میری صلح کل کی داد دیجئے کہ میرے کچھ شاگردوں کو لگتا ہے میں باقاعدگی سے نماز تراویح ادا کرتا ہوں جیسے کچھ شاگردوں کو لگتا ہے میں بھجن کیرتن کرتا ہوں گا اور کچھ کو لگتا ہے کہ مکتی سنگھرش میں کالم لکھتا ہوں گا۔
خیر ان کے خیالوں سے تو مسئلہ نہیں ہوتا مگر مشکل تب ہوتی ہے جب یہ تینوں ایک ساتھ مل جائیں۔
ایسے ہی اچانک ایک دن علی قلی مرزا سے ملاقات ہو گئی (انشائیوں میں مرزا صاحب آہی جاتے ہیں)۔ میرے خیال سے ماہ مبارک کا دینی تشخص اپنی جگہ لیکن انسان کچھ فطرتاً بھی اس مہینے سے مانوس ہوتا ہے، اسلئے کہ اس میں روحانیت بھی ہے اور زمانہ بھی محدود ہے، نماز سال کے بارہ مہینے، ہے سو طبیعت ادھر نہیں آتی۔
قصہ مختصر بیس رمضان المبارک کو مغرب کی نماز سے فارغ ہوا تو میرے ایک شاگرد نے کہا سر ان سے ملیے، یہ ہمارے بڑے بھائی ہیں۔ ایک لمبے تڑنگے انسان نے مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھایا اور میں نے پہچان لیا، خیر جب زبان پہ مرزاپور آکر واپس چلا گیا تو میں نے پوچھا، آپ کا اسم گرامی؟ انہوں نے کہا علی قلی مرزا۔ پھر شاگرد نے لقمے دیکر تعارف مکمل کرایا جس کی چنداں ضرورت نہ تھی، اور اس بندے نے ایسی شستہ فارسی میں گفتگو شروع کر دی کہ دل نے کہا بھائی جوہر تم نے فارسی کلاس میں غزلیں نہ لکھ کر بہت اچھا کیا۔
کہنے لگے آپ شاعر ہیں؟ یہ ڈینگ اسی شاگرد نے ماری ہوگی۔ اب اس موقعے پہ میرا جو چہرہ بنتا ہے وہ شاید کسی رومانوی فلم میں کاسٹ ہوجانے کیلئے کافی ہو۔
جی فرمائیے!
آپ نے کچھ لکھا ہے؟
میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی سن تو نہیں رہا کہ امام صاحب علی قلی کے ساتھ کون سی ڈیل کر رہے ہیں۔
ممبئی کی ایک چیز اچھی ہے کہ کوئی کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتا چاہے پردھان منتری ہی ہو، سو ڈھائی تین سو کے مجمعے میں ایک بھی بندہ علی قلی کو بھاؤ دینے والا نہیں تھا۔
میں نے کہا: "کچھ غزلیں لکھی ہیں مگر سب پرانی ہیں، خیر چلیں غریب خانے پہ چائے پلاتا ہوں اور وہاں آرام سے گفتگو کرتے ہیں"۔
ممبئی والے چائے کا انکار کبھی نہیں کرتے سو کسی طرح باہر نکلے، چائے پہ علی بھائی نے میری ایک انوکھی صلاحیت دریافت کرتے ہوئے کہا کہ آپ ڈائرکشن میں کیوں نہیں آ جاتے؟ میں نے کہا جی بالکل! بس گھر والوں سے ایک تحریری اجازت لینی ہوگی کہ بہت ہوئی تبلیغ اب کچھ گانا بجانا ہو جائے۔
اتفاقاً ان کے ساتھ ایک اور بندہ بھی تھا اور مسلسل خاموش، میں نے میزبانی کے فرائض کا حصہ سمجھ کر پوچھا: اور جناب کی تعریف؟ مرزا صاحب نے کہا یہ تیاگی بھائی ہیں۔
میں سناٹے میں آ گیا کہ کمال ہے یار، یہ اس بندے کو مسجد میں افطار کرانے لایا تھا؟
مرزا صاحب نے میری بے چینی بھانپ کر کہا کوئی بات نہیں یہ کنورٹ ہو چکے ہیں۔۔۔ ارے بھائی! میری اہلیہ بھی سردارنی تھی، دونوں کو میں نے اپنی محنت سے کنورٹ کر لیا ہے۔
کہتے ہیں پاکستانی صدر ضیاء الحق نے ایک عالم دین سے کہا میں پورے پاکستان میں اسلام نافذ کرنا چاہتا ہوں، ان بزرگ نے ضیاء کے جسم کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ پہلے اس میں اسلام نافذ کرلو پھر پاکستان میں کرنا۔۔۔
ایسا ہی کچھ تاثر میرا بھی تھا مگر اللہ بدگمانی سے محفوظ رکھے اور نو مسلموں کی توفیق میں اضافہ کرے۔
مرزا صاحب سے کافی دیر بات ہوئی اور ان کی مذہبی امور میں دلچسپی سے محسوس ہوا کہ بالی ووڈ والوں کو ہم جتنا لاخیرا سمجھتے ہیں اتنے وہ ہوتے نہیں۔ (خدارا یہ نہ سوچیں کہ ڈائرکشن میں قدم رکھنے کیلئے ماحول سازی کر رہا ہوں)
خیر! میرا وہ شاگرد سنگر تھا، اور علی قلی کے ساتھ کسی کمپوزنگ میں لگا ہوا تھا، دونوں بضد کہ آپ کو اپنی صلاحیتیں دکھانی چاہییں اِن سے ملواتا ہوں، اُن سے ملواتا ہوں، لیکن قبل اس کے کہ وہ کہیں چلئے کسی دن سلمان بھائی سے ملوا دوں، میں نے خدا حافظی کرلی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں