تحریک آزادی سے وابستہ علماء کی اردو خدمات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-06-02

تحریک آزادی سے وابستہ علماء کی اردو خدمات

india-freedom-movement-muslim-clerics-and-urdu

آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے، جس کا بالکل درست اندازہ وہی شخص لگا سکتا ہے، جو غلام رہ چکا ہے یا پھر قید و بند کی صعوبتوں سے گزر چکا ہے۔ آج ہم لوگ بھی جس آزادی کا امرت مہا اُتسو منارہے ہیں، ہمارے اسلاف نے اس کے لیے اپنے جان ومال، زمین جائیداد اور آل و اولاد سمیت بہت بڑی بڑی قربانیاں پیش کی ہیں۔ ان مجاہدین کی بس اتنی سی خواہش تھی کہ


ہمیں بھی یاد رکھیں جب لکھیں تاریخ گلشن کی
کہ ہم نے بھی لٹایا ہے، چمن میں آشیاں اپنا


جیسا کہ آپ قارئین کے علم میں یہ بات آچکی ہے کہ آج کے اس مضمون میں مجھے جس موضوع پر اظہارِ خیال کرنا ہے وہ ہے، "تحریک آزادی سے وابستہ علماء کی اردو خدمات"، اس بات کا تذکرہ بہت ضروری ہے کہ تحریک آزادی سے وابستہ علمائے کرام کی فہرست بہت طویل ہے، اس لیے میں نے اپنے مقالے کے لیے قصداً صرف سات علمائے کرام کو منتخب کیا ہے، تاکہ ہم ان کی اردو خدمات سے کماحقہ واقف ہوسکیں۔ ان کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔ (1) مولانا ظفر علی خان، (2) مولانا عمر دراز بیگ، (3) مولانا محمد باقر (4) مولانا محمد علی جوہر، (5) حسرت موہانی، (6) ابوالکلام آزاد، (7) حیات اللّٰه انصاری وغیرہ


** مولانا ظفر علی خان (1837ء-1965ء) ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں کوٹ میرتھ میں پیدا ہوئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ یہ مجاہد آزادی، ادیب، شاعر اور شعلہ بیان مقرر تھے۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز دکن سے کیا۔ ایک ادبی رسالہ "افسانہ" بھی جاری کیا تھا۔ "دکن ریویو" اور "پنجاب ریویو" جیسے مجلے نکالے۔ "بمبئی گزٹ" اور "ٹائمس آف انڈیا" کے لیے کچھ تحریریں لکھی تھیں اور ہفت روزہ "ستارۂ صبح" بھی نکالا تھا۔


مولانا ظفر علی خان کے والد مولوی سراج الدین احمد نے محکمہء ڈاک کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد جون 1903ء میں کسانوں اور زمینداروں کی فلاح و بہبود کے لیے "زمیندار" نام سے ایک اخبار کی بنیاد رکھی۔ 1909ء میں ان کے انتقال کے بعد مولانا ظفر علی خان نے اس کے ادارت کی ذمہ دار سنبھالی اور اس نئی ذمہ داری سے مولانا کی ایک الگ پہچان ابھر کر سامنے آئی، زمیندار مولانا ظفر علی خان کی شناخت کا جزء لاینفک بن گیا۔


مولانا ظفر علی خان کی قربانیوں کے بارے میں سینئر صحافی سہیل انجم صاحب نے اپنی کتاب اردو صحافت اور علماء میں صفحہ نمبر 154 پر لکھتے ہیں :
"مولانا ظفر علی خاں نے حق گوئی و بیباکی کے صلہ میں بارہ سال سے زیادہ عرصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ’’زمیندار‘‘ کی ضبطیوں اوراپنی گرفتاریوں کے نتیجہ میں ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد جرمانہ ادا کیا۔ حکومت نے پندرہ دفعہ اخبار ضبط کیا۔ دوسو کے قریب نظمیں ضبط ہوئیں۔ کئی پریس بحق سرکار ضبط ہوئے۔ لیکن دنیا کی کوئی طاقت انھیں حق گوئی سے باز نہ رکھ سکی۔"


** مولانا عمر دراز بیگ (1865ء-1989ء) کا تعلق مرادآباد سے تھا۔ یہاں سے نکلنے والے اخبارات و رسائل میں "روزنامہ "جدت"، ماہنامہ "حرمین"، "پبلک" اور "کانگریس" مولانا عمر دراز بیگ ہی نکالتے تھے، جبکہ "مخبر عالم" اور پندرہ روزہ "رہنما" بھی مراد آباد سے نکلتے تھے۔ مولانا نے اخبارات کے ذریعے انگریزوں کی ظلم وزیادتی کو نشانہ بنایا اور اپنی مجاہدانہ سرگرمیوں کی وجہ سے فرنگیوں کے درمیان کھٹکتے رہے۔


** مولوی محمد باقر (1780ء-1857ء) کے آباء و اجداد نادر شاہ کے دور میں ایران سے ہندوستان آئے تھے۔ ان کا سلسلہء نسب مشہور اور جلیل القدر صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ ان کے والد مولانا محمد اکبر دہلی کے معروف عالم دین اور مجتہد تھے۔ مولانا محمد باقر کو کئی امتیازات حاصل ہیں، جیسے کہ یہ اردو کے پہلے شہید صحافی ہیں۔ (جنہیں دلی کالج کے استاد مسٹر ٹیلر کے قتل کے جرم میں شہید کردیا گیا تھا۔) انہوں نے ہی دہلی میں "دہلی اردو اخبار" (1836ء) سے اُردو صحافت کی داغ بیل ڈالی۔ 10/مئی 1840ء میں اس اخبار کا نام "دہلی اردو اخبار" ہوگیا، پھر 12/ جولائی 1857ء کو بہادر شاہ ظفر کے نام کی مناسبت سے اس کا نام بدل کر "اخبار الظفر" کردیا گیا۔ان کا اخبار لیتھو پریس میں چھپنے والا اردو کا پہلا اخبار تھا۔ انہوں نے ہی ہندوستان میں سب سے پہلا مذہبی اخبار نکالا تھا، جس کا نام "مظہر الحق" (1843ء) تھا۔ مولوی محمد باقر محمد حسین آزاد کے والد تھے اور یہ دلی کالج کے پہلے طالب علم تھے، جو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کالج ہی میں استاد مقرر ہوگئے۔ محمد باقر کے متعلق سہیل انجم صاحب نے لکھا ہے :


"مولوی باقر بغاوت کو کچلنے کے لیے انگریزوں کے ظلم واستبداد کے عینی شاہد تھے اور بغاوت کے فوراً بعد ان کے اخبار کے 17/ مئی کے شمارے میں، جو کہ ایک طرح سے بغاوت نمبر تھا، وہ سارے واقعات اس طرح شائع ہوئے کہ وہ اس وقت کی تاریخ نویسی کے لیے ناگزیر واقعات بن گئے۔"
(اُردو صحافت اور علماء: سہیل انجم، صفحہ نمبر 247)


** مولانا محمد علی جوہر (1878ء-1931ء) نے اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد 1896ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔ واپسی پر ریاست رامپور اور بڑودہ میں اعلیٰ عہدوں پر رہ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اپنی آزادانہ طبیعت کی وجہ سے ملازمت ترک کردی اور 14/جنوری 1911ء کو انگریزی اخبار "کامریڈ" جاری کیا اور 23/فروری 1913ء سے "ہمدرد" نکالنا شروع کیا۔ ہمدرد کے قارئین کو بروقت حالات اور واقعات سے واقف کرانے کے لیے مولانا نے غیر ملکی خبررساں ایجنسی رائٹر اور ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا کی خدمات بھی حاصل کی تھیں۔ تحریک آزادی میں مولانا کے دونوں اخبارات "کامریڈ" اور "ہمدرد" کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر نے اپنے گجرات کے دوست نظام الدین کو اخبار نکالنے کے لیے جن سات نکات کی نشاندہی کی ہے، وہ آج بھی صحافت کے اخلاقیات میں شامل رہنما اصول ہیں۔


** امام المتغزلین، سید فضل الحسن، حسرت موہانی (1880ء-1951ء) نے اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد 1903ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ اسی دوران مقامی سیاست میں حصہ لینے کی وجہ سے پرنسپل نے تین مرتبہ ان کا نام بلیک لسٹ کردیا تھا۔ گریجویشن کے بعد یہ سیاست میں سرگرم ہوگئے تھے۔ حسرت موہانی کے آباء واجداد میں سے ایک بزرگ سید محمود نیشاپوری نے نیشاپور سے ترک وطن کرکے التمش کے زمانہ 615ھ میں اتر پردیش کے قصبہ موہان میں مستقل سکونت اختیار کی۔ اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حسرت موہانی نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے۔


کیوں نہ ہوں اردو میں حسرت، ہم نظیری کے نظیر
ہے تعلق ہم کو آخر خاک نیشاپور سے


حسرت موہانی کی اردو خدمات بہت وقیع ہیں۔ جیسے شرح دیوان غالب: غالب کا مکمل دیوان مع اردو شرح 1905ء میں شائع کیا۔
نکاتِ سخن: تحریک آزادی کے دوران تخلیق ہونے والا زندانی ادب، اس میں حسرت کی "نکاتِ سخن" بھی ہے۔ یہ ان کے رسالہ "اردوئے معلیٰ" میں پہلے قسط وار شائع ہوئی پھر بعد میں "متروکاتِ سخن"، "معائب سخن"، "محاسنِ سخن"، اور "نوادرِ سخن" کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئی۔
مشاہدات زنداں: حسرت موہانی کی خود نوشت سوانح ہے، جس میں 23 جون 1908ء سے 19 جون 1909ء تک کے قیدِ ِفرنگ کی الم ناک داستان ہے۔ اس داستان کو "مشاہدات زنداں" کے نام سے حسرت سے اُردوئے معلیٰ میں تیرہ قسطوں میں شائع کیا تھا، جس کی پہلی قسط دسمبر 1909ء میں اور آخری قسط جنوری 1911ء میں شائع ہوئی۔ جون 1952ء میں حسرت موہانی کے انتقال کے ایک سال بعد علامہ نیاز فتح پوری نے اس کو اپنے رسالے "نگار" میں بھی چھاپا۔

حسرت موہانی نے ایک طویل مدت تک رسالہ "اُردو معلیٰ" کی ادارت کی، جو چار ادوار پر مشتمل ہے۔ یعنی 1903ء سے 1942ء تک
(1) 1903ء سے 1908ء تک
(2) 1910ء سے 1913ء تک
(3) 1917ء سے 1922ء تک
(4) 1925ء سے 1942ء تک

حسرت موہانی کا کلام تیرہ دیوانوں میں منقسم ہے، بارہ دیوانوں پر مشتمل ان کی کلیات 1943ء میں شائع ہوئی، جس میں 1893ء سے 1942ء تک کا کلام شامل ہے۔ تیرہواں دیوان کلیات سے علاحدہ شائع ہوا ہے، اس میں 1943ء سے 1905ء تک کی غزلیں موجود ہیں، جن کی تعداد 66 ہے۔
مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ بھی انہوں نے جولائی 1914ء میں "تذکرہ الشعراء" نامی ایک سہ ماہی رسالہ، کانپور سے 1928ءمیں "مستقل" نام سے ایک روزنامہ اور 1913ء میں فیض آباد سے "قیصر ہند" کے نام سے ایک اردو ہفت روزہ اخبار بھی جاری کیا تھا۔


** مولانا ابوالکلام آزاد (1888ء-1958ء) نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز صحافت سے کیا تھا۔ پہلے انہوں نے اپنے دور کے ذوق کے مطابق شعر و شاعری اور ادبیات میں دلچسپی لی۔ پھر یہی ذوق وشوق ترقی کرکے صحافت میں تبدیل ہوگیا۔ 1908ء میں مصر، عراق اور ترکی کے سفر کے دوران انہیں پریس کی طاقت کا احساس ہوا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ہندوستانی قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اخبار ایک بہترین ذریعہ ہے۔
گیارہ برس کی عمر میں انہوں نے داغ دہلوی اور امیر مینائی جیسے اساتذہ اپنے کلام پر اصلاح لی اور 1899ء میں ایک گلدستہ شاعری "نیرنگِ عالم" کے نام سے نکالا۔ اسی سال کلکتہ سے ایک ادبی ماہنامہ "المصباح" جاری کیا۔ 1903ء میں کلکتہ ہی سے ایک نیا ماہنامہ "لسان الصدق" نکالا۔ اس کے مقاصد میں سماجی اصلاحات، اُردو کی ترقی، عملی ذوق کی اشاعت اور تنقید شامل تھی۔ بہت جلد اس کا شمار صف اول کے رسائل میں ہونے لگا۔ لیکن 18/ ہی ماہ میں اس نے دم توڑ دیا۔ اس کے بعد مولانا آزاد نے لکھنؤ میں علامہ شبلی نعمانی کے رسالہ "الندوہ" کی ادارت سنبھالی۔ لیکن چند ماہ بعد ہی اس کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے۔ 1902ء میں امرتسر کے سہ روزہ اخبار "وکیل" کی ادارت اپنے ہاتھ میں لی اور 1908ء اس سے بھی الگ ہو گئے۔


1908-9 ء میں مولانا آزاد نے مصر، عراق، ترکی اور فرانس کے دورے میں پریس کی طاقت کو محسوس کرلیا، فوراً یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اپنا بھی ایک اخبار ہونا چاہیے ادھر 1912ء میں اٹلی نے طرابلس (ٹرپولی) پر حملہ کردیا۔ یورپی ملکوں نے ریاستہائے بلقان میں ترکی کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اس سے سارے عالم میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی۔ اس مرحلے میں الہلال نمودار ہوتا ہے اور ٹھوڑی ہی مدت میں عام مقبولیت حاصل کرلیتاہے۔ الہلال پر مذہب کا رنگ غالب تھا۔ اس لیے کہ اس عہد میں لوگوں کو خواب غفلت سے جگانے کا واحد ذریعہ مذہب تھا۔ ہفتہ وار "الہلال" کا اجراء 13/ جولائی 1912ء کو عمل میں آیا تھا۔ اس کا پہلا دور 18/ نومبر 1914ء کو ختم ہوا۔ اس مدت میں حکومت نے دو مرتبہ اس سے ضمانتیں بھی طلب کیں۔ 12/نومبر 1915ء کو "البلاغ" نکالا گیا اور یہ اخبار 31/مارچ 1916ء تک جاری رہا۔
اس دوران میں مولانا کو بنگال ڈیفینس ایکٹ کے تحت حکومت نے بنگال سے نکال دیا۔ مولانا رانچی چلے آئے۔ یہاں کچھ ہی دنوں بعد حکومت نے انہیں نظر بند کر دیا۔ جنوری 1920ء میں نظر بندی سے رہائی ملی، تب تک صورتحال بہت حد تک تبدیل ہوچکی تھی۔ عملی سیاست میں مولانا کی مصروفیت بہت بڑھ گئی تھی، تاہم انہیں یہ خیال بھی ستاتا رہتا تھا کہ اپنا ایک اخبار ضرور ہونا چاہیے۔ چنانچہ مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کی ادارت میں ایک ہفت روزہ اخبار "پیغام" نکالا۔ جس کے سرورق پر "مولانا ابوالکلام آزاد" لکھا ہوتا تھا، کچھ عرصہ کے بعد اس کی جگہ یہ عبارت نظر آئی "اس میں مولانا آزاد کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔" پیغام کا پہلا شمارہ 23/ ستمبر 1921ء کو شائع ہوا اور اسی سال 16/دسمبر کو اس کا آخری شمارہ بھی شائع ہوگیا۔ 20/جون 1927ء کو پھر سے "الہلال" کا اجراء عمل میں آیا۔ اور اسی سال 9/ دسمبر 1927ء کو یہ اخبار ہمیشہ ہمیش کے لیے بند کردیا گیا۔


الہلال کا پہلا شمارہ دیکھ کر ایک مشہور صاحب ریاست نے مولانا کو لکھا :
"میری طبیعت بے اختیار چاہتی ہے کہ الہلال کی کچھ خدمت انجام دوں۔ تنہا آپ کہاں تک روپیہ لٹائیں گے؟ اس لیے بالفعل۔۔۔۔۔ کا چیک روانہ خدمت ہے اور آئندہ بھی اتنی ہی رقم بطورِ ماہوار اعانت کے لیے ہمیشہ پہنچتی رہے گی۔۔۔۔۔۔۔"
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا نے اخبار میں لکھا:
"ہم بزرگ موصوف کی اس رئیسانہ فیاضی کے نہایت شکر گزار ہیں۔ مگر افسوس اپنے احوال طبیعت سے مجبور ہونے کی وجہ سے متمتع نہیں ہوسکتے اور ان کے عطیے کو پوری قدر شناسی کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لیے نہیں، بلکہ تلاش زیاں ونقصان کے لیے آئے ہیں۔ صلہ وتحسین کے نہیں، بلکہ نفرت و دشنام کے طلبگار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسوں کی مدد کرکے آپ کا جی کیا خوش ہوگا۔۔۔۔؟ ہمارے عقیدے میں تو جو اخبار اپنی قیمت کے سوا کسی انسان یا جماعت سے کوئی رقم لینا جائز سمجھتا ہے وہ اخبار نہیں بلکہ ایک دھبہ ہے اور سرتاسر عار ہے۔ ہم اخبار نویسی کو بہت بلندی پر دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔" اس تبصرے سے صحافت کے متعلق مولانا آزاد کا نظریہ کھل کر سامنے آجاتاہے۔ الہلال نے صحافت کو باقاعدہ ایک فن کی شکل دی اور حق گوئی و بے باکی کو اس کا مشن قرار دیا، اسی کو جہاد بالقلم کہا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا اخبارات و رسائل کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد کی قلمی خدمات مندرجہ ذیل ہیں۔


(1) اعلان الحق 1903ء
(2) قول فیصل (ایک مرتبہ حکومت نے بغاوت کا الزام لگایا تو مولانا نے اپنے تحریری بیان میں بڑے فخر کے ساتھ اس جرم کا اعتراف کیا۔ یہی بیان 'قول فیصل' کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔)
(3) خطبات آزاد 1940ء، مرتبہ : نصر اللّٰه خان
(4) نوادرِ ابوالکلام آزاد 1962ء، مرتبہ عبد الغفار شکیل
(5) ترجمان القرآن (تین جلدوں میں) اور تیسرا ایڈیشن چار جلدوں میں ہے۔
(6) تذکرہ 1916ء، (خود نوشت سوانح) یہ کتاب فضل الدین احمد کے کہنے پر لکھی گئی۔
(7) غبارِ خاطر 1946ء، یہ خطوط کا مجموعہ ہے، جو قلعہ احمد نگر میں اسیری کے دوران 19/اگست 1942ءسے 15/جون 1945ء میں 'صدیق مکرم' یعنی حبیب الرحمٰن خان شیروانی کو لکھے گئے تھے، اس میں کل 24 خطوط ہیں۔
(8) کاروانِ خیال 1946ء، یہ بھی خطوط کا مجموعہ ہے۔
(9) نقشِ آزاد (مرتبہ :غلام رسول مہر) اس میں غالب پر مولانا کی تحریریں بھی ہیں۔
(10) تبرکاتِ آزار (مرتبہ :غلام رسول مہر) اس میں خطوط اور مضامین ہیں۔
(11) انبیائے کرام (مرتبہ :غلام رسول مہر) یہ ابوالکلام آزاد کے مقالات کا مجموعہ ہے۔
(12) ارمغانِ آزاد (مرتبہ ابو سلیمان) ابوالکلام آزاد کے کلام اور ان کے ابتدائی مضامین
(13) آزاد کی تقریریں
(14) خطباتِ آزاد (مرتبہ: مالک رام)
(15) البیرونی اور جغرافیہ عالم
(16) ہندوستان پر حملہ اور مسلمانوں کے فرائض
(19) آزادئ ہند (انڈیا ونس فریڈم) کا اردو ترجمہ از رئیس احمد جعفری
(20) حیات سرمد
(21) میرا عقیدہ (خطوط کا مجموعہ)
(22) ولادتِ نبوی
(23) أم الکتاب (سورہ الفاتحہ کی مکمل تفسیر)


** حیات اللّٰه انصاری (1912ء-1999ء) کا تعلق لکھنؤ کے مشہور علمی گھرانے علمائے فرنگی محل سے ہے۔ بچپن میں مذہبی تعلیم پائی اور دارالعلوم فرنگی محل سے سے سندِ فراغت حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب کی ڈگری حاصل کی۔
حیات اللّٰه انصاری نے اپنی عملی زندگی کی شروعات ہفت روزہ "ہندوستان" سے 1937ء میں کی، 1942ء میں "ہندوستان" کے بند ہوجانے کے بعد روزنامہ "قومی آواز" سے منسلک ہوگئے اور تیس سال تک اس کے مدیر اعلیٰ رہے۔ ان دونوں کے علاوہ بھی انہوں نے ہفت روزہ "سب ساتھ" اور "سچ رنگ" میں اپنی صحافت کے جوہر دکھلائے۔


ان صحافتی خدمات کے علاوہ حیات اللّٰه انصاری کا سب سے سے نمایاں کام ان کا ضخیم ناول "لہو کے پھول" ہے۔ یہ ناول 5 جلدوں اور 2618 صفحات پر مشتمل ہے۔ 1970ء میں اسے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکاہے۔ ان کا دوسرا ناول "مدار" ہے۔ "جدیدیت کی سیر"، "شکستہ کنگورے"، "حیات اللّٰه انصاری کی کہانیاں"، "سوانح امیر خسرو"، اور "گھروندے" بھی ان کی عمدہ تخلیقات ہیں۔


***
محمد اشرف یاسین (دہلی)

Email: mdashrafyaseen[@]gmail.com

محمد اشرف

Urdu services of Ulema associated with Indian Freedom movement. - Essay: Mohd Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں