فخر قوم ملا عبدالقیوم - جن کی زندگی اتحاد بین المسلمین اور خدمت دین کے لئے وقف رہی
مومن کے جہاں کے حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
ساری دنیا کے مسلمانوں کو متحد و منظم کرکے ان کی کھوئی ہوئی عظمت و شوکت اقتدار وحکومت حاصل کرنے کی جن لوگوں نے کوششیں کیں۔ علامہ سید جمال الدین افغانی کی تحریک" رابطہ عالم اسلامی" کو زندہ کیا اسلام کے بنیادی اصول"انما المؤمومنون اخوۃ"اور قرآن حکیم کی ہدایت"واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا"پر عمل کرکے اسلام کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کردی ان لوگوں میں حیدرآباد دکن کے نامور فرزند فخر قوم ملا عبدالقیوم کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھاجائے گا۔ ملا عبدالقیوم کی شخصیت نہ صرف دکن ہندوستان بلکہ عالم اسلام ممالک عرب ، مصر، شام، عراق و ایران ترکی و افغانستان وغیرہ میں بھی معروف و مقبول تھی، ان کی ذات علماء و فضلاء فدائیان ملت اور قائدین قوم میں ممتاز تھی۔ اتحاد بین المسلمین ، رابطہ عالم اسلام اور استحکام دولت عثمانیہ ترکیہ، خلافت اسلامیہ کی مرکزیت کے لئے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ ناقابل فراموش ہیں۔
خاندانی حالات
1853ء کے لگ بھگ ملا عبدالقیوم حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے بزرگوں کا سلسلہ موصل کے شیخ بنی تمیم و حضرت صدیق ؓ سے جا ملتا ہے اجداد عرب سے ہندوستان اور ہندوستان سے برہان پور ہوتے ہوئے حیدرآباد دکن وارد ہوئے افراد خاندان کم و بیش 80،90 سال سے مملکت آصفیہ حیدرآباد دکن میں سکونت پذیر اور اعلی عہدوں پر فائز رہے ، جد امجد مولانا محمد مہدی واصف کا شمار اکابر فضلائے وقت میں ہوتا ہے ، جن کی تصانیف بہت مشہور و مقبول تھیں والد مولوی عبدالباسط عشق ممتاز شاعر اور میڈیکل کالج مدراس کے سند یافتہ ڈاکٹر تھے۔
ملا عبدالقیوم کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اس کے بعد مدرسہ دارالعلوم میں زیر تعلیم رہے ، 1875ء میں مزید حصول علم کے شوق میں حیدرآباد سے باہر والدین سے اجازت لئے بغیر چلے گئے اور مرزا پور میں نورالانوار و جلالین پڑھی۔ مولوی مہدی علی (محسن الملک) مرزا پور میں تحصیلدار تھے جو سر سید کی سفارش پر حیدرآباد دکن آکر عالی عہدہ پر فائز ہوئے آٹھ سو روپے تنخواہ کے علاوہ تین سو روپیہ بھتہ برائے اخراجات ملتے تھے۔ ان کے نام کے ساتھ ملا کے لقب کی وجہ یہ تھی کہ جب وہ پہلی مرتبہ مولوی مہدی علی سے ملنے گئے تو از راہ ظرافت ان کی گھنی ڈاڑھی کو دیکھ کر کہا، آپ کی داڑھی کہتی ہے کہ آپ مولوی نہیں ملا ہیں، اس کے علاوہ عبدالقیوم کو ہمیشہ ملا کہہ کر مخاطب کرتے تھے یہ لقب زبان زد خاص و عام ہوکر ان کے نا م کا جزو بن گیا ان کی گھنی ڈاڑھی سے متعلق ایک اور دلچسپ روایت ہے کہ دکن میں یہ ضرب المثل عام تھی ملا عبدالقیوم کی داڑھی پاکھال(عادل آباد کے ایک گھنے جنگل کا نام جہاں شیر، چیتے اور درندے ہوتے تھے) کی جھاڑی"
ملا عبدالقیوم کی خصوصیات
وہ خدا داد صلاحیتوں کے مالک تھے ملت اسلامیہ کے سچے ہمدرد قوم کے فدائی دین اسلام کے شیدائی سخی و شجیع ہوش سنبھالنے سے وفات تک نماز قضا نہ کی صائم الدھر سالک راہ طریقت روشن خیال عالم با عمل قومی اور ملی کاموں کے لئے زندگی وقف تھی ملک دکن کے آفتاب عالم اسلام کے ماہتاب باشندگان ہند کے زبردست ہر دلعزیز قائد رفاہی کاموں میں نہایت جرات اور حوصلہ سے بڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ پیکر صداقت علم بردار حریت سچائی راست بازی ان کا شعار تھا حق گوئی میں کبھی پس و پیش نہیں کرتے تھے ان کے بے شمار کارناموں اور رابطہ عالم اسلامی کی تفصیلات کے لئے ایک ضخیم جلد درکار ہوگی یہاں صرف چند کارناموں کا ذکر کیا جارہا ہے تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیے، "فخر قوم ملا عبد القیوم کی یاد میں مجلہ نظامیہ حیدرآباد دکن کا خصوصی شمارہ 1941ء شائع کردہ: ادارہ ترقی تعلیم اسلامی حسینی علم حیدرآباد دکن"
دائرۃ المعارف
یہ ادارہ دنیا کے ان عظیم اداروں میں منفرد ہے جن کا مقصد اتحاد بین المسلمین اور مسلمانوں کی عطمت رفتہ کو واضح کرنے کے لئے قدیم عربی تصانیف کو جس میں علوم کا بیش بہا ذخیرہ ہے شائع کیاجائے یہ ادارہ آج بھی قائم ہے ۔ اس ادارہ کے قیام کی ابتداء ملا عبدالقیوم ہی کی کوششوں سے ہوئی ۔ انہوں نے نواب اقبال یار جنگ کمشنر انعام کی تائید سے تجویز کی تھی کہ ایک لاکھ روپیہ کی ایک لاٹری ڈالی جائے اس میں سے ساٹھ ہزار دائرۃ المعارف کے لئے اور چالیس ہزار ٹکٹ خریدنے والوں کے لئے مختص کئے جائیں۔ نواب وقار الامرامعین المہام نواب سر آسماں جاہ مدارالمہام وقت نے ادارہ دائرۃ المعارف کی اہمیت کو محسوس کیا مگر ایک دینی اور مقدس تحریک کو خمار یعنی لاٹری سے ملوث کرنا مناسب نہ سمجھا اور اس کے بجائے پانسو روپیہ کی مستقل رقمی امداد منظور کی، 1888ء میں یہ ادارہ قائم ہوگیا۔ اس کی نگرانی اور انتظام کے لئے ایک مجلس بنائی گئی جس میں جید علماء اور ذی علم حکام شامل تھے ، تادم زیست ملا عبدالقیوم اس ادارہ کے معتمد رہے ۔ انہوں نے چند لائق اور ذی علم اصحاب علم کو فراہم کیا جنہوں نے قناعت اور انہماک اور شغف سے اس کام کے لئے زندگی وقف کردی تھی اس ادارہ سے جو اہم کتابیں شائع ہوئیں۔ اس کی وجہ بلاد اسلامیہ میں ان کی خاصی شہرت ہوگئی۔ چنانچہ ملا عبدالقیوم اپنی سرگزشت میں لکھتے ہیں"میرے وسیلہ نجات اخروی میں ایک یہ چیز بھی ہے کہ میری ذاتی کوشش سے دینی و علمی کتب آئمہ کے احیاء کے لئے ایک مطبع موسوم بہ"دائرۃ المعارف" قائم ہوا جس میں نایاب کتب ائمہ فن چھپا کرتی ہیں اور اب تک مبسوط و نایاب کتب شائع ہوچکی ہیں مثلا کنزالعمال آٹھ جلدوں میں "تذکرۃ الحفاظ" چار جلدوں میں۔
جواہر النقی فی الرد علی البیہقی دو مبسوط جلدوں میں اور استعاب ابن عبدالبر وغیرہ نایاب کتب شائع ہوئیں۔ اس مطبع کو سرکار نظام سے پانسو روپیہ وظیفہ ملتا ہے ۔ دیار اسلامیہ میں میری شہرت کا ایک یہ بھی موجب ہوا کہ وہاں کے علماء و فضلاء نے ان کتب کو بہت عزت کی نظروں سے دیکھا بھالا اور بڑی بڑی توصیفیں کیں دیار اسلامیہ، مصر، شام وحجاز ، عراق و ترک میں جو شہرت مجھے ہوئی صرف انہی وجوہ سے ہوئی۔"
سر رشتہ علوم وفنون
شمس العلماء سید علی بلگرامی نے مملکت آصفیہ کی طرف سے ایک ادارہ" سررشتہ علوم و فنون" کے نام سے قائم کیا۔ سید مرتضیٰ صاحب فلسفی اس کے نگراں مقرر ہوئے اور محمد عبدالغفور خان رامپوری اس میں مترجم تھے ماہانہ ایک ہزار روپیہ کے مصارف سے سالہا سال تک یہ سررشتہ قائم رہا مگر صرف چار پانچ کتابیں ترجمہ وتالیف کی تھیں کوئی کتاب شائع نہ ہوئی ۔ اس کے بعد شمس العلماء شبلی نعمانی اس سر رشتہ کے نگراں ہوئے ان کی کتابیں الغزالی اور الکلام اسی ادارہ سے شائع ہوئیں۔ شمس العلماء سید علی بلگرامی کی وظیفہ پر علیحدگی کے بعد مولانا شبلی نے بھی استعفا دے دیا اور اس سر رشتہ دائرۃ المعارف کو باقی رکھنے کے لئے ایک کمیتی مقرر کی گئی ، جس میں ملا عبدالقیوم مولوی سید فضل حسین میر مجلس عدالت عالیہ نواب ضیاء یار جنگ بہادر وغیرہ تھے ۔ لیکن سر جارج واگرے نے سر رشتہ اشاعت علوم و فنون کو ختم کردیا دائرۃ المعارف پر وار کارگزر نہ ہوسکا کیونکہ ملا عبدالقیوم سینہ سپر ہوگئے اس کے بعد پھر ایک مرتبہ کوشش کی گئی کہ یہ ادارہ ختم کردیاجائے لیکن سر اکبر حیدری (حیدر نواز جنگ) نے بچالیا۔ یہ ادارہ ایک مستقل حیثیت رکھتا تھا اور قائم بالذات تھا۔ 1942ء میں جامعہ عثمانیہ کے تحت آگیا سقوط حیدرآباد کے بعد پھر اس پر افتاد پڑی، مولانا عبدالماجد دریاآبادی مدیر" صدق جدید" لکھنو اپنے سفر حیدرآباد کے سلسلہ میں لکھتے ہیں۔
"یاروں نے کیا کوئی کسر ادارہ کو بند کردینے کی اٹھا رکھی تھی ادارہ مسلمانوں کا مخصوص کام کررہا ہے ۔ فرقہ وارانہ ہے سیکولر حکومت میں اس کا کیا کام اسے فورا ًالقط ہونا چاہئے ، قریب تھا کہ فرمان قضاء اس مضمون کا شائع ہوجائے اور حکومت اندھرا پردیش کے حکم سے ادارہ کے دروازوں پر قفل پڑ جائیں، لیکن حافظ حقیقی کو کچھ اور ہی منظور تھا وزیر تعلیم کار ہند مولانا ابوالکلام نے(کہ اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے) اپنے منصب حال کی کرسی سے زبردست احتجاج نامہ بھیجا کہ بند ہونا کیا معنی ایسے ادارہ کو قائم رکھنا ہی نہیں اور ترقی دینا چاہئے ، بیرون ہند کی پڑھی لکھی دنیا میں تو سرکار ہند کی سیکولر ازم کا بھرم ہی اس سے قائم ہے ۔ اپنے سرکاری دورہ میں میں نے کیا جرمنی اور کیا فرانس کیا برطانیہ اور کیا اٹلی سب کہیں کے نامور اہل علم کو اس کی خیریت دریافت کرتے اور اس کے کارناموں کے راگ گاتے ہوئے پایا۔ جب کہیں جاکر ادارہ کی جاں بخشی ہوئی۔
ملا عبدالقیوم کی دیگر مصروفیات
مسلمانوں کی اجتماعی فلاحح و نجات میں اتحاد بین المسلمین کے علاوہ آزادی ہند اور خدمت خلق کے لئے بھی ملا عبدالقیوم زندگی بھر کوشاں رہے وہ ندوۃ العلماء لکھنو کی مجلس انتظامی میں شریک تھے ، نصاب کی کمیٹی کے رکن رہے حیدرآباد دکن میں ندوۃ العلماء کی شاخ قائئم کی ہندوستان کی آزادی کے لئے نیشنل کانگریس میں اس وقت شریک ہوئے جب کہ عام طور پر مسلمان کانگریس سے علیحدہ تھے ، ان کا عقیدہ تھا کہ ہم پہلے مسلمان ہیں اور اس کے بعد ہندوستان کے باشندے ، اس لئے ہم کو متحد ہوکر ہندوستان کی آزادی حاصل کرنا چاہئے اور مسلمانوں کو نیشنل کانگریس سے تعاون کرنا چاہئے۔
انہوں نے کانگریس سے بھی مسلمانوں کی بھلائی کے لئے کام لیا، مختلف بلاد ہند بخارا،وافغانستان وغیرہ سے عازمین حج بمبئی میں قرنطینہ میں رکھے جاتے تھے جگہ کی تنگی اور ناکافی انتظامات کی وجہ سے وہ سخت مصیبت میں مبتلا ہوجاتے تھے ، کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا۔ رہائش کا بھی معقول انتظام نہ ہوتا تھا اکثر عازمین حج مختلف امراض میں مبتلا ہوجاتے تھے ۔ ملا عبدالقیوم ان کو اس مصیبت سے نجات دلانے کے لئے نیشنل کانگریس کے اجلاس منعقدہ بنارس میں شریک ہوکر ایک قرار داد منظور کروائی جس میں قرنطینہ کی سختیوں اور بد انتظامیوں کی مذمت کی گئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عازمین حج پر قرنطینہ کی سختیاں کم ہوگئیں اور بد انتظامی کے مذہبی معاملہ میں قرار داد پیش کرنے پر سخت اعتراضات کئے اور برا بھلا کہا مگر ملا عبدالقیوم جو ایک سچے مسلمان تھے نہایت متانت سے ان تنگ خیال لوگوں کی غلط فہمی دور کی"پیسہ"اخبار لاہور میں متعدد مضامین تحریر کر کے اعتراضات کا مدلل جواب دیا۔
جلسوں کی صدارت
مملکت آصفیہ میں اور ہندوستان میں جو عظیم الشان علمی اور اسلامی جلسے ہوتے ان کی صدارت کے لئے ملا عبدالقیوم سے استدعا کی جاتی، ان کی صدارت اس جلسہ کی کامیابی کا باعث ہوتی، اس لئے لوگوںکی خواہش ہوتی تھی کہ ملا عبدالقیوم جلسہ کی صدارت کریں۔
ایک مرتبہ علی گڑھ کالج کی انجمن الفرض کا دن جس میں تلمذ حسین صاحب (مترجم سر رشتہ تالیف و ترجمہ سرکار عالی)عبدالحمید حسن صاحب(مترجم عدالت العالیہ)شامل تھے۔ کالج کی چھٹیوں میں طلبہ کی امداد کے لئے چندہ وصول کرنے آیا۔ تو ایک عظیم الشان جلسہ مرزا فیاض علی خاں صاحب کی کوٹھی میں منعقد ہوا جہاں علی العموم اس قسم کے قومی اور ملکی رفاہ عام کے جلسے منعقد ہوتے ہیں۔ ملا عبدالقیوم اسی جلسہ کے صدر نشین تھے ۔ شمس العلماء شبلی نعمانی مولوی عبدالحق صاحب صدر انجمن ترقی اردو مولوی عبدالغنی صاحب مددگار مددگار محاسب و دیگر علماء معززین شہر وکلاء شریک تھے جلسہ میں امداد کی ضرورت علی گڑھ کالج کی تعلیمی اہمیت اور اس کی مسلمانوں کے لئے دیرینہ خدمات پر دلچسپ تقریریں ہوئیں ایک خطیر رقم"انجمن الفرض" علی گڑھ کو طلبہ کی امداد کے لئے فراہم ہوگئی ۔
انجمن حمایت اسلام لاہور
ملا عبدالقیوم انجمن حمایت الاسلام لاہور کے بہت بڑے حامی تھے اور اپنے دو لڑکوں مولوی حسن عبدالقدوس مولوی حسن عبدالمنعم کو تعلیم کے لئے حمایت اسلام لاہور کے درسگاہ روانہ کیا اور انجمن کی امداد میں پیش پیش رہتے تھے۔
مدرسہ دارالعلوم و مدرسہ نظامیہ کی مجلس انتظامیہ میں شامل تھے مسلمان نوجوانوں کو وظائف دے کر بیرون ملک بھیجنے کے لئے بھی کوشاں رہتے تھے ان کی آمدنی بوجہ کثرت معارف فیاضی علماء و دیگر مشاہیر کی مہمان نوازی کی وجہ کفایت نہیں کرتی تھی اس لئے مقروض رہے ، نہایت سادہ زندگی بسر کرتے نوجوان طلباء کی حوصلہ افزائی کرتے اور دوران تعلیم اپنی کوٹھی میں رکھ لیتے مولوی محمد اکبر علی صاحب مدیر صحیفہ جو اس وقت طالب علم تھے سکونت پذیر تھے ، ملا عبدالباسط مولوی اکبر علی مولوی محمد مظہر، دارالعلوم میں پڑھتے تھے اکثر نوجوان طلباء بھی کوٹھی میں ٹینس کھیلنے آجاتے تھے ان کے علاوہ بھی نوجوان ملا عبدالقیوم کی شفقت و محبت کی وجہ سے ملاقات کے لئے آتے بڑی پر لطف صحبت رہتی۔ فیض صحبت اور تربیت کا نتیجہ تھا کہ ان سے ملنے والے نوجوان مستقبل میں قوم کے بہترین رہنما بنے۔
انجمن معارف و اخبار صحیفہ
مولوی محمد اکبر علی صاحب اور ملا عبدالباسط مولوی محمد مظہر نے حیدرآباد دکن میں ایک آزاد اخبار کی ضرورت محسوس کی اور اس کی اجرائی کے لئے انجمن معارف قائم کی ۔ اس انجمن کے زیر اہتمام "صحیفہ" ماہنامہ جاری کیا اس کے لئے دو سو پچاس روپیہ کا مشترکہ سرمایہ جمع ہوا ملا عبدالقیوم نے اس میں مضامین لکھنے کا وعدہ کیا۔ حوصلہ افزائی کی ان کی علالت کے زمانہ میں یہ رسالہ جاری ہوا اور ان کا ایک عمدہ مضمون بھی شائع ہوا " انجمن معارف" بھی ایک علمی ادبی ادارہ کی حیثیت سے کام کررتی رہی آگے چل کر صحیفہ روزنامہ بن گیا اور انجمن معارف ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے کام کرنے لگی ۔ یہ کانفرنس اور اخبار صحیفہ ملک میں ایک بڑی وقت بن کر ابھرے اکابرین ملک بھی ان کی ترقی میں دلچسپی لینے لگے۔
انجمن ہلال احمر
یہ ملا عبدالقیوم ہی کی تربیت اور فیض صحبت کا نتیجہ تھا کہ طرابلس اور ملتان کی لڑایوں میں ترکی کے مجروحین کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے انجمن ہلال احمر قائم کی گئی ۔ یہ انجمن ممالک محروسہ سرکار عالی میں بہت مقبول ہوئی اور کثیر چندہ جمع کرکے ترکی کو روانہ کیا گیا غرض" انما المومنون اخوۃ" پر حیدرآباد دکن نے جس شدت سے عمل کیا اس کی مثال نہیں ملتی دنیا کے کسی حصہ میں مسلمانوں پر کوئی آفت آتی تو حیدرآباد دکن کے عوام اور خواص حکومت سب بے چین و بے قرار ہوجاتے اور اپ نے بھائیوں کی ہر جہتی اعانت سے ان کے مصائب و مشکلات کو دور کرتے۔
سفر حج و قافلہ سالاری
جیسا کہ مملکت آصفیہ حیدرآباد دکن میں قدیم سے یہ رواج چلا آرہا ہے کہ عازمین حج کے ساتھ ایک جید عالم اور ہر دلعزیز بارسوخ شخصیت کو قافلہ سالار بناکر بھیجا جاتا جو دوران سفر عازمین حج کو رسومات حج کی تعلیم دیتا اور حج کی غرض و غایت اور رابطہ عالم اسلام کی اہمیت کو ذہن نشین کرتا اور ان عازمین حج میں سے قابل و باصلاحیت اشخاص کے وفود بناکر مسلمانان عالم کے اکابرین سے ملاقاتیں کرکے تبادلہ خیال کرنے پر آمادہ کرتا۔ تاکہ رابطہ عالم اسلامی میں تقویت ہو۔
1300ھ 1883ء میں ملا عبدالقیوم قافلہ سالار کی حیثیت سے حج پر گئے حج و زیارت مدینہ منورہ کی سعادت حاصل کی وہاں کے علماء اور سربر آوردہ اصحاب و اکابرین عالم اسلام سے ملاقاتیں کیں اور رابطہ عالم اسلامی پر گفتگو کی اور مرکزیت و خلاففت کی اہمیت کو ان کے ذہنوں میں راسخ کیا۔
بنیادی حقیقت
ملا عبدالقیوم اپنی قوم قائدین قوم اور نوجوانوں کو جس بنیادی حقیقت کی طر ف متوجہ کرتے رہے، وہ تقریباً ایک صدی گذر جانے کے بعد اتنی ہی اہم اور ضروری ہے ۔ یہاں ہم ان کی تقریر کے چند اقتباس پیش کرتے ہیں، تاکہ قارئین ان کی ژرف نگاہی اصابت رائے اور دور اندیشی کا اندازہ لگا سکیں : فرماتے ہیں:
"میرا ذاتی خیال تو یہ ہے اور ہمیشہ میں اس پر زور دیتا رہا ہوں کہ قوم کو اس پست خیالی سے کہ غیر قوم کی غلامی کریں اور اسی کو ذریعہ فخرومباہات و اکتساب دولت و ثروت و عزت سمجھیں نکالنا چاہئے اور ان کو اس بندگی وبے چارگی سے آزاد کرانا اور رہائی دلانا ضروری ہے خدمت اور نوکری کا خیال اس قدر ہمہ گیر ہورہا ہے جس کی کوئی حد باقی نہیں رہی اس وجہ سے روز بروز اس کا دائرہ تنگ ہوتا جارہا ہے اور قومی افلاس و نکبت کا احاطہ نہایت وسیع ہوگیا ہے ۔ ظاہر ہے سرکاری عہدے کس کس کو اور کہاں تک مکتفی ہوسکتے ہیں ۔ جب تک غیر طبعی معیشت کو چھوڑ کر طبعی ذرائع معیشت جو نہایت وسیع ہیں اختیار نہیں کئے جائیں گے ۔ تجارت و صنعت و حرفت زراعت و فلاحت کے وسیع و کافی ذرائع جو مسلمانوں کے قومی، دینی ملی اور ملکی ذرائع ہیں اپنائے نہ جائیں گے ، معاشی آزادی حاصل نہیں ہوسکتی ۔ جتنے ائمہ خلیفہ تھے وہ سب قریشی تھے قریش کو قریش اس لئے کہتے تھے کہ وہ کا سب وتاجر تھے۔"
پیشہ تجارت
خدائے تعالیٰ نے جہاں کہیں تجارت کا ذکر کیا ہے اس کو اپنے فضل سے تعبیر کیا ہے نیز احادیث میں اس کے فضائل بے انتہا وارد ہوئے ہیں ارشاد ہوا 99 حصہ رزق تجارت میں ہے مابقی دوسرے ذرائع میں صرف ایک ہمارے ائمہ اور علماء دین نے کبھی نوکری پسند نہیں کی یہاں تک کہ انہوں نے موت کو ترجیح دی امام اعظم کا وہ واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے موت زہر خورنی کو منصب قضی قبول کرنے پر ترجیح دی تھی ۔ علمائے متقدمین جب تک کسی کو متحرف و مکتسب نہ کرلیتے تھے ۔ علم نہیں سکھاتے تھے کہ کہیں علم کو اپنا ذریعہ معاش بناکر ذلیل نہ کرے اور خود دنیا داروں کی نظروں میں محتاجی کی وجہ سے ذلیل و خوار نہ ہو بہر حال سرکاری نوکریوں پر زور دینا اسکو مبتلائے افلاس وننگ و عار کرنا ہے ۔"
اسلام میں دو باتوں پر نہایت اہتمام سے زور دیا گیا ہے ایک صدق مقال دوسرا اکل حلال بدون ان کے کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا نوکری میں یہ دونوں مفقود و غیر موجود ہییں ۔ نوکری کی کمائی کبھی خالی از شبہ نہیں ہوسکتی اس لئے علمائے اسلام نے اس سے احتراز کیا ہے اور اس سے اپنے آپ کو جہاں تک ہوسکا بچایا ہے ۔
نصیحت و وصیت
الحال میری نصیحت ووصیت تمام مسلمانوںکو یہی ہے کہ وہ ہرگز غلامی کو روانہ رکھیں بلکہ آزاد اور احرار رہیں اپنے قومی، ملکی، مذہبی پیشہ تجارت کو فروغ دیں اور اسی کی اپنا ذریعہ معیشت قرار دیں اس کے بعد زراعت فلاحت ،صنعت و حرفت کو ا پنا پیشہ بنالیںہندوستان میں یہ مثل زبان زد خاص و عام ہے "اتم کھیتی مدھم یو پارکنشٹ چاکری بھیک ندان" عام خیال ہے کہ ہندوستان چونکہ زرعی ملک ہے اس لئے زراعت کو تجارت پر ترجیح دی ہے ۔ لیکن میرے خیال میں اس ضرب المثل کے معنی یہ ہیں اعلیٰ کھیتی مدھم بیوپار کے برابر ہے ۔ اور چاکری کنشٹ بھکاری پن ہے کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاناپڑتاہے ۔"
غرض ملا عبدالقیوم صاحب میں خداوند عالم نے غیر معمولی خوبیاں اور صلاحیتیں ودیعت کی تھیں وہ ایک سچے اور پکے مسلمان تھے ان کا ہندو مسلمان پارسی، عیسائی اعلی ادنی چھوٹے بڑے، امیر غریب سب احترام کرتے تھے وہ ہندوستان کی آزادی کے لئے ہندو اور مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کو ضروری سمجھتے تھے ۔ اور اسلام کی سر بلندی کے لئے رابطہ عالم اسلامی، مرکزیت و خلافت کو لازمی قرار دیتے تھے ان کی خدمات اور عالمی شہرت و مقبولیت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
عالمی شہرت و مقبولیت
ملا عبدالقیوم کی شہر ت و مقبولیت نہ صرف ہندوستان بلکہ ممالک اسلامیہ مصر، شام، عراق ،ایران ترکی افغانستان میں تھی اس کے علاوہ جاپان ، جرمنی ،امریکہ و چین تک دائرۃ المعارف کی نادرونایاب کتابوں کی اشاعت کی وجہ سے ہوچکی تھی ۔ سر شیخ عبدالقادر مدیر"مخزن" لاہور اپنے قسطنطنیہ کے خطوط میں اس سیاح جاپان کی ملاقات کا ذکر کیا ہے ۔ جو ملا عبدالقیوم کی ستائش کررہا تھا مشہور سیاح حافظ عبد الرحمن امرتسری نے بھی اپنے سفرنامہ میں ان کی شہرت کا ذکر کیا ہے ۔
مخلصانہ مساعی
اسلامی علوم کی نادر ونایاب کتابوں کی اشاعت کے لئے ملا عبدالقیوم نے جو مخلصانہ مساعی اور شب و روز ان تھک محنت کی اس کا اندازہ ان کے ایک مکتوب سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جوانہوں نے مولوی عبدالقادر صاحب( قادر نواز جنگ) صوبہ دار گلبرگہ کو لکھا تھا یہاں ہم اس خط کو اقتباس درج کررہے ہیں۔
"آخر خدا نے اس گنہگار کی سن لی سرکار سے پانسو روپیہ وظیفہ مقرر ہوا اور بڑی بڑی نایاب ضخیم مبسوط کتابیں حدیث و تفسیر و رجال کی خدا کے فضل سے شائع ہوگئیں جن کو دیکھ کر علمائے مصر و شام نے دعائیں دیں۔ بہت تعریفیں لکھیں جن کے خطوط اور مراسلت کو میں نے ایک رسالہ کی صورت میں علیحدہ چھاپ کر شائع کردیا ہے ۔
اس سلسلہ میں یہ فکر رہی کہ چاروں اماموں کی تصانیف کیوں نہ شائع کی جائیں۔ امام مالک کی موطا بروایت یحیٰ و محمد داخل درس و طبع ہوچکی ہے امام احمد حنبل کی مسند امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کی تصانیف کا پتہ نہیں چلتا تھا یہ ہزار سعی کوشش مسند بھی مصر میں طبع ہوگئی اب صرف امام شافعی کی کتاب الامام نصف مدینہ طیبہ میں اور نصف قسطنطنیہ میں موجود ہے مگر امام صاحب کی خود کوئی تصنیف نہیں ہے ۔ البتہ ان کے شاگردوں کی کتابیں ہیں جواب تک ہندوستان میں نہیں آئیں۔ ان کا پتہ چلانے کے لئے مصر و شام کابل، بخارا بغداد سب جائے خطوط لکھے کتب خانوں کی چھان بین کی اور بہزاد وقت امام محمد کی چھ کتابوں کا پتہ چلا ۔ جن کو حنفی اصول تہ و کتب ظاہرالمراد یہ کہتے ہیں۔ان کتب کے چھپ جانے سے گویا حنفیوں کے مذہب کی اساس متحکم ہوجاتی ہے ۔ اور ماخذ مل جاتا ہے چنانچہ منجملہ ان چھ کتابوں کے ایک کتاب الاصل جس کو مبسوط بھی کہتے ہیں جامعہ ازہر سے حاصل کی ہے اور اس کے طبع کا اہتمام خود مصر میں کردیا ہے ۔ ان چھ کتابوں کے لئے تخمیناً دس ہزار روپیہ کا صرفہ ہوگا جو خریداروں اور چندہ کے ذریعہ کیاجائے گا ، بالفعل مبسوط کے لئے جس کی چھپوائی شروع کردی ہے تین سو روپیہ کلداردرکار ہیں۔
اگر آپ بطور مبادلہ و قرضہ کے اتنا روپیہ مجھے دے دیں تو کام جاری ہوجاتا ہے اور آپ کا نام بھی اسلامی دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت پاتا ہے ۔ یہ رقم آپ کو مع منافع مل جائے گی۔ اور ہمیشہ کے لئے آپ کا نام علمی دنیا میں بڑی عزت و وقعت کے ساتھ لیاجائے گا ۔ اور عقبیٰ میںبھی آپ کو نہایت اجر ملے گا۔ امام محمد ہارون الرشید و غیرہ سلاطین عباسیہ کی دولت کے قاضی القضاۃ نہیں اور مذہب حنفی کے رواج کا باعث گویا یہی ہوئے ہیں ۔ فقہ میں امام و استاد امام شافعی ہونے کے علاوہ یہ بہت برگزیدہ بزرگ تھے۔ چنانچہ ایک واقعہ ان کا مشہور ہے کہ جب حاکم عالی بغداد نے ان کی چھ کتابوں کا خلاصہ کیا اور ان کا نام"جامع اصول ستہ" رکھا تو امام محمد اس کے خواب میں آئے اور بددعا دی کہ تونے میری کتابوں کو جیسا کانٹا چھانٹا ہے خدا تجھ کو بھی اسی طرح مقطوع الاعضا کرے چنانچہ اسی طرح وہ ترکوں کے ہاتھ سے ہنگامہ بغداد میں شہید ہوا ۔ کیا عجب ہے کہ آپ کی اس تائید اور احیاء کتب کی اعانت نے ان کی روح آپ سے خوش و راضی ہوجائے اور اس کے برکات و حسنات آپ کے حال و استقبال ترقی مدارج کا ظاہری و باطنی کا موجب ہو۔
مجھے امید ہے کہ اس تھوڑی سی رقم کی استعانت سے جو بطریق مبادلہ و استقراص چاہی جاتی ہے ہرگز دریغ نہ کریں گے ۔"
یہ رقم موصوف نے بھیج دی تھی جو اس وقت مصر روانہ کردی گئی اور وہ کتاب مصر میں چھپ گئی اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ ملا عبد القیوم اپنی دھن کے کس قدر پکے علو ہمت و رابطہ اور اخوت اسلامی کے سچے علمبردار تھے ۔
وفات حسرت آیات
بالآخر کچھ عرصہ علیل رہ کر 8؍رمضان المبارک 1324ھ مطابق 27اکتوبر 1906ء بروز دو شنبہ آٹھ بجے دن بہ عارضہ قلب اپنے مکان واقع بیرون دروازہ چادر گھاٹ میں انتقال کیا عمر 53 سال تھی دوسرے دن میت گلبرگہ لے جاکر روضہ حضرت شیخ سراج الدین جنیدی کے احاطہ میں جہاں انہوں نے اپنی اہلیہ کے پہلو میں قبر کھدوارکھی تھی۔ دفنایا گیا ، بلدہ حیدرآباد اور گلبرگہ میں نماز جنازہ پڑھی گئی آپ کے انتقال کی خبر عام ہوئی تو حیدرآباد دکن ہندوستان اور بیرون ہند صف ماتم بچھ گئی۔ عظیم الشان تعزیتی جلسے منعقد ہوئے قرار دادیں منظور ہوئیں اخبارات و جرائد میں تعزیتی ادارئے لکھ کر مرحوم کی خدمات دینی و ملی کا اعتراف کیا گیا۔ پیسہ اخبار لاہور ، وطن لاہور وکیل امرتسر فخر دکن مدراس صحیفہ و مشیر دکن حیدرآباد کے علاوہ دیگر رسائل و جرائد میں بھی تعزیتی مضامین شائع ہوئے ان کے محاسن اور ان کی قومی اور ملی خدمات کو سراہا گیا ۔ مشاہیر ہندوستان اور عالم اسلام کے تعزیت نامے وصول ہوئے مولانا الطاف حسین حالی مولانا سید فضل الحسن حسرت موہانی ، مولانا عبدالحئی معتمد ندوۃ العلماء شمس العلماء شبلی نعمانی اور دیگر نامور رہنما اور علمائے کرام نے دلی رنج و الم کا اظہار کیا۔
مصنف: محمد حسام الدین خاں غوری۔ ناشر: دارالادب (کراچی)۔ سنہ اشاعت: 1979ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں