مسجدیں صاف ہو رہی ہیں، سال بھر سے بچھڑے نمازی مسجد میں آ آ کر نشان دہی کر رہے ہیں کہ اسی جگہ میں نے پچھلے رمضان تراویح کی رکعتیں گنی تھی بیٹھے بیٹھے۔ پرانی چٹائیاں دھوپ دکھا کر دوبارہ بچھائی جا رہی ہیں اور اس کام پر معمور حضرات اس کے بدلے جنت کی تمنا کے ساتھ ساتھ اچھی چٹائیاں اپنے مخصوص جگہ پر بچھانے لے لئے سرد جنگ لڑ رہے ہیں۔ مساجد کے بیت الخلا میں ٹائلز پھر سے نئے لگ رہے ہیں مگر مائک وہی چوں،چاں، سییی ساں والا ہے۔
مسجد کے باہر ایک عدد نئی دکان عطر مسواک، ٹوپی اور جائے نماز کی لگ گئی ہے جہاں قیمتی مصلے پر جلد سے جلد نماز قبول ہو جانے کی گارنٹی تک مل رہی ہے۔ امام صاحب کو سلامی ملنے میں قابل قدر اضافہ تو ہوا ہے مگر کتنی سلامیاں افطار کی دعوت میں تبدیل ہوں گی ابھی اس پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کلوز اپ اور کولگیٹ کی فروخت میں کافی کمی درج کی گئی ہے، سارے مسلمان سنی بننے کی ہوڑ میں نیم اور ببول کی درختوں کی طرف دوڑ پڑے ہیں۔
گلی میں عجیب سا شور ہے، ایک بوڑھا آدمی گلے میں پچاس سال پرانی ڈھولک لٹکائے اقبال و حالی کے غیرت ایمانی جگانے والے اشعار گنگنا۔۔۔ اوہ۔۔ معذرت زور زور سے چلا کر پڑھ رہا ہے، غیرت ایمانی کا تو پتہ نہیں ہاں البتہ مومنین بے دار ہو گئے ہیں، میری نیند اس وقت چٹاخ کی آواز سے ٹوٹ پڑی جب جگانے والے نے اقبال و حالی کے اشعار کے بیچ "اٹھ جاؤ اللہ کے شیر، نہ لگاؤ دیر" کا مصرعہ سنایا۔ خیر اب پانچ منٹ باقی ہیں، ہر شخص کے باتھ میں جام ہے اور ہر شخص خود کا ساقی بھی ہے کیوں کہ ساقی جانتا ہے کہ اگر وہ اس وقت جام لنڈھانے بیٹھا تو سارا دن اسے تشنہ لبی میں گذارنا پڑے گا۔
ابھی تو مردان خدا حوالۂ آغوشِ خواب ہوئے تھے، ابھی صبح ہو گئی، پکوانوں کی خوشبو روزے داروں کی حس شامہ سے نبرد آزما ہے۔ میں کبھی دھنیا، کبھی پودینہ، تو کبھی کسی اور بہانے سے کچن کا چکر کاٹ آتا ہوں جب کہ گھر کی بڑی بڑی شخصیات حسرت بھری نگاہوں سے کچن کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ محلے کی راشن کی دکان پر دو سو کا تیل ڈھائی سو میں، ایک سو چالیس کا روح افزا ایک سو ساٹھ میں، ساٹھ کا چنا اسی میں اور چالیس کی شکر پچاس میں فروخت ہو رہی ہے۔ واقعی رمضان برکتوں کا مہینہ ہے۔
خیر اذان کا وقت قریب ہے، گھر کے چھوٹے بچوں کو دادی کے حوالے کر دیا گیا ہے کہ وہ انہیں بے وقت اذان دینے سے باز رکھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی چھوٹا موذن بڑا کارنامہ کر بیٹھے۔ خیر اب فری فائر پکوڑوں پر بھاری ہے۔ سب نے شربت کے گلاس قریب بہ لب کر لئے ہیں، گھڑی کی سوئی نے اب گھومنا بند کر دیا ہے۔ گھڑی کو زیادہ ملال اس بات پر ہے کہ موذن صاحب پہلے خود کھا کر اذان دیتے ہیں۔ ادھر اللہ اکبر کی صدا آئی ادھر دھڑا دھڑ پکوڑے، سموسے اور کباب اللہ کی راہ میں جام شہادت نوش کرنے لگے۔ مومنین اب مساجد کا رخ کرنے والے ہیں، مومنات نے وہیں مصلی بچھا لیا، چھوٹے مومنین مال غنیمت سمیٹنے لگے۔
مسجد میں امام صاحب نے نہایت فاضلانہ انداز میں فاضل مال زکاۃ دینے کی فضیلت بیان کی۔ مال کتنا نکلے گا اس کا تو پتہ نہیں البتہ سیٹھ حضرات نے گذشتہ سال دی ہوئی زکاۃ کی رسیدیں نکال لی ہیں، وہ اپنے مال کا حساب لگانے سے زیادہ سفیران سے حساب کتاب پوچھ رہے ہیں۔ گلی میں اللہ اللہ کا ورد تیز ہو رہا ہے، لوگ پانی پی پی کر اللہ کے نام پر صرف سو پچاس روپے مانگ رہے ہیں۔ میں تو ان کی کمال تربیت کا اس وقت معترف ہو بیٹھا جب ایک دس سال کا درویش آ کر گویا ہوا:
"بھیا پچاس روپیہ دے دینے سے کوئی کمی نہیں ہو گی"۔
لوگوں کی ڈاڑھیاں بڑھ گئیں ہیں، ادھر نائی بھی انتظام کر رہا ہے کہ عید کی چاند رات میں بہت بھیڑ ہوگی۔ پورا ماحول اسلامی۔۔۔ اوہ ہو۔۔۔ معذرت مسلمانی ہے، تکمیل تراویح کے ساتھ ساتھ سال بھر کی نمازوں کا اسٹاک لے لیا گیا ہے۔ مومنات کا قافلہ عید کی تیاریوں میں پابجولاں سوئے بازار رواں ہے۔ عیدی کی ڈیل ہو رہی ہے، مگر میری عیدی "من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو" کی مصداق ٹھہرتی ہے، مثل صورت خورشید ادھر نکلتی ہے مگر ادھر ڈوب جاتی ہے، اسی دن مجھے علم اقتصادیات کا "منی سائیکل" بھی بخیر و خوبی سمجھ میں آ جاتا ہے۔
وسیم رفیع (ابوہریرہ) (جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)
ای-میل: rafiwaseem382[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں