بلا شبہ ماہ رمضان ایک بابرکت اور رحمتوں والا مہینہ ہے، اس کی برکتوں و رحمتوں سے ہم جیسے نہ جانے اللہ کے کتنے بندے سرشار ہوتے ہیں۔ اس ماہ کی ہر گھڑی مبارک اور ہر لمحہ مقبول ہوتا ہے، اور چہار سو روحانی ماحول کا ایک سماں ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے مالک کے قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش میں ہوتا ہے، نیک اعمال کی دھن اور برائیوں سے مکمل اجتناب کی کوشش رہتی ہے۔ اور کیوں نا ہو ؟ جب خداوند نے ایک نیک عمل کے بدلہ ستر گنے ثواب کا آفر دے رکھا ہے اور اس مہینے کو اچھے سے گزارنے پر "وی وی آئی پی" گیٹ ( باب الریان ) سے جنت میں انٹری کا اعلان کیا ہے۔ الغرض یہ مبارک مہینہ انسانوں کے لئے سراپا رحمت اور برکت بن کر آیا ہے۔
ہم جیسے گنہگار بندہ پر بھی اس مہینے کے احسانات کم نہیں ہیں، کہ جیسے ہی رمضان کا چاند نکلا ویسے ہی اللہ کے فضل سے ہر وقت ٹننن۔۔ ٹننن۔۔ پیغامات آنے بند ہو گئے، واٹساپ گروپ میں ہر وقت لگنے والا ٹریفک ختم ہو گیا، اور واٹساپ کی گلیوں کی فضا بہت پرسکون ہو گئی۔ کچھ دیر بعد پتہ چلا، کہ یہ سب میسیج بھیجنے والے رمضان کی برکت سے قید کر دئے گئے ہیں، میری دعا ہے کہ فرشتے ان کے ساتھ زیادہ سختی نہ کریں۔
اسی طرح عام دنوں میں ضرورت کے وقت جو لوگ فون کرتے تھے، اور میرے ریسیو نہ کر پانے پر جو بےجا ہھڑکتے تھے، اب رمضان کی برکت سے لوگوں کا یہ رویہ ختم ہو گیا۔ کیونکہ میرے بیک کال کرتے ہی آج کل وہ خود ہی کہہ دیتے ہیں: " اچھا، رمضان چل رہا، سو رہے ہو گے، اسی لئے فون رسیو نہیں کر پائے، کوئی بات نہیں"۔
ہم نے روزہ کی شروعات آج سے دس گیارہ برس قبل شوقیہ طور پر کی تھی، تین چار سالوں تک شوق سے رکھتے رکھتے یہ عادت کب فرضیت میں بدل گئی، پتہ نہیں چلا۔ اب اس کا سلسلہ تا ہنوز جاری و ساری ہے، مگر دس گیارہ برسوں کے بعد بھی سحری کے وقت اٹھنے والی ناگفتہ بہ حالت جوں کی توں قائم ہے۔ ہمیں الحمدللہ جلدی اٹھنے کی عادت نہ کبھی رہی ہے، اور نہ آئندہ بہتری کی امید ہی کی جا سکتی ہے، چاہے سحری میں اٹھانے والی کوئی نئی نویلی پیکر ہی کیوں نہ آ جائے۔ ہم بچپن سے اب تک سحری کے وقت کئی مراحل میں اٹھتے ہوئے آئے ہیں۔۔۔ کہ یہاں سے اٹھائے گئے، تو اس کمرے میں جا سوئے، جب اس کمرے سے بھگائے گئے، تو کسی اور کمرے میں پڑ گئے، یا برآمدے میں کسی پلنگ پر اوندھے منہ گر گئے۔ یا جب کبھی گھر کے اندرونی حصے میں ٹھکانہ نہیں ملا، اور پہرہ سخت رہا، تو پھر باہری بیٹھک میں جا کر دراز ہو گئے۔ جب امی کے یہ الفاظ کان میں پڑتے کہ:
" آخری بار اٹھا رہی ہوں، اب جگانے نہیں آؤں گی"
تب نیند کا خمار تھوڑا اترتا ، اور پھر:
"دن میں کسی کام کے وقت یہ مت کہنا کہ کمزوری لگ رہی ورنہ میں بتاؤں گی"
جیسی خطرناک دھمکی سے ہی نیند کافور ہوتی ہے کہ ؎
مرا حال سحری پوچھ کے ہم نشیں مری نیند کو بڑھا نہ دے
بس یہی دعا میں کروں ہوں ایسی نیند کسی کو خدا نہ دے
ہماری روزمرہ صورتحال کے بالمقابل ہمارے سامنے والے فضلو میاں شب دو ہی بجے اٹھ جاتے ہیں۔ سوا دو بجے پہلی شفٹ میں مکمل کھانا مع سلاد اور چٹنی کھاتے ہیں، پھر ذرا چہل قدمی کر کے تقریباً آدھ گھنٹے بعد دوسری شفٹ میں چائے روٹی یا چائے بن لیتے ہیں، پھر تھوڑا چل پھر کر دو تین گلاس روح افزا کا شربت یا دیگر مشروبات انڈیلتے ہیں۔
میں نے کئی بار فضلو میاں کو سمجھانے کی فضول کوششیں کی کہ سحری میں تو بس ہلکا پھلکا کھا لیا جاتا ہے، تاکہ معدہ بالکل خالی نہ رہے ، یہ نہیں کہ دوپہر کا کھانا سحری میں ہی معدہ میں اسٹور کر لیا جائے۔ مگر میری ہلکی پھلکی باتوں کا فضلو میاں کی صحت پر خاک اثر پڑے گا، جب اتنے چکنائی زدہ اور بھاری بھرکم کھانے سے ان کی صحت پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔
مجھے فضلو میاں کی اس قدر شکم سیری۔۔۔ ارے نہیں، شکم پر ظلم آزمائی سے کچھ لینا دینا نہیں، بھلا کون سا ہمارے حصہ کا کھاتے ہیں؟ مگر دو بجے سے ان کے یہاں برتنوں کی آوازیں میری نیند کو حرام کر دیتی ہیں۔ اس ظلم آرائی پر مجھے صبر نہیں ہوتا کہ ع
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
کاش وہ ہمارے حصہ کی سحری اپنے لیے حلال کر لیتے، مگر میری نیندیں حرام نہ کرتے۔
رمضان میں افطار کے وقت کچھ مختلف سا روحانی سماں ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر پکوڑے پکوڑیاں اور سموسے و ٹکیاں اپنی جلوہ آرائی سے ایک دن بھی نہیں چوکتے۔ اور لسی صاحبہ کا تو پوچھیے مت، کہیے تو اپنی سفیدی کے پرستاروں میں جنگ کرا دیں۔ دسترخوان پر بیٹھتے ہی دل کہتا کہ آج تو بہت ساری چیزیں کھاؤں گا۔ اور پھر پسندیدہ چیزوں کو بہانے بہانے سے اپنی طرف کھسکاتے رہنا اس کی عملی تصویر ہوتا ہے۔ مگر افسوس اذان ہوتے ہی بے تحاشہ پانی پی کر پیٹ کا بالکل فل ہونا اور ہمارا یک دم ٹل ہو جانا ساری خواہشات پر پانی پھیر جاتا ہے کہ ؎
دل کے ارماں پانی میں بہہ گئے
سب نے جم کر کھایا ہم رہ گئے
ہم لوگوں کے یہاں افطار کے پروگرام خوب ہوتے ہیں اور دعوتیں بھی آتی ہیں، مگر ہم اس اندیشہ سے نہیں جاتے کہ یہاں سے چلے تو جائیں گے، مگر وہاں سے ہمیں لاد کر کون لاۓ گا؟
ہمارے یہاں کے گنگو دادا تو اس لیے افطار پارٹی میں شرکت نہیں کرتے کہ روزہ رکھنے کا ثواب افطار کرانے والے کو کہیں ٹرانسفر نہ ہو جائے۔ وہ کہتے ہیں:
"بچے، ہم سے یہ نا ہو پاوے گا، کہ دن بھر خود بھوکے رہو، اور شام کو جا کر ثواب دوسرے کو دے آؤ۔"
افطار کی بات پر مجھے اپنی نئی پڑوسن اور پڑوسی یاد آگئے، دونوں نے چند سال پہلے محبت میں ڈوب کر نہیں بلکہ بیڑا غرق کرکے شادی رچائی ہے، اب محبت کا عالم کچھ یوں بنا ہے کہ بنا ہاتھا پائی کیے کوئی مہینہ پورا نہیں ہوتا۔ پہلے ہم تو سمجھانے چلے جاتے تھے، مگر اب ہم بھی ان کی روٹین کے عادی ہو گئے ہیں۔ اور اس ڈر سے نہیں جاتے کہ کہیں ان کی دھما چوکڑی سے ہمارا نازک سا دل پارہ پارہ نہ ہو جائے۔ گر کہیں اس کو ذرا بھی دھکا لگا، اور خدا ناخواستہ ٹوٹ گیا، تو پھر دوسرا ملنا محال ہے ع
نہ کسی کی بزمِ خیال میں، نہ دکانِ آئینہ ساز میں
ہاں تو پڑوسن کا تازہ قصہ کچھ یوں رہا کہ کل افطاری کے وقت وہ شوہر کو فون کرکے یہ کہتے ہوئے دھمکا رہی تھیں کہ: اگر کل کی طرح آج لیٹ ہوئے اور افطاری کے وقت نہیں آئے، تو میں خوب رو رو کے دعا مانگوں گی کہ تمہاری نوکری چلی جائے!
ہییییییییں! میں کنفیوژن میں پڑ گیا، کہ یہ بیوی کی بے انتہا محبت ہے یا عورت کی اعلیٰ ترین حماقت ہے؟ آخر اس کو کیا کہا جائے، میں تو ابھی تک کنفیوز ہوں۔ ہائے افطاری کی یہ کرشمہ سازیاں کہ جو کچھ نہ کرائیں کم ہے۔
ویسے ہمارے گھر میں تو فی الحال ہمارے سوا کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہے۔ مگر جب کبھی رمضان میں ماموں یا کسی اور عزیز وغیرہ کے بچوں سے سابقہ پڑتا ہے، تو ایسا لگتا کہ آج ڈبل روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ عصر بعد سے ان بچوں کا دسترخوان کے ارد گِرد قبضہ شروع ہوتا، جو چند لمحے بعد ہی دھماچوکڑی میں بدل جاتا۔ اور پھر میری پیشانی پر پڑیں شکنوں کو دیکھ کر مجھے بے وجہ طعنہ مارا جاتا ہے کہ:
"ابھی اپنے بچے تو ہیں نہیں، تو بھلا دوسروں کے بچوں کا درد کیا سمجھو گے؟"
میں بھی بیلنس کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دے دیتا ہوں:
"کیا ہوا گر دوسروں کے بچوں کا درد نہیں سمجھتے ہیں، مگر دوسروں کی بیویوں کا درد تو سمجھتے ہی ہیں، بات برابر ہے"۔
یہ بچے اذان سے پہلے ساری جگہ گھیر کر بیٹھ جاتے ہیں، کھسکنے کے نام پر بس تھوڑا سا ادھر ادھر ہل کر رہ جاتے ہیں۔ ہمارے ایک ماموں کا سات سالہ فرزندِ دلبند دن بھر چرنے اور فریج کی ایسی تیسی کرنے کے بعد شام میں نہادھو کے، کپڑے بدل کر اور باقاعدہ ٹوپی لگا کر ایسا بااہتمام بیٹھتا ہے کہ بھلا کوئی روزہ دار کیا بیٹھتا ہوگا۔ اور پھر ہمارے کھجور منہ میں رکھتے ہی، اس کے ایک گلاس شربت انڈیل لینے کے بعد فوراً پانی کے مطالبہ کی خاطر ہماری طرف گلاس بڑھانے پر جو غصہ آتا ہے کہ بس پوچھیے مت۔ اس وقت اگر انسان اتنا زیادہ پانی پیے ہوئے نہ ہو، تو یک دم سے جل بھن کر خاک ہو جائے۔ خیر صاحب، بچہ بچہ ہی ہوتا ہے، اچھا ہے کہ گر روزہ نہیں رکھتا مگر افطاری کا اتنا اہمتام تو کرتا ہے۔ یعنی کہ بقول مرحوم راحت صاحب کے ؎
سیاست میں ضروری ہے رواداری سمجھتا ہے
وہ روزہ تو نہیں رکھتا پر افطاری سمجھتا ہے
زید مشکور (لکھنؤ، اترپردیش)
ای-میل: shaikhzaid947[@]gmail.com
زید مشکور |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں