رمضان اور ہمارے روزے - انشائیہ از حمنہ کبیر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-13

رمضان اور ہمارے روزے - انشائیہ از حمنہ کبیر

ramzan-aur-hamare-rozey-by-hamna-kabeer

پہلی دفعہ جب روزہ رکھا تو یاد آتا ہے کہ گرمیوں کا موسم تھا۔ روزہ شوق میں رکھا تھا۔ افطار کے وقت کی خوشی نہ ہی پوچھیں۔ پیاس اور بھوک سے بے حال تھی۔ گھر میں خوب ساری افطاری بنائی گئی تھی۔ چونکہ دن بھر کچھ کھایا پیا نہیں تھا، اس حساب سے مجھے ڈھیر ساری افطاری بھی کم ہی لگ رہی تھی۔ اسی لئے باہر سے بھی بہت کچھ منگوا لیا تھا۔ جب مغرب کی اذان ہوئی تو میں نے اس قدر پانی پی لیا کہ ساری افطاری دھری کی دھری رہ گئی۔
ابو جی نے مسکراتے ہوئے پوچھا: " یہ سب کون ختم کرے گا؟"
اور میں کھسیا کر رہ گئی۔


رمضان میں سب سے بڑا معرکہ مجھے سحری کے لئے اٹھنا لگتا ہے۔ شروعات میں بستر پر ہی سحری مل جایا کرتی تھی۔ بڑے پیار سے اٹھایا جاتا تھا اور میں ادھ کھلی آنکھوں سے منھ ہاتھ دھو کر سحری کر لیا کرتی تھی۔ جیسے جیسے ہوشیار ہوتی گئی ، گھر والے بے وفا ہوتے گئے۔ اب خود سے ہی سحری کرنی پڑتی ہے۔ ہاں جگایا اب بھی جاتا ہے۔
"اٹھو حمنہ تمہیں روزہ رکھنا ہے۔"
اور میں کسمساتے ہوئے:
"ٹھیک ہے رکھ دوں گی۔ کہاں رکھنا ہے ویسے؟"
پہلے دادی جان جگاتی تھیں ،بڑے پیار سے۔ میں ہر آواز پر ان سے یہی کہتی تھی: " بس پانچ منٹ میں آ رہی ہوں۔" آخری ڈائلاگ ان کا کا یہی ہوتا تھا:
"جاؤ اب میں جگانے نہیں آؤں گی۔ اذان ہونے میں بھی اب زیادہ وقت نہیں ہے۔"
ان کی یہی آواز میرے لئے الارم ٹون کا کام کرتی تھی۔ آج میں موبائل پر روز الارم لگا کر سوتی ہوں اور بھائی یا امی کے الارم یعنی آواز پر ہی اٹھتی ہوں۔ خیر یہ تو ہوئے کچھ ذاتی تجربے۔ اب ایک نظر رمضان کے روزے داروں پر ڈالتے ہیں۔


رمضان کے روزے داروں کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ایک تعداد ان روزے داروں کی ہوتی ہے جنہیں لگتا ہے کہ ہم 11 مہینے کے جاگے ہوئے ہیں اور اللہ پاک نے یہ خاص مہینہ محض ہمارے لئے اتارا ہے کہ اے گیارہ مہینہ جاگ کر گزارنے والے نیک بندو! یہ بابرکت مہینہ خاص طور پر تہمارے لئے اتارا گیا ہے تاکہ تم اپنی نیند پوری کر سکو۔ پس تم اپنی نیند پوری کرو۔
اس لئے اللہ کے یہ نیک بندے تب تک جاگتے رہتے ہیں جب تک کھا پی سکتے ہیں یعنی افطاری سے لے کر سحری تک۔ باقی وقت ان کا روزہ ہوتا ہے اس لئے سو کر بتایا جاتا ہے۔ ان کی آنکھیں دیکھ کر ہی رحم آجاتا ہے۔
"جا بھائی تو سو جا۔ گیارہ مہینوں کا جگا ہوا ہے۔"


ایک تعداد ان روزہ داروں کی ہوتی ہے، جنہیں روزے کی حالت میں چُپی لگ جاتی ہے۔ افطار بعد ہی ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ورنہ روزے کی حالت میں یوں منھ سی لیتے ہیں کہ کہیں ذرا سا بولنے یا ہنسنے سے بھوک اور پیاس نہ لگ جائے۔ سارا دن منھ یوں لٹکا رہتا ہے جیسے مار پیٹ کرروزہ رکھنے کے لئے مجبور کیا گیا ہو۔
سب سے برا حال ان روزے داروں کا ہوتا ہے جو عام دنوں میں ہر گھنٹے سگریٹ، پان اور تمباکو سے شوق فرماتے ہیں۔ ان کا حال برا تو ہوتا ہے ہی ساتھ ہی یہ اپنے آس پاس رہنے والوں کا بھی حشر کر دیتے ہیں۔ یہ روزے کی حالت میں قید کرنے کی حد تک خطرناک ہو جاتے ہیں۔ بات بات پر کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ افطار بعد جیسے ہی سگریٹ یا پان منھ کو لگتے ہیں۔ سب کچھ ایسے نارمل ہو جاتا ہے جیسے سارا سسٹم ہی "اپ ڈیٹ " ہو گیا ہو۔ پھر آپ انہیں گالیاں بھی دیں تو بے مزا نہیں ہوتے۔


کہتے ہیں افطار کے دسترخوان پر بیٹھنے والا وہی شخص عقل مند ہے جو اچھی طرح دیکھ بھال کر ایسی جگہ بیٹھے جہاں سے اس کے ہاتھ ہر پلیٹ تک بآسانی پہنچ سکیں۔ سب سے بدقسمت وہ ہے جس کا تنگ پیٹ ذرا سے پکوڑوں، پانی اور شربت سے ہی بھر جاتا ہے اور پھر اس اطمینان کے ساتھ نماز کے لئے جلدی نکل جاتا ہے کہ واپس آکر آرام سے افطاری پر ہاتھ صاف کروں گا۔ چہل قدمی سے پیٹ میں بھی کچھ جگہ بن ہی جائے گی۔ لیکن جیسے ہی امام صاحب نیت باندھتے ہیں یاد آتا ہے کہ یا اللہ میں نے تو سموسے چکھے بھی نہیں تھے، کہیں ختم نہ ہو جائیں۔ پھر تو امام صاحب کے ذریعے پڑھی جا رہی سورہ الناس بھی سورہ یٰسین لگنے لگتی ہے۔ ادھر جناب کا دم گھٹتا جاتا ہے۔ رکوع میں یاد آ جاتا ہے کہ دھت تیری کی، افطار میں کچوریاں بھی تو تھیں، میری نظر کیوں نہیں پڑی۔ سجدے میں جاتے ہی ذہن مین فروٹ چاٹ آ دھکمتی ہے کہ اے گھامڑ انسان تو نے مجھے بھی ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ سلام پھیرتے ہی یہ بجلی کی تیزی سے مسجد سے نکلتے ہیں۔ سنت تو دور کی بات ہے۔ تسبیح اور دعا بھی تقریباً گھر کی طرف دوڑ لگاتے ہوئے راستے میں ہی ہوتی ہے۔
قسمت والے ہوئے تو افطاری میں سے بچا کچھا کچھ مل جاتا ہے۔ ورنہ خالی پلیٹیں منھ چڑھاتی ہیں۔


رمضان سے پکوڑوں کا ایک لازوال رشتہ جڑا ہے۔ یہ رشتہ کس نے کروایا تھا؟ رشتہ کرانے والی آنٹی کون تھیں؟ اس کے بارے میں نہ تو کسی کو معلوم ہے نہ ہی کسی نے جاننے کی کبھی کوشش کی۔ ہاں ایک دفعہ کہیں پڑھا ضرور تھا-
" اے ایمان والو! تم پر رمضان کے روزے فرض کئے گئے ہیں نہ کہ پکوڑے"-


رمضان کے ایام میں ساری موج بچوں کی ہو جاتی ہے۔ ایک تو یہ قوم سویرے سوتی نہیں۔ اس پر سے جلدی اٹھ بھی جاتی ہے۔ پھر چائے بھی چاہئے، ناشتہ بھی اور کھانا بھی۔ اس کے بعد افطار میں سب سے پہلے اور دسترخوان پر سب سے آگے بیٹھنے کا حق بھی انہیں کا ہوتا ہے، جیسے دن بھر کے بھوکے رہے ہوں۔ اس کے بعد تراویح میں نمازیوں کے پیچھے کشتی اور کبڈی سے بھی شوق فرماتے ہیں۔ اکثر سحری میں بھی آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ جاتے ہیں۔ پیار سے یہ کہہ کر سحری بھی کروائی جاتی ہے کہ
"کل سے تمہارا 'کھانے والا' روزہ ہوگا۔"
سارا دن "چرتے" رہنے اور حلق تک سحری کرنے کے بعد بھی روزہ رکھا جائے گا تو وہ بھی کھانے والا۔ سن کر جان جل جاتی ہے۔


کہتے ہیں گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ لڑکیوں کی جب موت آتی ہے تو ان کے سر پر افطاری کے برتن پڑ جاتے ہیں۔ کتنی ہی بہنیں مغرب کی نماز میں اسی خوف کے زیراثر لمبے لمبے رکوع و سجود کرتی ہیں۔ زیادہ عقلمند ہوئیں تو نماز بعد تلاوت بھی کرنے بیٹھ جاتی ہیں اور مصلے سے تب تک نہیں اٹھتیں جب تک افطاری کے برتن کوئی اور سنبھال نہ لے۔

***
حمنہ کبیر (وارانسی)
Email: hamnaahvazi[@]gmail.com

Ramzan aur hamare rozey. Light Essay by: Hamna Kabir

2 تبصرے:

  1. بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں.. اچھا لکھا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ بہت عمدہ طرز تحریر

    جواب دیںحذف کریں