نہ بابری مسجد آخری نشانہ تھی ، اور نہ گیان واپی مسجد آخری نشانہ ہے
نشانے پر مسجدوں کی فہرست طویل ہے
نہ بابری مسجد آخری نشانہ تھی ، اور نہ گیان واپی مسجد آخری نشانہ ہے۔
یوں تو ، ہندوتوادی نظریہ سازوں کا ، یہ دعویٰ ہے ، کہ بھارت میں مسلم بادشاہوں کے دورِ حکومت میں ، ساٹھ ہزار مندروں کو تباہ و برباد کیا گیا ہے ، لیکن جب بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی تحریک عروج پر تھی تب ساٹھ ہزار کی تعداد گھٹا کر تین ہزار کر دی گئی تھی ، اور ہندو توادی تنظیمیں یہ کہنے لگی تھیں کہ ان کے پاس تین ہزار ایسی مسجدوں ، درگاہوں ، مزاروں ، عیدگاہوں ، قلعوں اور مسلم عمارتوں کی فہرست ہے ، جو یا توہندو مندروں پر بنائی گئی ہیں یا ڈھائے گئےمندروں کے ملبے سے ان کی تعمیر کی گئی ہے۔
یہ ساٹھ ہزار کو اچانک گھٹا کر تین ہزار کیوں کر دیا گیا ، اس کی کوئی وجہ نہ بتائی گئی ہے ، نہ ہی سامنے آئی ہے ، ممکن ہےساٹھ ہزار کی تعداد اس وقت ' مضحکہ خیز ' لگی ہو ، یا شاید یہ سوچا گیا ہو کہ اتنی بڑی تعداد پر دوسروں کو تو جانے دیں ، اپنے لوگ ہی یقین نہیں کریں گے ، اس لیے اسے فی الحال گھٹا دیا جائے۔
لیکن اب ، جبکہ ' ہندو راشٹر ' کے قیام کی تحریک کو ، ہندو توادی تنظیمیں تیز سے تیز کیے ہوئے ہیں ، یہ فہرست پھر طویل ہو تی جا رہی ہے ، اور بہت ممکن ہے کہ دوبارہ سے ساٹھ ہزار کی تعداد بتائی جانے لگے۔
اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ بھگتوں کی نظر جس مسجد اور درگاہ پر پڑ جائے ، وہ ہندو مندر قرار دے دی جاتی ہے۔ دہلی کی جامع مسجد کے نیچے بھی دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں بتائی جا رہی ہیں ، اور تاج محل کے بند کمروں میں بھی۔ کرناٹک کی ٹیپو سلطان کی مسجد بھی اب ہنومان مندر کہی جانے لگی ہے ، اور احمدآباد ( گجرات ) کی جامع مسجد کو بھی ہندو مندر کی بنیادوں پر کھڑی بتایا جا رہا ہے۔ رہا قطب مینار ، تو وہ ، ایک عرصہ سے ، ہندوتوادیوں کی نظر میں مندر ہی ہے۔ انگریزی اور ہندی زبانوں میں ، اس موضوع پر کئی کتابیں آ چکی ہیں۔
ایک کتاب کا نام ہے " ہندو منادر : ان کا کیا ہوا۔" اس دو جلدوں کی کتاب کے لکھنے والوں میں ارون شوری کا نام بھی شامل ہے ، جو ان دنوں بی جے پی اور آر ایس ایس کے سب سے بڑے دشمن نظر آتے ہیں۔ اس کتاب کے دیگر مصنفین میں مورخ سیتا رام گوئل ، ہرش نارائن ، جئے دوباشی اور رام شروپ شامل ہیں۔ یہ کتاب 1990 میں ، اس وقت شائع ہوئی تھی جب سارے ملک میں ' رام مندر ' کا شور تھا ، اور یہ دعویٰ ، تشدد کے ساتھ کیا جا رہا تھا ، کہ ایودھیا میں ، جہاں پر بابری مسجد بنی ہوئی ہے ، وہ جگہ رام مندر کی ہے ، وہیں ' رام للا پرکٹ ہوئے تھے '۔ آج اس سچ کو ، کہ رام للا کی مورتی بابری مسجد کے اندر چوری چھپےرکھی گئی تھی ، سب جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ تک نے ، جس نےبابری مسجد کی جگہ ، ہندوؤں کے آستھا کی بنیاد پر ، رام مندر کی تعمیر کے لیے دینے کا فیصلہ سنایا ہے ، اس سچ کو قبول کیا ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی بلکہ یہ مسجد ہی تھی۔
مذکورہ کتاب میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ، " ایودھیا میں بابری مسجد رام جنم بھومی مندر کی جگہ پر بنائی گئی ہے۔" اس کتاب کی اشاعت کے دو سال کے اندر بابری مسجد منہدم کر دی گئی تھی ، اوراب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ، جسے انصاف کا خون کہا جاتا ہے ، وہاں ایک عالیشان رام مندر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ مندر 2024 تک ، یعنی لوک سبھا الیکشن کے موقع پر ، بن کر تیار ہوگا ، اور بلا شبہ بی جے پی کے لیے الیکشن لڑنے کا موضوع بنے گا۔
اس کتاب پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہندوتوادیوں نے مسجدوں اور مقبروں کو ہتھیانے کے لیے کس چالاکی سے منصوبہ سازی کی ہے۔ اس میں 18 سو مسجدوں ، مزاروں ، درگاہوں وغیرہ کی فہرست دے کر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہیں یا تو مندروں کو ڈھا کر ان کی جگہ بنایا گیا ہے یا یہ ڈھائے گئے مندروں کے سامان یا ملبے سے بنائے گئے ہیں۔ اپنے دعوے کے ' ثبوت' میں کتاب کے مصنفین نے ، برطانوی اور مسلم مورخین کی کتابوں کے حوالے دیے ہیں۔ ارون شوری نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کے والد محترم مولانا حکیم عبدالحئی کی ایک تحریر " ہندوستان کی مسجدیں " کا حوالہ دے کر ، یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، کہ مسلم بادشاہوں نے مندروں کو ڈھا کر ان کی بنیادوں پر مسجدیں کھڑی کی تھیں۔ کتاب میں ملک بھر کی ریاستوں کی ان مسجدوں اور درگاہوں وغیرہ کی باقاعدہ فہرست دی گئی ہے جو ان لکھنے والوں کے بقول مندروں کو ڈھا کر بنائی گئی ہیں۔ مکمل فہرست کا یہاں شامل کیا جانا ناممکن ہے ، لیکن کچھ مثالیں بطور نمونہ پیش ہیں۔
کتاب میں اتر پردیش ( یو پی ) کا ذکر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یو پی میں 299 ایسی تعمیرات ہیں ، جن میں یا تو ڈھائے گیے مندروں کے ملبے کا استعمال کیا گیا ہے ، یا جو ڈھائے گیے مندروں پر ہی بنائی گئی ہیں۔ جو فہرست دی گئی ہے اس میں ایودھیا کی بابری مسجد ، وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی جامع مسجد کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب چونکہ بابری مسجد کا جھوٹ واضح ہو گیا ہے ، اور یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ یہ مسجد کسی بھی مندر کو ڈھا کر نہیں بنائی گئی تھی ، لہٰذا یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ مذکورہ کتاب جھوٹ کا پلندہ ہے۔ مگر آستھا کی بات جب ہوتی ہے تو جھوٹ کو جھوٹ کون سمجھتا ہے !
لہٰذا اب گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی مسجد کے ساتھ بھی بابری مسجد ہی جیسا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس پر پھر بات کریں گے۔ یو پی کی فہرست میں جن مسجدوں ، درگاہوں وغیرہ کو مندر قرار دیا گیا ہے اُن میں آگرہ کی کلاں مسجد شامل ہے۔ دعویٰ ہے کہ اسے مندر کا ملبہ استعمال کر کے بنایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مغل فرمانروا ، اکبر اعظم کے قلعے میں ، دریا کے کنارے کا حصہ جین مندر کے مقامات پر بنا ہوا ہے۔ اور اکبر کا مقبرہ بھی ایک مندر کی جگہ پر ہے۔ دعویٰ ہے کہ کل کے الہ آباد ، آج کے پریاگ راج ، میں اکبر کا قلعہ مندر کی جگہوں پر بنایا گیا ہے ، شاہ اجمل خان کا مزار مندر کی جگہوں پر ہے۔ پتھار محلہ کی مسجد ، لکشمی نارائن مندر کو تبدیل کرکے بنائی گئی ہے۔ بارہ بنکی کی حاجی وارث علی شاہ کی مزار کو مندر کی جگہ پر بتایا جاتا ہے ، ملامت شاہ کی مزار پر بھی یہی دعویٰ کیا جاتا ہے۔ گورکھپور کا امامباڑہ بھی ایک مندر کی جگہ پر ہے۔
اسی طرح کتاب کا دعویٰ ہے کہ لکھنؤ کا آصف الدولہ کا امام باڑہ بھی مندر کی جگہ بنایا گیا ہے۔ اور تقریباً ہر جامع مسجد کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ سب کی سب مندروں کی بنیادوں پر بنائی گئی ہیں۔ وارانسی میں معاملہ صرف ایک گیان واپی مسجد ہی کا نہیں ہے ، دعویٰ ہے کہ وارانسی کی پنچ گنگا گھاٹ کی مسجد کو مندر کے ملبے سے تعمیر کیا گیا ہے ، سید فخرالدین صاحب علوی ؒ کی مسجد اور درگا ہ مندر کی بنیاد پر ہے ، 1669 کی تعمیر بندو مادھوا مسجد اصلاً بندو مدھوا مندر ہے ، بکریہ کنڈ کی مسجد اور مزار ایک مندر کے ملبے سے بنے ہیں ، آدم پورا کی اڈھائی کنگرہ کی مسجد ایک مندر کی جگہ پر ہے ، درہرہ مسجد بھی مندر کی بنیاد پر بنی ہے اور راج گھاٹ پر جو لال خان کا مزار ہے وہ بھی مندر پر ہے۔ گویا یہ کہ وارانسی کے مسلمانوں کو ، ایک گیان واپی مسجد ہی نہیں ، مزید سات مسجدیں اور مزاریں بچانی ہیں۔ کچھ یہی صورتِ حال متھرا کی ہے ، وہاں صرف شاہی جامع مسجد ( جسے کرشن جنم استھان کہا جاتا ہے ) پر ہی دعویٰ نہیں ہے ، فہرست میں مزید تین تعمیرات کا ذکر ہے ، کٹرا کے ٹیلے پر بنی جامع مسجد ، مزارِ شیخ فرید اور مزارِ مخدوم شاہ ولایت۔ دعویٰ ہے کہ ان سب کی تعمیر میں مندروں کے ملبہ کا ستعمال کیا گیا ہے۔
یہ تو یو پی کا ذکر تھا ، جبکہ پورے ملک کی اضلاع کی بنیاد پر فہرست دی گئی ہے ، اور مختلف اسلامی تعمیرات کو یا تو مندروں کی بنیاد پر کھڑا یا پھر ان کی تعمیر میں مندروں کے ملبے کے استعمال کی بات کہی گئی ہے۔ گجرات کی مثال لے لیں ، جہاں کی 170 اسلامی تعمیرات فہرست میں شامل کی گئی ہیں ، اور یوں لگتا ہے جیسے کہ احمدآباد کی ہر مسجد اور ہر درگاہ یا تو مندر کی بنیاد پر ہے یا مندروں کے ملبے کا ، ان کی تعمیر میں استعمال کیا گیا ہے۔
مہاراشٹر کا نام بھی کتاب میں اس دعویٰ کے ساتھ شامل ہے ، کہ یہاں 144 اسلامی عمارتیں یا تو مندروں پر تعمیر کی گئی ہیں یا پھر ان کی تعمیر میں مندروں کا ملبہ شامل ہے۔ مسجد عالمگیری ، پاتور ، کتاب کے مطابق مندر کی بنیاد پر بنائی گئی ہے ، درگاہ عبدالعزیز عرف شیخ بابو چشتیؒ ، اپرائی ، مندر کی بنیاد پر ، اورنگ آباد کی اورنگ زیب کی بنوائی ہوئی جامع مسجد ، مندر کی بنیاد پر ، اورنگ آباد ہی کی قلعہ کی مسجد ، مندر کی بنیاد پر ، جامع مسجد ، لال مسجد اور اورنگ زیب کا مقبرہ سب مندروں کی بنیاد پر ! بیڑ میں مزارِ سید رکن الدین ، مندر کی بنیاد پر۔ حد تو یہ ہے کہ ممبئی کے ماہم کے علاقہ میں واقع حضرت مخدوم مہائمیؒ کی درگاہ اور شہر کی مشہور قدیم جامع مسجد کو بھی اس کتاب میں مندروں کی بنیاد پر بتایا گیا ہے۔ چونکہ یہ کتاب" ہندوتوادی دانشوروں اور مورخوں " کی " تفتیش " کا نتیجہ ہے اس لیے اسے " خامیوں سے پاک قرار دیا جاتا ہے۔"
اور جب بھی سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیموں کو مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف تحریک شروع کرنے کی ضرعرت ہوتی ہے ، وہ اس کتاب کی فہرست سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ان دنوں قطب مینار اور ٹیپو سلطان کی مسجد کو مندر قرار دینے کے جو دعوے کیے جا رہے ہیں ، انہیں یہ کتاب تقویت دیتی ہے۔ کتاب میں دہلی کی کل 72 تعمیرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے ، کہ مسلم حملہ آوروں نے سات شہر تعمیر کرنے کے لیے اندراپت اور ڈھلیکا کو ان کے مضافات سمیت تباہ کر دیاتھا۔ کتاب کے مطابق ، قطب مینار ، قوۃ الاسلام مسجد (1198) ، شمس الدین التمش کا مقبرہ ، جہاز محل ، علال دروازہ ، علال مینار ، اور علاءالدین کا مقبرہ سمیت کئی یادگاروں ، مسجدوں ، مزاروں اور دیگر تعمیرات میں مندروں کا سامان استعمال کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں کرناٹک کی ٹیپو سلطان کی مسجد بھی شامل ہے۔ متعصب مورخین نے ، جیسے کہ رام چرن ودیارتھی ، قطب الدین ایبک اور التمش پر ہزاروں مندروں کو توڑنے کا الزام عائد کیا ہے ، اس لیے قطب مینار اور مسجد قوۃ الاسلام کو مندر بتایا جاتا ہے۔
تو یہ ہے منصوبہ ، ملک کو ' ہندو راشٹر ' بنانے کا۔ اس کے لیے یہ لازمی ہے کہ ' غیروں ' کے آثار مٹائے جائیں ، ان دنوں اسی پر زور ہے۔ بابری مسجد کی شہادت اسی منصوبے کا حصہ تھی اور اب گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی مسجد اسی منصوبے کے تحت نشانے پر ہیں ، اور کچھ اس طرح کہ قانون کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ اور جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا ہے ، نہ بابری مسجد آخری نشانہ تھی ، اور نہ گیان واپی مسجد آخری نشانہ ہے ، فہرست بڑی طویل ہے۔
بشکریہ: شکیل رشید فیس بک ٹائم لائن (ممبئی اردو نیوز، اتوار کالم، 22/مئی 2022ء)
khansh.rasheed[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں