خوجی - فسانۂ آزاد کا معروف و مقبول کردار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-10

خوجی - فسانۂ آزاد کا معروف و مقبول کردار

khoji-fasana-azad-ratan-nath-sarshar

اس افسانہ (فسانۂ آزاد) کی اصل شخصیت آزاد ہے۔ اس کے ساتھ خوجی ایک مسخرہ ہے جو ایک بٹیر باز نواب کے مصاحبوں میں شامل تھا۔


خوجی یا خواجہ بدیع الزماں یا خواجہ بدیعا ایک افیمی شخص ہیں ، بوڑھے ہیں مگر وہ اپنے آپ کو جوان اور کبھی بالکل لڑکا سمجھتے ہیں، کمزور اتنے کہ اگر ہوا چھو جائے تو گر پڑیں۔ دبلے پتلے ایسے کہ کوئی بچہ چپت جڑ دے تو سات لڑھکیاں کھائیں۔ بدصورت اس قدر کہ کوئی دیکھ لے تو ڈر جائے مگر سمجھتے یہ ہیں کہ میں نہایت موٹا تازہ، نہایت طاقتور، نہایت خوبصورت ہوں، حوصلہ ایسا کہ ہزار مرتبہ پٹے، جوتیاں کھائیں مگر خم ٹھونک کر پکڑ لڑنے کو ہر وقت تیار ہیں۔ ساتھ ہی عقلمندی کا دعوی ہے۔ حالانکہ پرلے درجے کے بے وقوف ہیں آپ۔ خیر سے شاعر بھی ہیں اور کسی جگہ تُک سے تُک ملائے بغیر نہیں رہتے۔ فارسی خوب بولتے ہیں اتنی خوب کہ کبھی تو سمجھ ہی میں نہیں آتی۔ بات بات پر قرولیاں نکالنا آپ کا خاص وصف ہے حالانکہ قرولی کی کبھی خواب میں بھی شکل نہیں دیکھی۔ بہادری کا یہ عالم ہے کہ مارتوں کے پیچھے اور بھاگتوں کے آگے بہت ہمت کی اور وہ بھی عمر میں ایک مرتبہ تو ڈرتے ڈرتے کسی مردے کے ناک کان کاٹ لئے۔ غرض کہاں تک بیان کیجئے خواجہ صاحب کی ذات میں دنیا بھر کی بہترین حماقتیں جمع ہو گئی ہیں۔


خوجی افیمی آدمی، لڑکی کا نام سنتے ہی ہکا بکا ہو گئے۔ ہاتھ پاؤں کانپنے لگے کہ خدا ہی خیر کرے۔ ہم سمجھے تھے کہ دل لگی کرتے ہو۔ یہ کیا معلوم تھا کہ سچ مچ تنگ تو بڑا چڑھا کر بھاگا ہی چاہتے ہو، میاں تم لاکھ عالم و فاضل سہی پھر لڑکے ہی تو ہو۔ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کی تو پیدائش آپ کی اور دعویٰ یہ کہ ٹرکی جاکر روسیوں سے لڑیں گے۔ اے تیری قدرت۔ میاں ہوش کی دوا کرو۔ عقل کے ناخن لو۔۔ ایک ذرا سی چنے کے برابر گولی پڑے گی تو ٹائیں سے مر جائیے گا۔ آپ کو کبھی مورچے پر جانے کا شاید اتفاق نہیں ہوا۔ ارے میاں خدا بھلے مانس کو نہ لے جائے۔ غضب کا سامنا ہوتا ہے۔ وہ گولی پڑی یہ مر گیا۔ گھوڑے کی پیشانی پر جمی دھم سے گرا۔ وائیں وائین کی آواز بادل کی کڑک کی طرح گونجتی ہے۔ قریب سپاہی کھڑا ہے اور ایک دفعہ ہی لو ٹ گیا۔ توپ کا گولہ آیا اور اٹھارہ آدمییوں کو گرا دیا۔ گولہ چٹخا اور بہتر ٹکڑے۔۔ دس دس آدمیوں کو دیکھتے ہی دیکھتے اڑا دیا گویا پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ اور جو کہیں تلوار چلنے لگی تو اف او بےجان جاتی ہے۔۔ سو بھئی وہاں جانا کچھ خالہ جی کا گھر تھوڑا ہی ہے۔ ارے توبہ ارے توبہ خدا بھلے مانس کو جنگ کے میدان سے بچائے۔


میاں خوجی میں ایک وصف یہ تھا کہ بے سوچے سمجھے، بے دیکھے لڑ پڑتے تھے۔ چاہے اپنے سے دو گنا چوگنا ہو، یہ چمٹ ہی جائیں گے۔ غصہ کی یہ خاصیت ہے کہ جب آتا ہے کمزور پر۔ مگر میاں خوجی کا نرالا تھا۔ ان کو جب غصہ آتا و شہ زور پر جو ان کو اٹھا کر پھینکے ، تو اٹھارہ لڑھکنیاں کھائیں، چاہے کچومر نکل جائے مگر یہ بررنا نہیں چھوڑتے۔
دوسرا وصف یہ تھا کہ پٹ پٹا کر جھاڑ پونچھ کر اٹھ کھڑے ہوتے تھے مگر ممکن کیا کہ ذرا اف کریں وہی تیور وہی دم و خم۔ کسان نے اتنی بڑی گستاخی کی کہ ان کی ٹٹوی کو ان کے سامنے اتنا مارا کہ اسکا بھرکس ہی نکل گیا ، پھر بھلا ان کو تاب کہاں؟ آفتابہ پھینکا اور تڑ سے گتھ گئے۔ وہ گنوار آدمی اور انتہا کا کرارا۔ یہ دبلے پتلے مہین آدمی ہوا کے جھونکے میں اڑ جائیں۔ اس نے ان کی گردن دبوچی اور گد سے زمین پر پھینکا۔ پھر جھپٹنے کی کوشش کی تو کسان کی جورو ان سے چمٹ گئی۔ اور لگی ہاتھا پائی ہونے۔
اس نے ایک گھونسا جمایا اور ان کے پٹے کو پکڑ کر پھینکا تو چاروں شانے چت۔ وہ تھپڑ رسید کئے ایک ادھر ، ایک ادھر اور کسان کھڑا ہنس رہا ہے کہ یہ مہرارو سے جیت پاوت نا ہیں یو مسٹنڈے سے کاٹرے لے بھلا۔ کسان کی جورو تو ٹھونک ٹھانک اور پیٹ پاٹ کر چل دی، آپ نے پکارنا شروع کردیا قسم بابا جان کی، جو کہیں چھرا پاس ہوتا تو اس وقت ان دونوں کی لاش پھڑکتی ہوتی۔ وہ تو کہئے خدا کو اچھا کرنا منظور تھا کہ میں اپنے زور میں آپ رہا ورنہ اتنی قرولیاں بھونکتا کہ عمر بھر یاد کرتے ، ہات ترے کی نابکار کھڑا تو رہ گیدی دوزخی۔۔۔"


خوجی اورایک ڈاکٹر کی دو دو چونچیں:


خوجی: (ڈاکٹر سے) کیوں میاں، ڈاکٹر کہاں ہیں اس وقت ؟
ڈاکٹر: آپ اپنا مطلب کہئے۔
خوجی: اجی تو تم سے کیا واسطہ۔ عجیب قطع کے آدمی ہو، دخل در معقولات دینا کیا معنی، تم بس اتنا بتا دو کہ ڈاکٹر کہاں ہیں؟
ڈاکٹر: لاحول والا قوۃ
خوجی: لاحول ولا قوۃ
ڈاکٹر: کوئی ہے نشتر لاؤ ہم ان کی خبر لیں گے۔
خوجی: کوئی ہے لٹھ لاؤ ہم ان کی خبر لیں گے۔
کمپونڈر: اجی کیا بک بک لگائی ہے ، یہی تو ڈاکٹر صاحب ہیں میاں۔
خوجی: آداب عرض کرتا ہوں۔۔۔


سرا میں بے بھاؤ کی پڑیں، مگر خوجی کی اکڑ فوں وہی رہی۔


ایک دن پچھلے پہرے کھٹملوں نے میاں خوجی کا ناک میں دم کر دیا۔۔ افیمی آدمی۔۔ ایک دفعہ پینک میں آئے تو ان حضرات نے پنڈلیوں کو بھڑ کی طرح بھنبھوڑ کھایا اور انہوں نے پینک سے چونکتے ہی غل مچایا۔۔ تو آس پاس کے لوگوں کی نیند حرام ہو گئی ، چور کا گمان ہوا، لینا جانے نہ پائے چور۔۔ چور۔۔ چور۔۔ ارے میاں کہاں؟ کدھر؟؟ کس رخ؟ لینا پکڑ لیا ہے۔ دیکھو پکڑے رہنا، بھئی مسافرو ہوشیار۔۔ سرا بھر میں ہلڑ مچا ہوا ہے۔۔ میاں خوجی نے جو لینا جانے نہ پائے۔ چور۔۔ چور کی آواز سنی تو خود بھی غل مچانا شروع کر دیا۔ کہ ہائیں ہائیں، خبردار جانے نہ پائے۔۔ او چور او گیدی ٹھہرا رہنا۔۔یہ خبر ہی نہیں۔۔ کہ یہ شگوفہ حضرت ہی نے چھوڑا ہے۔


قد تو حضور کا ماشاء اللہ پون انچ کا اور دم خم یہ کہ۔۔۔ قرولی کی حضرت نے عمر بھر مورت بھی نہ دیکھی ہوگی، مگر بات بات پر قرولی اور قرابینچے کی فکر رہتی ہے۔ کوئی اس مسخرے سے اتنا پوچھے کہ قرابینچے کا فیشن کہاں؟ شیر بچہ باندھے آپ نے کس کو دیکھا؟ قرولی کس کی کمر میں نظر آنی؟ مگر ان کو بک دینے سے مطلب ہے، خیر میاں خوجی جو گرمائے تو چھپر کٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور لپک ہی پڑے۔۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہے ہیں کہ لینا۔۔ لینا۔۔ لپکے تو بھٹیاری کو ڈپٹ لیا اور فرمایا کہ تو ہی چور ہے۔ بھلا بے بھلا پکڑ ہے۔ بھٹیاری نے کہا میاں کچھ خیر ہے ہوش کی باتیں کرو۔ اتنے میں آپ نے دوڑنا شروع کر دیا۔ پینک میں سوجھ گئی کہ چور آگے بھاگا جاتا ہے دوڑتے دوڑتے ٹھوکر جو کھاتے ہیں تو اڑا اڑا دھوں۔ میاں خوجی گرے بھی تو کہاں جہاں کمہار کے ہنڈے رکھے تھے۔ گرنا تھا کہ کئی ہنڈے چکنا چور ہو گئے کمہار نے للکارا کہ چور۔ چور۔ اٹھنے کو تھے کہ اس نے آن کر دبوچ لیا اور پکارنا شروع کیا کہ دوڑو چور کا پکڑ لیوں۔۔۔ سب کے سب دوڑ پڑے، کوئی ڈنڈا لئے ہے کوئی بید گھماتا ہے کوئی لکڑی ہلاتا ہے کوئی لٹھ باندھے۔
اندھیری رات گھٹا ٹوپ اندھیرا چو طرفہ چھایا ہوا کسی کو کیا معلوم کہ یہ چور ہے یا میاں خوجی۔۔ بے بھاؤ کی حضرت پر پڑنے لگیں یار لوگوں نے زناٹے کے ہاتھ لگائے۔۔ خوجی کی سٹی بھولی۔۔ خوب پٹ پٹا چکے تو ایک مسافر نے کہا بھئی ذرا ٹھہرو تو یہ خوجی ہیں جو اس کوٹھری میں پانچ سات روز سے ٹکے ہوئے ہیں جو چراغ جلایا گیا تو معلوم ہوا کہ تیرہ صدی کے بالشتیے میاں خوجی ہیں۔۔
الغرض میاں خوجی کی جان بچائی مگر کب کچومر نکل گیا۔ انجر پنجر الگ ہو گئے۔ جب لوگوں نے چپت گاہ کو خوب سہلادیا تو میاں خوجی چلے۔۔۔


اب خوجی صاحب جھومتے ہوئے چلے آتے ہیں اور بڑ بڑاتے جاتے ہیں کہ ہات ترے گیدی کی بڑا آزاد بنا ہے۔ مردود چار پائی پر پڑا خرخر کیا اور ہماری خبر ہی نہیں لی۔۔۔ بڑبڑاتے ہوئے میاں آزاد کی گلی تک چلے آئے ، مگر آنکھوں کے اندھے، نام نین سکھ اتنا بھی نہ سوجھا کہ آزاد کھڑے ہیں۔ جب قریب پہنچے تو میاں آزاد نے یوں کہا۔۔ خیر ہم کو تو پیچھے گالیاں دینا۔ اب یہ بتاؤ کہ ہاتھ پاؤں تو نہیں ٹوٹے؟


خوجی: ہاتھ پاؤں ! ہونہہ ، یہ لوہے کی سلاخیں ہیں، آپ اس وقت ہوتے تو دیکھتے کہ بندہ درگاہ نے کیا کیا جوہر دکھائے۔ پچاس آدمی گھیرے ہوئے تھے۔۔ ایک کم نہ ایک زیادہ!
راوی: درست، اس وقت آپ کو اتنا ہی ہوش تھا کہ آدمی گننے بیٹھتے۔۔۔ مارے چپتوں کے بولا تو گئے تھے۔ مگر بے حیا کی بلا دور، جھاڑ پونچھ کر پھر موجود۔
خوجی: واللہ میں اس وقت پھلجڑی بنا تھا۔۔ بس یہ کیفیت تھی کہ دس آدمی اس شانے کو اور دس ہی اس شانے کو پکڑے ہوئے تھے اور میں جو پھرا تو کسی کو انٹی دی دھم سے زمین، پر گرا کسی کو کولے پر لاد کر مارا ، کھٹ سے چھپر کھٹ کی پٹی پر۔ دو چار میرے رعب میں آکے تھرتھرا کے گر ہی تو پڑے۔ دس پانچ کی ہڈی پسلی چکنا چور کر دی۔ یہ ڈھلکی کھائی وہ ہو رہا۔ ادھر ابھرا۔ جو سامنے آیا۔ اس نے نیچا دیکھا جو منہ چڑھا، منہ کی کھائی۔۔ خدائی بھر میں کوئی ایسا جیوٹ آدمی دکھا تو دیجئے۔
راوی: خدائی بھر کا حال تو خدا ہی کو خوب معلوم ہے مگر اتنی گواہی تو ہم بھی دیں گے کہ آپ سا بے حیا، بے غیرت، جوتی خورا سرا بھر میں تو اس سرے سے اس سرے تک کوئی ہمیں نظر نہیں آتا اس ڈینگ پر پھٹکار!


جس طرح پینک نے کمہار سے میاں خوجی کی مرمت کروائی اسی طرح اس کے طفیل نواب کی ایک ملازمہ بوا زعفرانی نے روئی کی طرح توم کے رکھ دیا اور اسی پینک کی بدولت کانجی ہوس بھی ہو آئے اور نہ جانے کہاں جہاں جا پھنسے اور درگت بنوائی۔ دل پر بوا زعفرانی کا خوف بیٹھ گیا۔ جہاز پر سوار ہونے کی شرطوں میں جہاں یہ خوف نمایاں ہے وہاں آپ کی دوسری دلچسپ خواہشیں بھی ظاہر ہوتی ہیں جو ان کے کردار کا ایک اہم جز ہیں۔


پہلی شرط: قرولی ہم کو ضرور لے دیجئے اور ایک قرابینچہ بھی ہمارے پاس رہے۔


دوسری شرط: برس بھر کے صرف کے لیے افیم ایں جانب کو دیجئے۔ میں اپنے لادے لاد پھروں گا۔ ورنہ جمائیوں پر جمائیاں آئیں گی اور بے موت انٹا غفیل ہو جاؤں گا آپ تو عورتوں کی طرح نشے کے عادی نہیں مگر بندۂ درگاہ بے افیم پئے ایک قدم نہ چلیں گے۔ وہاں پردیس میں افیم ملے یا نہ ملے کہاں ڈھونڈتے پھریں گے۔


تیسری: اتنا بتا دیجئے کہ وہاں زعفرانی کی ڈنڈ پیل دیونیاں تو نظر نہ آئیں گی ؟ تو بندہ ابھی سے رخصت ہوتا ہے، خدا حافظ۔ اف فوہ، اللہ کیا کس کس کے لاتیں لگائی ہیں اور کیا تان تان کے مکے بازی کی ہے کہ پیتھن ہی نکال ڈالا۔ روح پر صدمہ ہے واللہ روح پر۔


چوتھی: سرا میں ہم اب تمام عمر نہ اتریں گے اور جو جہاز پر کمہار ہوئے تو ہم بس ڈوب ہی مریں گے ، اجی اتفاق ہے ، ہم ٹھہرے آدمی بھاری بھرکم کہیں پاؤں پھسل گیا اور ایک آدھ بنڈا ٹوٹ گیا تو کمہار انجر پنجر ہی الگ کر دے گا لہذ کمہار وں کی صحبت آج سے القط۔


پانچویں: جس رینس کی صحبت میں بزاد آتے ہوں گے وہاں ہم نہ جائیں گے، نہ جائیں گے۔ اس میں لالہ نین سکھ ہوں یا لالہ بلدیو۔ اجی بزاز تو ٹھہرے زمین کے گز۔ سب کہیں گھوما چاہیں ، مگر ہم بہت دیکھ بھال کر جائیں گے۔


چھٹی: جہاں آپ چلتے ہیں وہاں کانجی ہوس تو نہیں ہے کہ گدھے کے دھوکے میں کوئی ہم کو کان پکڑکے کانجی ہاؤس پہنچائے ذرا یہ دریافت کر لیجئے گا۔


ساتویں: ٹٹو پر ہم سوار نہ ہوں گے ، اس میں چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے۔


آٹھویں: میٹھے پلاؤ روز پکیں۔


نویں: ہم کو میاں خوجی نہ کہنا، جناب خواجہ صاحب قبلہ کہا کیجئے۔


دسویں: مورچے پر ہم نہ جائیں گے بس باورچی خانہ کا انتظام ہمارے تعلق رہے اور لوٹ مار میں جو کچھ بھی ہاتھ آئے وہ بھی ہماری تحویل میں رکھا جائے۔


گیارہویں: حسن آرا کے نام ایک خط روز لکھنا اور ہر خط میں ہماری طرف سے بندگی بلکہ دعا۔


بارہویں: گولی کھانے کے تین گھنٹے قبل اور مرنے کے دو گھڑی پیشتر ہمیں اطلاع کر دینا۔


تیرہویں: جو ہم خدا نخواستہ جنت میں داخل ہوں تو لاش کو ہندوستان پہنچوانا اور جہاں والد مبرور کی لاش دفن ہے وہاں ہی دفنانا لیکن ہم کو خود ہی نہیں معلوم کہ پدر بزرگوار مرے کب اور دفنائے کہاں گئے اور تھے کون؟ آپ ذرا پتا لگا لیجئے گا اگر ان کی قبر نہ ملے تو کسی قبرستان میں جاکر جو سب سے بہتر قبر بنی ہو بس اسی کے قریب ہم کو دفنا دینا اور لکھ دینا کہ ان کے والد ماجد کا مزار شریف ہے۔


چودھویں : پینک کے وقت ہم کو ہرگز نہ چھیڑنا۔ اس وقت یہاں استغراق کی کیفیت ہوتی ہے، اتنی شرطیں قبول ہوں تو خیر۔ ورنہ نہ خوجی نہ میاں آزاد۔


***
ماخوذ از رسالہ: نقوش، طنز و مزاح نمبر (جنوری/فروری-1959)
مرتب: محمد طفیل۔ ادارہ فروغ اردو، لاہور۔ سنہ اشاعت: 1959ء

Khoji, The well-known and popular character of Fasana-e-Azad. Essay: Ratan nath Sarshar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں