فہرست رائے دہندگان کو شفاف بنانے کے نام پر مخصوص طبقہ کا حق رائے دہی چھینا جا سکتا ہے
اس عمل کو این آر سی اور این پی آر کے تناظر میں دیکھنا ضروری
شہری دستاویزات سے متعلق غفلت مسلمانوں کے لیے خطرہ
فہرست رائے دہندگان میں نقائص کو دور کرنے، اس کو شفاف بنانے اور رائے دہندوں کے ایک سے زائد ناموں کے اخراج، جعلی رائے دہندوں کی نشاندہی کی خاطر مرکزی حکومت نے فہرست کو آدھار سے مربوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کا دعوی ہے کہ وہ اصلاحات لا رہی ہے، جبکہ حکومت کے اس اقدام کو این آر سی اور این پی آر کے تناظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے۔ کیا شفافیت اور فرضی ناموں کے اخراج کے نام پر ایک مخصوص علاقہ اور مذہب کے ماننے والوں کے ناموں کو حذف کیا جائے گا؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو جہاں لاکھوں لوگ حق رائے دہی سے محروم ہو جائیں گے وہیں ملک میں جو شمولیاتی طرز کی جمہوریت ہے وہ بھی خطرہ میں پڑ جائے گی۔
ملک میں کمزور طبقات بالخصوص اقلیتوں کو موجودہ حالات کے پیش نظر اپنی شہریت سے متعلق تمام دستاویزات کو ہمیشہ ساتھ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہی ہماری شہریت کا ثبوت ہے۔ ان کی حفاظت اور ان دستاویزات میں جو نقائص ہیں اس کو قبل از وقت دور کرنا ہر شہری کے لئے ضروری ہے۔
فہرست رائے دہندگان کو آدھار کے ڈاٹا سے مربوط کرنے کے ضمن میں وزارت قانون کی جانب سے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا اور مرکزی الیکشن کمیشن خدوخال بنانے میں مصروف ہے۔ یہ اشارہ دیا جا رہا ہے کہ آدھار کو فہرست رائے دہندگان سے مربوط کرنے کاعمل لازمی نہیں بلکہ اختیاری رہے گا لیکن کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ آدھار کے ڈاٹا کی بنیاد پر ایک رائے دہندہ کے نام کی تصدیق اور توثیق کرنا درست عمل نہیں ہے کیونکہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے جبکہ آدھار وزارت الکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی کے زیرنگرانی ہے۔ اگر ووٹر کی تصدیق و توثیق آدھار کے ڈاٹا کو بنایا جائے گا تو حکومت ڈاٹا میں الٹ پھیر کروا سکتی ہے اس طرح مخصوص علاقہ یا مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا ڈاٹا حذف کیا جا سکتا ہے اس کی بنیاد پر ایک بڑے طبقہ کو حق رائے دہی سے محروم بھی رکھا جا سکتا ہے۔
ماہرین یہ مثال دے رہے ہیں کہ تجرباتی بنیاد پر جب 2015ء میں آندھراپردیش اور تلنگانہ میں فہرست رائے دہندگان کو آدھار سے مربوط کیا گیا تو 55 لاکھ ووٹرس کے نام لاپتہ ہو گئے تھے۔ اسی طرح کرناٹک میں جہاں 5 کروڑ سے زائد رائے دہندے ہیں وہاں پر 66 لاکھ ووٹرس کے نام غائب تھے۔ کئی افراد نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ فہرست کو شفاف بنانے، جعلی ووٹرس کے ناموں کو حذف کرنے کے مقصد کی آڑ میں اقلیتوں اور مخالف حکومت رائے دہندوں کے اکثر ناموں کو اگر فہرست رائے دہندگان سے غائب کیا جاتا ہے تو ہر الیکشن میں برسراقتدار جماعت کو فائدہ ہوگا۔
سچر کمیٹی کے رکن ابو صالح شریف نے بھی یہ بات کہی تھی کہ کرناٹک میں جن 66 لاکھ ووٹرس کے نام غائب تھے اس میں 20 فیصد نوجوان مسلم رائے دہندوں کے نام شامل ہیں۔ اگر نو جوانوں کے نام ہی فہرست رائے دہندگان سے غائب کئے جاتے ہیں تو پھر ان کی شہریت کو ثابت کرنے کے لئے ان سے دستاویزات بھی طلب کئے جا سکتے ہیں۔ این آر سی اور این پی آر کو اگر لاگو کیا جاتا ہے تو اس صورت میں مسلم نوجوانوں کا نام فہرست رائے دہندگان میں شامل نہیں کیا جاتا تو پھر ان نوجوانوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
گریٹر حیدر آباد میونسپل کارپوریشن کے عہدیداروں نے بتایا کہ انہیں واضح طور پر ہدایت نہیں ملی ہے اس لئے شہر میں آدھار کو فہرست راۓ دہندگان سے مربوط کرنے کے عمل کا سرکاری طور پر آغاز نہیں کیا گیا ہے لیکن نیشنل ووٹر سرویس پورٹل پر لاگ ان کرنے کے بعد ایک رائے دہندہ اپنے ووٹر آئی ڈی سے آدھار کو مربوط کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ٹول فری نمبر 1950 پر صبح 10 تا شام 5 بجے کے درمیان فون کرتے ہوئے اپنا ووٹر آئی ڈی نمبر اور آدھار نمبر دے کر اسے مربوط کرنے کی درخواست دی جا سکتی ہے۔
وزارت قانون کی جانب سے جو گزٹ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، اس کے مطابق اگر کسی شہری کے پاس آدھار نہیں ہوگا تو وہ پین کارڈ، پاسپورٹ، پنشن کی دستاویزات، بینک پاس بک کے بشمول دیگر 11 دستاویزات کی بنیاد پر اپنے نام کی فہرست رائے دہندگان میں تصدیق کروا سکے گا۔
لیکن اہم اور اصل بنیاد آدھار کو ہی بنایا جا رہا ہے۔
وزارت قانون کی جانب سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق یکم اپریل 2023ء تک فہرست میں جن ووٹرس کے نام ہیں انہیں اپنے آدھار نمبر کا اندراج کروانا ہوگا، وہ بوتھ لیول آفیسر کے پاس یہ اندراج کروا سکیں گے انہیں ایک نیا فارم "6B" فراہم کیا جائے گا۔ اگر ووٹر اپنا نام تصدیق نہیں کروائیں گے تو ان کا نام فہرست سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔
کمزور طبقات بالخصوص مسلمانوں میں وہ افراد جو کرایہ کے مکانات میں رہتے ہیں ان کی دستاویزات الگ الگ پتوں پر رہتی ہیں، کئی افراد ایسے ہیں جن کا آدھار کارڈ ایک پتہ پر ہو تو ووٹر آئی ڈی کارڈ دوسرے پتہ پر ہوتا ہے۔ ووٹر کی تصدیق کا اختیار بوتھ لیول آفیسر کو دیا جائے اور اگر وہ متعصب ذہن والا ہے تو پھر وہ مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے ناموں کو خارج بھی کر سکتا ہے۔
بشکریہ: روزنامہ "اعتماد" حیدرآباد۔ صفحہ آخر، بروز پیر 27/جون 2022ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں