قبل مسیح سے قبلہ مسیح تک - خاکہ از پرویز یداللہ مہدی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-24

قبل مسیح سے قبلہ مسیح تک - خاکہ از پرویز یداللہ مہدی

turfa-tamasha-maseeh-anjum

آدمی کا بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو روتا ہوا آتا ہے اور جب جاتا ہے تو دوسروں کو رلا کر جاتا ہے۔ مزاح نگار بھی چونکہ آدمی ہوتا ہے اس لیے اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہوتا چنانچہ محمد مسیح الدین جو ادبی حلقوں میں مسیح انجم کے نام سے جانے پہچانے اور مانے جاتے تھے برسوں تک طنز و مزاح کے گل بوٹے کھلانے ، زندہ دلان شہر کے دامن کو قہقہوں سے مالا مال کرنے کے بعد ۳۰ مئی ۱۹۹۸ ء کی شام زندہ دلوں سے ہمیشہ کے لیے ناطہ توڑ کر اپنے مداحوں کو روتا چھوڑ کر زندہ دلوں کی محفل سدا کے لیے سونی کر گئے۔ میرے لیے یہ سونا پن اس واسطے بھی دو چند ہے کہ ان سے میرا یارانہ دو چار دنوں کا نہیں برسوں پرانا تھا سفر میں حضر میں صبح میں دوپہر میں شام میں رات میں ہر پہر ہر گجر میں ہم نے ایک دوسرے کو ہر روپ ہر رنگ میں دکھ میں سکھ میں خوشی میں غم میں غرض یہ کہ ہر عالم میں دیکھا بھی تھا بھگتا بھی تھا۔ کہانی اگرچہ ختم ہوچکی ہے لیکن یادیں کبھی ختم نہیں ہوتیں چنانچہ اس وقت مجھے یاد آرہا ہے وہ زمانہ جب اردو دنیا کے واحد مزاحیہ رسالے شگوفہ کی اشاعت کا ابتدائی دور تھا مدیر شگوفہ محترم مصطفی کمال کے ڈاکٹر بننے میں ابھی دیر تھی ان سے میرے شخصی مراسم کا سلسلہ ابھی نیا نیا تھا اپنے وطن ثانی بمبئی سے جب بھی میں اپنے وطن مالوف حیدرآباد آتا دفتر شگوفہ یا مدیر شگوفہ کے گھر پر حاضری ضرور دیا کرتا۔


ان دنوں شگوفہ کا دفتر فائن آرٹس اکیڈیمی کے کمرہ نمبر ستائیس کے ایک گوشے میں جو خود ایک گوشۂ قفس سے کم نہیں تھا ایک عدد ٹیبل چند عدد کرسیوں اور ایک عدد الماری پر مشتمل ہوا کرتا تھا البتہ دفتر شگوفہ کے اوقات کار ، اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد کے مصداق فائن آرٹس اکیڈیمی کے شعبۂ ساز و سنگیت کے ارباب مجاز کے سر تال ملانے بالفاظ دیگر۔۔
اک ترے گانے سے پہلے اک ترے گانے کے بعد
تک محدود ہوا کرتے تھے لہذا ان دنوں میں مدیر شگوفہ سے ان کے گھر پر مل لینے کو اکثر ترجیح دیا کرتا تھا وہ ایک ایسی ہی شام تھی جب میں مدیر شگوفہ سے ملنے ان کے گھر گیا تو دیوان خانے میں پہلے ہی سے ایک عدد منحنی الجثہ باریش نوجوان کو کسی سعادت مند شاگرد کی طرح کرسی پر با ادب با ملاحظہ پوزیشن میں بیٹھے ہوئے پایا ، نوجوان کا ناک نقشہ حلیہ بشرہ انہی دنوں شایع شدہ شگوفہ کے دیڑھ سالہ نمبر میں چھپی ہوئی نو آموز مزاح نگار مسیح انجم کی تصویر سے ہو بہو ملتا جلتا تھا حتیٰ کہ داڑھی تک مشابہہ تھی اور پھر کیوں نہ ہوتی وہ داڑھی بھی مسیح انجم کی تھی اور شخصیت بھی مسیح انجم ہی کی تھی۔
ہم دونوں مدیر شگوفہ کے گھر کے اندر سے برآمد ہونے تک چپ چاپ بیٹھے ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھتے رہے ان دو انگریزوں کی طرح جو از خود تعارف کروانے کو انگریزی تہذیب کے منافی سمجھتے ہیں اور اس وقت تک ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے جب تک کہ کوئی تیسرا شخص آن کر انہیں آپس میں متعارف نہیں کروا دیتا۔ البتہ ہم دونوں چونکہ ولایت کے خالص انگریز نہیں ہندوستان کے نخالص انگریز تھے لہذا کنکھیوں سے ایک دوسرے کا جائزہ لیتے رہے۔ مسیح صاحب بھی یقینا دیڑھ سالہ نمبر میں شایع شدہ میری تصویر سے مجھے ملانے کی کوشش کرتے رہے تھے کیوں کہ ان کی آنکھوں میں بھی شناسائی کا ایک رنگ آرہا تھا ایک جا رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم دونوں انگریزی آداب کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے سے بقلم خود متعارف ہوتے مدیر شگوفہ تشریف لے آئے اور ہمیں آپس میں متعارف کروادیا اور یوں انگریزی آداب تعارف کی ایسی کی تیسی ہوتے ہوتے رہ گئی۔


تعارف سے پہلے مسیح صاحب جس قدر اجنبی جتنے انجان بنے ہوئے تھے تعارف کے بعد اتنے ہی کھل گئے۔ یہی نہیں اگلی دو چار ملاقاتوں میں خاصے گھل مل بھی گئے بلکہ اس قدر گھل مل گئے کہ دفتر شگوفہ اور مدیر شگوفہ کے گھر کے علاوہ ہم دونوں کا ایک دوسرے کے گھر بھی آنا جانا شروع ہوگیا اور ہمارے مراسم کا یہ سلسلہ ان کے دم آخر تک برقرار رہا شہر کے مضافات ونستھلی پورم میں ان کے نقل مکانی کے بعد شہر میں کسی مشاعرے کسی تقریب میں شرکت کی علت کے نتیجے میں جب بھی انہیں دیر ہوجاتی تو وہ یا تو دفتر شگوفہ پر رات بتاتے یا پھر خاکسار کے غریب خانے کو یہ اعزاز بخشتے۔ میں اکثر پہلی ملاقات کے حوالے سے ان سے کہتا۔۔
" میں تو دیکھتے ہی آپ کو آپ کی داڑھی کی وجہ سے پہچان گیا تھا لیکن آپ مجھے نہیں پہچان سکے "۔۔
جواب میں وہ مسکرا کر کہتے " یہ بات نہیں ہے میں بھی آپ کو پہلی نظر میں پہچان گیا تھا آپ کے بالوں کے اس پھگے کی وجہ سے جو دیڑھ سالہ نمبر میں چھپی آپ کی تصویر میں سب سے نمایاں ہے ! "۔۔

مسیح صاحب میرے بالوں کے پھگے کا ذکر ان دنوں بھی کیا کرتے تھے جب اس پھگے میں ہوا پوری طرح نکل چکی تھی اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ گاڑی گزر چکی ہے پٹری چمک رہی ہے
مسیح صاحب سے ملاقات کے تھوڑے ہی عرصہ بعد میں نے بھی اپنے چہرے پر داڑھی کا کور ( Cover ) چڑھالیا اور یوں ہم عصر ، ہم قلم ، ہم مزاح ، ہم نوالہ ، ہم پیالہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہم ریش بھی ہوگئے البتہ میں نے ابتداً سر کے اڑتے ہوئے بالوں کی تلافی کی خاطر داڑھی رکھ لی تھی جب کہ مسیح صاحب اپنی داڑھی کے سلسلے میں یہ جواز پیش کیا کرتے تھے کہ پیشے کے اعتبار سے مدرس ہونے کے باوجود اپنے محدود مختصر قد و قامت اور کاٹھی کے باعث وہ مدرس سے زیادہ طالب علم دکھائی دیتے ہیں اور اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے اپنے اور اپنے شاگردوں کے بیچ ایک خط فاصل کھیچنا ان کے لیے ضروری ہوگیا تھا نتیجتاً انہوں نے داڑھی رکھ لی۔ گویا ان کی داڑھی داڑھی نہیں استاد اور شاگردوں کے بیچ ایک خط فاصل تھی۔۔
جن دنوں ہم دونوں نے طنز و مزاح کی وادی پر خار میں قدم رکھا تھا تب مسیح صاحب کا بھی آتش جوان تھا اور خاکسار کا بھی بلکہ اگر قد بت اور جثے کی مناسبت سے میرے آتش کو پہلوانِ سخن ناسخ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
جوانی میں یوں بھی جوش اور ولولے کی فراوانی ہوتی ہے اس پر ہمارے آتش و ناسخ ذرا زیادہ ہی جوان تھے لہذا ان میں جوش وولولہ سر سے پیر تک کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اس سے پہلے کہ یہ ہمیں کسی غلط راستے پر بہالے جاتا ہم نے اسے طنز و مزاح کی ترویج ترقی اور فروغ کے لیے وقف کردیا۔ یہ اسی جوش وولولے کا زور تھا کہ اس زمانے میں طنز و مزاح کی محفلیں چاہے اقبال الدولہ کی دیوڑھی میں ادارہ محور ادب کے زیر اہتمام منعقد کی گئی ہوں یا شہر کے دوسرے کونے مشیر آباد میں بزم کہکشاں کے زیر سرپرستی سجائی گئی ہوں ، حمایت نگر اردو ہال میں طنز و مزاح کا جلسہ ہو یا ملے پلی میں اقلیم ادب کے تحت طنز و مزاح کی نشست ہو ، مسیح صاحب اور میں اپنی اپنی سائیکلوں پر مذکورہ فاصلوں کو عبور کر کے ان محفلوں میں شرکت کرنا اپنے لیے باعث سعادت و افتخار سمجھا کرتے۔ ان دنوں ہمارا یہ خیال تھا کہ اگر ہم نے طنز و مزاح کے نام پر آراستہ کی جانے والی محفلوں و نشستوں میں شرکت نہیں کی تو طنز و مزاح کی ترقی و ترویج رک جائے گی۔ اس کے فروغ کا عمل تھم جائے گا اب آپ سے کیا چھپانا دراصل اس جذبے کے پیچھے ان دنوں طنز و مزاح کی ترقی سے زیادہ خود اپنی ترقی اپنی ذاتی شہرت کا راز پوشیدہ تھا۔
اتفاق سے جن دنوں ہم طنز و مزاح کی محفلیں مل کر لوٹنے ادبی معرکے سر کرنے کے نتیجے میں ادبی مطلع پر نمایاں ہورہے تھے انہی دنوں حیدرآباد میں ایک مزاحیہ اسٹیج شو دیڑھ متوالے کے بڑے چرچے تھے جسے فائن آرٹس اکیڈیمی کے فنکار حامد کمال اور سبحانی مل کر پیش کیا کرتے تھے ، اس شو کے روح رواں حامد کمال خود اپنی زبان سے علی الاعلان اس بات کا اعتراف کئی بار کرچکے تھے کہ اسٹیج پر تو میں اور سبحانی دیڑھ متوالے کے روپ میں پیش ہوتے ہیں لیکن صحیح معنی میں دیڑھ متوالے پرویز صاحب اور مسیح بھائی کی جوڑی ہے کیوں کہ قدبت کے اعتبار سے پرویز صاحب ایک ہیں تو مسیح بھائی آدھے ۔۔۔۔۔۔ انہی دنوں حیدرآباد کے بلدی حدود میں ایک ہی احاطے میں دو تھیٹروں ایک سیونٹی ایم ایم (70mm) دوسری تھرٹی فائیو ایم ایم (35mm) کی تعمیر کا چلن نیا نیا شروع ہوا تھا۔ یار لوگ اس حوالے سے بھی میری اور مسیح صاحب کی پرسنالٹی کو نشانہ بنانے لگے تھے یعنی ہم دونوں کو اکٹھا دیکھ کر یوں فقرا کسا جاتا ، "وہ دیکھو راما کرشنا سیونٹی ایم ایم ، کے ساتھ راما کرشنا تھرٹی فائیو ایم ایم بھی چپک کے چلا آرہا ہے۔۔ ! "


بات سے بات نکلی ہے تو یاد آیا حیدرآباد کے ممتاز افسانہ نگار نعیم زبیری مرحوم ، مسیح صاحب کو پیار سے " مسیح بے صلیب " کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے اور مشہور حلفیہ شاعر غیاث متین حالیہ پروفیسر صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ اور سابقہ ٹیچر و دیرینہ رفیق مسیح انجم ، سابقہ پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والے جلاد تارا مسیح ، کے حوالے سے مسیح انجم کو بھی تارا مسیح " کہہ کر پکارنے لگے تھے حالانکہ تارا مسیح اور مسیح انجم میں سوائے لفظ مسیح کے کوئی بات کوئی قدر مشترک نہیں تھی۔ جہاں تک مسیح صاحب کے نام کے ساتھ انجم کے لاحقہ کا تعلق ہے بعضے احباب اسے ان کے عہد جوانی کے کسی ناکام معاشقہ کی نشانی عرف دم چھلہ تصور کر کے اکثر اشاروں اشاروں میں یہ جاننے کی کوشش کیا کرتے کہ :
کون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں ۔۔۔۔۔۔ ؟

جواباً مسیح صاحب نے اس پردہ کو کبھی نہیں اٹھایا شاید اس کے پیچھے لوگوں کا بھرم قائم رکھنے کا جذبہ کارفرما رہا ہو بہر حال اگر وہ یہ پردہ اٹھاتے بھی تو لوگوں کو یقینا مایوسی ہوتی اور مسیح صاحب سب کچھ برداشت کرسکتے تھے لیکن اپنے خیر خواہوں اور مداحوں کو مایوس نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ سبھی میں پیار قہقہے اور خوشی بانٹنا چاہتے تھے وہ آدمی تھے ہی بے حد خلیق ، خلق خدا سے پیار کرنے والے اگر اردو ادب میں پہلے ہی سے ایک عدد خلیق انجم ترقی اردو والے موجود نہ ہوتے تو میں مسیح انجم کو خلیق انجم کے نام سے پکارتا "


طنز و مزاح کے علاوہ مسیح صاحب کو اچھا اور لذیذ کھانا بھی بے حد عزیز تھا جو اس محرومی کا نتیجہ تھا جس سے وہ اپنے بچپن اور اوائیل جوانی میں محض غربت کے باعث ہمیشہ دو چار رہے تھے بقول خود ان کے برس کے بارہ مہینے موٹے چاول کا خشکہ اور کچا کھٹا ہی انہیں نصیب ہوا کرتا تھا۔ گوشت ان کے حق میں کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا اور یہ نعمت غیر مترقبہ صرف بقر عید کے بقر عید انہیں میسر آیا کرتی۔ چنانچہ اس نعمت غیر مترقبہ کو زیادہ مدت کے لیے استعمال کرنے کی نیت سے اس کے کباب بنالیے جاتے اور یوں اس کا عرصۂ حیات بڑھا لیا جاتا ، برسوں تک اس محرومی کو سہنے کے بعد اوپر والے نے جیسے ہی ان کی معاشیات کے گراف کو اوپر اٹھایا مسیح صاحب بقول شاعر :
میں کہاں رکتا ہوں عرش اور فرش کی آواز سے
مجھ کو جانا ہے بہت آگے حد پرواز سے


فٹ پاتھی ٹھیلوں کو بھی نہیں بخشتے وہاں بھی کھڑے کھڑے مچھلیوں اور مرغیوں کے کشتوں کے پشتے لگا دیتے۔ شکم سیری کے ان محاذوں پر وہ اکیلے ہی شب خون نہیں مارا کرتے اپنے خاص یاروں ڈاکٹر مصطفی کمال ڈاکٹر وہاب قیصر اور نا چیز کو مہینے کی ابتدائی تاریخوں میں بالخصوص اپنے ساتھ ہمطعامی کا شرف ضرور بخشتے اور جواباً مہینے کی آخری تاریخوں میں جو کہ ملازمت پیشہ افراد کے حق میں نحس تاریخیں ہوتی ہیں ہم سے جبراً دعوتیں وصول کرتے۔ دعوتوں کے اس چکرنے ایک زمانے میں ایک چین (Chain) کی صورت اختیار کرلی تھی جس کے نتیجہ میں ہم میں سے ہر ایک کو باری باری میزبانی کے فرائض انجام دینے پڑتے اتفاق سے ایک مرتبہ اس چین میں مضطر مجاز صاحب اور ڈاکٹر یوسف کمال بھی پھنس گئے نتیجتاً ہر دو حضرات کا وہی حال ہوا جو بغیر گیر کیس (gear case) کی سائیکل کی چین میں پھنسے ہوئے پتلون کے پائینچے کا ہوتا ہے۔۔


مسیح صاحب بنیادی طور پر درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔ وہی درس و تدریس جو کبھی واقعی با عزت پیشہ ہوا کرتا تھا لیکن خدا بھلا کرے چند تاجرانہ ذہنیت کے حامل اساتذہ کا جن کی مہربانیوں سے علم بھی فی زمانہ متاع کوچہ و بازار کے درجے پر پہنچ چکا ہے۔ البتہ مسیح صاحب چونکہ اکل حلال کے قائل تھے اس لیے اپنے شاگردوں کے ساتھ کبھی بے ایمانی نہیں کی جو مضامین ان کے ذمہ تفویض ہوا کرتے وہ تو خیر پوری دیانت داری کے ساتھ پڑھایا کرتے ان کے علاوہ ، وہ مضامین بھی فاضل اوقات میں پڑھادیا کرتے جو ان کے ذمہ نہیں ہواکرتے ان کا یہ ایمانداری دیانت داری کے ساتھ زائد ذمہ داری سے بلا معاوضہ عہدہ برآ ہونا دوران ملازمت بھی ان کے کام آیا اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کام آیا چنانچہ ان کے شاگرد جب اور جہاں انہیں دیکھتے عقیدت اور احترام سے ان کی گردنیں جھک جایا کرتیں اس طرح مسیح صاحب نے اس باعزت پیشے سے وابستہ علم کے بیوپاریوں کی طرح علم بیچ کر چاندی کے سکے نہیں کمائے۔ سعادت مند شاگرد کمائے تھے۔۔


مسیح صاحب ایک دیانت دار اور مشفق استاد کے علاوہ ماہر لسانیات بھی تھے۔ اردو کے علاوہ وہ تلگو زبان پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے بلکہ ان کی اردو دانی اگر مسلم تھی تو تلگو دانی قابل رشک۔ وہ اردو کے اہل قلم تھے تو تلگو کے اہل زبان۔ اردو ان کا اوڑھنا تھی تو تلگو بچھونا۔ اردو کو وہ مادر مہربان سمجھتے تھے تو تلگو کو قابل احترام تلی۔ البتہ ان کی اس ذولسانی مہارت سے کسی نے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا۔ نہ ریاستی سرکار نے نہ ہندو مسلم ایکتا و یکجہتی کے کھوکھلے نعرے لگانے والے اداروں و انجمنوں نے۔ کیوں کہ مذکورہ ادارے صرف ایسے افراد کو بڑھاوا دیتے ہیں جو امداد باہمی کے اصولوں پر چل کر خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ادارہ ہذا کے منتظمین کے لیے بھی اپنی اپنی جھولیاں بھرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں جب کہ مسیح صاحب نہ موقع پرست تھے نہ ابن الوقت وہ سیاسی توڑ جوڑ اور ہتھکنڈوں سے قطعی نا واقف تھے۔


مسیح صاحب کے اندر اعمالنامہ قلم بند کرنے والے فرشتوں کے علاوہ ایک عدد دیہاتی بھی تا عمر بیٹھا رہا جس نے انہیں کبھی بھی ایک مکمل شہری نہیں بننے دیا کبھی وہ ان کے خیالات میں در آتا تو کبھی ان کے سوچنے کے انداز پر اثر انداز ہوتا کبھی ان کے اعصاب پر سوار ہوجاتا تو کبھی ان کے لب و لہجہ اور طرز گفتگو پر حاوی ہوجاتا بسا اوقات تو یہ دیہاتی ان سے ایسی ایسی حرکتیں سرزد کرواتا کہ اچھے خاصے بیسویں صدی کے قبلہ مسیح قبل مسیح کے آدمی معلوم ہوتے۔ اب یہی دیکھئے آج کے خلائی دور میں پاسپورٹ جو کہ ممالک غیر میں قانونی طور پر داخلے کا مستند و مسلمہ پروانہ گردانا جاتا ہے۔ اس پروانے سے مسیح صاحب اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ تک جان بوجھ کر محروم رہے۔ محض اس اندیشے کے تحت کہ ایک معمولی پاسپورٹ کی اجرائی حکام بالا و افسران اعلیٰ کی نظروں میں ان کی برسوں کی وفاداریوں کو مشکوک کردے گی ان کے خلاف محکمہ جاتی انکوائریاں شروع ہوجائیں گی۔ اس طرح دور دراز کے سفر سے بھی وہ پرہیز کیا کرتے کہ خدا نخواستہ کسی اجنبی انجان شہر میں جاکر اگر کہیں وہ راستہ بھٹک گئے کھو گئے تو کیا ہوگا ان اندیشہ ہائے دور دراز کا ذمہ دار تھا ان کے اندر بیٹھا دیہاتی جس نے انہیں حیدرآباد کے بلدی حدود سے پر ، پر بھی مارنے کی اجازت نہیں دی ، نہ شخصی طور پر نہ ادبی طور پرے۔ انسان عیب و ہنر ، خیر و شر کا پتلا ہے بے عیب ذات صرف خدائے بزرگ و برتر کی ہے بڑھتی عمر کے ساتھ ابن آدم میں ہنر کم اور عیوب بڑھتے چلے جاتے ہیں سماعت بصارت ایک ایک کر کے اکارت ہو نے لگتی ہے۔ قویٰ مضمحل ، عناصر کا اعتدال ڈانوا ڈول ہونے لگتا ہے اور ہر شخص کا بڑھتی عمر کے ساتھ اس عمل سے گزرنا ضروری اور لازمی ہے۔ مسیح صاحب میں بھی شکست و ریخت توڑ پھوڑ کا یہ عمل عمر کے ساتھ شروع ہوچکا تھا لیکن انہوں نے کمال ہشیاری کے ساتھ کم از کم اپنے دو عیوب پر قابو پالیا تھا بلکہ ہنر میں ڈھال لیا تھا۔ ایک کا تعلق ان کی قوت سماعت سے تھا دوسری کا قوت چباوٹ ، یعنی دانتوں سے تھا۔ پتہ نہیں عمر کی کس منزل میں ان کے ایک کان کی سماعت متاثر ہوگئی تھی ، ثقل سماعت یقینا ایک عیب ایک کمزوری ہے لیکن اسے بھی وہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے لگے تھے یعنی جب بھی دوستوں کی مجلس میں غیبت یا کوئی نا پسنددہ بات چھڑ جاتی مسیح صاحب فوراً اپنا متاثرہ کان آگے کردیتے احباب موضوع گفتگو پر سیر حاصل تبصرے کرتے رہتے جو ان کے متاثرہ کان سے ٹکرا ٹکرا کر لوٹ آتے اور وہ خاموش تماشائی کی صورت ایک ایک کی صورت دیکھا کرتے ایسے میں کوئی ان سے رائے زنی کی فرمائش کرتا تو وہ مسکراتے ہوئے اس مصرع کی منھ بولتی تصویر بن جایا کرتے :
ہم چپ رہے ، ہم ہنس دئیے منظور تھا پردہ ترا


یوں ثقل سماعت جو بظاہر عیب ہے اس سے فائدہ اٹھا کر مسیح صاحب خود کو گناہ میں مبتلا ہونے سے بچالیا کرتے دوسرا توڑ پھوڑ کا عمل ان کے دانتوں میں شروع ہوچکا تھا پہلے داڑھ انہیں داغ مفارقت دے گئے پھر سامنے کے چند دانتوں نے دہن کا ساتھ چھوڑا نتیجتاً اچھا خاصا منھ بٹوے کی شکل میں ڈھل گیا۔ اس عیب کی خانہ پری مصنوعی بتیسی سے کی جاتی ہے لیکن یہ اس وقت تک دہن مبارک میں فٹ نہیں بیٹھتی جب تک کہ اوپر یا نیچے کے پورے دانت اس کے لیے جگہ نہ خالی کردیں۔ جتنا عرصہ دانتوں کے گرنے کا عمل جاری و ساری رہتا ہے ، متاثرہ شخص کے لیے صوت و صدا کا مسئلہ گمبھیر صورت اختیار کرجاتا ہے۔ حلق سے آواز تو ایک ہی نکلتی ہے لیکن دہن مبارک سے باہر آتے آتے اس میں اس قدر ہوا بھر جاتی ہے کہ لفظ اپنی شکل اور تلفظ اپنا رنگ و آہنگ کھو دیتا ہے۔ لیکن مسیح صاحب کے معاملے میں یہ عیب یوں ہنر بن گیا کہ حاضرین و سامعین کے روبرو مضامین سناتے وقت ان کے منھ سے نکلنے والے اکثر سنجیدہ الفاظ کو بھی ان کا پیچھا کرنے والی ہوا ایک مزاحیہ ٹچ دے جاتی ، چنانچہ جو باذوق سامعین پہلے ان کے مضامین میں کھلکھلاتے فقروں اور جملوں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے ، اب صوت و صدا سے پیدا ہونے والے مزاح سے بھی محظوظ ہونے لگے۔ جس طرح قصہ کہانیوں میں ہنس مکھ لوگوں کی صفت یہ بتائی جاتی ہے کہ جب وہ ہنستے ہیں تو منھ سے پھول جھڑتے ہیں ، اسی طرح اگلے دانتوں سے محرومی کے بعد مسیح صاحب کے منھ سے " مزاح " جھڑنے لگا تھا۔۔


مسیح صاحب کا دوستی نباہنے ، پیار کرنے کا اپنا مخصوص انداز ایک خاص اسٹائیل تھا۔ اپنے دوستوں کو وہ پیارے کہہ کر مخاطب کرتے اور جب اپنے کسی پیارے پر انہیں بے حد پیار آتا تو اس کے گال پر پیار سے چٹکی کاٹتے ہوئے بڑے پیار سے کہتے بڑا پیارا ہے جی ہمارا یہ پیارا۔ مسیح صاحب کے اس مخصوص طرز تخاطب پر متاثرہ پیارا سمجھ جاتا کہ کچھ روز پہلے ہوٹل لے جاکر اس کے ساتھ جو خاص سلوک انہوں نے کیا تھا اب جواباً در جواب آں سلوک کے طور پر جوابی سلوک کے متمنی ہیں مسیح صاحب کے پیاروں کی فہرست میں سرفہرست تھے ڈاکٹر مصطفی کمال جو نہ صرف ان کے پیارے تھے بلکہ مربی و محسن بھی تھے۔ مسیح صاحب کے پیاروں میں ڈاکٹر وہاب قیصر ، ڈاکٹر عقیل ہاشمی ، ولی تنور ، عاتق شاہ ، غیاث متین اور نا چیز بھی اتفاق سے شامل تھا۔ علاوہ ازیں مشہور مزاح نگار مجتبیٰ حسین بھی انہیں بے حد پیارے تھے بلکہ اس پیارے کے تو وہ مداح بھی تھے۔ طنز و مزاح کے حوالے سے مجتبیٰ کو وہ اپنے سے بڑا مزاح نگار مانتے تھے ( یہ ان کا بڑا پن تھا ) انہیں مجتبیٰ کے ادبی مرتبے کا بے حد پاس و لحاظ تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب سے کوئی دس بارہ برس پہلے آل انڈیا ریڈیو بمبئی کے زیر اہتمام کل ہند جشن ظرافت منایا گیا تھا ، ملک کے سارے ہی نامور طنز و مزاح نگاروں نے اس میں بہ نفس نفیس حصہ لیا تھا ، اتفاق سے کنوینر پروگرام نے مسیح صاحب کو مجتبیٰ حسین کے بعد مضمون سنانے کی زحمت دی اس پر دوسرا اتفاق یہ ہوا کہ مسیح صاحب کا مضمون بے حد پسند کیا گیا بلکہ حاصل جشن قرار پایا ، یہ بات کسی بھی مزاح نگار کے لیے مسرت اور فخر کا باعث ہوتی لیکن مسیح صاحب مسرور ہونے کے بجائے ملول ہوگئے یہی سوچ کر کہ انہیں مجتبیٰ کے بعد کیوں پڑھایا گیا اور مجتبیٰ سے زیادہ داد نہیں کیوں دی گئی ، اصل میں مجتبیٰ کے تئیں ان کی عقیدت مجتبیٰ حسین کے آگے کسی اور مزاح نگار کا حتیٰ کہ خود ان کا اپنا چراغ بھی جلتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی اور غلطی سے خود ان سے یہ غلطی سرزد ہوگئی تھی جس کا انہیں کافی عرصہ تک ملال رہا مذکورہ واقعہ سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کی فطرت میں رشک و رقابت کا جذبہ نام کو بھی نہیں تھا ، وہ مزاجاً ایک شریف النفس آدمی تھے ان کا مزاح بھی ان کے مزاج سے ہم آہنگ تھا ، خالص طنز کو وہ گالی کے مترادف سمجھتے تھے وہ خالص مزاح کے قائل تھے۔ لوک کتھاؤں اور لوک گیتوں کی طرح ان کے مزاح میں لوک رنگ نمایاں تھا ، دیہات کی کچی مٹی کی بو باس ان کی تحریروں میں رچی بسی تھی ، مزاحیہ مضامین کے علاوہ مسیح صاحب نے بے شمار خاکے بھی لکھے اور ان میں بھی اپنی فطری شریف النفسی کا دامن نہیں چھوڑا ، خاکے کو خاکہ ہی رہنے دیا ، خاکہ اڑا کر خاک ڈالنے کی دانستہ کوشش نہیں کی ، ان کے خاکوں کا ایک مجموعہ زیر ترتیب ہے جس میں ان کے پندرہ پیاروں کے خاکے شامل ہیں ، اسی مناسبت سے اس کا نام انہوں نے پندرہ پیارے ، رکھا ہے۔ البتہ وہ خود چونکہ ایک پیارے انسان تھے اس لیے پندرہ پیارے کی اشاعت سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔۔


مزاح ہو یا عملی زندگی دونوں مورچوں پر وہ تا عمر سائیڈ سے چلتے رہے ، اپنی تحریروں میں یہاں تہاں طنز کا ایک آدھ نشتر چلاتے بھی تو در پردہ ، چنانچہ اپنی آخری تصنیف طرفہ تماشا میں بھی انہوں نے سڑک کے بیچوں بیچ کوئی تماشا کوئی کرتب نہیں دکھایا ، ویسے بھی وہ تماشا دکھا کر بھیڑ اکٹھا کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔ اپنی اولین تصنیف سائیڈ سے چلئیے سے آخری تصنیف طرفہ تماشا تک سائیڈ سے چلتے رہے ، کسی کی دل آزاری ، دل شکنی انہیں گوارا نہیں تھی اور ان کی یہی ایک ادا ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آجائے کہ وہ پل صراط کا سفر ان پر آسان کردے اور سائیڈ سے انہیں اپنے جوار رحمت میں پناہ دے دے آمین۔۔


ماخوذ: "شگوفہ" (حیدرآباد، انڈیا)۔
مدیر و ناشر: مصطفیٰ کمال۔ سن اشاعت: مارچ 2009ء۔

Maseeh Anjum, a caricature by: Pervez Yadullah Mehdi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں