پروفیسر شہزاد انجم کا افسانہ - وبا - ایک تجزیاتی مطالعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-28

پروفیسر شہزاد انجم کا افسانہ - وبا - ایک تجزیاتی مطالعہ

shahzad-anjum-short-story-waba-review

پروفیسر شہزاد انجم کے نام سے ہم سب واقف ہیں۔ ان کا شمارعصر حاضر کے اہم ناقدین میں ہوتا ہے۔ وہ ادبی دنیا میں بحیثیت ناقد شہرت حاصل کر چکے ہیں اوران کی کئی تنقیدی کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ لیکن افسانوی ادب کے میدان میں ان کی چند تخلیقات ہی ابھی تک ہمارے سامنے آئی ہیں۔ تصانیف کی فہرست بہت لمبی ہیں لیکن ہم یہاں صرف ان کے افسانوں کا ذکر کریں گے۔ میرے علم و یقین اور تلاش و تفتیش کے مطابق افسانہ "وبا" سے پہلے بھی ان کے کئی افسانے ادبی جرائد و رسائل میں شائع ہو چکے ہیں، لیکن اس وقت نا ہی موصوف کے پاس ان کی فہرست موجود ہے اور نا ہی میرے پاس۔


افسانہ "وبا" سہ ماہی رسالہ جہان اردو (دربھنگہ)کے شمارہ نمبر 82۔ 83 اپریل تا ستمبر 2021 ء میں شائع ہوا ہے۔ چھ صفحات پر مشتمل افسانہ"وبا"بنیادی طور پرکورونا وائرس کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی مخلوقات انسان ہو یا حیوان کو افسانہ نگار نے موضوع بحث بنایا ہے۔ واحد غائب کے صیغے میں لکھا گیااس افسانے کا مرکزی کردار "وہ" ہے۔ جو بظاہر تو واحد معلوم ہوتا ہے لیکن افسانہ نگار کی فنی کاری گری نے اسے تمام انسانی احساسات وجذبات کا مجموعہ بنا دیا ہے۔


افسانے کی ابتدا بھوت، پریت ، آسیب جیسے منفی خیالات سے ہوتی ہے۔ افسانے کا واحد کردار "وہ"جس کے دل میں بھوت، پریت جیسے خیالات آ رہے ہیں ، جن میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اسے ہمیشہ لگتا رہتا ہے کہ موت اس کے دروازے پر رقص کر رہی ہے۔ دروازے پرموت کا رقص کرنا ہمیں کورونا وائرس کی دوسری لہر سے ہونے والی اموات، آکسیجن کی کمی ، ایمبولینس کی آوازیں اور اس میں دم توڑتی انسانی زندگیاں، علاج ومعالجہ کی کمی وغیرہ کی طرف ہمارے ذہن کو پھیر دیتاہے۔ اور ہماری نظروں کے سامنے وہ مناظر رونما ہو جاتے ہیں جس سے پورے ہندوستان میں بے شمار لوگوں نے علاج اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دم توڑ دیا تھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
"گذشتہ ایک برس سے وہ ایک نئی کیفیت سے گزر رہا تھا۔ اسے یہ محسوس ہوتا کہ موت اس کے دروازے پر رقص کر رہی ہے، دروازے پر ہی کیا، گلیوں، محلوں، شہروں میں موت کا رقص جاری ہے۔ اس سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا۔ "


"اس سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا" یہ جملہ خود میں بہت بامعنی ہے اور اپنے اندر ایک تاریخ پوشیدہ رکھا ہے جو ہمیں تاریخ کے پنوں کی ورق گردانی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب ہم تاریخ کے صفحات کی ورق شماری کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور ، غالباً ہر ملک، ہر زمانے میں کوئی نا کوئی خطرناک وباآئی ہے اور اس سے عوام شدید متاثر بھی ہیں لیکن کورونا وائرس نے جس طرح پوری دنیا کو ایک ساتھ متاثر کیا، عالمی دنیا کے لوگوں کو گھروں میں قید کر دیا، پوری دنیا میں بے شمار کمپنیاں بند ہو گئیں، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ایک ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ایک ساتھ بند ہو گئی۔ بس، ٹرین، جہازجہاں کھڑے تھے کھڑے کے کھڑے رہ گئے ، جو جہاں پر تھا وہیں پڑا رہا۔ اسکول، یونیورسٹیاں، مارکیٹ وغیرہ پوری طرح بند ہو گئے۔ جس کی وجہ سے مختلف طرح کی پریشانیاں اچانک ہمارے سامنے آ گئیں۔ اس وبا نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی متاثر کیا۔


ہندی ساہتیہ میں بھکتی کال کے مشہور ومعروف شاعر "کبیر داس"کے ایک مشہور دوہے کا ایک مصرعہ:
"دُکھ مین سُمِرن سب کرے، سُکھ میں کرے نا کوئی"
اس کورونا کال میں ہم انسانوں پر بالکل صادق نظر آیا۔ جب انسان کو مصائب پوری طرح اپنے آغوش میں لے چکی ہوتی ہے۔ جب وہ افسردگی اور مایوسی کے عالم میں اس قدر غرق ہو چکا ہوتا ہے کہ اسے کہیں کوئی امید نظر نہیں آتی تب اسے اللہ کی یاد آتی ہے اور بس اسی میں امید نظر آتی ہے۔ مندر ومساجد آباد ہونے لگتے ہیں۔ عبادت وریاضت اور پوجا پاٹ میں دلچسپی بڑھنے لگتی ہے۔ لوگ مذہبی بننے لگتے ہیں۔ زہد و تقوی اور تزکیہ نفس کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ اس کورونا وائرس میں بھی ایسا دیکھا گیا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسجدیں بند تھیں لیکن لوگوں کے اندر نمازپڑھنے کا جوش و جذبہ کچھ زیادہ ہی نظر آرہا تھا۔ دراصل کسی بھی مذہب میں یہ عقیدہ بہت پختہ ہے کہ ایسی وبا یا بیماری خداکی ناراضگی کی نشانی ہے اور عام طور پر یہ خیال کیا جانے لگتا ہے کہ دنیا میں برائیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اللہ اپنے بندوں سے ناراضگی کا اظہار ایسی وبا کو بھیج کر رہا ہے تاکہ میرے بندے پھر میری طرف رجوع کریں۔ اس افسانے میں بھی اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
"تم کیا ہر وقت فالتو باتیں کرتے رہتے ہو، اپنے کام سے کام رکھو، مذہب میں دل لگاؤ، نماز قرآن کی پابندی کرو، اللہ سے اچھی امید رکھو، دعائیں کرو۔ "


انسانی زندگی اتنی وسیع ہے کہ اس کی مکمل عکاسی ناممکن ہے۔ کیوں کہ زندگی کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ زندگی سے مراد انسانی شخصیت اور اس کے وہ حرکات و سکنات ہیں جن سے اس کی آبیاری کی جا تی ہے لیکن یہ انسانی شخصیات اور حرکات و سکنات ہر جگہ یکساں نہیں ہوتیں بلکہ مقام در مقام اور انسان در انسان ان میں تبدلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کبھی موت میں زندگی، شر میں خیر، قبح میں حسن، ناکامی میں کامیابی، یاس میں امید وغیرہ کے پہلو تلاش کر لیتا ہے۔ اسے منفی کو مثبت اور مثبت کو منفی میں بدلنے میں مہارت حاصل ہے۔ خصوصاََ مذہبی انسان یا یوں کہیں کہ جسے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ہو اور یہ عقیدہ ہو کہ جو کرتا ہے وہی مالک حقیقی کرتا ہے ، اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتاتو منفی چیزیں بھی مثبت نظر آنے لگتی ہیں۔ ہم کورونا کال بلکہ آج بھی بخوبی اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ ایسے موقع پر عقل اور دل میں جنگ سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ عقل جسے قبول نہیں کرتی دل اسے بار بار عقل کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے اور آخرمیں دل کو فتح نصیب ہوتی ہے۔ دراصل اللہ عز وجل سے انسانی تعلقات روحانی ہوتے ہیں نا کہ عقلی۔


ادب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زندگی کی حقیقت پیش کرتا ہے۔ اس بات میں ذرہ برابر بھی قباحت نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ وہ مکمل عکاسی یا حقیقت پیش کرتا ہے تو اس میں ذرا ٹھہرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ ادب صحافت تو ہے نہیں پھر پوری سچائی کیسے پیش کر سکتا ہے۔ ادب میں موجود فکشنی عناصر اسے ادب بلکہ اعلی ادب بناتے ہیں۔
عرب کا مشہور ومعروف ناقد قدامہ ابن جعفر (873پ، 948م) نے کہا تھا کہ سب سے اچھا شعر وہ ہوتا ہے جس کی بنیاد جھوٹ پر ہو لیکن قاری کو جھوٹ کا گمان بھی نا ہوں بلکہ وہ سچ لگے۔ ادب کو اس کی ادبیت نے ادب بنایا ہے۔ ادب کو ادب قصہ، پلاٹ، نقط عروج، کردار، تجسس وغیرہ بناتا ہے۔ جو قاری کو باندھ کر رکھتا ہے اور آگے پڑھنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ ایسا ہونا کسی بھی فن پارے کی کامیابی کی دلیل ہے۔ کورونا وائرس سے متعلق پرنٹ اور الیکٹرانیک میڈیا کے ذریعے ملنے والی خبروں سے تو ہم سب واقف ہیں اوراب غالباً بھول بھی چکے ہیں لیکن فن پارے کی شکل میں اس المناک سانحے اور اموات کے تانڈو کو افسانہ "وبا" کے ذریعے منظر عام پر لا کر ادبی دنیا میں افسانہ نگار نے اس وبا اور اس سے متاثر عوام کے کرب کو ہمیشہ کے لیے لافانی کر دیا ہے۔
جسے کبھی بھی اورکسی بھی دور میں مطالعہ کر کے ہم آج کے عوام کی پریشانیوں اور ان کے ذہنی کرب والم کو محسوس کر سکتے ہیں۔ افسانے کی ابتدا بھوت، پریت، موت وغیرہ جیسے ڈر اورخوف کے ماحول سے ہوتی ہے لیکن اختتام خیر کی امید پر ہوتا ہے۔ یعنی موت پر زندگی کی فتح۔ اموات سے کہرام مچا ہوا ہے۔ چاروں طرف صرف موت ہی موت۔ لاشیں ہی لاشیں۔ لیکن افسانے کا واحد کردار"وہ"کی بیوی کا کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے باوجود شفایاب ہونا ایک مثبت امید کی علامت ہے۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ابتدا تو ڈر اور خوف سے ہوتی ہے لیکن اختتام مسرت وشادمانی پر ہوتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
"وہی ہوا جس کا ڈر تھا جانچ کے بعد رپورٹ میں اس وبائی مرض کی تصدیق ہو چکی تھی۔ سبھوں کے حواس باختہ ہوگئے۔ اس کی بیوی فکروتردداور غم سے نڈھال تھی، روز بروز اس کی طبیعت بگڑتی چلی گئی مگراس کے بچوں اور اس نے بھی ٹھان لیا تھا کہ علاج وخدمت میں کوئی دقیقہ نہیں رکھا جائے گا۔ پتہ نہیں کہاں سے اس میں اور اس کے بچوں میں طاقت آگئی۔ مہینے بھر کی ان کی محنت، دوا، علاج، دعاسب کا اچھا اثر ہوا۔ وہ صحت یاب ہو گئیں۔ "


میری نظر میں یہ افسانہ موت اور زندگی کے کشمکش کو پیش کرتا ہے۔ اس افسانے کے موضوعات ہی موت پر زندگی کی فتح، ناامیدی میں امید، شر میں خیر وغیرہ ہیں۔ لیکن ہر اچھے اور اعلی افسانے کی طرح اس افسانے میں بھی مرکزی موضوع اور مسائل کے ساتھ ساتھ کچھ ضمنی مسائل بھی پیش کیے گئے ہیں جو کورونا وائرس کے ہی پیدا کیے ہوئے ہیں۔ انہیں بھی ہم کورونا وائرس کے پس منظر میں ہی دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ اس افسانے میں میڈیا کا رویہ، حکومت حامی اور مخالف افراد کا ایک دوسرے پر الزام دھرنا، مہنگائی، غریب و غربا اور بھکاریوں کی پریشانی، آوارہ جانوروں کے کھانے کے لالے پڑنے وغیرہ جیسے مسائل کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ میڈیا کا عوامی مسائل میں عدم دلچسپی کا نظارہ ہم نے اس کورونا کال میں دیکھا ہے۔ عوام، مزدور سڑکوں پر، ریلوے ٹریک پر، بھوک سے بلکتے ، وقت پر علاج نہیں مل پانے کی وجہ سے مر رہے تھے لیکن ہمارا بکاؤ میڈیا دو مہینے سے بھی زیادہ تبلیغی جماعت پر بحث کرتا رہا جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ انہیں دہشت گردوں کی طرح پیش کیا جا رہا تھا۔ ہمارا میڈیا انھیں میپ کے ذریعے دکھاتا تھا کہ کب ، کہاں سے، کس طرح مرکز حضرت نظام الدین سے جماعتی نکلے ہیں اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں کورونا کو پھیلا رہے ہیں۔ ہمارے میڈیا نے بھارت میں کورونا وائرس پھیلنے کا مرکز و منبع مرکز حضرت نظام الدین کو قرار دے دیا اور ثابت کرنے کے لیے جھوٹے دلائل بھی پیش کیے۔ جسے سچ ثابت ہونے تک عوام اور کم ذہن والے لوگوں میں یہ بات پھیلا دی گئی تھی کہ کورونا وائرس تبلیغی جماعت بلکہ مسلمانوں کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ بلکہ یہ ایک منظم سازش کے تحت ہندو آبادی کو کم کرنے کے لیے مسلمانوں نے کیا ہے۔
میڈیا کے اس رویے سے انسان اوب چکا تھا۔ کمپنیاں بند تھیں، حکام کی طرف سے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی تھی، ہر نیوز چینل پر یکساں بحث و مباحثہ چل ر ہے تھے، چوبیس گھنٹے گھر میں رہنے کی وجہ سے گھریلو رنجشوں اور اختلافات میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ٹی وی بند کرنا یعنی خود کے ذہن کو آزاد کرنا تھا۔ ایسے میں گھر کو بھی نیوز روم کے غیر ضروری اور بے مطلب کے بحث و مباحثے میں تبدیل ہونے کا خدشہ تھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
"بہت کم اینکروں کو ان مصیبت زدہ انسانوں کے دکھ درد سے واسطہ ہوتا۔ وہ ٹیلی ویژن پر سڑکوں، ہائی وے، شاہراہوں پر پیدل چلتے سیکڑوں میل دور اپنے گاؤں، اپنے وطن کی طرف جاتے ہوئے بچوں، عورتوں، بوڑھوں کو دیکھتا، جن کے سر پر ان کے سامانون کا گٹھرہوتا، وہ بھوک ، پیاس سے تڑپ رہے ہوتے اور بیشتر کو ٹیلی ویژن پر ایئرکنڈیشن میں خوش نما قیمتی کپڑے زیب تن کیے خواتین، سوٹ بوٹ میں ملبوس اینکراور مختلف جماعتوں کے نمائندے چیخ چیخ کر بحث کر رہے ہوتے۔ وہ ان مصنوعی بحثوں سے تنگ آچکا تھا۔ "


کورونا وائرس نے نہ صرف انسان کو بلکہ جانوروں کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔ صرف انسان ہی کھانے کھانے کو محتاج نہیں ہوا بلکہ جانوربھی ہوئے تھے۔ وجہ ہوٹل، ریستوراں کا بند ہونا جس کے بچے ہوئے کھانے سے جانوروں خاص طور سے کتوں کا پیٹ بھرتا تھا۔ اس افسانے میں اس مسئلے کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے اور افسانے کا کردار"وہ"ممکنہ حد تک ان کی مدد بھی کرتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کردار ‘وہ"ایک ہمدردانہ دل رکھتا ہے اور انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی بھوک کا بھی خیال کرتا ہے۔ اس وبا نے متوسط طبقہ اور بالخصوص نچلے طبقے کو جتنا متاثر کیا ہے اتنا انچے طبقے کو نہیں۔ ان طبقوں میں زیادہ تر موتیں بھوک، افلاس اور علاج کی کمی کی وجہ سے ہوئیں۔ بڑے بڑے سرکاری اسپتال، پرائیویٹ ہاسپٹل کے بیڈ رئیسوں، پیسے والوں، نیتاؤں، نوکرشاہوں وغیرہ کے لیے مخصوص کر دیے گئے تھے۔ آکسیجن کی قلت تھی لیکن یہ قلت سبھی کے لیے یکساں نہیں تھی۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
"کبھی کبھی وہ چھجے پر جاکر باہر سڑک کا منظر دیکھتا، جہاں آوارہ کتے اور اکا دکا فقیر گھومتے نظر آتے۔ دونوں کو بھوک کا سامنا تھا۔ انھیں پولس کا کوئی ڈر نہیں تھا۔ کچھ تنظیمیں کتوں اور انسانوں کو کھانے کے پیکٹ تقسیم کرنے آتیں تو اچانک ایک بھیڑ جمع ہو جاتی۔ اپنی اپنی جھوپڑیوں اور مکانوں سے بھوکے بچے ، بڑے، عورتیں سبھی نکل پڑتے۔ دیکھتے دیکھتے ایک لمبی لائن لگ جاتی۔ سبھی جلد سے جلد کھانے کے پیکٹ کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگتے۔ انھیں یہ ڈرستاتا رہتا کہ کہیں کھانا ختم نہ ہو جائے اور انھیں بھوکا نہ رہناپڑے۔ انھیں اسی کھانے کا آسرا تھا۔ "


"انھیں اسی کھانے کا آسرا تھا" یہ جملہ منظر کشی کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ وہ سارے مناطر جو ہم نے اپریل 2020 ء سے جون 2020ء تک دیکھے تھے نظروں کے سامنے یک بہ یک رو نما ہو جاتے ہیں۔ کورونا وائرس اکیسویں صدی کا ایسا سانحہ ہے جس نے ہر کسی کو متاثر کیا لیکن خصوصاََنچلے طبقے کے مسائل میں اضافہ کیا بلکہ انہیں مزید غریب اور لاچار و مجبور بنا دیا۔
ایک اعلی فن پارے کی دلیل اس میں موجود اس کی ادبیت ہے۔ ادبیت سے مراد افسانے کی وہ تمام لوازمات جو کسی بھی افسانے کے لیے ضروری ہیں۔ وہ لوازمات اس افسانے میں موجود ہیں جو قاری کے تجسس کو برقرار رکھتے ہیں اور مطالعے پر مجبور کرتے ہیں۔ اُسے پڑھتے وقت بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ اس کی مختلف وجوہ ہیں۔ افسانے کا مرکزی موضوع توموت پر زندگی کی فتح ہے لیکن کورونا وئرس نے کچھ ایسے مسائل بھی پیدا کر دیے تھے بلکہ آج بھی انسان ان سے دوچار ہے جنھیں اس افسانے میں پیش کیا گیا ہے۔ جو کہ ہر کسی کی اصل زندگی سے جڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ اور پھر ہم اسی سانحے کی طرف لوٹ جاتے ہیں جس سے ہم متاثر ہوئے تھے۔ میں نے مضمون کی ابتدا میں ہی لکھا ہے کہ افسانے کا واحد کردار "وہ" تنہا فرد نہیں ہے بلکہ ان سارے افراد کی نمائندگی کررہا ہے جو اس وبا سے متاثر ہوئے تھے بلکہ آج بھی ہیں۔


مجموعی طور پر اس افسانے کو نفسیاتی افسانہ کہا جا سکتا ہے جو واحد غائب کے صیغہ میں لکھا گیا ہے لیکن جمع غائب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں ان سارے افراد کی نفسیات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے جن پر کورونا وائرس نے قہر برپایا بلکہ آج بھی برپا رہا ہے۔ یہ افسانہ ہندوستانی پس منظر میں لکھا گیا ہے لیکن عالمی مسائل کو پیش کرتا ہے۔ پوری دنیا میں نچلے طبقے کے ساتھ جو مسائل پیش آئیں وہ یکساں تھے اور انھیں اس افسانے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ افسانے کے اختتام میں بھی انسانی نفسیات کو پیش کیا گیا ہے۔ جب ہم کسی بھی چیز کو بار بار دیکھتے ہیں تو وہ چیز ہمارے شعور کا حصہ بن جاتی ہے اور جب وہ شعور کا حصہ بن جاتی ہے تو اسے باہر نکال پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس افسانے میں بھی کردار "وہ" کے ذہن و دل میں موت، بھوت ، پریت، آسیب جیسے منفی خیالات اُس کے شعور کا حصہ بن چکے ہیں جن سے وہ باہر نکلنا چاہتا ہے لیکن نکل نہیں پا رہا۔ یہ سلسلہ کافی دنوں تک بلکہ مہینوں اور برسوں تک چلتا رہتا ہے اور اس وقت ختم ہوتاہے جب "وہ" کی بیوی وبا سے متاثر ہونے کے باوجود صحت یاب ہو جاتی ہے اور افسانہ فرحت و نشاط پر ختم ہوتا ہے۔
بلاشبہ افسانہ "وبا" اردو کا ایک شاہکار افسانہ ہے جس کے لیے افسانہ نگار پروفیسر شہزاد انجم مبارک باد کے مستحق ہیں۔

***
نسیم افضل (نئی دہلی)۔ ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ، شعبۂ اردو

Email: naseem.aero.engg[@]gmail.com


A review on short story 'Waba' by Shahzad Anjum - Reviewer: Naseem Afzal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں