رمضان میں ہم نے بھی کیا کچھ نہ کیا - انشائیہ از محسن خان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-30

رمضان میں ہم نے بھی کیا کچھ نہ کیا - انشائیہ از محسن خان

ramzan-mein-humne-bhi-kya-kuch-naa-kia

گیارہ مہینے کی بے صبری کے بعد جب رمضان کا مہینہ تشریف لایا تو ہر جگہ جشنِ بہاراں نظر آئی۔ آٹوؤں میں گانوں کے بجائے قوالیاں گونجنے لگتی ہیں۔ سب کے سروں پر ٹوپی آ جاتی ہے لیکن ٹوپی کے اندر سے جھانکتے لمبے لمبے بال بتا دیتے ہیں کہ موصوف نے چاند کو دیکھ کر اسلام قبول کیا ہے۔
رمضان کا چاند دیکھنے لوگ بڑے شوق سے گھروں کی چھتوں پر چڑھتے ہیں۔ اس بار جب ہم گھر کی چھت پر رمضان کا چاند دیکھنے کیلئے چڑھے تو دیکھا کہ اطراف و اکناف کے گھروں کے چاند غائب ہو گئے ہیں۔ ایک آدھ چاند جو نظر آئے تو وہ بھی ہاتھوں میں اپنے تارے ستارے لئے کھڑے تھے۔


رمضان کے موقع پر جہاں دیکھیے وہاں خوشحالی ہی خوشحالی نظر آتی ہے۔ لوگ گھروں کو سجاتے ہیں ، دستر خواں بچھتے ہیں، دنیا بھر کے لوزمات کو دیکھ کر جی بھر جاتا ہے۔ ہاتھ آگے بڑھتے ہیں لیکن شکم کی حالت ایسی کہ زیادہ سحری اور افطار کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔ دوپہر کے وقت روزہ دار کی نظریں تانکی جھانکی رہتی ہیں کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر۔ من ہی من میں بہت سارے پکوانوں کے خیالات آتے ہی منہ میں پانی بھر بھر آتا ہے مگر ضمیر گوارہ نہیں کرتا اور کہتا ہے ابھی توڑی دیر انتظار انتظار۔۔۔
پھر جب افطارکا وقت قریب آتا ہے تو سب مل جل کر کھاتے ہیں۔ چھوٹے اور بڑوں کی آوازیں گونجتی ہیں، نظریں افطاری کے ہمہ اقسام کے آئٹم اور پکوڑوں کی پلیٹ پر للچائی ہوئی ہیں۔ لال لال میٹھا میٹھا تربوز ،انناس ، سنترہ ، امرود، جام اور کیلا جسے حیدرآبادی زبان میں موز کہا جاتا ہے، ان سب کے علاوہ پھلوں کا بادشاہ آم کٹھا میٹھا مونچھوں والا رس بھرا، تلی بھنی بگھاری ہوئی چیزوں پر ہماری نظریں گھورے جا رہی ہے۔ اتنے میں امی کی آواز آتی ہے کہ دیکھو بیٹے سائرن کی آواز آ رہی ہے یا نہیں؟
روزہ کھولنے کا وقت آ چکا ہے سب کی نظریں کبھی میوے پر تو کبھی میوے سے ہٹ کر گھڑی کے کانٹوں کی ٹک ٹک کی آواز پر جمی ہوئی ہیں۔ گویا کہ بقول شاعر ؎
فلک سے گھورتی ہیں مجھ کو بے شمار آنکھیں
نہ چین آتا ہے جی کو نہ رات ڈھلتی ہے
منہ سے درود جاری ہے تو ہاتھ کڑاہی میں مصروف ہے۔ دہی کا بگھار اور گرما گرم پکوڑوں کی خوشبو سے دل کہتا ہے بھاگو کانٹو بھاگو۔ مگر گھڑی کے کانٹے ہیں کہ ہلنے کا نام نہیں۔


اب بات کرتے ہیں حیدرآباد کی تو چاروں طرف روشنی ہی روشنی نظر آتی ہے مسجدوں کو سجایا جاتا ہے۔ میناروں پر لاؤڈ اسپیکر لگایا جاتا ہے تاکہ سائرن اور اذاں کی آواز محلے میں گونجے ،سب شیاطین کو بند کیا جاتا ہے۔ اس مہینہ سارے نوجوان سفید کپڑوں میں چودھویں کا چاند بنے نظر آتے ہیں۔ خصوصاً حیدرآباد کی گلیوں میں دیگ ایسے چڑھتے ہیں جیسے سمندر سے موتی نکل رہے ہوں۔
رمضان کے اس بابرکت مہینہ نے ہم کو بہت کچھ سکھایا جیسے امیری اور غریبی ، بھوک اور پیاس، اچھے اور برے کی تمیز۔ ایک کام سے ہم کو ستر نیکیاں ملتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گنہگار بندے پکے نمازی بن کے اپنے سر پر ٹوپیوں کو سجا کے اس مہینہ کی آمد پر گیارہ مہینوں کے گناہوں کا حساب نکال کر روزہ ، زکوۃ اور فطرہ دے کر گناہوں کی دلدل سے آزادی حاصل کرنے اور جنت میں اپنا مقام بنانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ کبھی بریانی کے پالیتھین پیکٹ گلی گلی کوچے میں تقسیم کرتے ہیں تو کبھی بڑے ہتھی اور چھوٹے ہتھی (ٹرالی ) میں ہر جگہ تھیلے کے تھیلے تقسیم کرتے ہیں۔ ایسی ایسی بستیوں میں جہاں پر لوگ تھیلے کے تھیلے لے کے گرتے بھاگتے دوڑے چلے جاتے ہیں اور ایسا بھاگتے ہیں کہ دوبارہ پلٹ کے دیکھتے تک نہیں اور اگر پلٹ کر آتے بھی ہیں تو اپنا حلیہ تبدیل کرکے اسی جگہ پر آکر پھر دوسرا تھیلا لے کر غائب۔ دوسری طرف دینے والے بھی یہ جانتے ہوئے کہ سامنے والا دوسری مرتبہ لے رہا ہے صرفِ نظر کر جاتے ہیں۔


حیدرآباد کی ہر گلی چاہے وہ پان منڈی ہو یا گھوڑے کی قبر، وٹے پلی ہو بابا نگر، موتی دروازہ ہو یا چادر گھاٹ ، مہدی پٹنم ہو یا گچی باولی، ٹولی چوکی سے چارمینار ہر جگہ حلیم کے دیگ ہی دیگ نظر آتے ہیں۔ اس دیگ کے اوپر ہر شخص بنا ٹوپی پہنے کٹورے میں چمچے کو ہلائے بغیر نظر نہ آئے گا۔ حیدرآباد کی بریانی ساری دنیا میں مشہور ہے اسی طرح سارا رمضان یعنی تیس دن تک حلیم ہی حلیم کھاؤ محاورہ مشہور ہے۔ ہر ہوٹل کے بغل میں حلیم کا تخت اور اس تخت پر بیٹھا ایک نوشہ (رمضان کا دولہا) موجود ہوگا۔ حلیم کو بنانے والے گیہوں، دالیں ،گرم ہرا مسالے گوشت کو دیگ میں ڈال کر صبح سے شام تک ڈوئی سے کوٹتے اور پکاتے ہیں تب جاکے یہ حلیم ہر روزہ دار کے پیٹ کی سیر کرنے کے قابل بنتی ہے۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک غیرحیدرآبادی ریاستی دوست یہ سوچ کر دس بارہ ڈبے فل حلیم کے خرید کر لائے کہ کل اتنی ذائقہ دار حلیم نصیب ہوگی بھی یا نہیں؟ تو اگلے دن معلوم ہوا کہ یہاں تو سارا ماہِ رمضان حلیم کے دیگ چڑھتے ہیں۔ ہم نے بھی ان سے کہا پھر ان دس بارہ ڈبوں کا کیا کیا گیا؟ کچھ ڈبے اگر اس غریب کو دے دیتے تو ڈبل نیکیاں کما لیتے آپ۔ تو جواباً اس نے کہا کہ پستہ ہاوز کیا شاندار ہاوز ہے بیرونی ممالک میں بھی اس کے چرچے عام ہیں پستہ ہاوز کی حلیم کی اسی شہرت کی وجہ سے سارے ڈبے میں اکیلا ہی کھا گیا۔ ہم نے کہا:
ہم کھانے پہ یوں غصہ کھا گئے
کہ بازار میں جو ملا تھا وہ سب کھا گئے


بات کھانے کی آ جائے تو دنیا میں لوگ دوسروں کے مال و جائیداد ،حقوق سب کھا لیتے ہیں۔ یہ غلط کام رمضان میں نہیں کیے جا سکتے ہیں اس لیے حیدرآبادی سنا ہے کہ ہزار کروڑ روپئے کی حلیم کھالیتے ہیں تاکہ ان کو بعدِ رمضان شیطان یہ ملال نہ دلائے کہ تم نے اس ماہ میں کچھ نہیں کھایا۔
ہمارے ایک واقفکار حلیم پر گھی ڈال کر روز کھا رہے تھے ، ایک دن ہم کو بھی افطار میں حلیم پر گھی ڈال کر کھلا دیئے جب ہم افطار اور نمازِ مغرب بعد گھرجا کر سوئے تو سحری میں ہی آنکھ کھلی۔ حلیم میں پہلے سے موجود گھی اور ہمارے رہبر کی جانب سے اس پر ڈالے گئے مزید گھی نے ہم پر ایسا نشہ طاری کر دیا کہ ہم دنیا مافیھا کو بھول کر بیہوشی کے عالم میں سو گئے۔ صبح ہم نے موصوف کو کال کیا تو پتہ چلاکہ ان کو دل کا دورہ پڑا ہے اور ایمرجنسی میں اوپن ہارٹ سرجری کی گئی ہے۔ اسی لیے حیدرآبادی زبان میں کہا جاتا ہے کہ اتنا نہیں کھانا کہ پھٹ جائے یعنی بِل پھٹ جائے۔


حیدرآباد کے دہی بڑے (دہی وڑے) بہت مشہور ہیں۔ ہم تو اپنے بچپن میں یہ کھیل بھی کھیلے کہ رمضان میں دہی بڑا ہی بڑا اب اس بچپن کو یاد کرتے تو یاد آتا ہے کہ وہ دہی بڑے نہیں دہی وڑے ہیں۔ سوائے حیدرآباد کے دہی بڑے بولنے کے کیونکہ حیدرآباد میں عام زبان میں لوگ دہی بڑے ہی کہہ کر کھاتے ہیں تو اتنا لذیز کہ نام سنتے ہی اور مزہ دار بن جاتا ہے۔ ہمارے دوست نے ہم سے کہا کہ دہی بڑے میں تم لوگ املی کیوں مکس کرتے ہیں؟ ہم نے کہا۔۔ کیا آپ لوگ چائے میں چینی کی جگہ نمک کا استعمال کرتے ہیں؟ تو وہ ہمیں گھورنے لگا تو ہم نے بھی کہا دہی بڑوں میں دہی ہی ڈالا جاتا ہے دہی کو ہی جذب کر رہا ہے وڑا تو وہی بڑی بات، املی بھلا کہاں سے ٹپکے گی؟ اگر دہی بڑے میں دہی کھٹا ہے تو غلطی آپ کی ہے کیونکہ آپ شاید اسے کھٹا ہی سمجھ کے کھاتے ہونگے جس سے دہی بڑوں کے بیکٹریا آپ کے منہ میں تقسیم ہوکر آپ کے منہ میں کھٹاس پیدا کر دیتے ہیں جس سے آپ دہی کو املی سمجھ لیتے ہیں۔


پچھلے رمضان یعنی بھت کال یا بھوتاکالمو کی بات کرے تو اس صدی کے دو ،ڈھائی برس واقعی ہم پر بہت ہی برسے۔ لوگ اپنے ہی گھروں میں قید ہوکر رہ گئے تھے، ان کی زبان پر اٹھتے بیٹھتے بھاگتے دوڑتے صرف کورونا ہی کورونا تھا ،کبھی اس کے قصہ تو کبھی کہانیاں لاک ڈان کی صورتحال کی عکاسی ٹی وی پر دیکھتے تو کبھی پولیس کے ڈنڈے اور لاٹھی کی مار سہتے، کبھی بھاگ دوڑ کی خبر تو کبھی ماسک نہ لگانے کا چالان۔ واقعی دو ڈھائی سال کورونا نے ہم روزہ دار بندوں کا پیچھا نہیں چھوڑا ،رمضان میں بھی یہاں تک کہ عید بھی آئی عیدی لینے کے لئے بھی سینٹائزر کا استعمال کئے بنا ہاتھ آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ مگر اب الحمدللہ حالات بہت ساز گار ہیں اس سال سب کی دعا رنگ لائی اور کورونا کا خاتمہ ہو گیا۔ شاید گنہگار بندوں کی دعاؤں کی قبولیت کا اثر ہوگا کہ کورونا دُم دبا کے بھاگ گیا۔ آج کل سننے میں آرہا ہے کہ کورونا کی نئی لہر پھر سے ابھر رہی ہے لوگ گھروں سے خبروں کو ایسے کان لگا کر سنتے ہیں جیسے کوئی نعمہ گا رہا ہے مگر اقبال کا یہ شعر میری زبان پر گونجتا ہے۔
ہو حلقہ یاراں تو ریشم کی طرح نرم
رزم حق باطل ہو تو فولاد ہے مومن


رمضان میں نوابوں کے شہر حیدرآباد کے چارمینار کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہاں اتنا مجمع نظر آئے گا کہ اگر آپ چار مینار کے چار کمان پر چڑھ کر دیکھیں تو ہر آدمی ہر رنگ کی چیونٹی جیسا نظر آئے گا اور جو لوگ افطاری کی دعوت نہیں دئے وہ مکوڑے نظر آئیں گے۔ ہمارے سیدھے ہاتھ کی طرف دیکھیے تو چوڑیوں کا بھرا پرا لارڈ بازار جہاں پر لوگ عید کی شاپنگ کرتے دیکھائی دیں گے (جس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے) تو تھوڑی دور پر مکہ مسجد جسے دیکھ کر محمد قطب شاہ کی یاد تازہ ہو جائے گی، بائیں جانب پھلوں کی بنڈیاں ، پیچھے چپل کا دکانوں سے گونجتا مینار اور سامنے فلک نما کو جانے والی روڈ۔
ہمیں رمضان میں ہی زیادہ تعداد خاص کر چارمینار پر ہی نظر آئے گی کیونکہ یہاں پر سارے تلنگانہ کے باشندگان شاپنگ کے لئے آتے ہیں اور بھر بھر کے شاپنگ کی تھیلیاں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں کپڑوں سے بھرا بیاگ تو کسی کے پاس سیویاں اور سوکھا میوہ۔ سوکھے میوے سے یاد آیا کہ عید کے دو دن پہلے یہاں کی خواتین بادام، کاجو، کشمش، کھجور، پستہ، چیرونجی ، سب کو پانی میں بھگو کر باریک باریک شکل میں کاٹ کر تیل یا گھی میں تل لیتی ہیں تاکہ عید کے دن یہ خشک میوے دودھ میں سوئمنگ کر سکیں۔ دوسری طرف بریانی کی بیاز برانڈ یعنی چاکلیٹی رنگ میں تل کے رکھ لیتی ہیں تاکہ عید کے دن کام چوری ظاہر نہ ہو سکے اور بریانی بھی لذیذ مزے دار بن سکے۔ عید کے بگھارے بیگن کو اتنا بگھارا جاتا ہے کہ یہ بیگن بھی اپنی اصلی شکل کے بجائے دوسری شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہاں کی خواتین تو ٹپ ٹاپ باجی راؤ مستانی سے لے کر حلیمہ سلطانہ تک نظر آتی ہیں۔ ان کے بیاگ میں عیدی اتنی ہوتی کہ دل کہتا عید کے گلے ملتے وقت ان کے بیگ کو غائب کر دیا جائے مگر ضمیر کہتا ہے اس سال شاید ہمارے سب گناہ ختم ہو گئے ہوں گے، اب ڈبل بڑ نہ جائے، اس خیال کے تحت ہاتھ رک جاتے ہیں اور آنکھیں شرمندہ تعبیر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اور نظریں پرس کو گھورتی ہی جاتی ہیں۔ مگر دل کہتا ہے صبر صبر۔۔۔۔ صبر کا پھل میٹھا۔۔۔
حسن کردار سے نور مجسم ہو جائے
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہو جائے

***
محسن خان (حیدرآباد، تلنگانہ)
ای-میل: mohsin_246[@]yahoo.com

Ramzan mein hum ne bhi kya kuch naa kia. Light-Essay by: Mohsin Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں