آریاؤں کا وطن اور ہندوستان میں ان کا داخلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-29

آریاؤں کا وطن اور ہندوستان میں ان کا داخلہ

aryans-homeland-and-their-entry-into-india

ہند یورپی خاندان کی زبانوں کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد ماہرین لسانیا اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ یہ تمام زبانیں کسی ایک قدیم زبان سے نکلی ہیں لیکن اس سلسلہ میں ہمیں میکس مولر کا یہ قول نہیں بھولنا چاہیئے کہ زبانوں کے ہند یورپی خاندان کا وجود اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اس کے بولنے والے بھی ایک ہی نسل سے ہوں گے۔ یہ اصل زبان کیا تھی ؟ اس کے بولنے والے کہاں بستے تھے ، اور وہ کس طرح یورپ والشيا کے وسیع براعظموں میں پھیلے؟ آریوں کے متعلق یہ ایسے سوال ہیں جن پر محققین آج تک متفق نہ ہو سکے۔ علمی تحقیق میں اختلاف کی کس درجہ گنجائش ہے اس کا اندازہ ان مختلف نظریوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہوتا ہے جوآریوں اور انکے اصل وطن کے متعلق پیش کیے گئے ہیں۔ ان کا سلسلہ ہندوستان (پنجاب وکشمیر )سے شروع ہوکر ہندوکش، تبت ، کاکیشیا، وسط ایشیا، جنوبی روس ، بحیرۂ بالٹک کا ساحل، اسکنڈی نیویا، آسٹریا، ہنگری ،شمالی جرمنی ، پولینڈ اور بالآخر سائبیریا اور خط منجمد شمالی پرختمہوتا ہے۔ ان سب نظریوں کی تفصیل اور پھر ان کی تردید موضوع بحث کرصرف خبط کرے گی۔ لہذا یہاں چند مستند نظریوں کی وضاحت پر قناعت کی جاتی ہے۔


آریوں کی قدیم کتابوں میں ان کے اصل وطن اور آمد کے سلسلے میں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ قدیم زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ آریاتبت سے آئے تھے۔ ہندوؤں کے مذہبی عقیدہ کی رو سے تبت کو انسان کا پہلا مسکن مانا جاتا ہے ، اس لیے آریوں کو بھی اسی علاقے سے منسوب کیا گی سنسکرت کے بعض عالموں کا خیال ہے کہ آریا قبائل ہندوستان ہی کی پاک سرزمین سے اٹھے اور بعد میں ایران و یورپ میں پھیل گئے۔ اس نظریہ کوپنڈت ہری اودھ نے اپنی کتاب" ہندی بھاشا اور ساہتیہ کا وکاس"میں وضاحت سے بیان کیا ہے اور اپنی اس رائے کی تائید میں سوامی دیانند، شری نرائن ھون راؤ پاؤگی اور کئی یورپی عالموں کی رائیں پیش کی ہیں ، لیکن ان نظریوں میں قباحت یہ ہے کہ یہ تحقیق سے زیادہ عقیدے کی پیدا وار ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ بقول میوسنسکرت کی جتنی قدیم کتابیں ہیں ان میں آریوں کے بدیسی ہونے کی طرف کہیں بھی اشارہ نہیں ملتا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی کہیں کھول کر نہیں لکھی گئی کہ آریا اسی سرزمین سے اٹھے تھے۔
رگ وید کے اندر یہاں کے دیسی قبائل اور آریوں کی لگاتار لڑائیوں کے بارے میں جواشارے ملتے ہیں ان سے تو صاف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آریا قبائل شمال مغربی ہندوستان کے دروں سے لڑتے بھڑتے اور فتح کرتے ہوئے ہندوستان کے میدانوں میں داخل ہوتے ہیں۔ ان محققین کا یہ طریقہ استدلال نہایت پھس پھسا ہے کہ چوں کہ ہندوستان قدیم تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہے اس لیے ابتدائی زبان کی تلاش نہیں کرنی چاہیئے۔ ایسا کہتے وقت ان کے ذہن سے وہ لسانی رشتے یکسر محو ہو جاتے ہیں جو ہمیں ایک طرف ایران اور دوسری طرف یورپ کی موجودہ زبانوں سے وابستہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس نظریہ کے حامیوں میں اختلاف رائے بھی ہے۔ بعضوں کا خیال ہے کہ آریا پنجاب میں دریائے سرسوتی کے کنارے بستے تھے۔ کچھے قندھارا درتبت کو آریوں کی جنم بھومی بتاتے ہیں۔ پروفسیر کیتھ کا ، جس کی دبی زبان سے گریرسن بھی تائید کرتا ہے ، خیال ہے کہ آریا قبائل کا مرزوبوم ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پر تھا۔ کیتھکی یہ رائے مانلینے سے وسطی ایشیا والے نظریئے (جس کی وضاحت آگے کی جائے گی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ گریرسن کا خیال ہے کہ رگ وید کے سب سے پہلے منتر آریوں کے داخلہ ہندوستان سے قبل لکھے جا چکے تھے۔ یہ اس زبان میں لکھے گئے ہیں جو ہند ایران زبانوں کی ماں تھی۔


تقریباً سب جدید محققین لسانیات اس پر متفق ہیں کہ آریوں کے وطن کی تلاش وسطی ایشیا کے علاقوں ہی میں کرنا پڑے گی۔ ڈاکڑچڑجی کا خیال ہے کہ قرون اولی کی ہند یورپی زبان و تمدن کا گہوارہ یوریشیا کے وہ وسیع میدان ہیں جن کا سلسلہ ایک طرف پولینڈ اور جرمنی سے ملتا ہے اور دوسری طرف یورال پہاڑوں کے جنوب میں وسط ایشیا کے الطائی اور تھینشان کے سلسلہ ہائے کوہ سے۔ پروفیسر شریدر نے تعین مقام کرتے ہوئے دریائے والگا کے دہانے کو آریوں کا اصل وطن قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں تاریخی دھندلکے میں آریا مغرب اور جنوب مشرق کی طرف پھیلنا شروع ہوئے جو گروہ مغرب میں داخل ہوتا ہے وہ مختلف شاخوں میں تقسیم ہو کر تمام یورپ میں پھیل جاتا ہے اور موجودہ آرمینین، یونانی ، البنیین ، کیلٹک ، جرمن، سلوانک اور تخارین زبانوں کو جنم دیتا ہے۔ دوسرا گروہ جو جنوب مشرق کی سمت اختیار کرتا ہے بحیرۂ کیسپینکے شمال سے ہوتا ہوا موجودہ بدخشاں اور کوہ کند کے علاقے میں پہنچتا ہے جہاں وہ پھر دوشاخوں میں بٹ جاتا ہے۔ ایک شاخ مشرقی ایران میں داخل ہوتی ہے اور پھر دریائے کابل کی وادی کے راستے سے ہندوستان میں۔


" کیمبرج ہسٹری آف انڈیا" میں پروفسیر(GILES)نےجغرافیائی اور تاریخی وجوہ کی بناپر آریوں کی نقل وحرکت کے اس نظریہ کو رد کیا ہے۔ وہ آریوں کے پھیلنے کا مرکزآسٹر یا ہنگری بتاتے ہیں اور اس طرح ان کے خیال میں سب سے زیادہ فطری راستہ درہ دانیال اور ایشیائے کوچک میںسے ہوگا۔ تاریخ میں بعدکو نقل مکان کی جتنی مثالیں ملتی ہیں ان میں ہی راستہ اختیار کیا گیا ہے۔بحیرہ کیسپین کے شمال مشرق سے آریوں کا گزرنا اس لئے ناممکن قرار دیا گیا ہے کہ یہ نشیبی علا قہ ہے جس کا بیشتر حصہ عہد عتیقمیں تہ آب تھا۔ اس وقت بحیرہ کیسپین اتنے وسیع رقبے میں پھیلا ہوا تھا کہ اس کا سلسلہ جھیل ارال سے ملتا تھا۔ اسی طرح جنوبی روس سے کاکیشیا کی جانب بھی نقل وحرکت ناممکن تھی۔ پہاڑوں کے اس دشوار گزار سلسلہ کو یونان قدرتی فصیل سمجھتے تھے۔ آج بھی یہ سلسلہ صرف درہ دانیال سے عبور کیا جا سکتا ہے۔


" وسطی ایشیا "والے نظریہ کی تائمیدان ریکارڈوں سے بھی ہوتی ہے جو 1906ء میں ایشیائے کوچک میں دریافت ہوئے ہیں اور جن کا تعلق 500 1قبل مسیح سے ہے۔ ان ریکارڈوں میں بعض دیوی دیوتاؤں کے نام مثلا ( اندرا ، ارونا ، متیرا وغيرہ ) ملتے ہیں جنھیں مٹنی کے حکمراں پوجتے تھے۔ یہ نام سنسکرت کی مقدس کتابوں میں جوں کے توں پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص اعدادتو سنسکرت اعداد سے اتنے ملتے جلتے ہیں کہ یہ مسلم ہوجاتاہے کہ آریا کا کیشیا کے راستے سے ایشیائے کوچک اور مشرق کی طرف بڑھےہوں گے۔ اس طرح اوستا کی فطری اور غیرمصنوعی زبان کے دونوں کناروں پر ہیں خالص مصنوعی زبان کے نمونے ملتے ہیں۔ مشرق میں سنسکرت اور مغرب میں ایشیائے کوچک کے نئے دریافت شدہ ریکارڈوں کی زبان۔ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ آریا ان دونوں مقاموں پر بے گانوں کی طرح رہے اور اپنی نسل اور زبان کو الگ تھلک رکھا جیسا کہ ان کا نام دستور تھا۔ اس کے برعکس ایران خاص میں ان کی زبان فطری طور پر بدل کراس مصنوعی رحجان کو گنوا دیتی ہے۔


ان آریوں کو تاریخی روشنی میں سب سے پہلے ہم شمال مغربی ایران میں (2000ق۔م )دیکھتے ہیں۔ ہندوستان میں آریوں کے داخلہ کی تاریخ 1500 ق۔ م مقرر کی جا سکتی ہے۔ یہ امر یقینی ہے کہ ہند یورپی زبان بولنے والے آریا اپنے داخلہ ہند سے قبل عرصے تک مشرقی ایران میں قیام کر چکےتھے، جہاں ان کی زبان ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی 2000 ق۔ م تک "ہندایرانی "منزل پر پہنچ جاتی ہے "ہند یورپی "زبان کی یہ"ہندایرانی"شکل ہی ان تمام زبانوں کی ماں کہی جا سکتی ہے جو بعد کو ایران میں پھیلیں اور جسے آریا بولتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ ہندوستان کے زرخیز میدانوں میں آریوں کا داخلہ کسی منظم سیاسی تحریک کی شکل میں نہیں تھا یہ عمل کئی صدیوں تک جاری رہا اور اس میں جہاں گیری سے زیادہ جہاں پیمائی کا جذبہ کارفرما تھا۔


ہندوستان میں آریوں کا سابقہ دراویدی اور آسٹرک قوموں سے پڑا۔ دراویدیوں سے ان کا مقابلہ مغربی اور شمالی مغربی ہندوستان میں ہوا۔ آسٹرک زیادہ تر مشرقی اور وسط ہند کے علاقوں میںآ باد تھے۔ ان قوموں کو زیر کرنےمیں انھیں کافی جد وجہد کرنی پڑی۔ اس جدوجہد کی جھلک رگ وید کے بعض قصوں میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ موجودہ ہندی تمدن خالص آریایی تمدن نہیں کہا جا سکتا۔ فاتح اور مفتوح دونوں آخرمیں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔یہی شکل یہاں بھی پیدا ہوئی۔ جس طرح بعض مورخوں کا یہ دعوی غلط ہے کہ ہندوستان میں آریائی تمدن مذہب کی آڑ میں پھیلا لیکن آریا قوم کے افراد بہت کم تعداد میں ہندوستان کو اپنا گھر بنا سکے ؛
اسی طرح یہ کہنا بھی تاریخی غلطی ہوئی کہ آریائی سماج درا ویدی تمدن کو نگل گیا تھا۔ نئے انکشافات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ہندوستان میں نووارد آریوں کا ایک ایسے تمدن سے سابقہ پڑا تھا جو کئی لحاظ سے ان صحرانوردوں کے تمدن پر فوقیت رکھتا تھا۔ چنانچہ موجودہ ہندی تمدن کے بعض بنیادی عناصر اسی قدیم ہندوستانی تمدن کی یادگار ہیں۔ آریوں نے دراویدی مذہب کے بہت سے عناصر قبول کر لئے۔ بعض ریوی دیوتاؤں کے تصورات اور دیو مالا کچھ کھانے پینے کی چیزیں (پان سپاری ) اور لباس (دھوتی اور ساری) خالص دراویدی عناصر ہیں۔ جہاں تک زبان کا تعلق ہے محققین نے دراویدی زبانوں کے بعض عناصر کی نشان دہی کی ہے۔ ان زبانوں کا آریائی زبان کی قواعد اور صوتیات پر کافی اثر پڑا اور آریائی زبان نے "ہند ایرانی" منزل سے گزرکر "ہند آریائی" شکل اختیار کرلی۔ شمالی ہند میں اب دراویدی زبانوں کا نام ونشان نہیں ملتا ہے تحقیق کا یہ حصہ بالکل تاریکی میں ہے اس کے بجز کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ قدیم پراکرتوں کی پیدائش دیس کی انھیں بولیوں کی گودمیں ہوئی ہوگی۔


قدیم آریائی تہذیب کی سب سے بڑی دین "براہمی" رسم الخط ہے جس کا ارتقا ہندوستان میں ہوا اور جو ہندوستان کی تمام زبانوں کی لکھاوٹوں (الا اردو اور کشمیری) کا ماخذ ہے اور جسے آریوں نے شروع سے اپنی زبانوں کے لئے استعمال کیا ہے۔


***
ماخوذ از کتاب: مقدمۂ تاریخ زبان اردو
مصنف: مسعود حسین خان۔ ناشر: ایجوکیشنل بک ہاؤس، علیگڑھ۔ (سن اشاعت: 2008ء)

The homeland of the Aryans and their entry into India. Essay: Masood Hussain Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں