یوں تو تمام مسلمان اس بات سے آشنا ہیں کہ ہر سال رمضان پوری چہل قدمی کے ساتھ آتا ہے۔ بچپن سے میں یہی سنتے آ رہی ہوں لیکن اُس وقت بس لفظ " چہل " ہی سے واقفیت تھی کیونکہ ہم بچوں کا رمضان گھر سے باہر کھیل کود جیسی چہل پہل میں گزر جاتا تھا اور آدھے دن کا روزہ رکھ کر اول وقت پر افطاری میں شامل ہوکر شربت اور پکوڑوں سے اچھی خاصی دشمنی نکال لیتے تھے۔ خیر یہ تھا بچپن پھر کیا ہوا۔۔۔ رفتہ رفتہ وقت ہمارا منہ چڑاتے پیچھے ہوتا رہا اور ہم اسے درگزر کر کے آگے بڑھتے گئے اور بالآخر وہ دن آگیا جب ہم سے بھی یہی کہا جانے لگا کہ:
"مسلمانو! تم پر رمضان کے روزے فرض کر دئیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔۔۔۔"
'پہلے کے لوگوں' سے وہی بات ذہن میں دوڑنے لگتی کہ اچھا! یہ نانی اور امی لوگ ہیں جو روزہ کا غصہ ہم پر نکالتی تھیں۔۔۔۔۔
خیر، اب لفظ "قدمی" کی طرف بڑھیے، جو ہمیں سخت ترین گرمیوں کے روزوں میں مختلف آلتو فالتو لوازمات بنانے کے لیے کچن میں دل آزاری کے ساتھ دونوں قدم جمائے رکھنا ہے۔ یہ ہے اصل "قدمی" جو تراویح تک ٹوٹنے لگتی ہے۔
جب کچن کے لوازمات کی بات ہو رہی ہو تو بتاتی چلوں کی میں بس کچھ مخصوص کاموں کی ذمہ داری اپنے سر ایسے باندھتی ہوں جیسے بوڑھیاں بچوں کے ڈر سے اپنے آنچل کے کونے میں پیسہ باندھ رکھتی ہیں۔ اس میں خاص الخاص کام "گھوڑے بیچ کر سونا بھی ہے" اب آپ اسے میری عادتِ بد سمجھیں یا اس سے بھی بُری ہندوستان کی سیاست سمجھیں کیونکہ یہ کام تو ملک کے وزیراعظم سے ہی سیکھا ہے "من کا کام "۔۔۔۔
گھوڑے سے یاد آیا کہ اسے بیچ کر تو سوتے ہی ہیں لیکن افطاری پر گھوڑے جیسی طاقت کے لیے چَنا بھی بنانا ہوتا ہے۔ یقین کریں روزانہ چنا بناتے بناتے اتنی مہارت تو آ ہی گئی ہے کہ ساسو ماں مجھے لوہے کا چنا نہیں چبوا سکتیں۔۔۔۔ پھر دوسرے نمبر پہ روح افزا آتا ہے گھر میں تین ٹکے کی ہماری عزت ہو یا نہ ہو لیکن شربت تو سب کو دو دو گلاس چاہیے وہ بھی تیرتے ہوئے برف کے ٹکڑے کے ساتھ۔ قسم سے، دل بھر آتا ہے سوچتی ہوں کہ کب نصیب کُھلے، جان چھوٹے اور یہی برف کلیجے پر رکھ کر سرد آہ بھروں۔۔۔ لیکن ایسے نصیب تو بس مکیش امبانی کے گھر کی عورتوں کے ہیں ہم غریب تو بس خیالی امیر ہوتے ہیں۔
اور ہاں! یہ بات تو درست ہے کہ:
"مسلمانو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں پکوڑے نہیں"
اس لیے میں تو پکوڑوں سے چار کوس دور رہتی ہوں۔ شاید آپ سوچ میں پڑ گئے ہوں کہ کھانے سے۔۔۔ ہرگز نہیں! ایسی شریفوں جیسی توقع نہ رکھیں بس چھاننے سے دور رہتی ہوں کیونکہ ہوتا یہ ہے کہ میں ایک پکوڑے تیل میں ڈالتی ہوں اور تیل چہل قدمی کرتے ہاتھ پہ آ جاتا ہے پھر امی بیچاری "ارے دور ہٹو ایسا مشکل کام تو تم سے ہوگا نہیں الٹا ہاتھ جلا کر تماشہ کرو گی، ارے ابھی شادی بیاہ بھی ہونا باقی ہے "۔۔۔ پھر میں شرماتے ہوئے معصومیت سے کہہ دیتی ہوں:
"اُفففف امی چاند پر بھی تو داغ ہے۔۔۔"
جواب ملتا ہے: "ارے ہاں خود کو چاند سمجھ بیٹھی ہو؟ روزہ تو زیادہ نہیں لگ رہا؟ جاؤ ذرا آئینے کی طرف"
اور جہاں رمضان میں طرح طرح کے فالودے بنتے ہیں وہی پل بھر میں مجھ معصوم کی عزت کا یوں فالودہ بننے میں وقت نہیں لگتا۔۔۔ اور بے ساختہ پروین آپا کا یہ شعر آئینہ دیکھتے ذہن میں آتا ہے۔۔
"بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی"
بس یہ ہی رسوائی نہیں اور بھی رسوائیاں باقی ہیں اِس رسوائی کے پیچھے چچا غالب کا نیند والے شعر کا ہاتھ ہے
"نیند کا گیارہ مہینہ معین ہے
پھر یہ رمضان میں کیوں نہیں جاتی"
چونکہ شیطان کے قید ہونے سے میرے فون کو شکایت ہوتی ہے کہ " آج کل بڑا دور رہتی ہو مجھ سے " ۔۔۔۔ ایسے میں بندہ دل پر پتھر رکھ کر منہ لپیٹ کر سوئے نہیں تو کیا کرے؟ مگر امی کو یہ خاموشی بھرا نیک کام بھی پھوٹی آنکھ نہیں بھاتا۔ بھلا انہیں کون سمجھائے کہ آنکھوں کو تو نیند ہی اچھی لگتی ہے، کانوں کو آپ کے تنقید بھرے لیکچر نہیں۔ ذرا سا آنکھ سکون میں جانا شروع ہوتی ہے اور رنگ برنگ پکوانوں کے خواب سامنے آنا شروع ہوتے ہی ہیں واللہ کانوں پر ایسی قیامت ٹوٹتی ہے:
"سو سو کر تو میں پورے سال کا روزہ رکھ کر روزے داروں میں شامل ہو جاؤں۔ ارے ایک ہم تھے اس زمانے میں روزہ رہے جب اتنا تم لوگوں کی طرح ٹھاٹھ نہیں تھے ہمارے، تب اُس وقت ہم پڑھائی بھی کیے، گھر کے کام بھی کیے اوپر سے ڈانٹ بھی سنی۔ ایسے کولر اور اے سی کے روزے نصیب نہیں تھے لیکن مجال ہے کبھی اماں ہمارے کسی معاملے پر خفا ہوں ہم سے۔۔۔"
پھر دل چاہتا ہے جَھٹ سے پوچھ لوں کہ پھر یہ ڈانٹ سننے کا ذکر کس ہمدردی میں کیا تھا؟ لیکن مسلسل ان کا لیکچر کہ۔۔۔
"قوم یوں ہی تباہی کی دہانے پہ نہیں کھڑی یہ آفت اور مصیبت ایسے ہی نہیں گھروں میں گُھس رہی۔۔۔ "
یہ سب سننے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ عظیم میں پرمانو بم میری نیند کی غفلت سے کسی بچے کے ہاتھ لگا اور اس نے پن نکال کر اسے پھوڑ دیا جس سے ہیروشیما ناگاساکی تباہ و برباد ہو گیا۔ روس اور یوکرین میں جنگ کی وجہ میری نیند ہے، یوگی جی دوبارہ وزیر اعلیٰ اس لیے بن گئے کہ میں نےغلطی سے حالتِ نیند میں چناؤ بٹن کمل والا دبا دیا تھا اور تو اور عمران خان کی کرسی بھی میری اس منحوس نیند کی وجہ سے گئی ہے۔۔۔۔
خیر! اس سے پہلے کہ امی خواہ مخواہ میری گمشدہ ساس اور سسرال کو گھسیٹنا شروع کردیں میں جھٹ پٹ اُٹھ کھڑی ہوتی ہوں۔۔۔۔ نیند نے تو بدنام اتنا کیا ہے کہ اب بندہ لوگوں کو اچھے مشورہ دیتے ہوئے بھی کھسیا جائے۔ ایسے ہی باتوں باتوں میں میں نے امی سے کہہ دیا کہ کیوں نہیں آپ اس سال اعتکاف میں بیٹھ جاتیں۔ پھر کیا تھا وہی بچا ہوا لیکچر جاری ہو گیا:
"ہاں خوب عقل لگائی ہو، میں رہوں اعتکاف میں روپوش، پھر تمہارے ہونگے مزے، آزادی مل جائے گی نا۔۔۔ تمہارے بھروسے اعتکاف میں بیٹھ کر مجھے اپنا گھر نہیں لٹوانا ہے۔۔۔"
لہذا اب یہاں بھی خاموشی میں عافیت سمجھیے۔
اگر دیکھا جائے تو رمضان میں سب سے خوبصورت وقت جو ہوتا ہے وہ افطاری کے برتن دھونے کے بعد تراویح کا ہے۔۔۔ برتن دُھلتے دُھلتے ہاتھوں میں ایسا نور آ گیا ہے کہ آپ یقین کریں مجھے ڈر ہے کہیں اب انگریز کوہ نور کی جگہ میرا ہاتھ نہ لے کر چلے جائیں۔ تو تراویح اُن لوگوں کے لیے آزمائش کا وقت ہے جو یا تو آٹھ (جمعہ) یا پھر تین سو ساٹھ ( عید) کے دن ایسے نمودار ہوتے ہیں جیسے ہزاروں سال بعد چمن کو نرگس کا دیدار۔
الحمدللہ محلے میں تین مسجد ہیں اور بھری وہی رہتی ہے جہاں آٹھ رکعت کی ٹکر مارنی پڑے۔ باہر چپل دیکھ کے تو ایسا لگتا ہے جیسے تراویح کے ساتھ سحری فری ہو اور اگر دو تین چپل بھی چوری ہو جائے تو اُن کو کوئی غم نہیں ( کچھ بھی ہو جائے جانا تو آٹھ والی ہی میں)۔
چلیے یہ تھی باہر کے لوگوں پر تنقیدی گفتگو اب آئیے ہمارے گھر کی مسجد کے اندر جہاں الحمدللہ دو تین سالوں سے عورتوں کی تراویح کا خصوصی انتظام ہے چونکہ ایک کزن ماشاء اللہ حافظہ قرآن ہے جو کہ امامت کا فریضہ انجام دیتی ہے۔۔۔ یاد رہے کہ یہ ہماری چھوٹی کزن وہی ہے جسے قرآن دہراتے دہراتے پیاس لگتی ہے تو پائپ لگا کر سارے پیڑ پودوں کی پیاس بجھانے لگتی ہے۔۔۔
خیر، محلے کی مسجد کی کیا بات کی جائے ہوتی تو ہماری مسجد میں بھی آٹھ ہی رکعت کیونکہ اس سے زیادہ تو افطاری میں بھرے گئے شربت اور پانی والے پیٹ کے ٹینک سے ہلا نہیں جاتا اوپر سے ایک ہٹی کٹی خالہ ہیں جنہیں آتے ہی فوراً ٹھنڈے پانی کی بوتل چاہیے۔ دل کرتا ہے پوچھ لوں کہ کربلا کے میدان سے سیدھا تراویح کا رخ کرتی ہیں کیا۔۔۔؟ کچھ بیچاری تو ایسی خاتون ہیں جن کی آٹھ رکعت کولر کا رخ اپنی طرف بار بار گھماتے رہنے ہی میں ختم ہو جاتی ہے انہیں پتہ بھی نہیں چلتا اور ایک میں ہوں معصوم سی جس پر تراویح میں بھی غفلت طاری رہتی ہے اگر قرأت کے دوران امام صاحبہ سجدہ میں جاتی ہیں اور میں رکوع ہی میں رہ جاتی ہوں شاید اس کے پیچھے بھی نیند ہی کا ہاتھ ہو جو اگر ایک بار ہاتھ لگ جائے تو اسے توڑ دوں۔۔۔۔
" ہم کسے جا کے سنائیں جو ہمارا دکھ ہے "
اب تو بس یہی سوچتی ہوں کاش عید کے چاند کے ساتھ میرا بھی چاند مل جائے لیکن سورج جیسی ساس سے اللہ بچائے۔۔۔۔!
انجشہ زیدی (اعظم گڑھ، اترپردیش)
ای-میل: shahanasalehati3[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں