جدید افسانے کا آغاز - از ڈاکٹر صغیر افراہیم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-17

جدید افسانے کا آغاز - از ڈاکٹر صغیر افراہیم

jadeed-afsane-ka-aaghaaz

اردو میں افسانہ شارٹ اسٹوری کا مترادف ہے ، یہ صنف غزل مغربی ادب کی دین ہے۔ اس کی ہیئت مغربی ہے اور فن کا اکتساب بھی مغرب سے کیا گیا ہے۔ مگر دیگر خوبیوں کا سلسلہ ہمارے قدیم ادبی سرمائے تک دراز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ادب سے متاثر ہونے کے باوجود اردو افسانے کی اپنی ایک شناخت ، ایک پہچان ہے۔ اس نے ہندوستان میں پروان چڑھنے والی کہانیوں اور داستانوں کو اپنے اندر جذب کیا ہے۔ ملکی معاشرت تہذیب اور قومی زندگی کی عکاسی کی ہے۔


افسانہ انسانی زندگی کے تعلق سیے اس کے تمام محرکات و عوامل، گونا گوں مشاغل، سانحی نشیب و فراز اور واقعاتی مدوجزر کو اپنے اندر سموتے ہوئے اس طرح ادبی پیکر میں ڈھلتا ہے کہ زندگی کے کسی ایک پہلو کو منعکس کرکے قاری کے ذہن پر ایک بھرپور تاثر چھوڑجاتا ہے۔ افسانہ زندگی سے براہ راست متعلق ہونے کے سبب، اسی کی طرح متحرک اور تغیر آمیز بھی ہے، انسانی زندگی میں جیسے جیسے تبدیلیاں آتی ہیں اور جیسا اس کا مزاج بنتا ہے اسی پیکر میں افسانہ بھی ڈھلتا رہتا ہے۔ افسانے کی روح وحدت تاثر ہے۔ یہی افسانہ نگار کا فنی نصب العین ہوتا ہے جسے وہ کم سے کم وقت میں اپنے قارئین کے ذہنوں پر نقش کردینا چاہتا ہے جس کی خاطر وہ اپنے تجربات ، مشاہدات ، تخیلات اور تصورات کا سہارا لیتے ہوئے تخلیق کی پر پیچ ذہنی مرحلوں سے گذر کر واقعات کا سحر انگیز تانا بانا تیار کرکے ان کرداروں کو روشناس کراتا ہے جو ماحول اور فضا سے ہم آہنگ ہوکر اس کے مقصود کی تکمیل کرسکے۔ افسانہ کے تشکیلی لوازم سریت ، تجسس، ندرت ، جدت، جامعیت میں ڈوب کر قاری کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں کہ اس کی دلچسپی اول تا آخر برقرار رہتی ہے اور قاری کا ذہن اس واحد تاثر کو قبول کرلیتا ہے جو افسانہ کی تخلیق کا سبب ہوا ہے ، تو افسانہ کامیابی سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔


بیسویں صدی کا آغاز اردو افسانہ کی ابتداء قرار دیاجاتا ہے۔ پریم چند اور علی عبا س حسینی سے پہلے یلدرم ، فیض الحسن ، پیارے لال آشوب ، عبدالحلیم شرر ، شیو برت لال ورمن، خواجہ حسن نظامی ، راشد الخیری، حکیم یوسف حسن، علی محمود بانکی پوری وغیرہ کے نام گنائے جاسکتے ہیں۔ جن کے انشانیہ نما افسانوں کے نمونے مختلف اردو رسائل میں ملتے ہیں۔ لیکن پریم چند اور علی عباس حسینی نے افسانے کی روح کو سمجھتے ہوئے اس کے تکنیکی لوازم کو دیانت داری سے مروج ہی نہیں کیا بلکہ حقیقت پسند رجحان کے تحت افسانوں کے اعلیٰ نمونے بھی پیش کئے جو دوسروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے۔ ان دونوں افسانہ نگاروں نے صنف افسانہ کو حقیقت سے قریب کیا، عوامی زندگی کی ترجمانی کی ، محنت کش طبقہ کے احساسات ، جذبات،اور ان کے مسائل کو پیش کیا۔ سماجی جبر، رسم و روج کی بے جا پابندیوں اور عورتوں کی مظلومی کی جانب متوجہ کر کے ، ان کی حمایت میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ پسماندہ طبقہ کی زندگی کی خصوصیات ، ان کے معاملات ، رسم و رواج اور توہمات کو اس طرح بیان کیا۔کہ ان کے لئے ایک عام ہمدردی کی لہر دوڑ گئی اور عوامی سطح پر ان برائیوں کو دور کرنے کے لئے کوششیں شروع ہو گئیں۔


پریم چند نے تقریباً 280 افسانے لکھے وہ اردو کے پہلے افسانہ نگار ہیں جنہیں ان کا جذبۂ حب الوطنی ادب کی سنگلاخ وادی میں کھینچ لایا اور وہ تمام عمر اسی جذبہ کے زیر اثر تخلیقی عمل سے گزرتے رہے۔ ان کا پہلا افسانہ "عشق دنیا و حب وطن" اسی جذبہ کا مظہر ہے۔ ان کے پہلے افسانوی مجموعے"سوز وطن" کے نام سے ہی ان کی دلی کیفیت اور ان کے ذہنی کرب کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے ، انہوں نے جذبہ حریت ، سر فروشی کی تمنا قوم کی کردار سازی ، زمینداروں ، مہاجوں اور مذہبی ٹھیکیداروں کے استحصال ،ہریجنوں کی حالت زار ، بیواؤں کی خستہ حالت ، مشترکہ خاندان کی کش مکش ، بے جوڑ شادی کا انجام ، جہیز، کنیا دان، اور تعلیم سے متعلق موضوعات اور ماحول پر مشتمل افسانے لکھنے شروع کئے لیکن دیہی زندگی کے تعلق سے جو افسانے انہوں نے لکھے وہ کئی اعتبار سے اہم اور قاببل توجہ ہیں، کیونکہ انہوں نے دیہی زندگی کو قریب سے دیکھا تھا۔ وہ ان کے مسائل کو سمجھتے تھے، زمینداری نظام، کچلے ہوئے پسماندہ کسان، سسکتے ہوئے ہریجن ، عہد قدیم سے رائج ذات پات کی تفریق ، مروجہ رسوم ، تعلیم کی کمی او ر ان کے تعلق سے پیدا ہونے والے مسائل اور وہ استحصال جو برسہا برس سے طاقتور کمزورکے ساتھ روا کے ہوئے تھا یہ سب پریم چند پر عیاں تھے اور ان موضوعات کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے پریم چند برابر افسانے لکھتے رہے اور دیہی آبادی کے کوائف اور ان کی تفصیلات سے متعارف کراتے رہے۔ ان افسانوںں میں فنی کمزوریاں تو ممکن ہیں۔ لیکن اس عہد کے ہندوستان کے دیہی معاشرے کی لافانی تصاویر اور کردار نگاری کے بہترین نمونے محفوظ ہیں۔


افسانہ"لال فیتہ" ،"قاتل"،اور"جیل" حب الوطنی کے جذبہ سے معمور ہیں۔ "ستی"، اور "رانی سارندھا" ان پر مرمٹنے والوں کی داستان ہے۔ "وکرمادتیہ کا نیفہ""راجا مہردول"، "سریا واکی قربان گاہ" ،"مرزا الفت"،اور" سرپر غرور" نامی اسانوں کے مرکزی کرداروں کے ذریعہ پریم چند نے قوم میں عدل و انصاف ، حمیت و غیرت اور شجاعت و بہادری کے وہی اوصاف دیکھنے چاہے ہیں جو ان کرداروں کی شخصیت کے اہم عناصر قرار دیے جاسکتے ہیں۔"معصوم بچہ" اور"خون سفید" میں قرض، بیگار، بھوک اور افلاس کی حقیقت کو اجاگر کیا ہے ، "پوس کی رات" کسان کے اس المیے کی داستان سناتا ہے جو باوجود سخت محنت کے اتنا بھی پس انداز نہیں کرپاتا تاکہ سرمایہ کی طویل راتوں سے سے اپنے کو محفوظ رکھ کر کھیتوں کی صحیح نگہداشت کرسکے۔"نجات" "سواسیر گیہوں" اور" دودھ کی قیمت" میں بھولے بھالے غریبوں کے کوائف بڑے دردناک پیرائے میں بیان کئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ان کی ضعیف الاعتقادی اور مذہبی امور میں اندھی عقیدتمندی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اقتصادی حقیقت ، انسانی زندگی اور شخصیت کی کس طرح تشکیل کرتی ہے۔
افسانہ"انصاف کی پولیس" اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ ہریجنوں کے روح فرسا معاشی ، معاشرتی اور نظریاتی استحصال کے اعتبار سے ان کا افسانہ "دودھ کی قیمت" قابل توجہ ہے۔ اس میں پریم چند نے منگل کے سہارے ہریجن کی سماجی حیثیت کی وضاحت کی ہے جس نے افسانے کے ماحول کو اس کی فضاسے ہم آہنگ کرکے موضوع کو مزید پر اثر بنادیا ہے۔ اور ایک ایسا طنزیہ لہجہ اختیار کرلیا ہے جس نے سماجی جبر کے خلاف باغیانہ تیور اختیار کرلئے ہیں۔
افسانہ "ابھاگن" ،"بازیافت"،"کسم" اور"بد نصیب ماں" میں پریم چند نے عورتوں کے مسائل کا تذکرہ کر کے سماجی شعور کو جھنجھوڑا ہے اور معاشرے میں اس کے لئے مساوی حقوق کے طلب گار ہوئے ہیں۔ "حسن و شباب" ،"خودی"،" گھاس والی"،اور"ویشیا" میں انہوں نے عورتوں کی زندگی کا ہمدردانہ تجزیہ کیا ہے۔ ان کی یہ شعوری کوشش طبقہ نسواں کو ذلت اور رسوائی کے غار سے نکالنے کی تھی۔"مجبوری"،"مالکن"،"نئی بیوی" اور"زاد راہ" میں پریم چند نابرابری کی شادیوں کے بھیانک نتائج سے عوام الناس کو باخبر کرتے ہیں کہ اس طرح کی شادیوں کا انجام عموماً عورت کی بے راہ روی ، گھٹ گھٹ کر مرنا یا پھر خود کشی پر ہوتا ہے۔
افسانہ"شکوہ و شکایت" میں جہیز اور کنیادان کے خلاف احتجاج اور "روشنی" میں تعلیم کی جانب سے لا پرواہی کے سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ زندگی اور اس کے واسطے سے دیگر جزئیات کو انسانوں کا موضوع بناکر اپنے معاصرین پر سبقت لے گئے ہیں۔ان کے اسلوب بیان میں روز بروزسادگی اور روانی آتی گئی۔ ان کا آخری افسانہ"کفن" فکر وفن دونوں ہی اعتبار سے اپنا ایک لازوال نقش قائم کرتا ہے۔


پریم چند نے اپنے اسانوں کے توسل سے متعدد ملکی معاملات اور سماجی مسائل کے لئے قومی سطح پر رائے عامہ ہموار کی ہے اور ادب کو ایسے زندہ فن پارے عطا کئے ہیں جو کسی عہد کے لئے مخصوص نہیں ہیں اور نہ کسی طبقہ خاص سے ان کو منسلک کیاجاسکتا ہے۔ وہ پچھڑے ،دبے ، کچلے ہوئے لوگوں کے مسیحا اور ان کی زندگی سے وابستہ مسائل کے ادیب ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں کے پلاٹوں کے تانے بانے عموماً دیہی ماحول میں تیار کئے ہیں تاکہ کہانی ٹھوس بنیادوں پر قائم رہ کر زندگی کے حقیقی مسائل کا انعکاس کرسکے۔ کرداروں کا انتخاب وہ ان جانے پہچانے افراد سے کرتے ہیں۔ جن کا کہانی کے تعلق سے گہری مطابقت ہوتی ہے۔ کرداروںکی تصویر کشی میں وہ ان حرکات و سکنات اور قول و فعل سے کام لے کر خدوخال اس طرح ابھارتے ہیں کہ دیہی معاشرے کی بولتی اور چلتی پھرتی تصویریں نگاہوں کے سامنے پھرجاتی ہیں اور قاری دیہی زندگی کا شاہد بن جاتا ہے۔


علی عباس حسینی نے افسانہ نگارہ میں اس راہ کا انتخاب کیا جو پریم چند کی تعمیر کردہ ہے۔ ان کا تعلق بھی پریم چند کی طرح براہ راست عوام الناس سے رہا ہے۔ گاؤں کی سادہ زندگی اور کھیت کھلیانوں کی بو باس کے ساتھ شہری مسائل کا عمیق مشاہدہ علی عباس حسینی کے افسانوں کا بنیادی موضوع ہے۔ دیہی اور شہری ماحول کی عکاسی ، محنت کش کسانوں اور مزدوروں کی کس مپرسی ان کے افسانوں میں پوری طرح جلوہ گر ہے۔ انہوں نے دونوں ہی زندگیوں کی تصویریں یکساں خوبی کے ساتھ کھینچی ہیں۔ پریم چند شہری زندگی کو اجاگر کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے لیکن علی عباس حسینی کو اس معاملے میں پریم چند پر فوقیت حاصل ہے۔


نو افسانوی مجموعوں (1۔ رفیق تنہائی۔2۔ باسی پھول،2۔میلہ گھومنی،4۔آئی۔ سی۔ایس،5۔ ایک حمام میں،6۔ ہمارا گاؤں،7۔کچھ نہیں ہے ،8۔سیلاب کی راتیں،9۔ ندیا کنارے) پر مشتمل تقریباً ڈیڑھ سو افسانوں میں سے"رفیق تنہائی" ،"مقابلہ"،"مبالغہ کی قیت"،"بوڑھا اور بالا"،"پاگل"،"بندوں کی جوڑی"،"شہید محبت"،" انتقام"،" نئی ہمسائی"،" کنجی"،" زود پشیماں"،" ہار جیت"،" صگیر قفس"،"بہو کی ہنسی"،" جذبات لطیف"،" سکھی"،"اور" باغی کی بیوی"وغیرہ ان کے اہم اور دلچسپ افسانے ہیں۔ ان میں دیہی زندگی کی بھرپور نمائندگی کرنے والے افسانے"مقابلہ"،" پاگل"،" انتقام"،" کنجی" اور"ہار جیت" ہیں۔ ان افسانوں میں دیہی معاشرت کی نمایاں تصویریں پیش کی گئی ہیں۔ "پاگل" نفسیاتی حقیقت پر مبنی ایک ایسا دیہی افسانہ ہے جس میں علی عباس حسینی نے زمانے کی ستم ظریفی اور ظاہری رکھ رکھاؤ کو بڑے در د انگیز پیرائے میں پیش کیا ہے۔ افسانہ" انتقام" دیہات کے اس بھیانک پہلو کی نمائندگی کرتا ہے جہاں زمیندار نہ صرف اپنے کو افضل سمجھتا ہے بلکہ غریبوں خاص کر اچھوتوں کی زندگیوں اور ان کی عصمتوں پر بھی اپنا حق سمجھتا ہے۔


علی عباس حسینی کے افسانے کسانوں ، مزدوروں، غریبوں اور بے کس و بے سہارا انسانوں کی زندگیوں کے ترجمان ہیں۔ افسانہ"کنجی" میں انہوں نے گاؤں کی سیدھی سادی زندگی کو پر لطف پیرائے میں پیش کیا ہے اور امیر و غریب کی حد بندیوں پر بھرپور طنز کیا ہے۔ اس افسانے میں ایک معمولی سے واقعہ کو اس خوبصورتی سے پیش کرتے ہوئے قاری کو یہ ذہن نشین کرایا ہے کہ محبت پر قفل نہیں لگ سکتا۔ اگر سماجی قوانین ایسا کرتے ہیں تو چاہت خود بخود کنجی کا کام دیتی ہے ، اسی طرح افسانہ"ہارجیت" میں گاؤں کی چہل پہل ، شادی بیاہ کے ہنگامے اور ناگ رنگ کی محفلوں کے ساتھ روز مرہ کی مصروفیات و مشغولیات کا نقشہ اسی طرح کھینچا ہے کہ تمام مناظر نظروں کے سامنے پھر جاتے ہیں۔ افسانہ "مقابلہ" میں زمینداروں کی حبریہ لگان وصولی اور افسانہ" مقابلہ" میں سالہا سال کے استحصال نے کسان پر جو خوف، دہشت اور بے حسی مسلط کردی تھی اس کی نشان دہی کی ہے۔"پژمردہ کلیاں" "جذب کامل" اور "باسی پھول" میں ایک اصلاحی مقصد کے ساتھ عورتوں کی بے بسی اور دیہی عوام کی توہم پرستی کو بڑے تیکھے لہجے میں پیش کیا گیا ہے۔


شہری زندگی سے متعلق ان کے اہم افسانے" مغالطہ کی قیمت"،" بندوں کی جوڑی"،" نئی ہمسائی"،" زود پشیماں"،" شہید معاشرت"،" صغیر قفس"،" جذبات لطیف"،" اور"باغی کی بیوی" ہیں۔ "مغالطہ کی قیمت" اور"بندوں کی جوڑی" صاف ستھرے اور نصیحت آموز اسانے ہیں۔ ان میں مرکزی کردار قمر بانو اور مارگریٹ کے ہیں جو بظاہر نیک خوبصورت اور معصوم نظر آتے ہیں مگر دراصل وہ آوارہ اور بد چلن ہوتے ہیں۔ انہیں زرق برق لباس کی ہوس اور جواہرات سے عشق ہے۔ قمر بانو اپنے شوہر کو یہ تاثر دیتی ہے کہ چوں کہ اسے سچے زیورات میسر نہیں ہیں اس لئے جھوٹے زیورات سے دل بہلاتی ہے۔ لیکن اس کی موت کے بعد اصلی زیورات کا راز کھلتا ہے جن کی قیمت ایک لاکھ ساڑھے سات ہزار روپے ہوتی ہے اور مارگریٹ جواہر کے لالچ میں اپنے شوہر کا تمام مال و اسباب بھی سمیٹ کر چل دیتی ہے ، ان دونوں افسانوں کے برعکس"نئی ہمسائی" میں ایک ایسی طوائف کا کردار پیش کیا گیا ہے جس میں خود داری، نیکی، شرافت ، اور محبت جیسی صفات موجود ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے طوائف اور سماجی مرتبہ کے لحاظ سے گوکہ گری ہوئی عورت ہے۔ علی عباس حسینی نے اس افسانہ میں قاری کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی ہے کہ جنہیں ہم دائرہ انسانیت سے باہر سمجھتے ہیں ان میں بھی ایثار و محبت کا جذبہ اور شرافت ہو سکتی ہے۔ سماجی بندشیں کتنی سخت ہیں؟ اس حقیقت کو انہوں نے افسانہ"بیوی" میں بڑے تیکھے انداز میں اجاگر کیا ہے۔


علی عباس حسینی کے افسانوں میں ایک درد اور کرب کا احساس بھی ملتا ہے جس کی جڑیں تہذیب اور معاشرت میں پیوستہ ہیں، اس کی واضح مثال ان کے افسانہ"زود پشیماں" میں ملتی ہیں۔ اس درد انگیز افسانہ کے مرکزی کردار منصور اور نسیمہ ہیں جو ایک دوسریے سے بے پناہ محبت کرنے کے باوجود مل نہیں پاتے۔ اسی طرح ان کا افسانہ" شہید معاشرت" سماجی حقیقت نگاری کی بہترین مثال ہے۔ افسانہ کی ہیروئن سندر ایک باعزت ٹھاکر گھرانے کی لڑکی ہے مگر بیوہ ہوجانے کے بعد وہ سماج میں کسی بھی مقام سے محروم ہوجاتی ہے۔ افسانہ"صغیر قفس"شہری زندگی کے پے چیدہ مسائل پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے۔ جدید تعلیم، مغربی تہذیب، مشرقی روایات اور فطری جذبات کی کش مکش پر مبنی۔ یہ افسانہ مختلف سولات لے کر نمودار ہوتا ہے اور مزاحیہ انداز میں طنز کا روپ اختیا رکرلیتا ہے۔


علی عباس حسینی کے افسانے موضوع اور اسلوب دونوں ہی نقطہ نظر سے اہم ہیں وہ کردار نگاری کا اچھا سلیقہ رکھتے ہیں، اور ان کی ہو بہو تصویریں اتارتیے ہیں ، "جذبات لطیف" نفسیاتی افسانہ ہے جو قاری کے ذہن پر نہ مٹنے والا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ نزاکت، نفاست ، خودداری، محبت اور نفرت کے ملے جلے جذبات سے بھرپور یہ افسانہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔"باغی کی بیوی" میں انہوں نے ایک ایسی غم زدہ عورت کی زندگی کا نقشہ اتارا ہے جو ذاتی فائدے کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچانا گوارا نہیں کرسکتی۔"زود پشیماں"،"ہار جیت" اور"پاگل" کردار نگاری کے اعتبار سیے بے حد اہم افسانے ہیں۔


ترقی پسند تحریک سے قبل ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی پر سب سے کامیاب افسانے علی عباس حسینی کے ہیں۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات اور میل جول پر زور دیتے ہوئے فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف کھل کر لکھا ہے۔ وہ محسوس کررہے تھے کہ صاحب اقتدار لوگوں کی سازشوں کے تحت ہندو مسلم نفاق بڑھتا جارہا ہے۔ انہوں نے اس اتحاد پر خاصا زور دیا۔ قومی یک جہتی کے موضوع پر ان کا اہم افسانہ" ماں کے دو بچے" ہے۔ اس افسانے میں انہوں نے انسانی بے حسی اور درندگی کی عبرت آمیز تصویر دکھلاکر ذہن اور ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ کلکتہ سے متعلق فساد کی تباہی کو غیر متعصبانہ طور پراس اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے کہ افسانہ کی وحدت تاثر مجروح نہیں ہونے پاتی۔ بغض و حسد کے جذبہ کے خلاف لکھا ہوا یہ افسانہ اپنے اختتام پر انسانیت، محبت اور حب الوطنی کا درس دے جاتا ہے۔


مذکورہ مسائل کے علاوہ دیہی زندگی اور شہری زندگی کے پے چیدہ مسائل ، جدید تعلیم، مغربی تہذیب، مشرقی روایات اور فطری جذبات پر دونوں ہی افسانہ نگاروں نے ڈھیر سارے افسانے قلم بند کئے ہیں۔ فنی نقطہ نظر سے بھی ان کے افسانے بے حد اہم ہیں۔ دونوں کا طرز بیان شگفتہ اور دل کش ہے۔ زبان میں سلاست اور روانی کے ساتھ محاورات اور تشبیہات کا برمحل استعمال ملتا ہے۔ وہ موقع محل کے لحاظ سے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ، کردار نگاری کا بھی اچھا سلیقہ رکھتے ہیں ، خصوصاً علی عباس حسینی کے طرز تحریر میں ایک نکھرا ہوا لطیف انداز ہے جو دل کش اور جذبات کو متاثر کرنے والا ہے اور پریم چند کے افسانے نظریاتی اعتبار سیے غریبوں، بے کسوں اور پسماندہ طبقات کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ پریم چند اور علی عباس حسینی نے سماجی مسائل ، سیاسی لوٹ کھسوٹ ، روز مرہ زندگی کی صعوبتوں ، ذلتوں ، مکاریوں اور بے رحمیوں کو اپنے افسانوں میں بڑے بے باکانہ انداز میں پیش کیا ہے ، ان کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے درد کی ترجمانی کرتے ہوئے ہماری تہذیب اور معاشرت کے مدوجزر کی تصویریں پیش کرتے ہیں۔


***
مقالہ: ڈاکٹر صغیر افراہیم
ماخوذ از رسالہ: سہ ماہی ادیب (شمارہ: جولائی تا دسمبر 1993ء)، خصوصی شمارہ "اردو زبان و ادب کی تاریخ"۔

Jadeed afsane ka aaghaaz (The beginning of modern short story). Essay: Dr. Sagheer Afraheem

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں