گیارہویں جماعت کے شعبہ طب کی طالبہ کی حیثیت سے میں نے اپنی مختصر سی عمر میں رمضان کو جیسا پایا ہے اور اپنے ہاں کے گھروں میں اس مہمان خصوصی کی جیسی قدر دانی دیکھی ہے اس کی روشنی میں اپنے احساسات و خیالات کو کاغذ و قلم کی سلامی دیتے ہوئے انشائیے کی شکل میں پیش کر رہی ہوں۔
بات میں سے بات کا نکل جانا انشائیہ کی خصوصیت اور بے ترتیبی کو ترتیب کی دنیا میں ایک مقام حاصل ہو جانا انشائیہ کا فیض ہے۔ انشائیہ بھی کتنا محترم ہو گیا رمضان کے موضوع کو اپنے دامن میں سمیٹ کر !
رمضان، جس کا لغوی مطلب ہی "جھلسا دینا" ہے، انسان کے گناہوں کو جھلسا دیتا ہے۔ بنابریں ہر مسلمان اپنی اپنی وسعت اور سہولت کے مطابق اس ماہ میں اپنی دیگر مصروفیات کو کم کرکے اس مہینہ کی مخصوص عبادتوں اور نفلی اعمال کی طرف زیادہ متوجہ نظر آتا ہے۔ رمضان کے مہینے کو وہ خصوصیات حاصل ہیں جو کسی اور مہینے کو حاصل نہ ہیں، نہ تھیں اور نہ ہوں گی۔ اس کی قدر و قیمت ہم جیسے مادیت پسند اور دنیا داری میں منہمک لوگ کہاں سمجھ سکیں گے۔ ا س ماہ کی قدر و قیمت ہی تو تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رجب کے مہینے میں اللہ سے دعا فرمایا کرتے تھے کہ:
"اے اللہ رجب اور شعبان میں میرے لیے برکت عطا فرما اور رمضان کے مہینے تک مجھے پہنچا دے۔ یعنی اتنی عمر نصیب فرما کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں شریک ہو سکوں۔ اس کے انوار و برکات سے اپنے دامن کو بھر سکوں۔ اللہ سے مزید قربت کی منزلیں طے کر سکوں"۔
یہ ماہ سچ مچ مخزن انوار و تجلیات اور معدن میمونات و برکات ہے۔ اسے سرچشمہ رشد و ہدایت اور مجمع خیر و برکات کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں حضرت ابراہیمؑ پر صحیفہ ، حضرت موسٰیؑ پر توریت ،حضرت عیسیؑ پر انجیل ، حضرت داؤدؑ پر زبور اور حضرت محمدؑ پر قرآن پاک کا نزول ہوا۔ ایک ایسا مہینہ جس کا ایک ایک دن گرانقدر اور جس کی ایک ایک شب بیش بہا رہی ہے۔ جہاد جیسی عظیم عبادت اسی ماہ میں فرض ہوئی۔ اسلام کو بلندی اور سرخروئی نصیب ہوئی۔ آج 23 واں روزہ بیت جانے کے بعد دن بہ دن گھروں میں بڑھتی ہوئی برکت کی کشش دلوں کو خدا تعالیٰ سے قریب سے قریب تر کیے جا رہی ہے۔ اس نورانی ماہ میں ہر مومن کو ایمان کی حلاوت نصیب ہو رہی ہے، جس کے باعث مساجد میں رونق اور سڑکوں پر چمک دمک ہر سو دکھائی دے رہی ہے۔
فضائیں مشکبار اور ہوائیں نرم و خرام نظر آ رہی ہیں۔ غروب آفتاب سے پہلے ہر طرف افطار کی رنگا رنگی اور عشا کی نماز کے بعد تراویح جیسی خوب صورت عبادت کی بھینی بھینی خوشبو محسوس ہو رہی ہے۔ تراویح میں ہر عمر کے لوگ بالخصوص نوجوان طبقہ بڑی لگن اور دینی جذبہ و ایمانی جوش کے سا تھ شریک ہوتے دکھائی دے دیتے ہیں۔ کیا ذکر کریں ان ایام کا جن میں مسلمانانِ عالم متحد ہو کر ایک دستر خوان پر خدا کی متعدد نعمتوں سے افطار کیا کرتے۔ کیا ہی خوش کن منظر دکھائی دیتا ہے جب سروں پر ٹوپیاں اپنے جلوے بکھیرتی ہیں اور روزہ داروں کی گردنوں پر خوبصورت رومال نظر آتے ہیں۔
ماہ رواں کا یہ بے مثال منظر ہر سال کی طرح روز بروز ترقی کرتا اور ابھرتا جا رہا ہے۔ چھوٹا بڑا ہر کوئی اس ماہ میں اپنی سابقہ کیفیت اور ہیئت سے بدلا ہوا اپنے ظاہر اور باطن کو چمکانے کی فکر میں سرگرداں نظر آ رہا ہے۔ جو افراد دیگر ایام میں ایک دوسرے کو ٹوپی پہنانے کے فراق میں ہروقت لگے رہتے تھے وہ سب کے سب خود اپنے سروں پر قیمتی سے قیمتی یا سستی سے سستی ٹوپی ڈالنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ مگر اس ٹوپی دوستی میں مسجد کی چہاردیواری میں ٹوپی چوری کی فضا بھی بننے لگی ہے۔ شام کے وقت بلکہ سرشام گھر سے باہر نکلیے تو آپ کو بازاروں میں چمک دن بہ دن نکھر کر سامنے آتی نظر آ رہی ہوگی۔ ملبوسات کی دکانیں قسم قسم کے کپڑوں سے لبالب بھری ہوئی ضرورت مند اور شوقین ہر دو طرح کے خریداروں کو دعوت خریداری دے رہی ہیں۔
کہیں دیکھیے تو بیگمات اپنی سینہ زوری دکھاتے ہوئے شوہروں کی کمائی کا بے دریغ استعمال کرتی نظر آ رہی ہوں گی۔ یہ تو اب تک کے تیئیس روزوں کے بعد کے دل ربا مناظر ہیں۔ ابھی شب قدر کے وہ دلپذیر روحانی مناظر جن کے لیے دل و نظر بیتاب ہیں ، باقی ہیں جو اپنے موعود وقت پر دکھائی دیں گے۔ مگر اس میں سگریٹ نوش اپنے مرغوب عمل میں اور چائے نوش اپنے من پسند شغل میں مصروف دکھائی دیں گے۔
اس شب ہر سال کی طرح روح پرور اور ایمان افروز بیانات اور دل و نظر کو تازگی بخشنے والے خطابات ہوں گے۔ مولاناؤں کی خوب قیمت لگے گی اور کرسی پر وہ کبھی اچھلتے اور کہیں ڈرامائی انداز میں اور کبھی عبرت آمیز طریقے پر گفتگو کرتے دکھائی دیں گے۔ طاق راتیں اور اعتکاف کے خوش گوار لمحے بھی انتظار طلب ہیں اور یہ ساری نعمتیں ہمیں اس ماہ کے تیسرے عشرے میں حاصل ہوں گی۔ صدقات و خیرات کے دئے جا نے کا خوشگوار سماں بھی ناقابل فراموش انداز میں اپنے شباب پر ہے۔ یہ سلسہ عیدگاہ تک اور بعض صورت میں وہاں سے واپسی کے بعد تک بھی جاری و ساری رہتا ہے اور رہے گا۔
ہرسال کی طرح اس سال بھی یہ ماہ مقدس اپنے مقررہ ایام کے بعد ہم سے ایک سال کے لیے رخصت ہو جائے گا۔ افطار اور سحری کے وہ خوشگوار لمحے ،تراویح و طاق راتوں کے وہ قیمتی اوقات ، نور و نکہت میں ڈوبی ہوئی آخری عشرہ کی راتیں جن میں ہر گھر میں رحمت کے فرشتے داخل ہوتے اور اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتیں اپنے بندوں پرنازل ہوتی ہیں ، ایک سال کے لئے ہمیں داغ مفارقت دے جائیں گی۔ غرض یہ کہ تیس راتیں یا انتیس راتیں ہر ماہ کی طرح اس ماہ کی بھی بہرحال گزر جائیں گی۔ یہی قانون قدرت ہے اور یہی روایت زمانہ ہے۔
رمضان المبارک کی قدر کرنے والے لوگ تو یقیناً اس ماہ کے رخصت ہونے پر رنجیدہ اور فکر مند ہوں گے مگر ساتھ ہی انہیں خوشی بھی ہوگی کہ انہوں نے اس ماہ کے ہر ایک پل سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے ایمان کی بیٹری کو ایک سال تک کے لیے چارج کر لیا ہے۔ اسی طرح وہ مسلمان بھی خود کو جواں بخت محسوس کر رہے ہوں گے جنہوں نے اس ماہ مقدس کی قدرو منزلت کو پہچانتے ہوئے روزہ و زکواۃ ، صدقات و عطیات اور ہدایات و خیرات کا خوب خوب اہتمام کیا ہوگا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ بشارت و خوش خبری تو انہیں کا استقبال کرے گی جنہوں نے غریبوں کی احوال پرسی دل کھول کر کی ہوگی اور روزہ داروں کی خاطر تواضع میں فراخ دلی سے کام لیا ہوگا، نوافل و اذکار کے ذریعہ اپنے گناہوں کی مغفرت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہوگی، نیز جنہوں نے فرائض، واجبات، مستحبات ، مندوبات وغیرہ کی ادائیگی کی، وہ تمام رحمت الٰہی سے نہال اور شفقت خداوندی سے سرفراز ہوئے ہوں گے۔
لیکن آہ ! حسب روایت اس چرخ شعبدہ باز خالق کون و مکاں کا ایک بار پھر یہ فیصلہ بھی اہل ایمان کے لیے آنسو پر اختتام پذیر ہوگا اور جدائی و وداعی کا دلگیر لمحہ بھی محض اٹھائیس دنوں بعد آ ہی جائے گا۔ اب یہ وقت محض ہجرو فراق کا ہوگا۔ موقع ہوگا تو صرف دوری و مہجوری کا۔ کیونکہ رمضان مقدس ہی ہم سے اس وقت رخصت ہو رہا ہوگا۔ عاشقان شریعت کی آنکھوں میں آنسو مگر ہونٹوں پر تبسم کا سیلاب امنڈ آئے گا۔ نگاہوں میں اشک ندامت و پشیمانی، دلوں میں ایمانی دھڑکن اور اسلامی تڑپ۔ یہی سب کچھ آخری دنوں میں اس ماہ کا منظر ہوگا۔
اس ماہ کی جدائی یقیناً دل پر شاق و مشکل ہوگی کیونکہ برکات و خیرات کا مہینہ اور انوار و تجلیات کا منبع ، نیکی و بھلائی کا سرچشمہ، جنت الفردوس اور اعلی علین کا ضامن ایک سال کے لئے رخت سفر باندھ رہا ہوگا۔ مگر ایسے لمحات چھوڑے جا رہا ہوگا جس سے لطف اندوزی ماہ رمضان المبارک کی عبادت و ریاضت سے کچھ کم نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو اس ماہ مقدس کے فیوض و برکات سے پوری طرح مستفیض فرمائے اور بار بار ماہ مبارک کو پانے کی توفیق نصیب فرمائے۔
عالیہ صدیقی ولد محمد ثناء اللہ صدیقی (گرین ویلی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ، الٰہی باغ ،بژھ پور ،سری نگر کشمیر)
ای-میل: siddiqueealiya1[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں