فائر ایریا - الیاس احمد گدی کے ناول کا تجزیاتی مطالعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-05

فائر ایریا - الیاس احمد گدی کے ناول کا تجزیاتی مطالعہ

urdu-novel-fire-area-by-iliyas-ahmad-gaddi-review

فائر ایریا بیسویں صدی کے آخر میں لکھی جانے والی اردو کی ایک شاہکار ناول ہے، جو الیاس احمد گدی کے ذریعہ لکھی گئی اور اسی کی وجہ سے انہیں اردو ادب کی دنیا میں شہرت اور اصلی پہچان ملی ہے۔
بنیادی طور پر یہ ناول ایک کمزور اور استحصالی نظام کا مرقع ہے جو کوئلہ مزدوروں کی زندگی پر مبنی ہے۔ گدی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے پہلی بار کول فیلڈ کی زندگی سے اردو ادب کو متعارف کرایا ہے جس میں وہ یگانہ و یکتا ہیں۔
رضوانہ پروین اپنے مضمون 'کوئلہ مزدوروں کا قصہ گو' میں رقمطراز ہیں:
" الیاس احمد جھارکھنڈ کے گدی خاندان کے رہنے والے تھے مزدور طبقے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے مزدوروں کے درد وہ بخوبی سمجھتے تھے انہیں نے دکھ درد اور کرب و الم کو اپنی تخلیقات کے ذریعہ پیش کیا ہے، اس کی بہترین مثال "فائر ایریا " ہے۔اس کی اشاعت 1994 میں ہوئی ہے۔" (1)


فائر ایریا یہ حاشیائی ادب کا علمبردار ناول ہے ہندوستان میں ذات پات کا نظام صدیوں سے چلا آرہا ہے ۔آج اکیسویں صدی کی تیز رفتار ٹیکنالوجی کے دور میں بھی اس کے اثرات ہندوستان کے دیہی علاقوں اور خاص طور پر نچلے اور متوسط طبقوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے ذریعہ اردو ادب میں نچلے اور متوسط طبقوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ان پر کئے جارہے ظلم وستم پر صدائے احتجاج بلند کی گئی ہے ان مزدوروں کے استحصال کے خلاف قلم کی طاقت کے سہارے ایک نئی تحریک شروع ہوئی اور یہیں سے حاشیائی ادب کی بنیاد پڑی۔ قمر رئیس کے مطابق:
"حاشیائی ادب کا یہ کارواں رکا نہیں بلکہ بڑھتا ہی گیا اور بیسویں صدی کے آخری چھ دہائیوں میں بہت کچھ لکھا گیا۔عبدالصمد کا دو گز زمین حسین الحق کا فرات، آفاقی کا مکان اور محمد اشرف کا نمبردار کا نیلا وغیرہ بہت اہم ہیں۔ (2)


اسی سلسلے کی ایک کڑی بیسوں صدی کے آخری دہائی میں ہمارے سامنے ناول کی صنف میں "فائرایریا "نمودار ہوتی ہے، جس کے خالق الیاس احمد گدی ہیں۔
فائر ایریا کے موضوع کی بات کی جائے تو مرکزی طور پر کول فیلڈ کے مزدوروں کا استحصال ان کی کسمپرسی ،کول فیلڈ کی دنیا میں قتل و غارت گری، سود خوری، دھاندلی، نا انصافی اور عیاشی ہے۔ اس کالی اور بھیانک دنیا کی جان لیوا سرنگوں اور پرخطر راستوں کا نقشہ گدی اس طرح کھینچتے ہیں:
"ایک لمبی اندھیری سرنگ ہے اور اس میں چلنا ہے زمین کے ہزاروں فٹ نیچے شدید گرمی ہوتی ہے یہ الگ دنیا ہوتی ہے، اندھیرے میں موت گشت کرتی ہے کبھی چال ٹوٹتی ہے تو کبھی زہریلی گیس پھٹتی ہے کہیں کوئی شگاف نہیں کہیں کوئی درار نہیں کہیں کوئی روشندان نہیں بس اندھیرا گھنی اور لمبی مسافت ہے چلتے رہو چلتے رہو اس سرنگ کا کہیں کوئی اختتام نہیں۔ " (3)


ان مزدوروں کے استحصال کے تعلق سے سماجی اور سیاسی سطح پر دو رجحان سامنے آتے ہیں۔ سماجی سطح پر مزدوروں کی زندگی غریبی، کثیر محنت، کم اجرت خود غرضی، چاپلوسی اور رشوت خوری ہے۔ جب کہ سیاسی سطح پر لیڈروں کی بدکرداری، گنڈا گردی کا فروغ، کمیشن خوری مافیا کا عروج اور پولیس کی مجبوریاں ہیں۔مزدور کی اس استحصال کی مختلف نوعیتیں ہیں۔
مالکوں اور افسروں کے ذریعہ مزدوروں کا استحصال، لیڈران کے ذریعہ مالکوں اور ٹھیکیداروں کا استحصال، اور مردوں کے ذریعہ عورتوں کا جنسی استحصال، غرض کہ ہر سطح پر استحصال ہی استحصال نظر آتا ہے۔ بھوکا اور ننگا رکھ کر غلام بنا کر سود میں جکڑ کر اور مار پیٹ کرکے مزدوروں کو اس حالت میں پہنچا دیا گیا ہے، وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ انہیں زندہ رہنا ہے۔ انہیں کام کی اجرت سے کوئی غرض نہیں بس کام کرنا ہے اور پیٹ کی آگ پر پانی کا چھڑکاؤ کرنا ہے۔ یہ جاننے کی ضرورت انہیں کبھی محسوس ہی نہیں ہوئی کہ اجرت کتنی مل رہی ہے اور کتنا حصہ ٹھیکیداروں اور مالکوں کی جیب میں جارہا ہے۔ یہ بے چارے غریب مزدور اپنی آنکھوں میں کئی خواب لیکر اس آگ بھری کالی دنیا میں آئے ہیں۔ بہت ہی حسین خواب ڈھیر سارا روپیہ کمانے گاؤں میں زمین خریدنے اور پھر واپس گاؤں جانے کا خواب اپنے انہیں خوابوں کی تکمیل کے لئے یہ مزدور کڑی محنت کرتے ہیں اور سخت محنت کے بعد جو کم اجرت ملتی ہے اس میں تھوڑا سا خرچ کرتے ہیں اور بقیہ گاؤں بھیج دیتے ہیں تاکہ گھر والوں کو دو وقت کی روٹی مل سکے لیکن ان کی ساری آرزوئیں اور خواہشیں اس آگ بھری دنیا میں تاحیات دب کر رہ جاتی ہیں وہ اتنے بھولے ہیں کہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا استحصال کیسے اور کہاں کیا جا رہا ہے؟
ان کا روزانہ کا ایک ہی معمول ہے صبح اٹھنا گندے تالاب میں اجتماعی غسل کرنا آلو چوکھا کھانا اور پھر انڈر گراؤنڈ کانوں کی سیاہ دنیا میں خون پسینہ ایک کرنے کے لئے پہونچنا ان میں کوئی تبدیلی نہیں کوئی بغاوت اور کوئی احساس نہیں وہ مقام کو کولڈ فیلڈ سے سیاہ بھوت کے مانند باہر آتے ہیں ان کے دامنوں کو چھوڑ کر سارا بدن سیاہ پتھر نظر آتا ہے کان کے اندر ہمہ وقت موت کا سایہ ان کے سرو پر رقص کرتا ہے لیکن بھوک انہیں موت کے منہ میں جانے سے نہیں روک پاتی ہے۔


گدی نے اس ناول میں بھوک کے موضوع کو کئی جگہ پیش کیا ہے ان غریب مزدوروں کے سامنے مفید و مضر کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا بس وہ یہ جانتے ہیں کہ کچھ کھاکر پیٹ کی آگ بجھانی ہے جیسا کہ خود مصنف کا ذکر ہے:
"ان مزدوروں میں چور اچکے بھی تھے اور ایسے معصوم اور سیدھے سادھے لوگ بھی جن کی معصومیت پر فرشتے بھی رشک کریں ان تمام لوگوں میں صرف ایک چیز مشترک ہے بھوک وہ بھوک جو ہزار ہا سال سے پائیدار ازل سے انسان کی سب سے بڑی مجبوری ہے"۔( 4)


افسروں کی چال بازی مکاری اور عیاری کو بھی موضوع بنایا گیا ہے کان کے اندر اگر کوئی مزدور مر جاتا ہے تو اس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے لاش کو اندر ہی دفن کر دیا جاتا ہے اور یونین لیڈروں ،ٹھیکیداروں اور بابوں کی جیب گرم گرم کردی جاتی۔ عورتوں کا جنسی استحصال بھی اس ناول کا ایک اہم موضوع ہے۔ کولیری میں کام کرنے والی عورتوں کی عصمت محفوظ نہیں یہ ہوس کے پجاری خود مزدوروں میں بھی پائے جاتے ہیں اور لیڈر مالک ٹھیکیدار تو اسے اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔
اس سیاہ دنیا میں مرد ایک ایسا خونخوار بھیڑیا ہے جس سے راہ فرار ممکن نہیں اگر خوشی سے راضی ہے تو پردے میں ، ورنہ بھرے بازار میں بندوق کی نوک میں ان کی عصمت چیر پھاڑ دی جاتی تار تار کردی جاتی۔ ذرا سی چوں چرا کرنے پر بھی گولی اتار دی جاتی۔
ختونیا ایک اکیلی عورت چاروں اور لڑتی ہے حالات سے ٹکراتی ہے اس نے محض ایک کھیل کھیلا ہے زندہ رہنے کا کھیل اور اس کے پاس صرف ایک ہتھیار ہے اس کا لبالب بھرا جسم اور ابھرا ہوا غیر معمولی پہاڑ نما سینہ، سود خور لیڈر اپنے غنڈوں کے ذریعہ ان مزدوروں کی بہو بیٹیوں اور بیویوں کی عصمت دری کرواتے ہیں اگر کسی میں سر اٹھانے کی طاقت ہوتی ہے تو اپنی طاقت اپنے اندر دبا لینا ہے۔


اس ناول میں گدی نے لا قانونیت کے موضوع کو بھی اٹھایا ہے۔ اس کول نگری میں صرف ایک قانون چلتا ہے طاقت کا قانون۔ یہاں SP اور DSP کا تبادلہ تین دن میں کروا دیا جاتا ہے اور تھانہ صرف برائے نام ہے۔ اس کول فیلڈ میں صرف دو فیکٹر کام کرتے ہیں ایک پیسہ دوسرا طاقت۔ کچھ خاص لوگوں کو پیسے سے خرید لیا جاتا ہے اور باقی کو طاقت سے کچل دیا جاتا ہے۔ سودی کاروبار اور گندی سیاست کو بھی گدی نے اس ناول میں پیش کیا ہے۔ مزدوروں کو منتشر رکھنا ان کے درمیان ذات پات علاقہ اور مذہب کے نام پر سیاست کرنا ،اپنے ہی لوگوں کا قتل کرنا اور ایماندار افسروں کا تبادلہ کرانا ان خبیث لیڈروں کے نزدیک عام بات ہے۔ اس کول فیلڈ میں رہنے کی یہ پہلی شرط ہے کہ دیکھو سب کچھ، سنو سب کچھ، مگر بولو کچھ نہیں یوں سمجھ لو یہاں کے لوگوں کے پاس آنکھ ہے کان ہے مگر منہ میں زبان نہیں ہے۔
ناول نگار نے اپنے اس ناول میں دہشت زدہ دنیا میں ظلم سہنے والے ان مزدوروں کو اس تاریک دنیا سے نکلنے کا کچھ نسخے بتائے ہیں کہ یہ مزدور بہتر زندگی گزار سکتے ہیں اگر ان کی تربیت کی جائے اور ان کے سوئے ہوئے احساس کو جگایا جائے اور انھیں متحد کیا جائے۔ استحصال کے خلاف انھیں بغاوت پر آمادہ کیا جائے اور ان کے لئے منظم انقلاب کے راستے ہموار کئے جائیں اوران سب کے لئے سب سے پہلے انہیں تعلیم یافتہ بنایا جائے۔


ناول کا اسلوب
اس ناول کے فن پر بات کی جائے تو یہ ناول بیانیہ ہیئت میں لکھا گیا ہے۔ موضوع اور ہیئت ہم آہنگ ہیں اس بات پر ڈاکٹر قمر رئیس کا کہنا ہے:
"فائر ایریا کے ذریعہ اردو ناول کو ایک نئی تہذیب سے آشکار کرانے کے ساتھ ساتھ موضوعاتی جمود و یکسانیت کو بھی برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کے یہاں نہ تو ماضی کی کوئی نوحہ گری ہے اور نہ حقیقت سے دور رومانیت۔ پریم چند کے افسانے اور ناول اگر بیسویں صدی کے نصف اول کے کسانوں اور مزدوروں کی زندگی کا آئینہ ہیں تو گدی کا یہ ناول آزاد ہندوستان کے صنعتی نظام کے بطن سے پیدا شدہ مسائل کے بدستور جاری استحصال ہے۔ (5)


اس میں فلیش بیک کی تکنیک کا بھی خوب استعمال کیا گیا ہے ناول کا پلاٹ بہت مربوط ہے اور تمام واقعات یکے بعد دیگرے اس ترتیب سے پیش کیے گئے ہیں کہ وہ فطری معلوم ہوتے ہیں۔ اس ناول کی کردار نگاری بھی لائق تحسین ہے۔ کرداروں کی بہتات ہے مگر کچھ کردار جسے ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے مثلا سہدیو ، مجمودار ، ختونیا اور بھرت سنگھ وغیرہ۔ ان کرداروں کے اندر حالات اور وقت کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کا ملکہ بھی موجود ہے گرچہ یہ ناول بیانیہ ہیئت میں ہے لیکن کرداروں کے ذریعہ ادا کئے گئے مکالمے اور زبان و بیان پوری طرح اپنے اپنے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سلام بن رزاق کہتے ہیں:
"فائر ایریا کی زبان کہیں ادبی کہیں نیم ادبی اور کہیں علاقائی بولیوں میں تبدیل ہو جاتی ہے"۔ (6)


اس قول کی تائید ڈاکٹر احمد صغیر بھی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"فائر ایریا کی زبان بہت سہل اور عام بول چال کے قریب ہے پورے ناول کا ماحول کولیری کے نزدیک ہی رکھا گیا ہے، علاقائی زبان سے بھی مصنف نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے، نیز بہار موجودہ جھارکھنڈ کے کلچر کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ہے"۔ (7)


اور ڈاکٹر رفیقہ شبنم عابدی 1980 کے بعد کے ناولوں کے فن اور اسلوب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
" ان میں پلاٹ ، کردار اور واقعات کی پیش کش کے اعتبار سے جدت طرازی سے کام لیا گیا ہے۔ زبان کا تخلیقی اظہار بھی کافی بدلا بدلا سا ہے، علامتوں اور استعاروں سے بھی کام لیا گیا ہے اور کہیں تلمیحات سے کسی مسئلے کی نشان دہی بھی کی گئی ہے گویا جملہ خصوصیات فائر ایریا میں موجود ہیں۔" (8)


حاشیائی ادب میں اس ناول کی اہمیت لازوال ہے یہ ناول اپنے موضوع کے ساتھ ساتھ اپنے فن، پلاٹ ،کردار ، زبان و بیان اور وحدت تاثر کے ذریعہ ادب کی دنیا میں اسی منفرد اور علاحدہ شناخت کے ساتھ قائم و دائم رہے گا۔

حوالہ جات:
  • مضمون کوئلہ مزدوروں کا قصہ گو، صفحہ:3
  • ہم عصر اردو ناول ایک مطالعہ، صفحہ: 10
  • فائر ایریا، صفحہ: 11
  • فائر ایریا (ابتدائیہ)، صفحہ: 8
  • ہم عصر اردو ناول ایک مطالعہ، صفحہ: 21
  • مضمون فائر ایریا (سلام بن رزاق)، صفحہ 9
  • اردو ناوال کا تنقیدی جائزہ 1950 کے بعد، صفحہ: 152
  • معاصر اردو ناول (پیش لفظ)، صفحہ :7
***
عبدالوحید (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)۔
ایمیل: abdulwaheednasir[@]gmail.com
A review on novel Fire Area by Iliyas Ahmad Gaddi. - Reviewer: Abdul Waheed Nasir

1 تبصرہ:

  1. عبد الوحید نے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ ناول فائر ایریا پر بہت خوب لکھا ہے، لیکن مضمون کے پہلے ہی پیراگراف میں انہوں نے لفظ "ناول" کا مذکر استعمال کیا ہے، جبکہ میرے علم ویقین کی حد تک یہ لفظ مؤنث ہے۔

    محمد اشرف یاسین (نئی دہلی)

    جواب دیںحذف کریں