چالیس دوبئی کے مماثل ہندوستانی اوقاف جائیدادیں - کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-26

چالیس دوبئی کے مماثل ہندوستانی اوقاف جائیدادیں - کالم از ودود ساجد

indian-states-muslim-wakf-boards-issue

گزشتہ 24 جون کو انقلاب میں شائع ایک تفصیلی انٹرویو کے دوران مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے کچھ سیاسی اور کچھ سرکاری باتیں بتائیں۔ مجھے ان کے سیاسی بیانات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس پر سیاسی مبصرین، مسلم قائدین اور ہمارے قارئین اظہار رائے کرسکتے ہیں۔ مجھے بعض سرکاری بیانات پرکچھ اظہار رائے کرنا ہے۔


مثال کے طور پر انہوں نے ایک اشو وقف جائیدادوں کا بیان کیا۔ ان کا دعوی ہے کہ ان کی حکومت یعنی مودی حکومت، ملک بھر کے اوقاف کو ان کی جائیدادوں پرتعمیری اور ترقیاتی سرگرمیوں کیلئے صد فیصد فنڈ دینا چاہتی ہے لیکن وہ لینا ہی نہیں چاہتے۔ اسی طرح انہوں نے اپنی وزارت کی مختلف اسکیموں کا ذکر کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ان سے لاکھوں مسلمانوں نے فیض اٹھایا۔ انہوں نے پولیس کے کلچر پر بھی ناگواری کا اظہار کیا اور اس میں اصلاح کی ضرورت کا اعتراف کیا۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ فسادات میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوتا ہے اور یہ کہ مسلمان، فساد شکن فورسز کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔


میرا خیال ہے کہ مذکورہ پہلوؤں پرجامع، تفصیلی اور مدلل بحث ہونی چاہئے۔ مجھے مذکورہ تینوں پہلوؤں میں سب سے زیادہ اہم پہلو وقف کا لگتا ہے۔
ہندوستان میں مسلم اوقاف کی حالت زار پر خود مسلمان ہی فکرمند نہیں ہیں۔ کانگریس حکومت کے دوران راجیہ سبھا کے سابق ڈپٹی اسپیکر، کے رحمان خان کی چیرمین شپ میں اوقاف کے امور کا جائزہ لینے کیلئے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) قائم ہوئی تھی۔ اس کمیٹی نے ایک جامع رپورٹ بھی تیار کی تھی اور اوقاف کے تحفظ اور ڈویلپمنٹ کیلئے کچھ سفارشات بھی کی تھیں۔
اس رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں وقف جائیدادیں چار لاکھ ایکڑ سے بھی زیادہ زمین کے قطعات پر مشتمل ہیں۔ جن میں زیادہ تر "پرائم لوکیشن" پر واقع ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مقبوضہ اوقاف کو واگزار کرانے کے بعد انہیں ڈویلپ کرنے کیلئے ہرسال ایک سے دو ہزار کروڑ روپیہ کی ضرورت پڑے گی اور پھر ڈویلپ شدہ پروجیکٹ سے اگلے دس برس کے بعد اوقاف کو 10 ہزار کروڑ سالانہ کی آمدنی شروع ہو سکتی ہے۔


کانگریس کی منموہن سنگھ حکومت نے شاید اس رپورٹ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ یہ بات درست ہے کہ اسے 2013 میں اس رپورٹ کے آنے کے بعد عمل کا وقت ہی نہیں ملا لیکن اس رپورٹ کی سب سے اولین سفارش تک پر بھی وہ عمل نہ کرسکی۔ اس کے مطابق حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ اوقاف کے اشو پر تمام ریاستوں کے وزرائے اعلی کی میٹنگ بلائے۔
بہرحال سوچ کر دیکھئے، چار لاکھ ایکڑ زمین کم نہیں ہوتی۔ اوپر سے اگر اس سے دس ہزار کروڑ روپیہ سالانہ کی آمدنی شروع ہوجائے تو اس رقم سے خالصتاً مسلمانوں کیلئے کتنے بڑے بڑے تعلیمی اور اقتصادی کام انجام دئے جاسکتے ہیں۔ ہرسال 10 یونیورسٹیاں یا ایک ہزار اسکول بنائے جاسکتے ہیں۔


حکومت ہند کا رواں مالی سال کا تعلیمی بجٹ 63 ہزار 449 کروڑ ہے جس میں اقلیتی طبقات کی تعلیمی ضرورتوں پر صرف کرنے کیلئے 2515 کروڑ روپیہ مختص ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر مسلمانوں کے اوقاف کی اپنی آمدنی کا انتظام ہوجائے تو حکومت کے تعلیمی بجٹ کا پانچ گنا تو خود وہی فراہم کرسکتے ہیں۔
جے پی سی کی یہ رپورٹ 2013 میں تیار ہوئی تھی۔ ان نو (9) سالوں میں اقتصادی اور معاشی میدان میں جو اچھال آیا ہے اس کی روشنی میں مذکورہ اعداد میں آسانی کے ساتھ دوگنا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر اوقاف سے یہ رقم فراہم کرنے کا معقول نظم ہوجائے تو مسلمان خود اس کے اہل ہوجائیں کہ وہ حکومت کے ذریعہ دئے جانے والے بجٹ کا دس گنا بجٹ پیش کردیں۔


پوری دنیا میں اس وقت سونے سے بھی زیادہ جس شے کی قیمت ہے وہ زمین ہے۔ اس زمین کی بنیاد پر کیسے کیسے صحرائی ممالک نے خود کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور خاص طور پر دوبئی نے تو اس ضمن میں سب سے اعلی مقام حاصل کرلیا ہے۔ دوبئی کا کل رقبہ 32 مربع کلو میٹر یعنی سات ہزار 907 ایکڑ ہے۔ اس اعتبار سے ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس 40 سے بھی زیادہ "دوبئی" ہیں۔


جے پی سی کے مطابق ملک بھر میں ہزاروں، لاکھوں کروڑ کی وقف جائیدادوں پر یا تو ناجائز قبضے ہیں یا وقف کے ذمہ داروں نے یہ زمینیں غیر قانونی طورپر وقف مافیا کو لیز پر دے رکھی ہیں۔ دوسری طرف خود وقف بورڈز کا حال یہ ہے کہ انہیں اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے مشکل ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض وقف بورڈز میں تو عملہ کو تنخواہیں بھی وقت پر اور پوری نہیں مل رہی ہیں۔ ایسے میں وقف بورڈز کے عہدیداران ضرورت مند مسلمانوں، یتیموں اور بیواؤں کی کیا حاجت روائی کریں گے۔
اس سلسلہ میں جے پی سی نے اوقاف کے نظام کو موثر اور مضبوط بنانے کیلئے بھی کچھ سفارشات کی تھیں۔ ان میں ایک یہ بھی تھی کہ سینٹرل وقف کونسل کو بااختیار بنایا جائے۔
مجھے یاد آتا ہے کہ وقف امور پر جے پی سی کی رپورٹ سے بھی پہلے مسلمانوں کے مجموعی احوال جاننے کیلئے جس اعلی اختیاراتی "سچر کمیٹی" کا قیام عمل میں آیا تھا اس نے بھی اوقاف پر کئی سفارشات پیش کی تھیں۔
ان میں ایک یہ بھی تھی کہ اوقاف کے بہتر نظام کیلئے وقف بورڈز کے سی ای او اور سیکریٹری جیسے سینئر افسران کی بھرتی بھی یوپی ایس سی کے تحت کی جائے۔ یعنی وقف بورڈ کا سی ای او سول سروسز کے امتحانات کے عمل سے گزرنے والے کامیاب امیدواروں میں سے ہی منتخب کیا جائے۔


مختار عباس نقوی کا یہ سوال تو درست ہے کہ سچر کمیٹی کی سفارشات پر خود کانگریس حکومت نے کیوں عمل نہیں کیا۔ جسٹس راجندر سچر نے یہ رپورٹ 2006 میں وزیر اعظم منموہن سنگھ کو پیش کردی تھی۔ اسی سال 30 نومبر کو اس رپورٹ کو عام کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد کانگریس کو کم وبیش اقتدار کے 8 سال ملے۔ اس مدت میں حکومت نے اس رپورٹ پر کتنا عمل کیا نہیں معلوم۔ کیا بھی ہوگا تو اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ظاہر ہے کہ جب خود کانگریس کی حکومت نے ہی اس رپورٹ پر کوئی قابل ذکر عمل نہیں کیا تو موجودہ حکومت سے کیسا شکوہ اور کیا امید۔


جے پی سی کے چیرمین کے رحمان خان کا دعوی ہے کہ کانگریس حکومت نے اصولی طور پر یہ سفارش تسلیم کرلی تھی کہ اوقاف کے ڈویلپمنٹ کیلئے ایک کارپوریشن قائم کی جائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اوقاف کی بہت سی جائیدادیں مختلف وقف بورڈز کے چیرمینوں نے ہی اپنے دستخط سے لیز پر دیدی تھیں۔ جبکہ قانونی طور پر وقف بورڈکے چیرمین کو ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ دہلی، ہریانہ، پنجاب اور ہماچل پردیش میں ایسے تمام معاملات کو غیر قانونی تصور کرتے ہوئے رد کردیا جائے جہاں وقف بورڈز کے چیرمینوں نے اپنے دستخط سے زمینوں کو لیز پر دیدیا ہے۔


اس طرح کی کچھ اہم زمینوں کا ذکر بھی رپورٹ میں تھا جن پر بڑی بڑی تعمیرات ہوگئی ہیں۔ ان میں دہلی، کلکتہ، چنئی، بنگلور اور حیدرآباد قابل ذکر ہیں جہاں ہزاروں کروڑ کی جائیدادوں پر عمارتیں بنی ہوئی ہیں۔ ان میں بنگلور کا ونڈسر مانر ہوٹل، کلکتہ میں ٹالی گنج کلب اور والیس بلڈنگ، حیدر آباد ایرپورٹ کے پاس چار ہزار ایکڑ زمین اور آندھرا پردیش کے ویزاگ میں مزید چار ہزار ایکڑ زمین کا ذکر بھی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ حکومتوں کو اوقاف کی اس لوٹ کھسوٹ کا علم ہے لیکن وہ اس پر خاموش رہیں۔


سوال یہ ہے کہ مسلم قائدین اور زعماء اس اہم مسئلہ کو تحریک کی شکل کیوں نہیں دیتے اور کیوں ارباب اختیار سے مل کر اس اشو کو نہیں اٹھاتے؟ "ڈی این اے" میگزین کے صحافی راجیش سنہا نے لکھا تھا کہ خودمسلمان بھی اوقاف کی لوٹ کھسوٹ پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ میں ایک عرصہ سے کہتا آرہا ہوں کہ اوقاف کے تحفظ کیلئے خود عام مسلمانوں کو بھی کھڑا ہونا پڑے گا۔
سیاسی پارٹیوں سے وابستہ یا سیاستدانوں کی حمایت یافتہ چند لوگ وقف جائیدادوں پر کنڈلی مارکر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر اپنے طور پر ان کا استعمال کرتے ہیں۔ عام مسلمان کبھی ان سے باز پرس نہیں کرتے۔ انہیں عام مسلمانوں کی پروا بھی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ حکومتوں کے ذریعہ منتخب ہوکر آتے ہیں۔


مثال کے طور پر دہلی وقف بورڈ کو ہی لے لیجئے۔ اس کا چیرمین ممبر اسمبلی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت اپنی ہی پارٹی کے ممبر اسمبلی کو چیرمین بناتی ہے۔ دہلی وقف بورڈ کا چیرمین اس وقت عام آدمی پارٹی کا ممبر اسمبلی ہے۔ اس بورڈ میں ایک ممبر پارلیمنٹ بھی ہوتا ہے۔ چونکہ موجودہ لوک سبھا میں دہلی سے کوئی مسلمان نہیں پہنچا ہے لہذا سابق ممبر پارلیمنٹ پرویز ہاشمی کو ممبر نامزد کیا گیا ہے۔ عالم دین /شیعہ کوٹہ سے حکومت نے ایک خاتون کو نامزد کیا تھا۔ متولی کوٹہ سے ایک صاحب نے الیکشن لڑا اور متولیوں نے اسے جتاکر بھیج دیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ سابق ممبر پارلیمنٹ پرویز ہاشمی کبھی میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ شاید چیرمین کے ساتھ ان کی سیاسی چشمک ہے۔ وہ پچھلی بار بھی نامزد ہوئے تھے اور پچھلی بار بھی وہ ایک بار بھی میٹنگ میں نہیں آئے۔ وہ کانگریس کے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جس خاتون کو عالم دین کے کوٹہ سے نامزد کیا گیا ہے وہ عالمہ نہیں ہے۔ لیکن اس سب سے بڑھ کر جو بری بات ہے وہ یہ ہے کہ سابق ممبر پارلیمنٹ " متولیوں کا نمائندہ" خاتون عالمہ اور ایک اور خاتون ممبر چیرمین کے فیصلوں سے ناخوش ہیں۔


یہ کالم دہلی وقف بورڈ کے چیرمین کے قصیدے پڑھنے کیلئے موزوں نہیں ہے۔ لیکن کہتے ہیں کہ انہوں نے وقف مساجد کے ائمہ و موذنین کے ساتھ ساتھ کئی سو پرائیویٹ مساجد کے ائمہ وموذنین کو بھی خاصی معقول تنخواہیں دینی شروع کردی تھیں۔ اس کیلئے انہوں نے دہلی حکومت سے گرانٹ کے طور پر کئی کروڑ کا بجٹ بھی منظور کرا لیاتھا۔ ان کے بعض سیاسی مخالفین بھی اس کیلئے ان کی ستائش کرتے ہیں۔ لیکن پچھلے چند برسوں سے مذکورہ چاروں ناخوش عہدیداران بار بار تحریر ی مہم چلاتے ہیں، لیفٹننٹ گورنرکو لکھ کر شکایت کرتے ہیں، عدالتوں میں مقدمے قائم کرتے ہیں اور ان کی مہم کے سبب ائمہ و موذنین کے ساتھ ساتھ بیواؤں کے وظائف بھی رک جاتے ہیں۔


سوال یہ ہے کہ دہلی کے وہ باشندے کہاں ہیں جن کے آبا و اجداد نے کبھی ہزاروں لاکھوں کروڑ کی جائیدادیں وقف علی اللہ کی تھیں؟ آخر وہ کیوں اٹھ کھڑے نہیں ہوتے؟ کیوں وہ چیرمین سے نہیں پوچھتے کہ وہ مبینہ طور پر یکطرفہ فیصلے کیوں کر رہے ہیں؟ اور کیوں وہ ان ناخوش اراکین سے ان کا درد دل جاننے کی کوشش نہیں کرتے؟ آخر انہوں نے اپنے آبا و اجداد کی ان قیمتی وقف جائیدادوں کو "وقف مافیاؤں" کے رحم وکرم پر کیو ں چھوڑ دیا ہے؟


کیا انہیں کبھی ان ائمہ مساجد اور ان کے بچوں کا خیال نہیں آتا جن کے پیچھے وہ نمازیں پڑھتے ہیں؟ سوچتا ہوں کہ جو قوم اپنے اماموں اور ان کے "بھوک سے پریشان" بچوں کی طرف سے اتنی بے خبر ہے، خدا کی نصرت اس تک کیوں کر پہنچے گی؟



***
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 26 جون 2022ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

The Muslim wakf properties culture in India - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں