اردوصحافت اکیسویں صدی میں - ایک مختصر جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-31

اردوصحافت اکیسویں صدی میں - ایک مختصر جائزہ

urdu-journalism-in-21st-century-brief-overview

موجودہ یعنی اکیسویں صدی سائنس و ٹکنالوجی، ایجادات و انکشافات اور ترقیات کی صدی ہے۔ آج سائنس و جدید ٹکنالوجی نے دنیا کو ایک عالمی گاؤں (Global Village)بلکہ ایک گھر میں تبدیل کر دیا ہے، انسانی زندگی کے دھارے کو موڑ دیا ہے،انسان کی سوچ اور اسکے طرزِ زندگی کو بدل دیا ہے۔
زندگی کے ہر شعبے میں نت نئی تبدیلیاں نظر آرہی ہیں، سماجیات سے لیکر اخلاقیات تک، معاشیات سے لیکرسیاسیات تک، تعلیم سے لیکر ادب وثقافت تک، اور انفارمیشن ٹکنالوجی سے لیکر ذرائع ابلاغ تک، غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے میں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، اور ان تبدیلیوں کے دور رس اثرات بھی زندگی کے ہر میدان میں دیکھے جارہے ہیں۔ اور پھر جیسے جیسے دنیا نے سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی کو مختلف شعبہائے حیات میں استعمال کیا بالخصوص میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں اسکا خوب استعمال ہوا اسکے اثرات دیر سے ہی سہی ہندوستانی میڈیا نے اور پھر اردو صحافت نے قبول کئے۔


یوں تو اردو صحافت کی ابتدا انیسویں صدی سے ہوتی ہے، تب سے آج تک اردو صحافت مسلسل ترقی کے مراحل طے کر رہی ہے اور دنیائے صحافت میں اپنی عظمت و افادیت، فوقیت و برتری اور عالمیت و آفاقیت کے نقوش کندہ کر رہی ہے۔ اردو صحافت کی تاریخ دو صدیوں پر محیط ہے، اردو صحافت اپنے اس طویل سفر کے دوران بہت سے تلخ وشیریں تجربات اور مراحل سے گزری ہے۔
اردو صحافت کی تاریخ پر اگر ہم ایک سرسری نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ہر دور میں اردو صحافت نے تعمیری اور مثبت کردار ادا کیا ہے، انسانی قدروں کو پروان چڑھایا ہے، خواب غفلت میں مست و مدہوش لوگوں کو جگایا ہے، انہیں ملک و قوم کے تئیں ان کی ذمہ داریوں سے باخبر کیا ہے، ملکی و قومی مسائل کو بڑی جرأت و بیباکی سے اٹھایا ہے، مجبور و مظلوم لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ وطن عزیز کو سامراجی اور غیر ملکی طاقتوں سے آزاد کرانے میں اردو صحافت نے ایک کلیدی رول ادا کیاہے۔


آزادی کی تحریک کو اگر اردو صحافت سے جدا کیا جائے تو تحریک آزادی ایک ناقص تحریک بن کر رہ جائے گی، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آزادی کی تاریخ اگر لکھی گئی تو اس میں اردو صحافیوں اور ادیبوں کا خون جگر بھی شامل ہے۔ ان کی بڑی تعداد تحریک آزادی میں حصہ لیکر حب الوطنی اور جانثاری و سرفروشی کے جذبے کو پروان چڑھا رہی تھی۔ ان وطن پرست صحافیوں نے خوابیدہ احساسات وجذبات کو اپنے قلم کی طاقت سے جگایاہے، اور اس طرح اردوصحافت نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی جس سے عوام کو بیدار کرنا بہت آسان ہوگیا،انقلابی جذبات کو ابھارنے اور عوام وخواص کو برطانوی سامراج اور اسکے ایجنٹوں کی دسیسہ کاریوں اور سازشی چالوں سے باخبر کرنے کے میدان میں اردو صحافت نے قابل قدرخدمات انجام دی ہیں۔


اس وقت کے نامور صحافیوں، ادباء اور شعراء نے اپنی تحریروں سے انگریزی حکومت کی چولیں ہلا دی تھیں اور لوگوں میں حریت و آزادی کی روح پھونک دی تھی۔ ان مشہور قلمکاروں میں مولوی محمد باقر، مولانا محمد حسین آزاد،پنڈت تربھون ناتھ ہجر،سر سید احمد خان،پنڈت رتن ناتھ سرشار، مولاناحسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، عبد الماجد دریا آبادی،نیاز فتحپوری، مولاناابوالکلام آزاد اور حیات اللہ انصاری سر فہرست ہیں۔
مولوی محمد باقر کو اردو کے پہلے شہید صحافی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی میں جن اردو اخبارات نے اہم رول ادا کیا ہے، ان میں "دلی اردو اخبار"، لکھنؤ سے شائع ہونے والا اخبار "اودھ پنچ"، "الہلال"، "زمیندار"، "اردوئے معلی"، "البلاغ"، منشی دیا نرائن نگم کا ماہنامہ"زمانہ"، "لسان الصدق"، "تہذیب الاخلاق"، "خلافت"، "نئی دنیا"، "دورجدید" اور "انقلاب" وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔


اس کے بعد غیر ملکی سامراج سے آزادی کا تابناک سورج طلوع ہوتاہے،اس میں بھی ہمارے سامنے نامور ادباء اور صحافیوں کا ایک قافلہ نظر آتا ہے جو اپنی تحریروں اور ادبی نگارشات سے اپنے وجود کا احساس دلاتے رہے ہیں،اور یہ کارواں اکیسویں صدی میں بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں نظر آتا ہے۔


آج اکیسویں صدی کے آغاز کے دو دہائیوں کے بعدبھی اردو صحافت ترقیاتی اور مسابقاتی دوڑ میں کسی بھی زبان کے ذرائع ابلاغ سے پیچھے نہیں ہے،کیونکہ انفارمیشن اور ٹکنالوجی کے عمل دخل سے جہاں دوسری زبانوں کی صحافت بام عروج کو پہنچی ہے،وہیں اردو صحافت بھی اس جدید ٹکنالوجی سے خوب مستفید ہو رہی ہے،جسکے نتیجے میں اردو صحافت ترقی کے منازل طے کرتی نظر آئی،اردو اخبارات،رسائل وجرائد کی اشاعت وطباعت کا مرحلہ آسان سے آسان تر ہوتا چلا گیا،سائنس اور جدید ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ اردو صحافت کا دائرہ کافی تیزی کے ساتھ وسیع ہوتا گیا۔
اردو اخبارات کی ظاہری شکل و صورت اور خوبصورتی میں کافی اضافہ ہوگیا،جو عام قارئین کی توجہ کا مرکز بنا،ہندوستان کے قومی افق پر اردو صحافت کو آج تیسرا مقام حاصل ہے،دار الحکومت دہلی سے تقریبا سو(۰۰۱)کے قریب اردو روزنامہ اخبارات شائع ہورہے ہیں۔ قومی دارالحکومت میں اردو کے تقریبا پچھتر(75)اخباراتی مراکز قائم ہیں،دہلی میں عام اردو قارئین تک پہنچنے والاپہلے نمبر پراخبار روزنامہ "انقلاب" ہے،اور دوسرے نمبر پر "راشٹریہ سہارا" ہے،ان دونوں اخبارات کے علاوہ دیگر اخبارات"آفتاب ہند"،"ہندوستان ایکسپریس"،"حالات ہند"،"ہمارا سماج"ہیں،جن کی اشاعت بڑے پیمانے پر ہورہی ہے،دہلی کے علاوہ اترپردیش، بہار، جموں وکشمیر، مدھیہ پردیش،مہاراشٹر، مغربی بنگال، تلنگانہ وغیرہ صوبوں میں اردو صحافت نے کافی ترقی کی ہے،صوبۂ اترپردیش کے شہر لکھنؤ سے بھی اردو اخبارات کی اشاعت بڑی تعداد میں ہو رہی ہے،جو ایک مستحسن اور قابل ستائش اقدام ہے۔
جن میں روزنامہ "راشٹریہ سہارا"، روزنامہ"انقلاب"، "اودھ نامہ"،"آگ"،"عوامی سالار"،"قومی صحافت"،اور "سیاسی تقدیر" جیسے اخبارات قابل ذکر ہیں، حیدرآباد سے بھی کافی تعداد میں اردو اخبارات ورسائل کی اشاعت بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے، روزنامہ "سیاست" حیدرآباد سے شائع ہونے والا پہلا ایسا اردو اخبار ہے جس نے نوے(90)کی دہائی کے آخر میں ویب ایڈیشن شروع کیا، اسکے علاوہ روزنامہ "منصف"، روزنامہ "اعتماد"بھی حیدرآباد سے شائع ہونے والے معیاری اور معتبر اخبار ہیں۔ اس وقت کئی دوسرے اخبارات یا اشاعتوں کے ویب ایڈیشن موجود ہیں، ان کے علاوہ پٹنہ،ممبئی،اورنگ آباد،جموں وکشمیر اور کلکتہ وغیرہ سے بھی کافی تعداد میں اردو روزناموں،رسائل ومجلات کی اشاعت ہورہی ہے،جو اردو صحافت کے روشن وتابناک مستقبل کا عندیہ ہے۔


بقول مناظر عاشق ہرگانوی:
"سچ تو یہ ہیکہ اردو صحافت اکیسویں صدی میں ایک مشن کے تحت اور کئی مقاصد کے ساتھ ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے،آج اردو صحافت ہندوستان میں تیسرے نمبر پر ہے،سرکاری سروے کے مطابق تعداد کے اعتبار سے ہندی اور انگریزی کے بعد اردو کا نمبر ہے،،یہ خوش کن جانکاری ہیکہ اکیسویں صدی میں اٹھارہ ریاستوں سے اردو اخبارات ورسائل نکل رہے ہیں۔۔۔"


ان اردو روزناموں اور اخبارات کے علاوہ اس صدی میں اردو رسائل وجرائد کی بڑے پیمانے پر اشاعت نے بھی اردو صحافت کو ایک مقام ووقار اور بلندی عطا کی ہے،یہ رسائل مذہبی، ادبی،سماجی،سیاسی،فکری، تعلیمی،تربیتی، طبی، سائنسی، فلمی غرضیکہ ہر موضوع پر تواتر کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں، ان میں دہلی کاماہنامہ"آجکل"،لکھنؤ کا"نیادور"،اور قومی اردو کونسل کا ماہنامہ"اردو دنیا"، سہ ماہی "فکر وتحقیق"،"الحسنات"،"اسلام اور عصر جدید"،"نقوش عالم"،سہ ماہی "تحقیقات اسلامی"،اور بچوں کے رسائل میں "شمع والوں کا کھلونا"،ممبئی،دہلی اردو اکادمی کا "امنگ"،اور قومی اردو کونسل کا "بچوں کی دنیا" قابل ذکر ہیں۔


اب اگر بات ہندوستان سے باہر کی کی جائے تو وہاں بھی اردو صحافت اپنا جلوہ دکھاتی نظر آرہی ہے،کئی ممالک سے اردو اخبارات،رسائل وجرائد کی اشاعت ہو رہی ہے،ان ممالک میں امریکہ،جرمنی،ترکی،دوحہ(قطر)،اسپین،برطانیہ،پاکستان،بنگلہ دیش وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
برطانیہ سے"پرواز"،"سفیر اردو"،"مخزن"، "اردو تحریک"،"نوائے وقت" جیسے اخبارات ورسائل اکیسویں صدی کی اردو صحافت کو استحکام وتوانائی بخش رہے ہیں،دوحہ(قطر)سے "خیال وفن"،"دستاویز"،اور "فروغ ادب"شائع ہوتے ہیں،امریکہ سے "آواز"،"روشنی"اور "ساحل" وغیرہ نکلتے رہے ہیں،جرمنی سے"اردو دنیا"،"جدید ادب" اور"سمندر" جیسے اخبارات ورسائل نے اردو صحافت کی خدمت کی ہے۔


بہر کیف اس مختصر سے جائزے کے بعد یہ بات بلا تامل کہی جاسکتی ہیکہ اردوصحافت مسلسل ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے،نئے رجحانات اور تقاضوں کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کی ہے،انفارمیشن اینڈ ٹکنالوجی کو سینے سے لگایا ہے،اردو خبروں کو آنلائن پڑھنے کے لئے متعدد نیوزپورٹل اور سائٹس موجود ہیں۔
آج تقریبا اردو کے زیادہ تر اخبارات اپنا انٹر نیٹ ایڈیشن شائع کر رہے ہیں،یہ اردو صحافت کی بہت بڑی کامیابی ہے،ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے بھی آج ہندوستان میں اردو صحافت کی ترسیل ہورہی ہے، ان کے ذریعے ثقافتی،ادبی،سماجی،تعلیمی مباحثے،مذاکرے اور تبصرے پیش کئے جارہے ہیں۔ بیشتر اردو اخبارات نے ویب سائٹ پر انگریزی ایڈیشن بھی جاری کئے ہیں جس کی بدولت غیر اردو داں افراد بھی ان اخبارات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
لیکن ان تمام کامیابیوں اور حصولیابیوں کے باوجود محبین اردو کو ایک ساتھ ملکر اردو صحافت کو مزید بہتر بنانے اور اردو اخبارات وجرائد کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرنا چاہیے، اردو صحافت سے وابستہ صحافیوں اور ملازمین کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے بھی اردو سے جڑے افراد کو مناسب اقدامات کرنا چاہیے۔

***
محمد سہیل (لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ)
ایمیل: sahilsayeed1990[@]gmail.com

Urdu Journalism in the 21st Century - A Brief Overview. Essay by: Mohd Suhail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں