لاؤڈ اسپیکر : آواز دھیمی رکھیے! کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-24

لاؤڈ اسپیکر : آواز دھیمی رکھیے! کالم از ودود ساجد

mosques-loudspeakers-cctv-cameras

توفیق الہی سے پچھلے کم وبیش دو ہفتے الله اور اس کے رسول ﷺ کے دربار میں گزارنے کے باوجود یہ ایام بے چینی میں گزرے۔
ہندوستان سے رہ رہ کر خبریں ملتی رہیں۔ رمضان کے مہینے میں، جب عام مسلمانوں کا بھی معمول بدل جاتا ہے اور وہ روزہ داری اور عبادت گزاری کا اہتمام کرتے ہیں، ان کے خلاف ملک کے کئی حصوں سے رام نومی کے جلوسوں کے دوران اشتعال انگیزی، تصادم، مارپیٹ اور لوٹ پاٹ کے واقعات رونما ہوئے۔ ابھی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی ہیں لیکن یہ بات قرین قیاس نہیں ہے کہ جن مساجد کے باہر شرپسندوں نے اشتعال انگیزیاں کی ہیں وہاں سے رام نومی کے جلوس پر پتھرپھینکے گئے تھے۔ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا کا یہ بیان انتہائی عامیانہ، جاہلانہ اور شرپسندانہ ہے کہ:
"مسلمانوں کو حملہ کرنے کے بعد انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ "


یہ بات درست ہے کہ کچھ مقامات پر دفاع کیلئے مقابلہ ہوا ہے۔ لیکن کیا انصاف کا تقاضہ یہ نہیں ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اشتعال انگیزی کی ابتد ا کس طرف سے ہوئی؟ پہلے کس نے لوگوں کے مذہبی جذبات کو للکارا اور کس نے 'مذہب' کی آڑ میں مسجدوں کے سامنے گالیوں بھرے گانے گائے؟ملک بھر میں جہاں جہاں سے بھی رام نومی کے جلوسوں کے دوران تصادم کی خبریں آئی ہیں وہاں یہی بات سامنے آئی کہ رام نومی کے جلوس میں شامل غنڈوں اور اوباش نوجوانوں نے مسجدوں کے آگے ٹھہر کر اشتعال انگیز نعرے لگائے اور تلواریں اور ترشول لہرا کرگالیاں دیں۔ بعض مسجدوں کے میناروں پر چڑھ کر جھنڈے لگائے۔


سوال یہ ہے کہ اگر مسجدوں میں موجود مسلمانوں نے حملہ کیا تو ان شرپسندوں کو اتنی آسانی سے مسجدوں کے میناروں پر چڑھ کر جھنڈے لہرانے کا موقع کیسے مل گیا؟سوشل میڈیا پر جتنی بھی ویڈیوز میں غنڈے مسجدوں کے میناروں پر جھنڈے لگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں ان پر کسی ایک طرف سے بھی حملہ تو بہت دور انہیں کوئی روکتا ہوا بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسے میں یہ فضول اور عبث الزام ہے کہ مسلمانوں نے رام نومی کے جلوسوں پر حملہ کیا۔
اگر مدھیہ پردیش جیسے صوبہ میں، جہاں مسلمانوں کی آبادی کا فیصد ساڑھے چھ ہے، وزیر داخلہ یہ کہتا ہے کہ حملہ کرنے والے مسلمانوں کو انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہئے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں مسلمانوں کے ساتھ کس درجہ ناانصافی ہورہی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون طے کرے گا کہ کس محلہ کے مسلمانوں نے کس جلوس پر کب حملہ کیا؟ کیا یہ طے کرنا عدالت کا کام نہیں ہے؟ کیا بغیر ایف آئی آر درج کئے اور بغیر تفتیش وتحقیق کئے کوئی وزیر داخلہ یہ طے کرسکتا ہے؟ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب کھلے طور پر عدالتوں کو بھی ایک پیغام دیا جارہا ہے۔ ایسے واقعات میں اب سب کچھ ماورائے عدالت کیا جارہا ہے۔ مدھیہ پردیش کے 50 لاکھ مسلمان خوف ودہشت میں مبتلا ہیں کہ کب کسے حملہ آور قرار دے کر اس کے ساتھ ناانصافی شروع کر دی جائے۔


اس کھلی ناانصافی کی زندہ مثال کھرگون کی حسینہ فخرو نامی خاتون کا مکان ہے جسے بے سبب بلڈوزر چلاکر منہدم کردیا گیا تھا۔ لیکن چاروں طرف سے لعن طعن ہوا اور وزیر اعلی تک یہ بات پہنچی کہ جس خاتون کا مکان ڈھایا گیا ہے وہ بے قصور ہے اور اس کا مکان وزیر اعظم (نریندرمودی) کی آواس وکاس یوجنا کے تحت تعمیر ہوا تھا، تو حکومت نے اس کی تلافی کا اعلان کیا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ شرپسند میڈیا اس واقعہ کو بی جے پی اور اس کے وزیر اعلی کی اعلی ظرفی کے طور پر پیش کرتا لیکن میڈیا نے سرسری طور پر اس واقعہ کا ذکر کرکے قصہ تمام کردیا۔ دراصل اس واقعہ کی تشہیر کا مطلب مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت کی سبکی میں اضافہ کرنا ہوتا اور یہ واقعہ بی جے پی حکومت کے مظالم کا کھلا ثبوت ہوتا۔


مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی، کوئی مسلم نوازی کیلئے مشہور نہیں ہیں۔ انہوں نے تو اس سال جنوری میں ہی ’پتھر پھینکنے، والوں کے خلاف سخت قانون بنانے اور ان کے خلاف سخت ایکشن لینے کی وکالت کی تھی۔ اس وقت پورے ملک میں جہاں بھی ’پتھر پھینکنے، کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے وہ یقینی طور پر مسلمانوں کے خلاف کی جارہی ہے۔ رام نومی کے جلوسوں میں شامل غنڈوں کی تمام حرکتوں کو کھلے طور پر جواز بخشا جا رہا ہے۔ اب اس قضیہ میں اسپیکر پر اذان کے مسئلہ کو بھی جوڑ دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں بالا صاحب ٹھاکرے کے بھتیجے راج ٹھاکرے نے مہاراشٹر میں ایک مہم چھیڑ دی ہے۔ وہ مہاراشٹر کی تمام مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی عائد کرانا چاہتے ہیں۔


راج ٹھاکرے کا یہ چہرہ پہلی بار سامنے آیا ہے۔ گوکہ وہ اپنے رشتہ کے بھائی اور وزیر اعلی اودھو ٹھاکرے سے مختلف معاملات میں الجھتے رہے ہیں لیکن یہ مسلم مخالف زہر پہلی بار اگلا ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف کھل کر بول رہے تھے اور اپنی ’سیکولر، شبیہ پیش کر رہے تھے۔ لیکن اب ہو یہ رہا ہے کہ بی جے پی اور اس کی قبیل کی دوسری جماعتوں نے مسلمانوں کے خلاف ماحول بناکر جو سیاسی کامیابی حاصل کی ہے اب کم وبیش ہر جماعت اسی راستے سے سیاسی کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔


واقعہ یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک میں رام نومی اور شوبھا یاترا کے تناظر میں لاؤڈ اسپیکرکا استعمال ہی فساد کی جڑہے۔ لیکن یہ شرپسندانہ استعمال مسلمانوں نے نہیں کیا بلکہ یہ استعمال خود رام نومی اور شوبھا یاترا والوں نے کیا۔ انہوں نے مسجدوں کے آگے ٹھہر کر اشتعال انگیز نعرے لگائے اور کھلے طور پر گالیاں دیں۔ لاؤڈ اسپیکر کے اس شرپسندانہ استعمال کی پاداش میں پابندی خود ان شرپسندوں پر لگنی چاہئے تھی لیکن تمام شیطانی گروہ مسلمانوں کے خلاف جمع ہوگئے ہیں اور مسجدوں میں لگے ان لاؤڈ اسپیکرس کے خلاف مہم چلارہے ہیں جو دن میں پانچ بار محض پانچ منٹ کیلئے مسلمانوں کو نماز کی اطلاع دینے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔


یہاں مسلمانوں کو بھی ایک پہلو پر غور کرنا ہوگا۔ اسپیکر کی آواز کو مختلف عالمی اداروں نے ’صوتی آلودگی، مانا ہے اور اس میں ہندوستان بھی شامل ہے۔ اس سلسلہ میں ہندوستان میں ’پریوینشن اینڈ کنٹرول آف پالوشن، ایکٹ 1986موجود ہے۔ اس ایکٹ کے سیکشن 2(a)کی رو سے آواز کے شور کو ’فضائی آلودگی پھیلانے والا عنصر، قرار دیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی کے نزدیک موسیقی ذریعہ تفریح ہوسکتی ہے لیکن کسی اور کے نزدیک موسیقی ذریعہ زحمت بھی ہوسکتی ہے۔ لہذا اس ایکٹ میں آواز کے جائز اور ممنوع پیمانے مقرر کئے گئے ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت مختلف مواقع پرماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول کرنے والے اداروں نے مزید ضابطے بھی تشکیل دئے۔ سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹوں کے کئی فیصلے اسی ایکٹ کی روشنی میں آئے ہیں۔


سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ مسجدوں اور مندروں کے احاطوں میں نصب لاؤڈ اسپیکر کی قابل برداشت اور خوشگوار آواز کے وقت اور سطح کو بھی طے کرتا ہے۔ اس کے مطابق انڈسٹریل علاقوں میں آواز کی سطح 75 ڈیسبل، کمرشیل علاقوں میں 65 اور رہائشی علاقوں میں 55 رکھی جاسکتی ہے۔ رہائشی علاقوں میں رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک صرف 45 ڈیسبل پوائنٹ تک آواز کی سطح رکھی جاسکتی ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے پر ماحولیاتی آلودگی کنٹرول ایکٹ کے سیکشن 15کے تحت پانچ سال تک کی قید کی سزا اور ایک لاکھ روپیہ تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔


قارئین کو یاد ہوگا کہ 2017 میں سب سے پہلے اذان کی آواز کا مسئلہ گلوکار سونونگم نے اٹھایا تھا۔ نگم نے ایک ٹویٹ کرکے اسے 'مذہبی غنڈہ گردی' قرار دیا تھا۔ اس پر کافی ہنگامہ آرائی بھی ہوئی تھی۔ میں اسی وقت سے قائدین، ائمہ، موذنین اور مساجد کے ذمہ داروں سے درخواست کرتا آرہا ہوں کہ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کے ذریعہ طے شدہ آواز کی سطح پر عمل کریں اور اس سے پہلے کہ شرپسندوں کے دباؤ میں آکر حکومتیں طاقت کا استعمال کریں آپ خود اپنے یہاں اصلاح کرلیں۔ ایک تو لاؤڈ اسپیکر کی زیادہ سے زیادہ آواز رکھیں گے اوپر سے موذن خوش الحان نہیں ہوگا۔ اور اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ اکثر موذنوں کی طرز بھی بے ڈھنگی ہوتی ہے۔


مغرب اور فجر کی اذان جب اجتماعی طور پر ہر مسجد سے ایک ساتھ ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اذان دینے والے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بھونڈی کوشش کر رہے ہیں۔ ساری آوازیں مل کر ایک ایسا ملغوبہ بن جاتی ہیں کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کون سا موذن اذان کے کون سے الفاظ استعمال کر رہا ہے۔ ایسے میں اذان کا جواب کیسے دیا جائے۔ کیا کبھی مسلمانوں نے اس صورت حال پر غور کیا ہے؟


13 اپریل کو بھوپال کے شہر قاضی مولانا مشتاق علی ندوی نے ایک وفد کے ساتھ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا سے ملاقات کی۔ انہوں نے ایک طرف جہاں بے قصوروں کے آشیانے اجاڑنے کی شکایت کی وہیں انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ مسجدوں سے اذان کی آواز کو طے شدہ سطح تک رکھنے کیلئے بیداری پھیلائیں گے۔ بادل ناخواستہ نروتم مشرا کو ان کے ساتھ کھڑے ہوکر فوٹو کھنچوانا پڑا اور پھر انہوں نے پریس کو بیان بھی دیا۔ یہ وہی مشرا ہیں جنہوں نے چند ہی روز قبل کہا تھا کہ "مسلمانوں کو حملہ کرنے کے بعد انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ "لیکن چند ہی روز بعد انہوں نے شہر قاضی کی ستائش بھی کی اور کھلے الفاظ میں وعدہ بھی کیا کہ بے قصوروں کو پریشان نہیں کیا جائے گا۔ شہر قاضی نے مسجدوں کے باہر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کی بھی تجویز پیش کی۔


میرا خیال ہے کہ اس تجویز پر اب ہر مسجد والوں کو غور کرنا چاہئے۔ اب سی سی ٹی وی کیمرے لگانا کوئی مہنگا یا مشکل کام نہیں ہے۔ کھرگون اور دہلی کے جہاں گیر پوری کے تکلیف دہ واقعات کے درمیان ملک کے بعض حصوں سے ایسی خبریں بھی آئیں کہ جب خود رام نومی اور شوبھا یاترا والوں نے افطار یا اذان کے وقت اپنا شور شرابہ روک لیا۔ یوپی میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے غیر متوقع طور پر شرپسندوں/مندروں اور مسجدوں کو ضابطوں کا پابند بنانے کے جو کھلے احکامات جاری کئے ہیں ان کی ہمیں کھلے دل سے ستائش کرنی چاہئے۔ بھوپال کے شہر قاضی کی بھی ستائش ہونی چاہئے اور انہی کی طرز پر پورے ملک میں مسلمانوں کو یہی کرنا چاہئے۔ انہیں وفد لے کر ریاستوں کے وزراء داخلہ سے ملنا چاہئے۔ اس سے حکومتوں پر سیاسی، قانونی اور اخلاقی دباؤ بھی پڑے گا اور برادران وطن کو ایک اچھا پیغام بھی جائے گا۔


اس وقت شرپسندوں سے الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کے آقاؤں سے مل کر اپنی شکایت کرنے کا بہرحال کچھ تو فائدہ ہوگا۔ اس ضمن میں جو جماعتیں یا افراد قانونی کارروائی کر رہے ہیں ملک بھر کے مسلمانوں کو ان کا ساتھ بھی دینا چاہئے۔ مہاراشٹر کے مسلمان اور علماء بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے برابر حکومت سے رابطہ رکھا کہ اس وقت رابطہ رکھنے کے سوا کوئی اور تدبیر کارگر نہیں ہوگی۔


***
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 24 اپریل 2022ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Bhopal city Qazi suggested to install cctv camera outside mosques, MP Home minister Narottam Mishra welcomed - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں