سقوط حیدرآباد کے معاشی اور سماجی اثرات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-12

سقوط حیدرآباد کے معاشی اور سماجی اثرات

suqoot-e-hyderabad, Fall of Hyderabad

سقوط حیدرآباد کے بعد نئی حکومت نے متعدد ایسے اقدامات کئے ، جن سے مسلمانوں کی معاشی اور سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ ذیل میں ان اقدامات کا سرسری جائزہ مقصود ہے ، جو نئی حکومت کی جانب سے سقوط سے لے کر نومبر 1956ء میں ریاستوں کی لسانی بنیادوں پر تقسیم اور ریاست حیدرآباد کے مکمل خاتمہ تک عمل میں لائے گئے۔


حیدرآباد پر بھارتی فوجی قبضے کے بعد ایک ہی سال کے عرصہ میں جاگیر داری نظام ستمبر 1949ء میں ختم کر دیا گیا۔ اس اقدام سے نہ صرف وہ لوگ متاثر ہوئے، جن کی زمینیں اور اراضی ضبط ہوئیں، بلکہ وہ اور افراد خاندان بھی بے روزگار اور متاثر ہوئے جو پائیگاہوں اور جاگیرداروں سے منسلک تھے یا ان کے دفاتر میں کام کرتے تھے۔ منصب اور انعام سے بھی متعدد خاندان مستفید ہوتے رہتے تھے، یہ سلسلہ بھی ختم ہوا۔ جہاں تک سرکاری ملازمتوں کا تعلق ہے وہاں اونچے درجے کے ملازمین سرکار سب سے زیادہ متاثر ہوئے ، متعدد علیحدہ کر دئے گئے یا انہیں ان کے عہدوں سے تنزلی دے دی گئی۔ ان اقدامات سے تنگ آکر کئی لوگوں نے قبل از وقت وظیفہ لے لیا اور کچھ نے پاکستان کی راہ لی۔


ایک سال کے اندر اندر سرکاری نظم و نسق کے دفاتر اور عدالتوں کی زبان، جو اردو تھی، انگریزی کر دی گئی، جس سے اردو داں ملازمین کی کارکردگی میں فرق آیا اور ان کی ترقیاں رک گئیں۔ پولیس کے محکمے میں مسلمانوں کا تناسب شروع سے زیادہ تھا، لیکن ان کا یہ تناسب رفتہ رفتہ کم کر دیا گیا اور کچھ کو برطرف کر دیا گیا۔ حکومت کے بعض محکمے تو کلیتاً تحلیل کر دئے گئے، مثلاً محکمہ امور مذہبی، جس سے مسلمان خاص طور پر متاثر ہوئے۔ اپریل 1951ء میں حیدرآباد کی افواج باقاعدہ اور نظم جمعیت یا افواج بے قاعدہ دونوں تحلیل کر دی گئیں۔ چند ایک فوجی افسروں کے سوا، باقی سب فوجی جو ہزاروں کی تعداد میں تھے ، بے کار ہو گئے۔
اس طرح حیدرآبادی مسلم معاشرے کے وہ افراد جو جاگیروں اور سرکاری ملازمتوں پر تکیہ کئے ہوئے تھے۔ وہ بڑے مسائل و مصائب کا شکار ہو گئے۔ آزاد پیشوں سے وابستہ ڈاکٹر ، حکیم، وکلاء، صحافی ، ہنر مند اور اس قبیل کے دیگر پیشہ ور اس صورتحال سے قدرے بچے رہے۔ تجارت پیشہ مسلمان ہندوستان کی تاریخ کے ہر دور میں کم رہے، حیدرآبادمیں بھی کم تھے۔ بعد میں بھی ان کا یہی تناسب رہا۔
مسلمان مزدوروں، کسانوں اور دوسرے جز معاش لوگوں کی حالت بھی جو پہلے تھی، قریب قریب وہی رہی۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مولانا الطاف حسین حالی نے مسلمانوں کی حالت کی جو تصویر کشی کی تھی وہ اس سقوط حیدرآباد کے بعد ایک تلخ حقیقت بن کر حیدرآباد کے مسلمانوں پر صادق آ رہی تھی:
نہ اہل حکومت کے ہمزاز ہیں ہم
نہ درباریوں میں سرفراز ہیں ہم
نہ علموں میں اعزاز شایان ہیں ہم
نہ صنعت و حرفت میں ممتاز ہیں ہم
نہ رکھتے ہیں کچھ منزلت نوکری میں
نہ حصہ ہمارا ہے سوداگری میں


تعلیم کے میدان میں مسلمان شروع سے ہی پیچھے رہے۔ یہ صورتحال سقوط کے بعد مزید خراب ہو گئی۔ جامعہ عثمانیہ کا ذریعہ تعلیم اردو سے بتدریج انگریزی کر دیا گیا اور اس کا معروف و موقر دارالترجمہ جو اردو کی ترقی اور فروغ کے لئے مثالی خدمات انجام دے رہا تھا ، اگست 1954ء میں عملاً جلا دیا گیا۔ رفتہ رفتہ سرکاری، خانگی اور مشن اسکولوں سے اردو کا بحیثیت ایک اختیاری مضمون بھی خاتمہ کر دیا گیا۔ ماحول کے تقاضے اور ضرورت کے تحت خود اردو والے اردو سے بے نیازی برتنے لگے۔ اور اپنے بچوں کو اردو پڑھانے، سکھانے سے غافل ہو گئے۔ جس کے نتیجہ میں ایک ایسی نسل وہاں پیدا ہو گئی ہے جو اردو لکھنے اور پڑھنے سے نابلد اور معذور ہے۔ اگر یہ صورتحال تبدیل نہ کی گئی تو اردو وہاں صرف بول چال کی حد تک ہی رہ جائے گی۔


سقوط حیدرآباد کے نتیجے میں دکنی مسلمانوں کا ذہنی و فکری انتشار بھی بڑھ گیا۔ مسلمانوں کی ایک تعداد ہجرت کر کے پاکستان اور پھر مغربی ممالک چلی گئی اور کچھ لوگ موقع پرستی اختیار کر کے نئی حکومت کا دم بھرنے لگے۔ ہوا کی اس تبدیلی کو دیکھ کر کمیونسٹ تحریکات نے اپنا جال پھیلایا اور انجمن ترقی پسند مصنفین کا سہارا لے کر نوجوانوں کو اشتراکیت اور دہریت کی طرف بڑی کامیابی سے راغب کرنے لگیں۔ طلبہ اور مسلم نوجوانوں میں حالات کے رد عمل کے طور پر بھی الحاط اور کفر عام ہونے لگا اور اسلام "رجعت پسندی" کی علامت بن گیا۔ اس پر آشوب دور کی ایک اچھی اور حقیقت پسندانہ تصویر امیر جماعت اسلامی ہند مولانا محمد سراج الحسن نے جو اس زمانہ میں رائچور میں مقیم تھے، ان الفاظ میں اس طرح کھینچی ہے:


"(سقوط) کے بعد پوری ریاست میں مسلمانوں کے لئے جیسے کچھ حالات پیش آئے تھے، آج نہ ان کا تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ الفاظ میں انہیں بیان ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں میں خوف و دہشت، مایوسی و ناامیدی اور پست حوصلگی کی جو کیفیات پیدا ہو گئی تھیں، ان کو دیکھتے ہوئے اور رضا کار تحریک کے انجام کو سامنے رکھتے ہوئے اصلاح و سدھار کے مقصد سے ہی سہی ان کے لئے کسی اجتماعی سعی و جدو جہد اور اقدام کے بارے میں سوچنا بھی مشکل تھا۔ اشتراکیت سے متاثر، ایک دوست نے جو کہ عثمانیہ یونیورسٹی میں تعلیم پا رہے تھے ، چھٹیوں میں رائچور آئے ہوئے تھے۔ ایک ملاقات میں اسلام پر اور ہماری مذہبی زندگی اور سرگرمیوں پر ایسے سخت حملے کئے کہ جواب میں ہم سے کچھ بھی نہ بن سکا۔ سخت حیرت اور یاس کا عالم ہم پر طاری رہا۔ رات کروٹیں بدلتے گزری۔ صبح ایک خیال بجلی کی سی تیزی کے ساتھ آیا اور دل و دماغ میں بس گیا کہ عہد جدید کے ان سارے فتوں کا مقابلہ اگر ہو سکتا ہے تو بس تحریک اسلامی کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔
(ماخوذ از: "یادگار مجلہ بہ موقع چھٹا کل ہند اجتماع" جماعت اسلامی حیدرآباد،1981ء ص 123۔124۔)


ان حالات میں حیدرآباد میں ایک اور فکر ایک اور تحریک بھی ابھرتی ہے۔ یعنی سید خلیل اللہ حسینی (1926ء۔1992ء) بانی کل ہند مجلس تعمیر ملت نے نوجوانوں اور طلبہ کی غیرت کو للکارا۔ ان میں یقین و ایمان کی کیفیت پیدا کرکے انہیں آمادہ عمل کیا۔ اس ضمن میں ان کا ایک درج ذیل مراسلہ اخبار "رہنمائے دکن" مورخہ7/جون 1950ء میں شائع ہوا۔ جس میں انہوں نے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور تباہ حال ملت کی از سر نو تعمیر کامنصوبہ پیش کیا۔ اس دعوت پر فوری طور پر چند درد مند نوجوانوں نے لبیک کہا اور یوں یہ مراسلہ "بزم احباب" کے قیام کی شکل میں ایک بڑی اور موثر تنظیم کا نقطہ آغاز بن گیا۔ اور جو بالآخر "مجلس تعمیر ملت" کا نام اختیار کرکے مسلمانوں کی بہت مستعد اور فعال جماعت بن گئی۔ مذکورہ مراسلہ درج ذیل ہے:


ہمیں کیا کرنا چاہئے (مراسلہ: سید خلیل اللہ حسینی۔ اشاعت: روزنامہ 'رہنمائے دکن'، مورخہ: 7/ جون 1950ء)


جس طرح ہر شخص کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں کہ ناکامیوں اور مصیبتوں کے ہجوم سے سخت ہراسانی طاری ہو جاتی ہے اسی طرح ہر قوم کو ایسے مراحل سے سابقہ پڑتا ہے ، جب کہ سخت ناکامیاں افراد قوم کو دہشت زدہ اور مفلوج کر دیتی ہیں، لیکن جس طرح صبر و استقلال اور انتھک محنت سے افراد اپنی کشتی حیات کو طوفانی موجوں سے بچا کر نکال لیتے ہیں اسی طرح پر عزم مساعی سے قوموں کے دن پھر سکتے ہیں اور مایوسی کے ویرانے پر امید کے شگفتہ پھول مسکرا سکتے ہیں۔ مسلمان آج اگر جی چھوڑ بیٹھیں اور جدوجہد سے باز آجائین تو کھوٹی دھات کی طرح جل کر راکھ ہو جائیں گے۔ اس کے برخلاف اگر وہ استقامت کے ساتھ مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کریں تو کرب و بلا کی اس دہکتی بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے اور دنیا کے بازار میں اپنی مناسب قیمت منوا کر رہیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ بیتے دن لوٹ نہیں سکتے، سیاست کے دفن شدہ مسائل سر نہیں اٹھا سکتے لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی قوم کے باقی رہنے کے لئے سیاست کا سہارا ہی سب کچھ نہیں۔ مذہب، معیشت اور سماج کے بہت سے مسائل ہیں جن کو جرات اور دانشمندی سے حل نہ کیا گیا تو شاید اسپین کے واقعات تازہ ہو جائیں۔ مسلمانوں کی قوت کا اصلی سرچشمہ اسلام ہے۔ نئی نسلوں تک اسلامی تعلیمات کا پہنچانا وقت کا سب سے اہم فریضہ بن گیا ہے۔ اس کام میں ملت کے ایسے بزرگ زیادہ تعاون کر سکتے ہیں جو وظیفہ پر ملازمتوں سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور کافی فرصت رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بزرگان ملت اپنے آپ کو بساط حیات کے پٹے ہوئے مہرے سمجھ کر مہر بلب ہیں اس لئے مسلم نوجوانوں اور طالب علموں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر خود اس کام کو سنبھالیں۔ اپنے محلوں میں علمی و ادبی اور مذہبی انجمنیں قائم کریں۔ یہ انجمنیں ہفتہ وار جلسے کیا کریں۔ ان جلسوں میں تقریریں کی جائیں اور مضامین پڑھے جائیں اور ملت کے صاحب علم افراد کی توسیعی تقاریر رکھی جائیں ، تاریخی اہمیت رکھنے والے یوم منائے جائیں اور تقریروں کے ذریعہ محلہ کے مسلم عوام کو اسلامی تاریخ کے نمایاں واقعات سے روشناس کرایا جائے۔
اس کام کے لئے نہ کسی شوروہنگامہ کی ضرورت ہے نہ کسی بڑی تنظیم کی۔ کوئی قانون اس راہ میں حائل ہے اور نہ روپے یپسے کی چنداں ضرورت ہے۔ یہ کام زیادہ وقت اور بے حد محنت طلب بھی نہیں۔ تاجر تجارت کرتے ہوئے، ملازم ملازمت کرتے ہوئے اور طالب علم علم حاصل کرتے ہوئے یہ کام کر سکتے ہیں۔ بظاہر یہ کام شاندار نہیں لیکن اگر یہ بنیاد مضبوط ہو جائے تو عمارت اٹھانا مشکل نہیں۔ مسلم نوجوان اور طالب علموں پر زمانہ نے بڑی بھاری ذمہ داری عائد کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ بڑھ کر اس کام کو سنبھال لیتے ہیں یا ملت کی تباہی کی آخری تمنا کرتے ہیں۔
فقط: خلیل اللہ حسینی۔


جماعت اسلامی اور مجلس تعمیر ملت کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں کمیونسٹوں کی مذموم کوششیں ناکام رہیں۔ سقوط کے بعد مسلمانوں میں اشتراکیت کے اثرات کے حوالے سے عمر خالدی نے حیدرآباد کے مشہور مزدور رہنما اور کمیونسٹ راج بہادر گوڑ سے 8/جولائی 1990ء کو ایک انٹرویو لیا تھا، اس ضمن میں ڈاکٹر گوڑ کا کہنا تھا کہ 1948ء سے تقریباً 1960ء تک مسلمانوں نے اگرچہ کمیونسٹوں سے دوستی کی یا ساتھ نبھایا۔ مگر یہ بغض معاویہؓ تھا، حب علیؓ نہیں۔ یہاں تک کہ اردو کے مقبول شاعر مخدوم محی الدین (1910ء۔1969ء) 1952ء کے پہلے پارلیمانی انتخابات میں حیدرآباد سے امیدوار بنے ، مگر ہار گئے۔ 1957ء میں آندھرا پردیش ریاستی اسمبلی کے لئے بھی وہ پھر کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے مگر معصومہ بیگم نے ان کو ہرا دیا۔ آخر کار مخدوم کو ریاستی قانون ساز کونسل کے لئے ہماری (کمیونسٹ پارٹی) نے بالراست انتخاب کے ذریعہ کونسل میں نشست دلائی۔


اس مثال سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے صرف ایک قلیل طبقہ نے کمیونسٹوں کی تائید کی اور مسلمانوں کی غالب اکثریت نے اشتراکیت کو رد کر دیا۔
سقوط کے بعد سابق حکومت کے بعض اعلیٰ عہدے داروں ، رضا کار تحریک کے قائدین، صحافی اور دیگر زعماء پاکستان ہجرت کر گئے۔ ستمبر 1957ء میں مجلس اتحاد المسلمین کے قائد سید محمد قاسم رضوی نے بھی پونہ جیل سے رہائی حاصل کی تو رہائی کے ایک ہفتہ بعد پاکستان ہجرت کر گئے۔ جہاں انہوں نے 1970ء میں انتقال کیا۔
سقوط کے بعد حالات اتنے سنگین ہو گئے تھے کہ لوگ ہجرت کرتے وقت اپنے ارادے کو عام نہ کرتے، یہاں تک کہ قریبی عزیزوں بلکہ بعض اوقات تو اپنے اہل خانہ کو بھی اپنے منصوبے اور اپنی روانگی سے بے خبر رکھتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بھارت میں تو مسلمان حکومت کی نظر مشتبہ تھے اور پاکستان میں حالات اتنے قابل اطمینان بخش نہ تھے کہ فخریہ اپنی ہجرت کے ارادے کا ذکر کیا جاتا۔ گو نوعیت مختلف تھی ، لیکن حالات دونوں جگہ سازگار نہ تھے۔
آج پاکستان میں حیدرآبادی مہاجر تقریباً ہر شہر میں آباد ہیں۔ لیکن ان کی بڑی تعداد سندھ میں آباد ہوئی جہاں کراچی، حیدرآباد، اور سکھر میں ان کی تعداد خاصی نمایاں ہے۔ کراچی میں ان کی متعدد آبادیاں ان سے مخصوص ہیں۔ حیدرآباد کالونی میں متوسط طبقہ آباد ہے ، جب کہ متمول طبقہ بہادر آباد میں رہتا ہے۔ غریب طبقہ نے لانڈھی کے مختلف علاقے آباد کر رکھے ہیں، بہادر یار جنگ اکیڈمی ابتداء ہی سے حیدرآبادیوں کے درمیان رابطہ کا ایک اہم ادارہ اور مرکز ہے۔ اس کے علاوہ "محفل علم و ادب" اور طلبائے قدیم جامعہ عثمانیہ کی تنظیم "مجلس طبلسانین جامعہ عثمانیہ" بھی ان کے درمیان فعال رہی ہیں۔


حیدرآباد کے ان مہاجرین کی پاکستان میں آمد پاکستان کے لئے بار نہیں بلکہ اس کے استقلال، استواری اور استحکام کا باعث ہوئی۔ مالی اعتبار سے بھی وہ پاکستان کے لئے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ سقوط حیدرآباد سے قبل ہی پاکستان میں مملکت حیدرآباد کی جانب سے مشتاق احمد خان کو مملکت آصفیہ کا ایجنٹ مقرر کیا گیا تھا اور اسٹیٹ بینک قائم ہو چکا تھا جس میں مملکت حیدرآباد کا کروڑوں روپیہ جمع تھا۔ آج بھی اسٹیٹ بینک کے لئے خریدی ہوئی جائیداد "وکٹوریہ چیمبرز" عبداللہ ہارون روڈ پر موجود ہے جس پر ناجائز قبضہ ہے اس کی بازیابی کے لئے کارروائی جاری ہے۔ کلفٹن کی وہ عمارتیں بھی جو حیدرآباد نے خریدی تھیں، پاکستان کے سپرد کر دی گئیں۔ اسٹیٹ بینک کی رقم اور دیگر ذرائع سے باون کروڑ روپے حکومت پاکستان کے حوالے کئے گئے۔ یورپی ممالک کے بینکوں میں جو رقومات حیدرآباد کی جمع تھیں وہ بھی حکومت پاکستان کو منتقل کر دی گئیں۔ ہتھیاروں سے بھرے ہوئے جہاز جو حیدرآباد نے منگوائے تھے وہ ساحل کراچی اور چٹگام پر ٹھہرے ہوئے تھے، سڈنی کاٹن کے ذریعہ حیدرآباد بھجوانے کا منصوبہ تھا لیکن بھارت کے حملے کی وجہ سے وہ پاکستان ہی کے ہاتھ آئے۔ نواب حسن یار جنگ کا بیان ہے کہ: "سڈنی کاٹن کے جہازوں کے ذریعے جو سونا پاکستان منتقل کیا گیا وہ حکومت پاکستان ہی کو ملا۔"


1950ء میں وزیر اعظم حیدرآباد میر لائق علی، جو سقوط کے فوری بعد نظر بند کر دئیے گئے، معجزانہ طور پر فرار ہوکر پاکستان آ گئے اور نواب زادہ لیاقت علی خاں وزیر اعظم پاکستان کی تجویز پر انہوں نے حیدرآباد ٹرسٹ قائم کیا، جس کے تحت متعدد صنعتی کارخانے قائم کئے گئے مثلاً دیا سلائی کا کارخانہ، کانچ اور چینی کے برتن بنانے کا کارخانہ ، پکی سرخ خلادار اینٹوں کا کارخانہ اور سائیکل بنانے کے کارخانے وغیرہ قائم ہوئے۔
ان میں حیدرآباد کے مہاجرین کو جو بے روزگار ہوتے ملازمت دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان کی صنعتوں کے لئے کاریگروں کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ان میں مختلف فنون کی تعلیم کا انتظام تھا۔ اس طرح پاکستان میں قائم ہونے والے صنعت و حرفت کے لئے تربیت یافتہ ہنر مند افراد مہیا کئے جاتے تھے۔ مہاجرین کے بچوں کے لئے بہادر یار جنگ اسکول قائم کیا گیا جس میں بلا امتیاز تمام مہاجرین کے بچوں کی تعلیم کا انتظام تھا۔ یہ اسکول آج بھی قائم ہے۔ اسی ٹرسٹ کے زیر انتظام ایک دواخانہ کھولا گیا جس میں تمام مہاجرین کا خواہ ان کا تعلق کسی جگہ سے رہا ہو نہایت عمدہ علاج کیا جاتا ہے اس دواخانہ سے ملحق ایک زچہ خانہ بھی ہے جو ضرورت مند خواتین کی بلا لحاظ قوم و علاقہ خدمت انجام دے رہا ہے۔


ایک ٹائپنگ انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کیا گیا تھا، جہاں ٹائپنگ کے علاوہ اکاؤنٹنگ اور بک کیپنگ کی تعلیم کا معقول انتظام تھا۔ جہاں سے سیکھ کر مہاجرین اس خلاء کو پر کر رہے تھے جو ہندوؤں کے چلے جانے سے پیدا ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک پریس اور ایک ادبی ادارہ "کاروان ادب" بھی قائم ہوا۔
اہل حیدرآباد تقریباً 1971ء تک پاکستان ہجرت کرتے رہے۔ پھر ایک تو سانحہ سقوط ڈھاکہ نے پاکستان کی جانب جانے سے ان کے قدم روک دئیے ، تو دوسری جانب مغربی ممالک میں آباد کاری کے مواقع اور دستیاب سہولتوں نے انہیں ادھر کھینچ لیا۔ خلیج فارس اور سعودی عرب کے تیل نے بھی ان کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے۔ اب تو یہ صورت ہے کہ خود حیدرآباد میں حیدرآبادیوں کی کمی محسوس ہونے لگی ہے۔


ماخوذ از کتاب: سقوط حیدرآباد - منظر اور پیش منظر
مرتبین: ڈاکٹر عمر خالدی، ڈاکٹر معین الدین عقیل (سن اشاعت: ستمبر 1998ء)

The economic and social effects of the fall of Hyderabad. Essay: Dr. Omar Khalidi and Dr. Moinuddin Aqeel

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں