انا للہ و انا الیہ راجعون
مرحوم محتاجِ تعارف ہرگز نہیں تھے۔ ہر شخص انہیں جانتا ہے۔ اگر نہیں بھی جانتا ہے تو مندرجہ ذیل اوصافِ حمیدہ پڑھ کر ان کا چہرہ ذہن میں گھوم جائے گا۔
ان کا آج انتقال ہو گیا۔۔ اچانک نہِیں ہوا کیونکہ انہیں خود بھی یقین تھا کہ موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ مرحوم نے وارثین کے لئے بہت کچھ مال اور جائداد چھوڑی ہے، اور قوم کے لئے بے شمار مشورے، تبصرے، اعتراضات اور سوالات چھوڑے ہیں۔ مرحوم بیک وقت ایک فلسفی، لیڈر، دانشور اور مصلح ہونے کے ساتھ ساتھ، دین پر بھی، اگرچہ کہ عالم نہیں تھے، لیکن عالمانہ گفتگو کے شوقین انسان تھے۔
لیڈروں اور علما پر تنقید ان کاخاص موضوع تھا، اگر اس پر کوئی ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہوتی تو انہی کو اعزازی طور پر دے دی جاتی۔ انہوں نے قوم و ملت کے لئے بے شمار ایسے منصوبے چھوڑے جن کو کبھی وہ شروع ہی نہ کر سکے۔ اگرچہ کہ ان کے پاس اِن منصوبوں پر خرچ کرنے کےلئے کافی مال تھا، لیکن چونکہ کوئی منصوبہ کبھی آغاز کی صورت نہ دیکھ سکا، اس لئے مجبوراً وارثین کو وہ مال آپس میں خوشی خوشی تقسیم کر لینا پڑا۔ ہاں بیٹیوں کی شادیوں کی منصوبہ بندیاں کامیابی سے تکمیل تک پہنچیں، شہر کی قابل رشک شادیوں میں ان کے گھر کی شادیاں شامل ہیں۔ ماشاء اللہ داماد بھی بہت خوددار ملے۔ کسی نے کچھ نہیں مانگا۔ جو بھی ملا ، لڑکی والوں نے خوشی سے دیا کہہ کر قبول کر لیا۔
مرحوم بے حد قوم پرست تھے۔ جب گھر میں یا دوستوں کے بیچ دیوان خانے میں ہوتے تو بابری مسجد، کشمیر فائلس، حجاب اور دھرم سنسد جیسے واقعات پر دشمن کو چیر ڈالنے کے قائل تھے۔ لیکن جب باہر ہوتے تو محض پولیس اور قانون کا لحاظ کرتے ہوئے صلح پسند ہو جاتے تھے۔ مسجد، مدرسہ یا خدمتِ خلق کے کاموں میں تو ہزار دو ہزار روپئے ضرور دیتے لیکن اگر پاپولر فرنٹ جیسی کوئی انقلابی تحریک ان تک رسائی کرے تو صاف کہہ دیتے کہ آپ ناگپور سے ایک کنڈکٹ سرٹیفکٹ لا لیں کہ آپ پر حکومت کی نظر نہیں ہے، میں ضرور مدد کروں گا۔
انہیں یقین ہو چکا تھا کہ دشمن بہت طاقتور ہے، ہم کچھ نہیں کر سکتے، بس دعا کر سکتے ہیں، اس لئے جب بھی کوئی بری خبر آتی فوری یہ دعا کرتے اے اللہ! مسلمانوں کی حفاظت فرما۔ دشمن کا خاتمہ فرما دے۔
مرحوم جماعت کے منکر نہیں تھے لیکن اپنے نام کے ساتھ کسی جماعت کا لیبل لگانا پسند نہیں کرتے تھے۔ مرحوم امت میں اتحاد پیدا کرنے کے خواہاں تھے، اس لئے جس جماعت کو وہ پسند نہیں کرتے اس کے سخت خلاف ہو جاتے۔ خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی اور ارتغرل، مرحوم کے پسندیدہ ہیروز تھے، اس لئے قوم کے نوجوانوں سے بالکل مایوس ہو گئے۔ کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اب ویسے مجاہدین پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔ وہ نوجوانوں سے کہتے کہ دشمن سے مقابلے کے لئے گھروں سے نکلنے کی ہمت پیدا کرو، اسی لئے انہوں نے اپنے بیٹوں اور دامادوں کو سعودی عرب ، امریکہ اور کینیڈا بھیج دیا تھا۔
مرحوم نہ داڑھی کے قائل تھے اور نہ کسی مسلک کے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد لیکن قائل ہو گئے، اور ایسی داڑھی چھوڑی کہ چہرے پر داڑھی کی ساری عمر کی کمی کا کفارہ ہو گیا۔ اسی لئے انہیں مسجد کی کمیٹی کا ممبر بنا دیا گیا۔ پولیس ہر بار فساد سے پہلے فسادیوں کا ساتھ دیتی، فساد کے بعد امن کمیٹی قائم کرنے ان کو ساتھ لیتی۔ مسلک پر سختی سے جم گئے، مگر چونکہ عربی سے ناواقف اور اردو میں کمزور تھے، کبھی کسی زیارت یا چہلم میں قرآن تھوڑی بہت پڑھ لیتے لیکن معنی یا مطالب سے نہ واقفیت تھی اور نہ کوئی واسطہ، اس لئے اپنے مسلک کے مولویوں یا مشائخین پرمکمل ایمان رکھتے تھے۔
وہ جو کہیں اسی دین پر چلنا عین اسلام سمجھتے تھے۔ جہاں بھی تین پاروں یا پانچ پاروں کی تراویح ہوتی، یہ قرآن مکمل سن کر قرآن سے فراغت حاصل کر لیتے تھے۔ افطار کے بہت شوقین تھے۔ کہتے تھے کہ یہ مہینہ سال میں ایک بار آتا ہے اور کھانے کے لئے آتا ہے۔ دعوتیں قبول کرنے کے بہت شوقین تھے۔ مرحوم کو عمرے کرنے کا بہت شوق تھا۔ کسی عمرے پر دو تین لاکھ سے کم خرچ نہیں ہوتے۔
ویمنس رائٹس یعنی عورتوں کے حقوق کے بہت قائل تھے۔ بیوی کو مشورہ ضرور دیتے لیکن فیصلے کا حق ہمیشہ بیوی ہی کو دیتے۔ دوسری شادی ان کے مذاق کا خاص موضوع تھا لیکن کرنے کی کبھی ہمت نہ کر سکے۔ مقامی لیڈرز، سیلیبریٹیز، سفیر یا قونصل کے ساتھ کسی نہ کسی موقع پر تصویر کھنچوانے اور فیس بک پر ڈالنے کے بہت شوقین تھے۔
چونکہ ان کے پاس کثرت سے واٹس اپ پیغامات آتے تھے، ان تمام کو پڑھنا ممکن نہیں تھا، اس لئے پہلے ان تمام پوسٹس کو فارورڈ کر دیتے۔ سنجیدہ پوسٹس سے انہیں نیند آ جاتی تھی، اس لئے ٹک ٹاک، ریلس اور انسٹگرام دیکھنا بھی سیکھ گئے تھے، مگر اذان کے وقت پاز (pause) کر دیا کرتے تھے۔ کشور کمار اور لتا کے گانے سن کر اور امیتابھ اور دھرمیندر کی فلمیں دیکھ کر جوانی گزاری، لیکن محمد رفیع اور دلیپ کمار سے عقیدت رکھتے تھے۔ اردو سے بے حد محبت رکھتے تھے۔ اس لئے اکثر اپنے ذاتی اشعار سناتے۔ اردو کا کوئی رسالہ یا کتاب خرید کر پڑھنے کے قائل نہیں تھے، کہتے تھے کہ ادب تو غالب اور اقبال کے پاس تھا، اب کہاں۔
مرحوم خوش گفتار انسان تھے ، اور قطع کلامی کے بے انتہا شوقین تھے۔ اتنے ذہین تھے کہ مخاطب کے بات شروع کرنے سے پہلے ہی پوری بات سمجھ جاتے اور "میں سمجھ گیا، میں سمجھ گیا" کہہ کر بیچ بیچ میں بول پڑتے۔ مرحوم نے کبھی کسی کی ٹانگ نہیں کھینچی، البتہ ٹانگ کھینچنے والوں کی اخلاقاً تائید کرتے تھے۔ اہم میٹنگس میں جب بھی مرحوم کو دعوت دی جاتی، وہ انتہائی گرمجوشی سے وعدہ بھی کرتے اور ارادہ بھی، لیکن بدقسمتی سے ٹھیک اسی دن اور اسی وقت گھر کا کوئی نہ کوئی کام ایسا نکل آتا کہ میٹنگ کو کنارے کر دیتے۔
بہرحال، بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔ نمازِ جنازہ کل بعد ظہر آپ ہی کے محلے کی مسجد میں ہوگی۔ ان کا تعلق ہر محلّے، ہر شہر اور ہر خاندان سے ہے۔ اگر آپ ان کا پورا نام جانتے ہیں تو ہمیں مطلع فرمائیں۔
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 09642571721
ڈاکٹر علیم خان فلکی |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں