ادبی بحث کے دروازے کھولتا رسالہ اثبات - تعارف و تبصرہ از شکیل رشید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-29

ادبی بحث کے دروازے کھولتا رسالہ اثبات - تعارف و تبصرہ از شکیل رشید

 



ادبی کتابی سلسلے ’’ اثبات ‘‘ کے تازہ ، شمارہ نمبر 34 کو پڑھ کر ، ابھی ابھی ختم کیا ہے ۔ اس کے مشمولات شاندار ہیں ۔ 

گزشتہ شمارہ میں تنزانیہ کے نوبل انعام یافتہ ناول نگار عبدالزاق گرناہ کے ناول Memory Of Departureکا ، سعید نقوی کا کیا ہوا لاجواب اردو ترجمہ ’’ یادِ مفارقت ‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا ، اس تازہ شمارےمیں بھی ،سعید نقوی کا ایک لاجواب ترجمہ شامل ہے ،عالمی شہرت یافتہ البانوی ادیب اسمعیل کادارے کے ناول Broken April کا ’’ دو نیم اپریل ‘‘ کے نام سے ۔ یہ ترجمہ اس شمارہ کی خاص پیش کش ہے ۔ کادارے اپنے ناولوں میں ’’ مطلق العنانیت ‘‘ کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے البانوی حکومت کا نشانہ بنےہیں ، اور اسی لیے فرانس میں پناہ گزیں ہیں ۔ 

ناول ’’ دو نیم اپریل ‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے ، مترجم سعید نقوی نے اسے ’’ ہر دوسرے اچھے ناول کی طرح محبت کے گرد بنی ہوئی ایک کہانی ‘‘ کہا ہے ۔ محبت کا ایک نام ’ زندگی ‘ بھی ہے ، لیکن یہ کہانی ’ زندگی ‘ سے زیادہ ’ موت ‘ کی کہانی ہے ۔ اسے ’’ موت کا ناول ‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ 

اس ناول میں شمالی البانیہ کے اونچے میدانوں کی ’ خونی روایات ‘ ، ’ مہمان نوازی ‘ وہاں کے’ فرسودہ قوانین ‘ جن سے روگردانی ممکن نہیں ، اور انہیں ’ فرسودہ قوانین ‘ کی بنا پر ، نسل در نسل چلنے والے ’ خونی قضیوں ‘ اور ’ قتل و انتقامی قتل ‘ کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ 

یہ ایک ۲۷ سالہ پہاڑی نوجوان جورگ کی کہانی ہے ،جو اپنے بھائی کے قتل کا ، نہ چاہتے ہوئے بھی ، بدلہ لیتا ہے ، کہ خاندان کی عزت اورغیرت کو بچانے کے لیے ’ قانون ‘ اسے اس کا پابند کرتا ہے ۔ اب اُسے قتل ہونا ہے کہ مقتول کے خاندان کو ’ قانون ‘ اُس کے قتل کا ’ حق ‘ دیتا ہے ۔ جورگ تیس دن کے لیے ’ قانون ‘ کے مطابق ہونے والی ’ جنگ بندی ‘ کی وجہ سے ’ محفوظ ‘ ہے ، یعنی ’ نصف اپریل ‘ تک ۔ وہ مئی نہیں دیکھ سکے گا ، یہ اُسے پتہ ہے ۔

 یہ خوب صورت ڈایانا کی بھی کہانی ہے ، اور اُس کے مصنف شوہر بیسین کی بھی ، جسے’ خونی روایات ‘ میں رومانیت نظر آتی ہے ۔ دونوں ، شہر سے ، اونچے میدانوں میں ہنی مون منانے آئے ہیں ، جہاں ان کی زندگیاں جورگ کی زندگی سے ٹکراتی ہیں ، اور ڈایانا کو جورگ میں ایک کشش محسوس ہوتی ہے ، حالانکہ دونوں کی نظریں صرف ایک بار ملی ہیں ، وہ بگھی میں ہے ، اور جورگ سڑک پر ۔ کیا یہ محبت ہے ؟ یا جورگ کی بے کسی کا دکھ ڈایاناکو اس کی طرف کھینچ لے گیا ہے ؟ جورگ کیوں تڑپ اٹھا ہے؟ شاید جورگ کو ڈایانا کی آنکھوں میں ’ زندگی ‘ نظر آئی ہے جو اس سے چھن جانے والی ہے ، اور شاید ڈایانا نے جورگ کی آنکھوں میں ’ موت ‘ دیکھ لی ہے جو اسے بے چین کیے ہوئے ہے ۔’ انتقامی سلسلے ‘ اور ’ انتقامی قتل ‘ کی مختلف وجوہ کے بارے میں سُن کر ، ڈایانا کی زبان سے نکلنے والا یہ جملہ ، اس ناول کے موضوع اور تھیم کے عین مطابق ہے ، ’’ مرنے کے کتنے مواقع ہیں ! ‘‘ یہ کہانی ’ پرنس ‘ کی بھی ہے ، جو سارے ناول میں ،کسی بھی وقت سامنے نہیں آتا ، پرنس جو ’ قانون ‘ کا نگراں ہے ، ’ قانون ‘ پر عمل کرانے والا ۔ یہ پرنس ایک علامت ہے سڑے ہوئے حکومتی نظام کی ، جو لوگوں کی زندگیوں سے کھیل کر ’ معاش ‘ بٹورتا ہے ۔ پرنس اور قلعہ کے لیے ’ خون کا مالیہ ‘ ایک ’ صنعت ‘ ہے ۔ ناول کے ایک چھوٹے سے کردار ، ڈاکٹر کے مطابق ’’ خون ایک قابل تجارت جنس میں بدل گیا ہے ۔‘‘ یوں تو یہ کہانی آج کی نہیں ہے ، لیکن کادارے نے اسے ، ایک بڑے ناول نگار کی طرح ، آج کی کہانی بنا دیا ہے ۔ خون آج ساری دنیا میں قابل تجارت جنس ہے ۔ 

اس ناول کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ فرسودہ روایات اور قوانین ، اور ان کے نتیجے میں ، قتل و غارت گری کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے خلاف ، اپنے پڑھنے والوں کو کھڑا کرتا ہے ، اِن سے نفرت اور اِن کے خلاف جدوجہد کے لیے تحریک دیتا ہے ۔   

سعید نقوی نے ناول کا خوب صورت ترجمہ کیا ہے ، لاجواب ۔ اشعر نجمی کو چاہیے کہ وہ ان کے مزید تراجم شائع کریں ، بالخصوص ٹونی موریسن کے ناول کا ترجمہ جو ’’ دلاری ‘‘ نام سے ہے ، اور فورسٹر کے ناول کا ترجمہ جو ’’ انڈیا کا ایک سفر ‘‘ کےنام سے ہے ، اور جان اسٹین بیک کے ناول کا ترجمہ ، جس کا نام ہے ’’ اشتعال کی فصل ‘‘۔


اس شمارہ کی ایک اور خاص پیش کش ہے اطالوی فکشن نگار اٹالو کالوینو کے چھ افسانوں کے ترجمے ۔ ( یاد ہے ، گزشتہ شمارہ میں کافکا کی تمثیلات کے ترجمے شامل تھے ) یہ ترجمے زینت حسام ، مصطفیٰ کریم ، رعنا اقبال ، سعید نقوی اور ظفر سید نے کیے ہیں ۔ ان مترجمین نے ، کالوینو کی ابہام اور اسرار سے بھری دنیا کو اردو میں خوبی سے ڈھالا ہے ، اسے کارنامہ ہی کہا جائے گا ۔ 

اس شمارہ میں اشعر نجمی نے ، ہم سب کا تعارف ، پاکستان کی افسانہ نگار فارحہ ارشد سے ، ان کے تین افسانے شامل کر کے کرایا ہے ۔ کمال کے افسانے ہیں ۔ افسانوں کی اس نئی آواز کے افسانے نئے ہیں ، پہلے کے افسانوں سے بہت ہٹ کر ۔ خورشید اکرم اور جاوید نہال حشمی کے افسانے اچھے ہیں ، پڑھے جانے لائق ۔ 

اس بار تعارفی نوٹ کے ساتھ چارشعرا کی نظمیں شائع کی گئی ہیں ،جن میں میرے پسندیدہ شاعر سلیم شہزاد بھی شامل ہیں ۔ دوسرے شعرا ہیں ارتکاز افضل ، شکیل اعظمی اور حسین عابد ۔ غزلوں کا انتخاب بہترین ہے ۔ مضامین مناسب ہیں ۔ فرحت احساس پر خصوصی مطالعہ اس شمارے کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتا ہے ۔ فرحت احساس اچھے شاعر ہیں ، ان پر مزید لکھا جانا چاہیے ۔ 

 

اب آئیں ایک سوال پر : کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج کے دنوں میں ، ادبی رسائل میں پہلے کی طرح ، ادب کے مختلف پہلوؤں پر مباحثے نہیں ہوتے ؟ 

اس سوال کا تلخ جواب ’ ہاں ‘ میں ہے ۔ مجھے ، اور مجھ جیسے اور بھی لوگ ہوں گے ، جنہیں اکثر ادبی پرچوں سے یہ شکایت ہے ، کہ انہوں نے یا تو ادبی مباحث بند کر دیے ہیں ، یا مباحث کے نام پر کٹ حجتی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔ 

لیکن ’’ اثبات ‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے اشعر نجمی نے جہاں تراجم پر توجہ دی ہے ، افسانوں کے معیار سے سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور بہتر سے بہتر شاعری دینے کی کوشش کی ہے ، وہیں ادب کے مختلف مسائل ، نظریات اور تصورات پر مباحثے بھی شروع کیے ہیں ، بالخصوص اپنے اداریوں اور منتخب اقتباسات کے ذریعے ۔ سچ کہا جائے تو ، اس پرچے نے مباحثے کو ایک نئی سمت عطا کی ہے ، ایک نیا رنگ دیا ہے ۔ یہ میرے لیے ، اس پرچے کو پسند کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ 

’’ اثبات ‘‘ شمارہ نمبر 34 کو پسند کرنے کے لیے اس کا دیدہ زیب سرورق ، خوبصورت پرنٹنگ اور بہترین مواد کافی ہے ۔ لیکن اس سے ، ایک ایسے قاری کی سیرابی ممکن نہیں ہے ، جو ’ ادبی مکالمات ‘ کا پیاسا ہو ۔ پیاس بجھانے کا کام’’ اثبات ‘‘ کا اداریہ کرتا ہے ۔ 


گزشتہ دو شماروں سے اشعر نجمی ’’ نادیدہ قاری کے نام خط ‘‘ کے عنوان سے اداریہ لکھ رہے ہیں اور خوب لکھ رہے ہیں ، اس شمارہ میں خط نمبر 3 شامل ہے ۔ میں اس خط کوپہلے کے دو خطوں کی ہی کڑی سمجھتا ہوں کیونکہ اس خط میں بھی ، پہلے کے دو خطوں کی ہی طرح ، فکشن کے مختلف پہلوؤں پر بات کی گئی ہے ۔ 

یہ فکشن کو سمجھنے اور سمجھانے کی ایک دلچسپ کوشش ہے ۔ دلچسپ اس معنیٰ میں کہ یہ خط نہ اکیڈمک ہے ، نہ ہی اس خط میں علمیت بگھاری گئی ہے ، اور نہ ہی یہ خط پڑھنے والے ، اس کی تشریح کا تقاضا کرتے ہیں ۔ بات سیدھے سادے انداز میں کہہ دی گئی ہے ، جو ذہن پر گراں نہیں گزرتی ۔ 

تمہید کے بعد ، بات ’ نادیدہ قاری ‘ کے اس سوال سے شروع کی گئی ہے کہ ’’ گزشتہ کم ازکم تین دہائیوں میں شاعری کے مقابلے ہم فکشن کی طرف زیادہ مائل کیوں ہوئے بطور خاص ناول کی طرف ؟‘‘ 


اس سوال کے جواب میں اشعر نجمی نے جو باتیں لکھی ہیں ان سے کچھ اتفاق اور کچھ اختلاف ممکن ہے ۔ مثلاً یہ کہ مجھے اشعر نجمی کی اس بات سے کسی حد تک اتفاق ہے کہ ’’ نیا فکشن صرف مشاہدے ، تجربے اور حسیت پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنا مطالعاتی پس منظر بھی رکھتا ہے ۔ ‘‘ 


لیکن ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مطالعاتی پس منظر ، تجربے ، مشاہدے اور حسیت پر اکتفا کیے بغیر ، اچھی تخلیق کے لیے کافی ہے؟ کیا اگر تجربے ، مشاہدے اور حسیت کو منہا کر دیا جائے تو صرف مطالعاتی پس منظر کے بل پر کوئی تخلیق ’’ انسانی صورت حال کو اس کی مکمل صورت ‘‘ میں پیش کر سکتی ہے؟  

مجھے اداریہ کی اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ ’’ ناول یا افسانے کے لیے دلچسپ ہونا شرط نہیں ۔‘‘ نہ اس بات سے اتفاق ہے کہ پلاٹ یا کردار اب ناول کے لیے ضروری نہیں رہے ہیں ۔ لیکن اختلاف اور اتفاق اپنی جگہ ، یہ اداریہ ادبی دنیا میں بحث کا ایک دروازہ کھولتا ہے ، اور فی الحال اس کی بہت ضرورت ہے ۔ اس خوبصورت شمارہ کے لیے اشعر نجمی مبارک باد کے حقدار ہیں ۔ 


پرچہ حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر ( 8169002417)پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


A review on urdu magazine, Esbaat, issue:34. Reviewer: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں