مکرم نیاز کے افسانوں میں افکار کی بلندی اور احساسات کا بہاؤ
افسانوں کے مجموعہ "راستے خاموش ہیں" کی رسم اجرا
مولانا عابد صدیقی ، رحمت یوسف زئی اور قمر جمالی کا خطاب
اردو میں اسلامی لٹریچر عربی زبان کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے۔ اس زبان پر اللہ کی رحمت خاص ہے۔ مکہ مکرمہ حرم شریف میں حضرت مکی مجازی اردو میں شرعی مسائل کا حل بیان کرتے ہیں۔ اردوزبان کبھی ختم نہیں ہوگی، تاقیامت زندہ رہے گی۔ ان خیالات کا اظہار جناب محمد عابد صدیقی (لندن) نے کیا۔ وہ 22/ مئی کی شام میڈیا پلس آڈیٹوریم میں مکرم نیاز کے افسانوں کے اولین مجموعہ "راستے خاموش ہیں" کی تقریب رسم رونمائی سے مخاطب تھے۔
جناب عابد صدیقی جو نصف صدی سے زائد عرصہ سے لندن میں مقیم ہیں، اپنے دور کے مشہور شاعر مسعود صدیقی مرحوم کے فرزند اور ڈاکٹر شاہد صدیقی (امریکہ) کے برادر خورد ہیں۔ وہ لندن کی ایک مسجد کے خطیب بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لندن میں اردو کو تیزی سے فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ اب حکومت کی جانب سے وہاں کے شہریوں کو ان کی مادری زبان میں تمام امتحانات چاہے وہ کسی بھی سسٹم سے کیوں نہ ہوں، لکھنے کی سہولت ہے۔ اس کی بدولت اردو میں مسابقتی امتحانات میں بھی شرکت کی جا رہی ہے۔ یوں اردو کی نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں۔ عابد صدیقی نے مکرم نیاز کی قلمی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
تقریب رسم رونمائی گواہ کے زیر اہتمام میڈیا پلس آڈیٹوریم میں 22 مئی کی شام منعقد ہوئی۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے صدارت کی۔ انہوں نے مکرم نیاز کے والد مرحوم رؤف خلش سے اپنے دینہ تعلقات کا ذکر کیا اور اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ مکرم نیاز نے نثر کو اپنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "راستے خاموش ہیں" افسانوں کے مجموعہ میں شامل 13 افسانوں میں مکرم نیاز نے جن احساسات کا اظہار کیا وہ غیر معمولی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احساسات کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ مکرم نے 19 برس کی عمر سے افسانہ نگاری شروع کی۔ ان کا پہلا مجموعد اگرچہ کہ کافی تاخیر سے منظر عام پر آیا ہے مگر اس میں شامل ہر ایک تخلیق ان کے فن کی بلندی کا ثبوت ہے مستقبل میں ان سے بہت ساری توقعات وابستہ ہیں۔
محترمہ قمر جمالی صاحبہ نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور مکرم نیاز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تخلیقات میں ان کے افکار و خیالات کا بہاؤ ہے۔ کہانی لکھنے کے لئے خون جگر جلانا ہوتا ہے۔ مکرم نیاز نے جو بھی لکھا واحد متکلم میں لکھا ہے۔ افسانہ کی زمین سنگلاخ ہوتی ہے۔ مکرم نیاز کی زبان میں سلیقہ اور افسانوں میں شائستہ فکر ہے۔ انہوں نے کہا کہ 21 ویں صدی ناولوں کی صدی ہے اس لیے قارئین کی گھٹتی تعداد کے لئے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ آنے والے برسوں میں مکرم نیاز اپنے فن کی بلندی کو چھو لیں گے۔
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز نے بعض افسانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مکرم نیاز نے یہ افسانے 20-25 برس پہلے لکھے اور عجیب اتفاق ہے کہ انہی پلاٹس سے ملتی جلتی کہانیوں پر "باغبان" اور "تارے زمین پر" جیسی فلمیں بنی ہیں۔ عظیم قریشی نے مکرم نیاز کے ساتھ اپنی 37 سالہ دوستی اور مشترکہ ادبی سفر کا ذکر کیا۔ پروفیسر مصطفیٰ علی سروری نے بھی خطاب کیا۔ سہیل عظیم نے دلچسپ انداز میں کاروائی چلائی۔ سامعین میں سجادالحسنین ، ڈاکٹر ناظم علی، احمد ارشد حسین ، یوسف روش، معظم راز ، سید جلیس، معروف تعلیمی درسگاہ ادارہ ملیہ کے رشید اسرار کے علاوہ کئی سرکردہ ہستیاں بھی شامل رہیں۔
مقررین نے مکرم نیاز کے فن افسانہ نگاری کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی فکر کی پرواز اونچی ہے، ان کا انداز بیان سلیس اور الفاظ کا سیل رواں غیر معمولی ہے اور ان سے مستقبل میں بہت ساری امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
فرحان عزیز نے "راستے خاموش ہیں" سے منتخب شدہ افسانہ "بےحس" سنایا۔ یوسف روش نے منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ عظیم قریشی اور سہیل عظیم نے مکرم نیاز سے دیرینہ روابط کا ذکر کرتے ہوئے ماضی کے کئی واقعات سے سامعین کو آگاہ کیا۔ مکرم نیاز کی صاحبزادی ملاحت مکرم نے مہمانوں کو گلدستے پیش کئے۔ مکرم نیاز نے اپنے فن پر اظہار خیال کیا۔ سہیل عظیم نے کاروائی چلائی۔ جواں سال صحافی محسن خاں نے انتظامات کی نگرانی کی۔ احمد ارشد حسین نے شکریہ ادا کیا۔
بشکریہ:
ہفت روزہ گواہ ، 3/ تا 9/جون 2022۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں