گلستاں میں کہیں بھی پھول یک رنگی نہیں ہوتے - حفظ الرحمن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-18

گلستاں میں کہیں بھی پھول یک رنگی نہیں ہوتے - حفظ الرحمن

india-language-cultural-diversity

ہندوستان مختلف مذاہب کے ماننے والوں، مختلف زبانیں بولنے والوں اور مختلف روایات کی پاسداری کرنے والے عوام کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے اور یہی ہندوستان کی اصل خوبصورتی ہے۔ اگر ہم دو گلدستوں کا تصور کریں جس میں ایک گلدستہ محض یک رنگی پھولوں پر مبنی ہے اور دوسرا گلہائے رنگارنگ سے مزین ہے، تو پہلی نظر میں کئی رنگوں کے پھولوں والا گلدستہ دلکش اور جاذب نظر معلوم ہوتا ہے۔
معروف فلم نغمہ نگار جاوید اختر نے اپنی نظم "نیا حکم نامہ" میں گلستان یا ہندوستان میں گلہائے رنگا رنگ اور یک رنگی پھولوں کا فلسفہ اور ان کے درمیان کے تفاوت کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ مختلف مواقع پر "ایک ملک - ایک زبان" کا فلسفہ پیش کرتے ہوئے ہندی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کی حمایت کر چکے ہیں۔ امت شاہ کا ماننا ہے کہ اب ملک کو ایک زبان کی ضرورت ہے تاکہ غیر ملکی زبانوں کو ہندوستان میں جگہ نہ مل پائے۔ اس تناظر میں وہ ہندی کو قومی زبان کے طور پر اختیار کرنے کے حق میں ہیں، کیونکہ ہندی زبان کو مجاہدین آزادی نے "راج بھاشا" کے طور پر قبول کیا تھا۔ اپنے اس موقف پر مرکزی وزیر داخلہ کو جنوبی ہند اور شمال مشرقی ریاستوں سے سخت تنقیدوں اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔


یہ سچ ہے کہ ہندوستان کی آبادی کا کم و بیش نصف حصہ ہندی بولنے والوں پر مبنی ہے۔ وطن عزیز میں جہاں 44 فیصد کے قریب آبادی ہندی بولنے والوں کی ہے، اس کے مقابلے میں ملک میں بولی جانے والی دوسری سب سے بڑی زبان بنگالی ہے، جو ملک کی محض 8 فیصد آبادی کی زبان ہے۔ اس کے بعد 7 فیصد کے ساتھ مراٹھی زبان تیسرے مقام پر آتی ہے۔ گرچہ ہندی زبان کو باقاعدہ طور پر قومی زبان کا درجہ نہ دیا گیا ہو، تاہم اس کے بغیر بھی ہندی ملک میں قومی سطح پر رابطہ کی زبان تسلیم کی جاتی ہے۔


خود مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی بھی یہ تسلیم کرتی ہیں کہ اگر انہیں کولکاتا سے دہلی تک کا سیاسی سفر طے کرتا ہے تو انہیں ہندی زبان سیکھنے کی ضرورت ہوگی۔
مسئلہ اس وقت ہوا جب ہندی زبان کو دیگر زبانیں بولنے والوں پر قومی زبان کے طور پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہندی اسپیکنگ طبقہ کیلئے امت شاہ کا ہندی کو قومیانے کا خیال ہندی زبان کے حق میں معلوم ہوتا ہے، لیکن اپنی اصل وضع میں یہ خیال جنوبی ہند اور شمال مشرقی ریاستوں میں ہندی مخالف ردعمل کو ہوا دینے والا ہے۔ گزشتہ دنوں تمل ناڈو کے وزیر تعلیم کے۔ پونموڈی ہندی مخالف ردعمل میں اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے ہندی زبان کو 'پانی پوری بیچنے والوں کی زبان' قرار دے دیا۔ یہ اس وزیر کا ردعمل ہے جو ملک کی ایک ریاست میں تعلیم و تعلم کے معاملات کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہندی کو مسلط کرنے کی کوششیں مستقل طور پر کی گئیں تو یہ مخالف ردعمل کس مقام تک جا سکتا ہے؟ اس معاملے میں بین الاقوامی شناخت رکھنے والے آسکر ایوارڈ یافتہ موسیقار اے آر رحمن نے بھی ڈھکے چھپے طور پر ردعمل ظاہر کیا تھا جو عام طور پر متنازع معاملات پر اپنی رائے پیش کرنے سے گریز کرتے ہیں۔


اس معاملے کو مزید ہوا ہندوستانی فلمی صنعت کے دو اداکاروں کے درمیان گزشتہ دنوں ہوئی ٹویٹر وار نے دی تھی۔ جنوبی ہند کے نامور اداکار کچا سدیپ نے حالیہ ساؤتھ انڈین فلموں کی کامیابیوں کے بعد ترنگ میں آ کر کہہ دیا کہ:
'ہندی اب قومی زبان نہیں رہ گئی ہے!'
اس کے ردعمل میں ہندی فلم اداکار اجے دیوگن نے کہا:
'ہندی ماں بولی ہے اور ہمیشہ قومی زبان رہے گی!'
اس معاملے میں کچا سدیپ کے انکار میں بھی اقرار پوشیدہ ہے کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہندی قومی زبان ہے، خواہ ہندوستان میں اسے باقاعدہ طور پر قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔
وہیں اجے دیوگن کے ردعمل میں ہندی کو غیر ہندی داں طبقہ پر مسلط کرنے کا انداز نظر آتا ہے۔


یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستانی فلم صنعت زبان کے حوالے سے ایک دوسرے کے خلاف سخت گیر موقف اختیار کر رہی ہے۔ آج تک گرچہ فلموں کے ناظرین کے علاقے مختلف تھے لیکن فلموں کی مختلف زبانوں میں ڈبنگ کی بنیاد پر جنوبی ہند کی فلمی صنعت اور بالی ووڈ کے اداکار یکساں مقبولیت رکھتے تھے۔ زبان جہاں رجنی کانت کی مقبولیت کو نقصان پہنچا سکی تھی اور نہ ہی شاہ رخ خان کے پرستاروں کے تعداد میں کمی کا سبب بن سکی تھی۔
اس تنازع سے اس ہندوستان کی شبیہ کو نقصان پہنچتا نظر آ رہا ہے جس میں بالی ووڈ کے اداکار جنوب میں اور جنوب کے اداکار ہالی ووڈ کی فلموں میں نظر آتے تھے۔ گزشتہ دنوں تیلگو فلموں کے اداکار مہیش بابو نے کہا کہ بالی ووڈ یعنی ہندی فلم صنعت انہیں 'افورڈ' نہیں کر سکتی۔ گر چہ مہیش بابو نے یہ تبصرہ زبان کے حوالے سے نہ کیا ہو لیکن ایک بڑا طبقہ ان کے اس تبصرہ کو زبان کے تناظر میں بھی دیکھ رہا ہے۔


مرکزی وزیر داخلہ ہندی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس طرح سے "غیر ملکی زبانوں" کو ہندوستان میں جگہ نہیں مل سکے گی۔ امت شاہ کے یہاں 'غیرملکی زبانوں' کی تعریف کیا ہے یہ وہی جانتے ہیں لیکن زبانوں کو سیاسی فیصلوں اور نادر شاہی فرمان سے محدود نہیں کیا جا سکتا۔ زبانیں براہ راست زمین اور اس پر بسنے والوں سے تعلق رکھتی ہیں ، اور ان کا فیصلہ بند دروازوں کے پیچھے لینے کے خطرناک اثرات سامنے آتے ہیں۔ زبانیں اپنے بولنے والوں کے ذریعہ سے پھلتی اور پھیلتی ہیں۔
ہندوستان میں جو بھی آیا ہے وہ اپنی زبان ساتھ لایا ہے۔ پھر وہ مغل ہوں، پرتگالی ہوں یا انگریز ، ہندوستان ان کی زبانوں کو اپنے وسیع دامن میں جگہ دیتا گیا ہے جیسے ایک خوبصورت اور جاذب نظر گلدستہ مختلف رنگوں کے پھولوں سے سجا ہوتا ہے۔ گزشتہ حکومتوں نے ہندوستان کی اس خوبصورتی کو چھیڑنے سے گریز کیا ہے کیونکہ وہ اس کے ردعمل کے طور پر سامنے آنے والے مضر اور وسیع تر اثرات سے بخوبی واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ممبئی کا چور بازار - حفظ الرحمن (ممبئی)

مرکزی وزیر داخلہ کا موقف جہاں ہندی کے حوالے سے جنوبی ہند اور شمال مشرقی ہند میں ناپسندیدگی کو ہوا دیتا ہے، وہیں دیگر زبانوں کے اہل زبان کے سخت گیر موقف کا بھی سبب بنتا ہے۔ اگر امیت شاہ بی جے پی کیلئے سیاسی فائدہ کشید کرنے کے مقصد سے ہندی کو قومیانے کے حق میں ہیں تو انہیں صرف 44 فیصد ہندی بولنے والے ہندوستانیوں کی حمایت حاصل ہوگی ، وہیں 56 فیصد ہندوستانی ان کے موقف کے خلاف جا سکتے ہیں۔ امت شاہ گھاٹے کا یہ سودا ہرگز منظور نہیں کریں گے۔ مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے کی جانب سے مراٹھی زبان کے حوالے سے سخت گیر موقف اختیار کرنے کے اثرات آج ہمارے سامنے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر تنازع میں بی جے پی کی ہمنوائی کے باوجود ایودھیا دورے کیلئے انہیں خود بی جے پی رکن پارلیمان کی جانب سے مخالفت اور معافی کے مطالبہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
شیوسینا کے رکن پارلیمان سنجے راوت اگر ہندی کو قومی زبان کا درجہ دینے کی وکالت کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ شیوسینا 6 فیصد مراٹھی بولنے والے ہندوستانیوں پر پہلے سے پکڑ مضبوط رکھتی ہے اور وہ ایک ایسی علاقائی پارٹی ہے جو مراٹھی کے ساتھ ہندی اسپیکنگ خطے میں سرگرم ہے۔ شیوسینا کو اس سے کسی قسم کے سیاسی نقصان پہنچنے کے امکانات نہیں ہیں، جبکہ بی جے پی ایک قومی جماعت ہے۔
ہندوستان جیسے طویل و عریض اور کثیر لسانی ملک میں کسی زبان کو قومیانے سے قبل ایک نظر پڑوس میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی جانب دیکھ لینا چاہیے جو کبھی یک جان دو قالب ہوا کرتے تھے لیکن پاکستان میں اردو کو قومی زبان کے طور پر اختیار کرنا مشرقی پاکستان کے بنگلہ بولنے والوں کی ناراضگی کا ایک اہم سبب بن گیا تھا۔


عالمی کورونا بحران کے ساتھ مہنگائی، بے روزگاری اور عدم رواداری جیسے سنگین مسائل سے نبرد آزما ہندوستان اب زبانوں کے مابین تصادم کا متحمل نہیں ہے ، بلکہ اس میں سخت گیر موقف اختیار کرنے سے ملک کی سالمیت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔


India's language and cultural diversity. Essay: Hifzur Rehman (Mumbai)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں