی دفتری حیثیت کو مستحکم کرنے کے لئے مختصر نویسی کی لغت کا بننا بھی بے حد ضروری ہے۔ دیکھئے کب اس پر توجہ ہوتی ہے۔


جہاں تک ذو لسانی لغت کا تعلق ہے تو ترقی اردو بورڈ نے اس سلسلے میں اہم قدم اٹھایا تھا اور کلیم الدین احمد کی نگرانی میں 1972ء میں ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔ جس نے "جامع انگریزی اردو ڈکشنری" کے پروجیکٹ پر کافی محنت اور لگن سے کام بھی کیا۔ دس سالوں کی محنت شاقہ کے بعد یہ لغت تیار تو ہوگئی لیکن اسے چھپنے کے لئے تقریباً بیس سالوں تک انتظار کرنا پڑا ان بیس سالوں میں دنیا بدل گئی اور لسانی منظر نامہ بھی بدلا۔ افادیت سے بھرپور اس کام کی افادیت میں وقت کے ساتھ کافی کمی واقع ہوگئی اور جب چھپنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اسے ایک اور انقلاب سے گزرنا پڑا، یعنی ترقی اردو بورڈ قومی کونسل برائے فروغ اردو میں تبدیل ہوگیا۔ بیورو کی زندگی میں اس کی صرف پہلی جلد شائع ہوسکی۔ جب کونسل بنی تو کونسل نے اپنے کارنامو ں کی فرہست گنانے کے لئے تمام تیار شدہ مسودوں کو بغیر کسی نظر ثانی کے عجلت میں شائع کرنا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کلیم الدین احمد کا یہ عظیم کارنامہ جو نظر ثانی کا محتاج تھا بغیر کسی ردوبدل کے شائع کردیا گیا اور قیمت اتنی رکھی گئی کہ عام آدمی کو قوت خرید سے باہر۔ ترقی اردو بیورو تک اس ادارے سے شائع ہونے والی کتابوں کی قیمت فروغ اردو کے منصوبے کے تحت کم سے کم رکھی جاتی تھی لیکن کونسل کا رجحان منافع کمانے کی طرف زیادہ ہوگیا۔ اس لغت کی قیمت 3400/-روپے ہے۔ اس سے فروغ اردو کے منصوبے کو کتنی تقویت حاصل ہوگی غورفرمائیے۔


ذرا ہدوستان میں شائع ہونے والی اصطلاحات پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ ترقی اردو بیورو نے اپنے قیام کے چند سالوں بعد سے ہی اصطلاحات ساز ی کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ اور بہت سے مضامین کی اصطلاحیں بن کر تیار بھی ہوئیں لیکن بیور و سے کونسل تک کے تقریباً چالیس پینتالیس سالوں کے اس سفر میں اصطلاحات سازی پر جو توجہ دی جانی چاہئے تھی وہ نہیں دی گئی۔نتیجتاً کچھ مضامین کی اصطلاح سازی تو ہوئی لیکن علوم ونون کے کئی بڑے اور اہم شعبوں پر توجہ اب تک ہنوز نہیں دی جاسکی ہے۔ انجینئرنگ اور میڈیکل کے مختلف شعبے دوسرے پیشہ واران مضامین، عدالتی ، قانونی، دفتری، تعلیم کے مختلف نظاموں اور کاروباری اصطلاحوں کی تیاری کی طر ف توجہ نہیں دی جاسکی۔ دوسرے آج سے پندرہ بیس سال قبل تیار اصطلاحوں پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ نئے مضامین کی اصطلاحات سازی کی طرف کونسل کی توجہ کوئی خاص نظر نہیں آرہی ہے۔ جبکہ کونسل کے کاموں میں لغات سازی، اصطلاحات سازی اور اشاریہ سازی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔


فروغ اردو کے تمام تر دعووں کے باوجود زبان کے بنیادی مسائل کی طرف کونسل کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش اب تک ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ لغت سازی بھی زبان کے بنیادی کاموں میں ایک اہم کام ہے۔ لغت نہ صرف الفاظ کے ذخیرے کو محفوظ کرتی ہے بلکہ زبان کی قوت کو بھی بڑھاتی ہے۔ کسی بھی زبان کی قوت کا اندازہ اس کے ذخیرۂ الفاظ سے لگایاجاتا ہے۔ ذخیرہ الفاظ کی موجودگی کے بغیر فروغ زبان کا کوئی بھی دعویٰ کھوکھلا ہی ثابت ہوگا۔


***
ماخوذ از کتاب: اردو زبان کا فروغ - جہات اور امکانات
مرتب: اشفاق احمد عارفی۔ ناشر: محکمہ السنہ اردو سیل، دلی سرکار۔ (سنہ اشاعت: 2004)

Problems of Urdu dictionaries and lexicography. Essay: Dr. Jameel Akhtar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں