بعدِ مغرب مسجد سے گھر کی جانب نکلے ہی تھے کہ نظر احسن صاحب پر جا پڑی۔ حضرت ایک ہاتھ میں مسواک اور نئی ٹوپی اور دوسرے میں روح افزاء کی بوتل تھامے نظر آئے۔ فوراً ہماری نگاہیں تعاقبِ قمر ہوئیں لیکن سعیِ پیہم لاحاصل۔ پھر دیکھا کہ پس منظر میں کئی عدد ارواح موبائیل لیے کُل آسمان ہی قید کیے جاتے ہیں۔ ایک سے گویا ہوئے:
"بھائی ہمیں تو نظر نہیں آیا"
جناب یوں حیرت سے تکنے لگے کہ ہمیں اپنا ایمانی وجود خطرے میں محسوس ہوا ، سو آگے بڑھ گئے۔
خیر ! تو رمضان آ گیا ہے۔ یعنی کل کا پورا دن گزرے گا۔۔۔ "رمضان مبارک" کی تصاویر صاف کرنے میں ، کچھ نیک خو تو مبارک باد بھی ویڈیو میں بھیجتے ہیں۔ جو پختگیِ ایمان کی علامت ہے۔
رمضان میں لوگوں پر نماز فرض ہوجاتی ہے ، اس لیے مسجد بھی سبھی کے لیے کھول دی جاتی ہے۔ وہاں سال بھر حفاظت سے رکھے ہوئے مصحف پڑھنے کی اجازت بھی مل جاتی ہے، لیکن پڑھنے سے پہلے اس پر لگی دھول کو اچھی طرح صاف کرنا پڑتا ہے۔ مسجد 'نمازیوں' اور 'سفیروں' سے بھر جاتی ہے۔ ان دو حیثیتوں میں فرق ضروری ہے کہ ایک کے لیے تو مسجد ہی ہے لیکن دوسرے کے لیے مسکن ہے۔ کچھ لوگ عبادت کرتے ہیں، بیشتر استراحت فرماتے ہیں۔ لوگ چونکہ روزہ ہیں اس لیے بیت الخلاء بھی کھلے ہوئے ہوتے ہیں ، ورنہ عام دنوں میں زیادہ بھیڑ ہونے پر بیت الخلاء بند کر دیا جاتا ہے۔
رمضان میں زکوٰۃ بھی فرض ہو جاتی ہے لیکن ان ہی پر جو خاص رمضان میں ادا کرتے ہیں ، اوروں پر فرض نہیں ہوتی۔ اب چونکہ اس مہینے میں دن کو کھانے پینے کا ماحول نہیں رہتا اور افطاری بھی سب کے ساتھ ہی کرنا ہے، اس لیے اکثر کو روزہ رکھنا پڑتا ہے۔ پھر آخر میں تراویح ہے۔ یہ ایسی نفل ہے کہ سال بھر فرض نہ پڑھنے والوں کو بھی پڑھنی پڑتی ہے، کیوں کہ سبھی پڑھتے ہیں۔
روزے کی ابتداء سحری سے ہوتی ہے۔ سحری میں کچھ خاص چیزیں کھانے سے دن بھر بھوک پیاس نہیں لگتی ، یہ چیزیں فیس بک اور اسی طرح کے دوسرے پلیٹ فارم پر وافر مقدار میں بغرض اطلاع موجود ہیں۔ لیکن ایک مجرب نسخہ یہ ہے کہ آپ سحری کر کے فوراً سو جائیں اور قریب افطار کے بیدار ہوں۔ یہ نسخہ سبھی کا آزمایا ہے۔ اب سحری اور افطاری کا درمیانی وقت "نامعلوم غفلت" میں گزرتا ہے ، اس لیے سحری کے فوراً بعد ہی افطاری کا تذکرہ ہونا چاہیے۔ افطاری میں سب سے مشکل امر زیادہ پانی پینے سے بچنا ہے۔ اسی باعث اکثر لوگوں کو افطاری میں تسلی نہیں ہو پاتی کہ ایک وافر حصہ پانی کی نذر ہو گیا۔
ایک دفعہ افطاری کی دعوت میں ایک پلیٹ، دو وڑا اور آٹھ پاؤ لیے نمودار ہوئی۔ بعضوں نے اسے وڑوں کے ساتھ نا انصافی قرار دی تو اکثر نے پاؤ کی غیرت مجروح ہونے کا الزام لگایا۔ ہم نے فوراً ایک وڑا اور ایک پاؤ اٹھا کر باقی معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا۔
ایک مرتبہ تراویح کے بعد وتر کی تیسری رکعت میں امام صاحب اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں چلے گئے۔ پیچھے کچھ گھاگ لوگ دیر تک اللہ اکبر کی صدا لگاتے رہے لیکن امام صاحب بھی ضدی تھے ، دوبارہ اٹھنا گوارہ نہ کیا ، آخر کو دل برداشتہ رکوع کیا گیا ، لیکن بے چارے پہلے منزلے والے کیا کرتے۔ سبھی اللہ اکبر کے بعد دعائے قنوت میں مشغول تھے کہ "سمیع اللہ " کی آواز آئی۔ کچھ تو سکتے میں یوں ہی کھڑے رہ گئے ، بعضوں نے جلدی سے رکوع کیا اور کھڑے ہو گئے اور کچھ نماز توڑ کر نیچے امام صاحب کو دیکھنے چلے آئے۔ آگے کے احوال بیان کرنا مناسب نہیں۔
بہر کیف ! ماہِ رمضان کے تعلق سے کچھ باتیں عرض کر دی گئیں۔ اصولاً کچھ چیزیں درست نہ ہوں لیکن عملاً ساری ہی متذکرہ باتیں شامل ہیں۔ ہمیں اپنے احتساب کی ضرورت ہے۔
ابنِ اعجاز اعظمی (شیخ زبیر اعجاز) (بھیونڈی، مہاراشٹر)
ای-میل: ibneejaz7558200321[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں