تاریخ کو مسخ کرنے کا خطرناک کھیل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-01

تاریخ کو مسخ کرنے کا خطرناک کھیل

dangerous-game-of-distorting-history

مغل اور مسلم تاریخ کو درسی کتابوں سے نکالنا کیا 'صفائے' اور 'تطہیر' کا عمل نہیں ہے؟
تو نصابی کتابوں سے مغل اور مسلم تاریخ کا 'صفایا' کر دیا گیا!


مودی اور بی جے پی کی مرکزی سرکار کے اس عمل کو محض 'تاریخ کا بھگوا کرن' کہنا درست نہیں ہے۔ نہ ہی اسے 'تعلیمی پروپگنڈہ' کہنا، مکمل سچ ہے۔ یہ عمل 'صفائے' کا عمل ہے ، 'تطہیر' کا عمل ہے۔ اسے ایک مذہب اور ایک فرقے کی ' نسل کشی ' بھی کہا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس کی تاریخ کا صفایا کر دیا جائے گا ، اس کی نسل کہاں باقی رہ سکے گی ، مٹ جائے گی۔


ابھی کوئی ایک ہفتہ قبل ہی یہ خبر آئی ہے کہ 'سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن' (سی بی ایس ای) نے نصاب کی کتابوں سے افریقی- ایشیائی خطوں میں اسلامی مملکتوں کے پھلنے پھولنے اور قیام سے متعلق ابواب ہٹا دیئے ہیں ، ساتھ ہی ساتھ بھارت میں مغل حکومت کے ابواب بھی نکال دیئے ہیں۔ مزید جو ابواب ہٹائے گیے ہیں ، وہ 'ناوابستہ تحریک'، ' سرد جنگ' اور ' صنعتی انقلاب' سے متعلق ہیں۔ ایک باب 'غذائی تحفظ' سے متعلق ہے ، اس میں سے 'زراعت پر گلوبلائزیشن کے اثرات' کے عنوان سے ایک موضوع تھا ، اسے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
ایک حصہ مذہب ، فرقہ پرستی ،سیاست اور سیکولر ریاست کا تھا ، اس حصے سے اردو زبان کے مشہور انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی نظموں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ ابواب 'تاریخ' اور ' سیاست' کی نصابی کتابوں میں شامل تھے۔ تبدیلیاں 'نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ' ( این سی ای آرٹی) کی تجاویز پر کی گئی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف سی بی ایس ای کی نصابی کتابوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں ، صوبائی تعلیمی بورڈوں نے بھی نصابی کتابوں میں تبدیلیاں کی ہیں ، مہاراشٹر کی مثال لے لیں جہاں بی جے پی اور شیوسینا کی سابقہ حکومت میں مہاراشٹر اسٹیٹ ایجوکیشن بورڈ نے ساتویں اور نویں جماعتوں کی ' تاریخ' کی نصابی کتابوں سے مغل دور کو حذف کیا اور درسی کتابوں میں ' مراٹھا دور، بالخصوص شیواجی کے دور' کو مکمل طور پر شامل کیا تھا۔ مہاراشٹر کی تاریخ کی درسی کتابوں سے تاج محل ، قطب مینار اور لال قلعے کا تذکرہ مکمل طور پر غائب سا ہے۔ ہاں بوفورس گھوٹالے ، ایمرجنسی وغیرہ کے ذکر کو شامل کر دیا گیا تھا۔


سوال یہ ہیکہ یہ تبدیلیاں کس لیے ہیں ؟
اس سوال کا جواب مودی کی مرکزی اور بی جے پی کی صوبائی حکومتوں کے ' اعمال ناموں' پر ایک نظر ڈال کر بخوبی ہو جاتا ہے۔ اترپردیش کی مثال لے لیں ، وہاں جب سے یوگی آدتیہ ناتھ وزیراعلیٰ بنے ہیں۔۔۔ اب تو یہ ان کا دوسرا ٹرم ہے۔۔۔ انہوں نے اُن تمام شہروں کے ناموں کو ، جو مسلم شناخت کو ظاہر کرتے تھے ، تبدیل کرنا ، یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ حرفِ غلط کی طرح مٹانا شروع کردیا ہے۔ فیض آباد ضلع کا نام ایودھیا کردیا گیا ہے ، الہ آباد کا نام پریاگ راج رکھ دیا گیا ہے ، مغل سرائے ریلوے اسٹیشن کو دین دیال اپادھیائے جنکشن کر دیا گیا ہے۔ علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کرنے کی تیاری ہے۔۔۔ تاکہ جس طرح اکبرالہ آبادی کو اکبر پریاگ راجی کر دیا گیا اسی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ہری گڑھ مسلم یونیورسٹی کر دیا جائے۔


ابھی ابھی بی جے پی کے کئی لیڈروں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ دہلی کے اطراف کے 40 گاؤں کے نام تبدیل کردیئے جائیں۔ اس تجویز کو آگے بڑھانے میں دہلی بی جے پی کے صدر آدیش گپتا پیش پیش ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ حال ہی میں جنوبی دہلی کے محمد پورنام کے ایک گاؤں کا نام تبدیل کرکے مادھو پورم رکھا گیا ہے ، اس کو بی جے پی اور سنگھی ایک بڑی کامیابی مان رہے ہیں اور یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ مزید 40 گاوؤں کے نام تبدیل کر دیے جائیں۔ فہرست تیار کرلی گئی ہے اور جلد ہی ناموں کی تبدیلی کی تجویز دہلی حکومت کو ، بذریعہ کارپوریشن بھیج دی جائے گی۔
آدیش گپتا کا کہنا ہے کہ یہ نام 'غلامی کی علامت ہیں' اور یہ کہ ' لوگ خود ان ناموں کی تبدیلی کے خواہاں ہیں'۔ حالانکہ دہلی کی کیجریوال سرکار نے بی جے پی پر یہ کہہ کر سخت تنقید کی ہے کہ جب بی جے پی کارپوریشن پر خود حکومت کر رہی تھی تب یہ نام کیوں تبدیل نہیں کیے گیے ؟ لیکن اندازہ یہی ہے کہ ناموں کو تبدیل کر دیا جائے گا۔ ناموں کی تبدیلی کا یہ عمل ہر اس ریاست میں ہو رہا ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ مہاراشٹر میں بھلے بی جے پی کی حکومت نہ ہو مگر شیوسینا ، وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے جس کے سربراہ ہیں ،عرصۂ دراز سے اورنگ آباد کا نام سمبھاجی نگر کرنے کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے ، ممکن ہے کہ یہ مطالبہ پھر شدت اختیار کرے ، اور اس بار اسے مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے اور بی جے پی کے لیڈران اٹھائیں۔


مسلم ناموں کی تبدیلی کے اس عمل کا مقصد کیا ہے ؟ ا س سوال کا جواب بہت ہی آسان ہے ، لوگوں کے حافظے سے اس سچ کو کہ اس ملک پر مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی ، مغلوں کی حکومت تین سوسال رہی ، نکال دیا جائے۔ لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات کھرچ کر پھینک دی جائے کہ مسلم حکمرانوں نے اس ملک کو سونے کی چڑیا بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
یہاں تعمیرات کے فن کو عروج پر پہنچایا تھا او رملک کو لال قلعہ و تاج محل جیسی عالیشان عمارتیں دی تھیں۔ ادب و ثقافت کو مالا مال کیا تھا۔ اور یہ کہ ان کے دورِ حکومت میں مذہبی جبر کے واقعات شاذونادر ہی ہوتے تھے ، وہ گنگا جمنی تہذیب کے نمائندے تھے۔مغل تاریخ مٹانے کا مقصد اس بات پر زور دینا بھی ہے کہ اس ملک کی ترقی میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور یہ بھی بتانا ہیکہ ملک کی آزادی میں نہ ان بادشاہوں کا کوئی حصہ ہے اور نہ ہی مسلمانوں کا۔


خیر ، مسلم مجاہدین آزادی کے ناموں کا ، درسی ونصابی کتابوں سے ، نکالے جانے کا عمل تو بہت پہلے شروع ہو گیا تھا، اتنا پہلے کہ آج مسلمانوں کی جو نئی نسل ہے اسے بھی یہ پتہ نہیں ہے کہ اس ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں کی قربانیاں کیا ہیں! انہیں یہ نہیں پتہ کہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اس لیے رنگون میں قید کیا گیا تھا کہ وہ مجاہد آزادی تھے اور صرف قیدہی نہیں کیا گیا تھا ان کے دوبیٹوں کے سروں کو کاٹ کر طشت میں سجاکر ان کے سامنے پیش کیاگیا تھا۔
سچ یہی ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی کہانی اور تاریخ مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔ دہلی کے انڈیا گیٹ پر 95,300 مجاہدین آزادی کے نام تحریر ہیں جن میں سے 62,945 نام مسلم مجاہدین آزادی کے ہیں۔ آزادی کی جدوجہد تو 1780ء میں ہی شروع ہوگئی تھی جب مجاہد آزادی ٹیپوسلطان نے انگریزوں سے ٹکر لی تھی۔ اب تو درسی اور نصابی کتابوں سے ٹیپو سلطان کا نام ہٹانے کی بھی تجویز آگئی ہے ، بلکہ کرناٹک میں جہاں بی جے پی کی سرکار ہے ، اس پر عمل شروع ہوچکا ہے۔


ہماری آج کی نسل نہ تو اشفاق اللہ شہید کو جانتی ہے ، نہ ہی امیر حمزہ ، مولانا محمود حسن ، مولانا کفایت اللہ ، مولانا برکت اللہ بھوپالی کو۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا آزاد اور مولانا محمد علی جوہر ومولانا حسرت موہانی تک کو بھلا دیاگیا ہے۔ اور آنے والے دنوں میں تو یہ نام لوگوں کو قطعی یاد نہیں رہیں گے۔ تو اب ہویہ رہا ہیکہ جن کی ایک روشن تاریخ ہے انہیں ہی تاریخ سے حذف کیا جارہا ہے ، اور جن کی کوئی تاریخ نہیں ہے ، جیسے کہ سنگھ پریوار ، جونہ آزادی کی لڑائی میں شامل تھا اور نہ ہی آزادی کی تحریک میں ، وہ انہیں تاریخ میں شامل کررہا اور کروا رہاہے جن کانہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ہے نہ ہی قوم کی ترقی میں۔


ظاہر ہیکہ جس قوم کی تاریخ مٹادی جائے گی وہ قوم ازخود مٹ جائے گی۔ آر ایس ایس کی ، بی جے پی کی مرکزی وصوبائی حکومتوں کے توسط سے یہی کوشش ہے کہ اس ملک کی مسلم تاریخ کو مٹادیا جائے ، تاکہ اس ملک کے مسلمان بغیر کسی تاریخ کے رہ جائیں۔ یہ بھی ' نسل کشی' کا ہی ایک طریقہ ہے۔ اسے 'تطہیر' اور 'صفایا' بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس ' تطہیر' اور ' صفائے' کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے گذشتہ 98 سالوں سے کوشش جاری ہے اور آنے والے دوسالوں میں اس پر مکمل طور پر عمل درآمد کی تیاری ہے۔ دوسال بعد 27ستمبر 2025ء کو آر ایس ایس کے قیام کو پورے سوسال مکمل ہوجائیں گے ، اس کے لیڈروں نے آزاد ، جمہوری، سیکولر بھارت کو ' ہندوراشٹر' میں تبدیل کرنے کے لیے سوسال کی مدت طے کی تھی، لہٰذا سوسال ہوتے ہی یہ ملک مکمل' ہندوراشٹر' میں تبدیل ہوجائے گا۔
ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہوسکے کہ ظلم بہت دنوں تک نہیں چلتا ،لیکن ان کی پوری کوشش یہی ہے۔ تین سال قبل 2019 میں انگریزی زبان میں ایک کتاب آئی تھی جس کا نام ہے ' دی آر ایس ایس روڈ میپ فور دی ٹوئینٹی فرسٹ سنچری' یعنی اکیسویں صدی کے لیے آر ایس ایس کا منصوبہ۔ یہ کتاب سنیل امبیکر کی لکھی ہوئی ہے ، جو سنگھ کے اعلیٰ درجہ کے ' پرچارک' اور کھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد( اے بی وی پی) کے، جو بی جے پی کی طلباء تنظیم ہے ، آرگنائزنگ سکریٹری ہیں۔
ان کی اس کتاب میں ایک باب ' بھارت کی تاریخ' کے عنوان سے ہے۔ اس باب میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ جو تاریخ آج پڑھائی جاتی ہے اس میں نہ 'سوتنترا' ( آزادی) ہے اور نہ ہی ' سوادھرما' ( اپنا خود کا دھرم) لہٰذا یہ تاریخ 'بھارتیتا' کے خلاف ہے، مسخ ہے ، اس میں سے قبائلی تاریخ نکال دی گئی ہے ، لہٰذا اسے درست کرناہے۔اورسنگھ تاریخ کو ' درست' کرنے کا مشن لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی تاریخ کو تحریر کرنے کا منصوبہ بڑا ہی اہم ہے ، اور اس سوال پر غور ضروری ہے کہ ہمارے اقدار کیا تھے ؟ اس سوال کے جواب میں وہ ویدوں اور اپنشدوں کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "ہندوستان کا دھارمک اتہاس (تاریخ) ایک خزانہ ہے۔" وہ سوشل ہسٹری' یعنی ' سماجی تاریخ' کا بھی ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ آر ایس ایس ' اکھیل بھارتیہ اتہاس سنکلن یوجنا' کے تحت ، تاریخ کےسوالوں کے جواب کھوجنے اور جواب دینے کے لیے محضوص تاریخی منصوبوں پر کام کررہا ہے۔
یہ کام کیا ہے ؟"مسخ بھارتی تاریخ کو درست کرنا"۔
اسے اگر میں "مسخ تاریخ کو مزید مسخ کرنا" کہوں تو شاید زیادہ درست ہوگا۔ وہ بتاتے ہیں کہ "تعلیم کا بھارتیہ کرن کیا جائے گا " اس میں "پرواسی بیانیہ کی شمولیت ہوگی" اور "متعصبانہ تعبیرات کو حذف کر دیا جائے گا۔" وہ رام مندر کی بھی بات کرتے ہیں اور نئے میوزیم گھروں کی بھی تاکہ "گمشدہ تاریخ کی بازیافت کی جاسکے "۔
تو یہ ہے پورا منصوبہ ، اور سال 2022-23ء سے اس منصوبے پر عمل شروع ہو رہا ہے۔ ابھی تو درسی کتابوں سے ہی مسلم اور مغل نام ہٹاکر فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ خلیج کو مزید وسیع کرنے کا خطرناک کھیل شروع ہوا ہے ، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!


Dangerous game of distorting history. Analysis: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں