گیان واپی مسجد کے قضیہ میں سپریم کورٹ کا موقف - کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-23

گیان واپی مسجد کے قضیہ میں سپریم کورٹ کا موقف - کالم از ودود ساجد

supreme-court-stand-on-gyanvapi-masjid

بنارس کی گیان واپی مسجد کے قضیہ میں سپریم کورٹ نے 20 مئی کو جو موقف اختیارکیا اور جو حکم صادر کیا اس پر بعض حلقوں میں کشمکش، عدم اطمینان اور اضطراب کی فضا پائی جاتی ہے۔ عدالت عظمی نے وہ مقدمہ جو بنارس کی سول عدالت میں سینئر ڈویژن کے جج کے یہاں چل رہا تھا اور جس پر پورے ملک میں بے چینی پھیل گئی تھی، اب بنارس کے ضلع جج کو منتقل کردیا ہے۔


ادھر متھرا میں بھی شاہی عیدگاہ کو کرشن جنم استھان کے پاس سے ہٹانے کی ایک درخواست کو وہاں کی مقامی عدالت نے سماعت کے لئے منظور کرلیا ہے۔یہ کوئی منظم منصوبہ ہے، جس کے تحت لوگوں کو مسلسل اضطراب میں رکھنا مقصود ہے۔ اس منصوبہ پر بظاہر عام لوگ عمل کر رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ ساز کوئی اور منظم طاقت ہے۔
عدالتوں کے کام کاج کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ مقامی عدالتیں اور اعلی عدالتیں اگر متاثرہ فریق کے خیال کے مطابق طے شدہ قانون سے ہٹ کر کارروائی کر یں تو ان کے خلاف عدالت عظمی سے رجوع کیا جاسکتا ہے لیکن اگر متاثرہ فریق عدالت عظمی کے رویہ پر ہی بے اطمینانی کا اظہار کرے تو پھر انصاف کے طالب کہاں جائیں گے؟


گیان واپی کا قضیہ بہت پیچیدہ ہے۔ ایودھیا سے بھی زیادہ پیچیدہ۔ یہ قضیہ سب سے پہلے 1984میں اس وقت روشنی میں آیا تھا جب ملک بھر سے 558 ہندو مہنت اور سادھو سنت دہلی میں اولین "دھرم سنسد" کیلئے جمع ہوئے۔ اس دھرم سنسد میں بہت سی قراردادیں پاس کی گئیں۔ ان میں سے ایک قرارداد میں ملک بھر کے ہندئوں سے کہا گیا تھا کہ وہ ہندئوں کے تین "مقدس" مقامات، بنارس، متھرا اور ایودھیا پر اپنا دعوی پیش کریں۔
1990 میں بابری مسجد کا قضیہ عروج پر پہنچ گیا تھا۔ وشو ہندو پریشد نے کہنا شروع کیا کہ ایسے تین ہزار مقامات ہیں جہاں مندروں کو توڑ کر مسجدیں تعمیر کرلی گئی تھیں۔ بابری مسجد کے قضیہ کے دوران انہوں نے یہ نعرہ لگانا شروع کیا: ایودھیا تو صرف جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے۔ اس دوران نہ جانے کتنے مقامات پر فسادات ہوئے اور کتنے بے قصوروں کی جانیں گئیں۔


بعض مبصرین اس خیال کے تھے کہ مسلمان فریق اس سلسلہ میں دانشمندی سے کام لیں اور اس معاملہ کو سڑکوں پر نہ لائیں۔ آج بھی ان کا یہی خیال ہے کہ بابری مسجد کے مسئلہ کو اگر مقامی سطح پر حل کرلیا جاتا اور اس مسئلہ کو قومی نہ بنایا گیا ہوتا تو آج یہ صورت نہ ہوتی۔ وہ ملک بھر میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان پھیلی ہوئی بے چینی اور بے اطمینانی کا سبب بھی اسی"قومی تحریک" کو قرار دیتے ہیں۔
گیان واپی کے معاملہ میں بھی بعض مبصرین یہی کہہ رہے ہیں کہ اس مسئلہ کو خالص قانونی راستہ اختیار کرکے ہی حل کیا جائے اور اس کے خلاف کوئی عوامی تحریک نہ چھیڑی جائے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس سلسلہ میں گزشتہ 18 مئی کواپنے ہنگامی اجلا س میں اپنی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے ضرورت پڑنے پر ایک "پرامن عوامی تحریک" شروع کرنے کے قصد کا بھی اعلان کیا ہے۔ بورڈ نے سیکولر سیاسی جماعتوں سے بھی اپنا موقف واضح کرنے کو کہا ہے۔


بورڈ دانشور مسلمانوں اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کا ایک موقر ادارہ ہے۔ اس کے اضطرابی بیانات اور سیاسی مطالبات پر ہمیں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرنا ہے۔ بورڈ نے ایک قانونی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ لیکن بورڈ کا وہ فیصلہ اچھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ"ملک کے انصاف پسند ہندو بھائیوں اور دیگر اقلیتی طبقات کو اعتماد میں لے کر عبادتگاہوں اور مقدس مقامات کے احترام اور ان کے تحفظ کے سلسلہ میں مشترکہ ذمہ داریوں پر رائے عامہ بیدار کی جائے گی۔ "


میرا خیال ہے کہ اگر اس قضیہ کو بس دو محاذوں پر ہی حل کرنے کی کوشش کی جائے تو بہتر ہے۔ یعنی ایک طرف قانونی لڑائی بغیر کسی شور وشغف کے پوری تندہی، دلجمعی اور ثابت قدمی کے ساتھ لڑی جائے اور دوسری طرف برادران وطن سے گفتگو شروع کی جائے۔ مقدس مقامات کے احترام کے سلسلہ میں مشترکہ ذمہ داریوں پر رائے عامہ اسی صورت میں بیدار ہوسکتی ہے جب انصاف پسند ہندو طبقات کے علاوہ خود ان لوگوں یا گروہوں سے بھی بات کی جائے جومحاذ آراء ہندئوں پر اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شرپسند طبقات کا عمل قابل نفرت ہے لیکن میرا خیال ہے کہ کھلے طور پر ان سے نفرت کا اظہار کرنا خلاف مصلحت ہوگا۔ اس ضمن میں یہ بات بھی ضروری ہے کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ان کے "معبودوں" کی تضحیک نہ کی جائے۔یہ ذہن نشین رہے کہ اب تک متعدد گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔ سوشل میڈیا کے "غازیوں" کو اس وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ان کے ایک معمولی عمل سے اسلام جیسا عظیم دین ومذہب بدنام ہورہا ہے۔


یہاں بنارس کے مسلم فریق کے وکیل حذیفہ احمدی کی ستائش کی جانی چاہئے جنہوں نے اس قضیہ کو انتہائی قانونی مہارت، جامعیت اور مضبوطی کے ساتھ سپریم کورٹ میں پیش کیا۔ یہ انہی کی بحث کا نتیجہ تھا جب سپریم کورٹ نے 17مئی کومحض 49 منٹ کی بحث کے بعد مسلم فریق کے چار میں سے تین مطالبات تسلیم کرلئے۔ لیکن سپریم کورٹ نے مفروضہ "شولنگ" کے تحفظ کا حکم دیا اور جب حذیفہ احمدی نے سپریم کورٹ کے ذریعہ لفظ "شولنگ" کا استعمال کرنے پر اعتراض کیا تو جسٹس چندر چوڑ نے اس میں ترمیم کرتے ہوئے "نشان زد" مقام لکھوا دیا۔


میرا خیال ہے کہ پرسنل لا بورڈ کو الگ سے کسی نئے وکیل کو کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے جو قانونی کمیٹی تشکیل دی ہے وہ کمیٹی گیان واپی مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کی مادی اور اخلاقی مدد کرے اور اس کے وکلاء کی ٹیم کی"دانشورانہ اعانت" کرے۔معاملہ کو بہت زیادہ گنجلک اور خلط ملط کرنا درست نہ ہوگا۔
اسی کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ عام مسلمانوں کو ضبط اور تحمل کیلئے تیار کیا جائے لیکن اخباری بیانات میں "ناقابل برداشت" اور"ناقابل قبول" جیسے الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔وقت کی سنگینی اور نزاکت کو سمجھ کر آگے بڑھنا بہت ضروری ہے۔ ان کوتاہیوں اور غلطیوں سے بھی بچنا ضروری ہے جو بابری مسجد کے معاملہ میں ہوگئی ہوں۔ رابطہ کمیٹی ضرور بنائی جائے لیکن نام نہاد "ایکشن کمیٹی" بنانے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کو اب جوش والے بیانات کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں ٹھوس قانونی اور سیاسی اقدامات سے مطمئن کیا جانا چاہئے۔


پچھلے دنوں حادثاتی طور پر بی جے پی میں آجانے والےایک بہت سینئر اور پڑھے لکھے دانشور سے گفتگو ہوئی۔ انہوں نے میری ذاتی معلومات کیلئے اپنے مشاہدہ سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم نرسمہارائو نے "عبادتگاہوں کے تحفظ کا قانون 1991" بناکر ایک ہی کام اچھا کیا تھا۔ گوکہ اس وقت "اپوزیشن" بی جے پی نے اس قانون کی سخت مخالفت کی تھی لیکن مذکورہ لیڈرکا خیال ہے کہ حکومت اس قانون کی خلاف ورزی نہیں کرسکتی۔ بی جے پی کے ایک اور لیڈر سبرامنیم سوامی نے بھی کہا ہے کہ جب تک یہ قانون موجود ہے بنارس اورمتھرا کا قضیہ حل نہیں ہوسکتا۔ خود بابری مسجد کے حتمی مقدمہ کے فیصلہ میں بھی سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ مذکورہ قانون کی ستائش کرچکی ہے۔


سپریم کورٹ کے بزرگ وکیل ایم ایم کشیپ کے مطابق سپریم کورٹ ہی 1993 اور 1997 میں دو الگ الگ مواقع پر یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ"گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی عدالت، سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف کوئی حکم دیتی ہے تو اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ " بنارس کی سول عدالت میں بھی مسلم فریق نے اسی قانون کی روشنی میں ہندو فریق کی درخواست کو مسترد کرنے کی اپیل کی تھی۔ یہی نہیں سپریم کورٹ کے وکیل فضیل ایوبی کے مطابق اسی بنیاد پرالہ آباد ہائی کورٹ نے 9 ستمبر 2021 کو اس مقدمہ پر مکمل اسٹے دیدیا جو 1991کا ایکٹ بنتے ہی بنارس کی گیان واپی مسجد کے سلسلہ میں دائر کردیا گیا تھا۔
حیرت ہے کہ اتنی ساری نظیریں اور اتنے عناصر اور نکات کے باوجود 20 مئی کوسپریم کورٹ نے اس فتنہ کو یہیں دہلی میں ہی کیوں ختم نہیں کردیا۔ماہرین قانون کے پاس اس سوال کے بہت سے مدلل جوابات ہوں گے لیکن ایک عام ہندوستانی کے ذہن میں یہ سوال بار بار آئے گا۔


ایک اطمینان کی بات بہر حال یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کو بنارس کے سول جج کی عدالت سے ضلع جج کو منتقل کردیا ہے۔ ہرچند کہ جسٹس چندر چوڑ نے یہ بات کہی کہ مقدمہ منتقل کرکے ہم سول جج پر کوئی شک ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا یہ کہنا ہی بہت اہم ہے کہ "اس معاملہ کی سنگینی کے پیش نظر اس معاملہ کو بہت تجربہ کار اور سینئر جج کو سننا چاہئے۔ " ان کے اتنا کہنے میں ہی بہت کچھ کہہ دیا گیا ہے۔ اس کی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے بس خاموشی سے سمجھنا چاہئے۔
یہ بھی راحت کی بات ہے کہ ضلع جج سے کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے "آرڈر 7رول 11" کے تحت مسلم فریق کی اس درخواست پر سماعت کرکے اسے فیصل کیا جائے جس میں ہندو فریق کی درخواست کو 1991 کے ایکٹ کی روشنی میں ناقابل سماعت قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔


ظاہر ہے کہ اگر بنارس کے ضلع جج کی عدالت مسلم فریق کی اس درخواست اور دلیل کو تسلیم کرلیتی ہے کہ 1991 کے ایکٹ کی روشنی میں ہندئوں کا دعوی سنا ہی نہیں جاسکتا تو پھر وہ تمام فیصلے اور اقدامات کالعدم ہوجائیں گے جو بنارس کے سول جج نے "عجلت" کا مظاہرہ کرتے ہوئے کردئے تھے۔یہ بات خود جسٹس چندر چوڑ نے کہی بھی ہے۔ انہوں نے ہندو فریق کے سخت اعتراض کے باوجود اپنے اس حکم میں ترمیم بھی کی جس میں بنارس کے ضلع مجسٹریٹ سے "وضو" کا اچوک انتظام کرنے کی "درخواست" کی گئی تھی۔ عدالت نے درخواست کا لفظ ہٹاکر "ہدایت" کا لفظ لکھوایا۔ اسی طرح عدالت نے ہندو فریق کی "وضوکا متبادل انتظام" کرنے کی تجویز کو بھی مسترد کردیا اور کہا کہ ہم نے وضو کا صرف اچوک انتظام کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یعنی وضو، وضو خانہ یا حوض میں ہی کی جائے گی۔ یہ نکتہ بظاہر بہت سادہ سا ہے لیکن دراصل یہی نکتہ سب سے زیادہ اہم ہے۔

رامپور کے قدآور لیڈر اعظم خان کی ضمانت کا ایک پہلو بہت تفصیل سے لکھے جانے کا متقاضی ہے لیکن آج اس کا ذکر ضمناً کرنا ہے۔ میرے پسندیدہ جج، جسٹس ایل ناگیشور رائو نے انہیں 88 ویں مقدمہ میں جو ضمانت دی ہے وہ انتہائی خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دی ہے۔ انہوں نے اسی دفعہ 142 کا استعمال کیا ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین ہندو فریق کو دیدی تھی۔ میرا خیال ہے کہ جسٹس چندر چوڑ بھی اگر چاہتے تو اسی دفعہ کا سہارا لے کر بنارس کے قضیہ کو ختم کرسکتے تھے لیکن بعض ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ انہوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ بھی درست اور اچھا ہے۔


***
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 22 مئی 2022ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Supreme Court's stand on Gyanvapi mosque - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں