نظریہ امکانات - Theory of Probability - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-16

نظریہ امکانات - Theory of Probability

nazarya-imkanaat-theory-of-probability

حقیقت یہ ہے کہ اس پوری کائنات میں موت کے علاوہ کسی شئے کو یقینی نہیں کہا جا سکتا۔ تمام فلسفے ، مذاہب اور سائنس داں اس بات پر متفق ہیں کہ موت کا آنا یقینی شئے ہے۔ اس کے علاوہ کائنات میں کوئی شئے یقینی نہیں کہی جاسکتی۔ صرف امکانی کہی جاسکتی ہے۔ مثلاً اکثر اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی رہتی ہیں:
"مجھے کامیابی کی ننانوے فیصد امید ہے۔ صرف ایک فی صد ناکامی کا چانس ہے۔"


"قسمت کی بات ہے یا بزرگوں کی دعاؤں کا اثر ہے کہ میں بیماری سے اچھا ہوگیا ورنہ ڈاکٹروں نے تو اپنے طور پر پورے یقین سے کہہ دیا تھا کہ میں چار مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہوں گا۔"


"ہاں۔ الیکشن میں جیتنے کا پورا امکان ہے لیکن کچھUnknown factorsیعنی اتفاقی حالات کبھی کبھی تمام اندازوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔"


یعنی ہر کام میں حتمی اور یقینی طور پر کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ صرف امکانی طور پر کوئی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ دنیا کا ہر ذی شعور اس یقینی اور امکانی الجھن میں گرفتار نظر آتا ہے۔ آخر یہ قسمت ، چانس کیا چیز ہے۔ اس سوال کا جواب صرف ایک ہے"خدا ہی جانے وہی سب کچھ کرتا ہے۔"


سائنس داں اس سوال یا الجھن کو "نظریہ امکانات" کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نظریہ امکانات کیا شئے ہے اور یہ کن اشیا یا کن حالات کو متاثر کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فطرت کے دوسرے اٹل قوانین کی طرح قانون امکانات بھی یقینی اور اٹل ہے کیونکہ جب ایک ذی شعور انسان(سائنس داں) کوئی چیز بناتا ہے یا کسی چیز کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنی دانست میں تمام ممکن اشیا اور حالات کو مد نظر رکھ کر اپنے کام کو مکمل کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ اس کو اپنے مقصد میں کامیابی یقینا ملے گی۔ لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مشاہدات، معلومات اور تجربات کی روشنی میں ہر چیز کو دیکھ اور پرکھ لیتا ہے ، اس کے باوجود کچھ نامعلوم حقائق ایسے رہ جاتے ہیں جو اس کے ذہن رسا کی گرفت میں نہیں آتے اور یہی نامعلوم حقائق جنہیں انگریزی میںUnknown factorsکہاجاتا ہے، تمام حالات کا رخ اچانک موڑ دیتے ہیں۔


میں نے ابتدا میں لکھا ہے کہ اس کائنات میں موت کے علاوہ کوئی شئے یقینی نہیں۔ اس کے لئے وقت کی کوئی قید نہیں لیکن جو شئے وجود میں آگئی ہے اس کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا لازمی ہے۔ اب یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ موت جسے ہم یقینی سمجھتے ہیں وہ کیا شئے ہے۔ مثلاً موت کو فنا بھی کہاجاتا ہے، انجام اور خاتمہ بھی لیکن شاید موت کے لئے سب سے زیادہ بامعنی اور صحیح لفظ اردو کا لفظ’انتقال’ ہے، جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ فلاں صاحب کا انتقال ہوگیا۔


انتقال کے لغوی معنی ہیں کہ کوئی شئے ایک جگہ سے دوسری جگہ چلی گئی یا اس نے ایک شکل سے دوسری شکل اختیار کرلی۔ جب انسان زندہ ہوتا ہے تو اس کے حواس خمسہ اس کی زندگی کی علامت ہوتے ہیں لیکن جب یہ حواس خمسہ اپنا کام کرنا بند کردیتے ہیں تو کہاجاتا ہے کہ یہ شخص مرگیا یا اس کا انتقال ہوگیا کیونکہ انتقال کے بعد اس کا مردہ جسم ایک نئی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پنڈت چکبست لکھنوی نے اپنے ایک شعر مین موت کی وضاحت اس طرح کی ہے:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا


موت کی اس سے بہتر تعریف نہیں کی جاسکتی کیونکہ سچائی یہی ہے کہ ایک منظم چیز کا منتشر ہوکر کوئی دوسری شکل اختیار کرلینا ہی موت ہے۔ یہاں ہم روح کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ صرف جسم اور موت کا تجزیہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ روح کا تعلق مذہبی عقیدوں سے ہے اور جسم ایک ظاہر اور واضح شئے ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں ، چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ۔


سائنس کے مطابق یہ پوری کائنات بانوے قدرتی عناصر سے بنی ہے۔ مختلف عناصر کے مختلف اتصال(Combintions) سے الگ الگ چیزیں اور زندگیاں وجود میں آتی ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہیں لیکن موت کے بعد عناصر بکھر کر پھر اپنی اصلی شکل میں آجاتے ہیں اور وہی عناصر کسی دوسرے قسم کے اتصال سے ایک نئی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یعنی موت کسی مادی شئے کے ایک شکل سے دوسری شکل میں منتقل ہوجانے کا دوسرا نام ہے۔


مرنے کے بعد گوشت پوست کا جسم محض بے کار شئے رہ جاتا ہے ، اب اس جسم کو مٹی میں دبادو یا آگ میں جلادو انجام ایک ہی ہوتا ہے۔ زمین میں دبانے پر جسم کیڑے مکوڑوں کی خوراک بنتا ہے اور دھیرے دھیرے مٹی میں مل جاتا ہے اور اس کے قدرتی عناصر سے نئی نئی قسم کی اشیا یا زندگیاں وجو د میں آجاتی ہیں۔ اسی جسم کو جلانے پر جسم کے سارے عناصر بکھر کر فضا میں مل جاتے ہیں اور وہی عناصر نئے عناصر سے مل کر نئی اشیا یا زندگیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔


موت صرف جاندار اشیا کو ہی نہیں آتی بلکہ اس کائنات میں ہر شئے پیدا ہوتی ہے ، جوان ہوتی ہے، بوڑھی ہوتی ہے اور مرجاتی ہے یا انتقال کرجاتی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ کائنات میں پھیلے ہوئے ان گنت اجرام فلکی بھی موت کی لذت سے آشنا ہوتے رہتے ہیں۔ ہر سورج پیدا ہوتا ہے ، جوان ہوتا ہے ، بوڑھا ہوتا ہے اور مرجاتا ہے۔ سورج کی موت کو "نووا" یا "سپر نووا"کہاجاتا ہے۔ اپنی جوانی میں ہر سورج کی روشنی نیلے رنگ کی جھلک لئے ہوئے ہوتی ہے۔ ادھیڑ عمر میں اس کی روشنی پیلی پڑنے لگتی ہے(جیسے ہمارے سورج کی روشنی)اور بڑھاپے میں اس کی روشنی میں لال رنگ غالب ہوجاتا ہے یا بالکل سفید ہوجاتی ہے اور بڑھاپے میں ہر سورج کا قد سمٹ جاتا ہے ، اسی لئے بوڑھے سورجوں کو سرخ بونے(Red Dwarf) یا سفید بونے(White Dwarf) کہاجاتا ہے اور بہت سے سورج یا سیاہ سورج(Black Holes) بن جاتے ہیں۔
یہاں سے نظریہ امکانات اپنا عمل شروع کردیتا ہے کیونکہ کسی سورج کے بارے میں پوری معلومات حاصل ہوجانے کے باجود یقین سے نہیں کہاجاسکتا کہ اپنی موت کے وقت وہ کیا شکل اختیار کرے گا، لیکن اس کی موت یقینی ہوتی ہے یعنی اس کا پورا وجود ایک شکل سے دوسری شکل اختیار کرلیتا ہے۔ سورج کی موت اس کے پھٹ کر بکھر جانے سے ہوتی ہے۔ جسے نووا یا سپر نوواکہاجاتا ہے۔ یعنی پورا سورج گیسوں ، برقناطیسی مادے اور پلازما وغیرہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس کا جسم گیسوں کے بادلوں کی شکل میں لاکھوں کروڑوں میل کی حدود میں پھیل جاتا ہے۔ پھر لاکھوں ، کروڑوں یا اربوں سال اسی شکل میں رہ کر وہ گیس سمٹ کر نئی زندگی یا نئے سورج کی شکل میں آنے لگتی ہیں۔ یعنی سورج کی موت ہی ایک نئے سورج کی پیدائش کہی جاسکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں مادہ ایک شکل سے دوسرے شکل اختیار کرتا رہتا ہے۔ یہی فطرت کا اٹل قانون کہاجاسکتا ہے۔ لیکن ان تمام تبدیلیوں کے بارے میں ہم صرف اندازے لگا سکتے ہیں۔ یقینی طور پر نہیں بتاسکتے کہ اس کی اگلی شکل کب اور کیا ہوگی اور تمام حقائق کے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہم حتمی طور پر کوئی بات اس لئے نہیں کہہ سکتے کیونکہ کائنات میں قدرت کا ہی ایک اور اٹل قانون بھی عمل پیرا ہوتا ہے جسے ہم قانون امکانات(Law of Probability) کہتے ہیں۔


نظریہ امکانات کیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں چند مشاہدے اور چند تجربے کرنے ہوں گے۔ مثلاً اگر آپ ایک سکہ فضا میں اچھالتے ہیں تو آپ پیش گوئی نہیں کرسکتے کہ وہ زمین پر کس طرف سے گرے گا۔ یعنی اس میں تصویر اوپر آئے گی یا سن اور ہندسے۔ آپ اس کے بارے میں اندازاً تو کہہ سکتے ہیں لیکن یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اگر آپ اسی سکے کو ایک ہزار بار اچھالتے رہیں اور سکہ جس طرف گرتار ہے اس کو لکھتے رہیں تو نظریہ امکانات کے مطابق یہ سکہ کم وبیش پانچ سو بار تصویر کی طرف گرے گا۔ اگر آپ وہی سکہ دس ہزار بار اچھال کر گراتے رہیں گے تو بھی سکہ اسی تناسب سے یعنی تقریباً پانچ ہزار بار ہندسوں کی طرف گرے گا اور تقریباً پانچ ہزار بار ہی تصویر کی طرف سے گرے گا۔ یعنی ہمیشہ تقریباً نصف ایک طرف گرے گا اور نصف دوسری طرف۔ نظریہ امکانات کے مطابق یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے یعنی ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ دس پانچ ہزار بار سکہ اچھالنے پر صرف ایک ہزار بار کسی ایک طرف گرے اور نو ہزار بار دوسری طرف۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ دس ہزار بار سکہ اچھالنے پر کبھی پانچ چھ سو بار ایک طرف گرتا رہے اور اتنی ہی بار دوسری طرف لیکن آخر میں اس کے دونوں طرف گرنے کا اوسط نصف ہی رہے گا۔ اس جملہ میں لفظ اوسط اہم حیثیت رکھتا ہے۔


مشہور سائنس داں آئنسٹائن نے اور اس کے بعد آج کے دور کے امریکی سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ نے بھی اس بات کو دوہرایا ہے کہ اگر ایک بندر ٹائپ مشین کے"کی بورڈ" پر بغیر سوچیے سمجھے ایک لاکھ سال تک انگلی مارتا رہے یعنی"کی بورڈ" کے ہر لفظ کو کسی ترتیب کے بغیر دباتا رہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس عرصہ میں کسی بھی جگہ شیکسپیئر کی کوئی مشہور" سانیٹ" خو د بخود ٹائپ ہوجائے گی۔


یہ دونوں باتیں نظریہ امکانات کے مطابق درست مانی جاتی ہیں، اب اس کو آپ چاہے اتفاق کہہ لیں یا کچھ اور سمجھ لیں۔ ویسے آپ چاہیں تو سکہ کو اچھال کر یہ تجربہ خود بھی کرسکتے ہیں۔ نتیجہ وہی نکلے گا جواپر تحریر کیاجاچکا ہے۔ فطرت میں عمل پیرا نامعلوم حقائق(Unknown factors) ہی نظریہ امکانات کی بنیاد ہوتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی کام کو مکمل کرنے کا بہت سوچ سمجھ کر منصوبہ بناتے ہیں۔ ماہرین اور تجربہ کار حضرات سے مشورے کرکے اس منصوبہ پر عمل کرتے ہیں۔ آپ کی پوری ٹیم کو یقین ہوتا ہے کہ آپ کاکام منصوبے کے مطابق مکمل ہوگا لیکن اچانک کہیں کسی طرح کوئی بات آپ کے منصوبے سے مختلف ہوجاتی ہے اور آپ کا سارا پلان فیل ہوجاتا ہے یعنی جس کام کے لئے آپ نے پوری دماغی ، جسمانی اور مالی قوتیں صرف کردی تھیں صرف ایک معمولی سا Unknown factors آپ کے سارے منصوبے کو تباہ کردیتا ہے۔اسی کا نام قانون امکانات یا نظریہ امکانات ہے۔


نظریہ امکانات کی ابتدا دراصل اب سے تین سو سال قبل ایک قمار خانے میں ہوئی تھی۔ شوالیر ڈ میر(Chevalier De Mere) نام کے ایک دولت مند نواب کو جوا کھیلنے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ ایک بار اس نے سوچا کہ کیا علم ریاضی جوا کھیلنے میں کسی طرح مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے پاس دولت کی کمی نہیں تھی۔ اس نے اپنے ملک کے ریاضی کے ماہر ایک سائنس داں بلائس پاسکل(Blaise Pascal)سے کہا کہ کیا وہ ریاضی کی مدد سے جوے میں جیت سکتا ہے چاہے وہ جوا "پانسہ" پھینک کر کھیلاجائے یا رولٹ مشین پر کھیلا جائے۔(رولٹ مشین میں ایک پہیہ گھومتا ہے اور پیہ میں ایک چھوٹی سی گیند گھوم کر کسی ایک خانے میں آجاتی ہے) بلائس پاسکل فرانس کا مشہور ریاضی داں تھا جس نے 1642 ء میں ہندسوں کو جوڑنے اور گھٹانے کی پہلی مشین بنائی تھی یعنی ایک طرح سے کمپیوٹر ایجاد کرنے والوں میں اس کا نام آتا ہے۔ بلائس پاسکل نے اس سلسلہ میں اپنے زمانے کے ہی ایک اور ریاضی داں پیئر فرمیٹ(Pierre Fermat)کی مدد لی اور دونوں نے مل کر نظریہ امکانات کی بنیاد ڈالی۔ آج وہی نظریہ امکانات سائنس کے بہت سے مسائل حل کرنے میں کام آتا ہے۔ بہت سے ایسے فطری مظاہرکو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جو عام طریقہ سے غوروخوض کرنے پر سمجھ میں نہیں آتے۔ مثلاً ایٹمی ذرات کے اندر کس طرح کی قوتیں کام کرتی ہیں۔ کسی ایک ایٹمی ذرہ سے کچھ خاص حالات میں کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ نظریہ امکانات سے اس طرح کے مشکل مرحلوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔


عام زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے خاندانوں میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور بہت سے گھروں میں صرف لڑکے پید اہوتے رہتے ہیں۔ ماں باپ ڈاکٹروں اور ٹوٹکے کرنے والوں کے دروازوں پر سر ٹکراتے رہتے ہیںلیکن خواہش کے مطابق نہ لڑکا پیدا ہوتا ہے اور نہ لڑکی جب کہ ہر مرد میں لڑکا یا لڑکی پیدا کرنے والے"اسپرم" برابر کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ یہ قدرتی مظہر بھی نظریہ امکانات کے ذریعہ ہی سمجھ میں آسکتا ہے۔ اس کی مثال سکہ اچھالنے کے کھیل سے دی جاسکتی ہے۔ جس میں سکہ کئی بار مسلسل ایک طرف ہی گرتارہتا ہے اور پھر کسی وقت دوسری طرف گرنا شروع ہوجاتا ہے۔ ہر ملک کی آبادی میں لڑکوں اور لڑکیوں کی پیدئش کا اوسط کم و بیش فرق کے ساتھ پچاس فی صد رہتا ہے یعنی کسی واحد مثال میں آپ کو یہ عمل عجیب محسوس ہوگا لیکن جب آپ مجموعی طور پر جائزہ لیں گے تو ہر جگہ آپ کو اوسط تقریباً برابر ملے گا۔


آج کے زمانے میں نظریہ امکانات کا بہتر استعمال بیمہ کمپنیاں کرتی ہیں اور فائدہ اٹھاتی ہیں۔ وہ کمپنی کے نقصان یا فائدے کا حساب"امکانات" کو مد نظر رکھ کر لگاتی ہیں۔ مثلاً ایک بیمہ کمپنی یہ دیکھتی ہے کہ ایک سال میں کتنے افراد کا اس نے بیمہ کیا اور ا ن بیموں سے پریمیم کی شکل میں کتنی رقم ان کو ملے گی۔ اس رقم کو بزنس میں لگا کر کتنا منافع ان کو ایک سال میں ملے گا اور اس ایک سال میں اوسطا ً کتنے بیمہ کرانے والے حادثوں یا بیماریوں سے مرجائیں گے جن کے بیمہ کی رقمیں کمپنی کو ادا کرنی ہوں گی، اس طرح ریاضی کے ذریعہ اوسط نکال کر ہی وہ بیمہ کی نئی نئی پالیسیاں نکالتے رہتے ہیں۔ اس بزنس میں اوسط اور امکان ہی ان کا رہبر بنتا ہے۔ ہر بڑے کاروبار میں لفظ امکان بہت اہمیت رکھتا ہے۔ امکانات کو مد نظر رکھ کر ہی ہر کاروبار چلانے اور بڑھانے کی اسکیمیں بنائی جاتی ہیں۔


***
ماخوذ از کتاب: آج کی سائنس
مصنف: اظہار اثر۔ ناشر: اردو اکادمی، دہلی۔ سن اشاعت: 2006ء۔

Theory of Probability (nazarya-e-imakanaat), Essay by: Izhar Asar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں