ماہِ مبارک کے دلچسپ گوشے - انشائیہ از ابنِ ولی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-25

ماہِ مبارک کے دلچسپ گوشے - انشائیہ از ابنِ ولی

holy-month-ramadan-interesting-facts

مغرب کی نماز ادا کرکے مصلی مسجد سے باہر آ رہے تھے۔ آسمان کی سرخی تقریباً تاریکی میں بدل چکی تھی۔ پرندے اپنے آشیانوں کو لوٹ آئے تھے۔ دھیرے دھیرے مسجد کے باہر چار چار پانچ پانچ کی تعداد میں کئی گروہ بن گئے۔ کسی میں آٹھ اور بیس پہ چہ مہ گوئیاں ہو رہی تھیں۔ تو کسی میں کوئی حافظ جی موضوع بحث تھے۔


اتنے میں کلُّو چاچا بھی میلے کچیلے لباس میں سرپٹ بھاگتے نظر آئے۔ شاید کھیت سے آ رہے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو چلتے چلتے ہی گویا ہوئے:
"کا بتائیں بھیا بَہُتَے کام رہا، تیاری بالکل نائے کر پائین،،،، بَزار جائے رہے ہن کچھ سَہری افطاری کَے انتجام کَے لائی۔"
پیچھے سے کچھ کھسر پھسر کی آوازیں آئیں لیکن کلو چاچا جلدی میں تھے سو چلتے بنے۔


میں عشاء میں کچھ لیٹ ہوگیا تھا۔ جماعت ہو چکی تھی۔ مسجد پہنچا تو دروازے پہ چپلوں کی کثرت موجب حیرت ہوئی۔ اندر بہت سارے نئے نئے چہرے اور نئی رنگ برنگی ٹوپیاں بھی نظر آئیں۔ میرے اندر داخل ہوتے ہی کچھ نے تو ایسے گھورا کہ ایک پل کو ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر بھی شک ہوا۔ خیر! ہم نظر جھکائے مصلے پہ جا کھڑے ہوئے۔


مجھے دو رکعت سنت پڑھنا باقی تھا کہ تراویح شروع ہو گئی۔ ابھی "الحمد للہ" سہی سے سن پایا تھا کہ گاڑی "ولا الضآاااااالین" کی سیٹی لگاتی اسٹیشن پہ جا رکی۔ اللہ رحم فرمائے اتنی تیزی۔۔۔!!! اتنی تیزی تو 2x(playback speed) پہ بھی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔ ادھر میں نے سنت ختم کی ادھر حافظ جی بھی رکوع میں گئے۔
یکایک پھَٹ پھُٹ دھاڑ دُھڑ کی آوازیں گونجنے لگیں نظر دوڑایا تو ملت کے شاہینوں کے ساتھ کچھ گبرو جوان بھی تھے جو شاید یہیں پہ ریسلنگ کی مشق میں جٹ گئے تھے۔ میری ہنسی نہ رکی۔


ادھر یوسف، یحیی اور یاسر تھے کہ اماں کی ایک دستک پہ کھٹا کھٹ اٹھ بیٹھے مانو منتظر ہی ہوں کہ کب آواز آئے اور لبیک کہیں ادھر ایک ہم کہ جتنی بار اماں کا گذر ہمارے بستر سے ہوتا اتنی بار ہمیں جھٹکے لگتے اور ہم ہر بار یہ باور کرانے کہ کوشش کرتے کہ اماں ہم جاگ ہی رہے ہیں جبکہ حقیقت اسکے برعکس تھی۔ خیر جیسے تیسے ہماری بھی آنکھ کھل ہی گئی۔ بڑی دیر تک بستر پہ بیٹھے اونگھتے اور جمائیاں لیتے رہے۔ جب پانچ منٹ باقی رہ گئے تو اماں کی گرج دار آواز سماعتوں ایسے ٹکرائی کہ ساری کسمساہٹ دور ہو گئی۔ اب مزید اور بیٹھے رہنا کسی اَن ہونی کو دعوت دینا تھا۔


عدنان میاں کا بھی آج پہلا روزہ ہے۔ صبح سے بڑے پرجوش نظر آ رہے ہیں۔ ہم جولیوں سے لہک لہک کر فخریہ انداز میں بتا رہے ہیں: "آج میں روزہ ہوں۔"
اور ہر ایک سے پوچھ بھی رہے ہیں۔ ابھی دس ساڑھے دس بجے ہیں میاں کے گلے سوکھنے لگے، نگاہیں بار بار کلائی پہ بندھی چھوٹی سی گھڑی پر ڈالتے ہیں اور پھر افطاری کے وقت سے حساب لگا کے بتاتے ہیں دادا جان اب صرف اتنے گھنٹے اتنے منٹ اور اتنے سکینڈ رہ گئے ہیں۔
ظہر بعد تو حالت اور ابتر ہو گئی بار بار امی جان سے کہہ رہے ہیں "پیاس بہت لگی ہے" اس امید سے کہ شاید اپنے ننھے سےمعصوم لخت جگر کی تشنہ لبی دیکھ کر ماں کہ ممتا جوش مارے اور کہہ دیں کہ افطار کر لو۔ کیوں کہ اب ہمت جواب دے رہی تھی۔
لیکن ماں تو نام ہی ہے ہمت و حوصلے کا جہاں سب ہار جاتے ہیں وہاں سے ماں قدم بڑھانا شروع کرتی ہے۔نہایت مشفقانہ انداز میں گویا ہوئیں:
"مما کی جان! اب تو تم نے مار گرایا، اب کتنا وقت ہی بچا ہے جاؤ ایک نیند لو اٹھو گے پھر افطاری کا وقت، شاباش چلو جاؤ۔"
تسلی کا یہ ایک جملہ عدنا ن کے لیے روح افزا کا شربت ثابت ہوا۔


آخر کار وہ وقت آ ہی گیا جس کا بے صبری سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ کچن میں ایک قسم کا ہنگامہ برپا ہے، تمام چیزیں تیار ہیں بس دسترخوان پہ سجنے کی دیر ہے۔ پکوانوں کی بھینی بھینی خوشبو روزے داروں کے مشام جاں کو معطر کر رہی ہے۔ جام ہاتھوں میں ہے، حلق سوکھے پڑے ہیں، زبان اینٹھ رہی ہے، لب مرجھائے ہوئے ہیں، تشنگی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے لیکن کیا مجال جو اک بھی سیکنڈ پہلے کوئی قطرہ حلق سے نیچے اترے۔ اللہ اللہ کیا محبت ہے!!! کیا جذبہ ہے !!!


پورے مہینے اس طرح کے دیگر دلچسپ و پرلطف نظاروں نے دل کو سرور اور آنکھوں کو نور بخشا۔جن میں ایسے واقعات بھی کہ مسجد میں پنکھے یا کولر کے ٹھیک سامنے کھڑے ہونے کے لیے تو تو میں میں۔۔۔۔ نماز کے علاوہ دیگر اوقات میں اے سی چالو رہنے کی بحث۔۔۔۔۔ نئے بزرگ نمازیوں کا ہر نماز بعد بچوں کی کلاس لینا اور خود سب سے زیادہ متقی و پرہیز گار ہونے کا رعب جمانا۔۔۔۔۔ تراویح میں شاہینوں کی دھما چوکڑی۔۔۔۔۔۔شب میں بیداری کی گرانی۔۔۔۔۔ افطاری پہ بچوں کے نت نئے کارنامے۔ گھر گھر کی یہ کہانی رمضان کے روزانہ کے معمولات ہیں، جن سے ہم خوب محظوظ ہوئے۔ بعض واردات نے جہاں تحیر میں ڈالا وہیں بعض نے بے دھڑک ہنسنے پہ بھی مجبور کیا، کچھ پر رشک آیا، بعض دفعہ افسوس بھی ہوا، کبھی رونا بھی آیا لیکن اک سوال شروع رمضان سے اب تک ذہن میں کھٹکتا رہا جس کا تشفی بخش جواب نہ مل سکا:
"کیا واقعتاً شیطان رمضان میں قیدکر لیا جاتا ہے؟"

***
ابن ولی (بہرائچ، اترپردیش)
ای-میل: ibnewali000[@]gmail.com

Interesting facts of Holy Month Ramadan. Light-Essay by: Ibn-e-Wali

1 تبصرہ:

  1. ماشاءاللہ ماشاءاللہ ولی بھائی
    ❤️❤️❣️❤️❣️🌹🌹

    جواب دیںحذف کریں