مولانا آزاد - کچھ نجی یادیں - از جمیل مظہری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-23

مولانا آزاد - کچھ نجی یادیں - از جمیل مظہری

maulana-azad-some-personal-memories-by-jameel-mazhari

کسی شاعر کا مشہور مصرع ہے:
وہ اپنی ذات سے ایک انجمن ہے


یہ مصرع اپنی معنویت کے ساتھ حرف بہ حرف مولانا ابوالکلام آزاد کی مجموعہ صفات شخصیت پر صادق آتا ہے ۔ مولانا جہاں اپنی ذات سے سیاست کا ایک مستقل ادارہ اور علم و ادب کا ایک مستقل دبستان تھے ۔ وہاں وہ اپنی دلچسپ اور گونا گوں صلاحیتوں کی بنا پر ایک انجمن و بہار بھی تھے ۔جس کے قریب پہنچ کر ایک افسردہ دل انسان بھی شگفتہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا ۔ یہ باگ و بہار شخصیت اپنے اندر علم کی پہنائیوں کے علاوہ ادب کی دلچسپیاں اور جملہ فنون لطیفہ کی دلکشیاں بھی رکھتی تھی۔ ایک انجمن مین کبھی نغمہ و سرور کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ۔ کبھی شعروادب کی گونج اور کبھی علوم و سیاست کی بلند آہنگ اور گمبھیر آوازیں۔


مولانا آزاد کی ذات کو ہم ایک انجمن اسی لئے کہتے ہیں کہ ہم نے بیک وقت ان کی صحبت میں مولانا کے علمی ارشادات بھی سنے، مولانا کی ادبیبی نکتہ پردازیوں سے بھی مستفیض ہوئے اور مولانا کے سنجیدہ مزاح کے وہ نمونے بھی دیکھے جنہیں ہم مجلسی زندگی کی جان کہہ سکتے ہیں ،مولانا کا سنجیدہ مزاج لبوں پر تبسم تولاسکتا تھا لیکن یہ تبسم کبھی قہقہے کی صورت میں نمودار نہیں ہوسکتا تھا ۔ اسے آپ مزاح کی سنجیدگی کہہ لیجئے یا مولانا کی شخصیت کی ادب آموز ہیبت جو بیٹھنے والوں کو ہر حال میں مودب رہنے کی تاکید کرتی رہتی تھی۔


مولانا سے میری رسمی ملاقاتیں تو 1934ء سے پہلے بھی ہوئیںلیکن پہلی ملاقات جسے ہم باضابطہ تعارف کہہ سکتے ہیں وہ اس وقت ہوئی جب کہ میں آل انڈیا اردو لٹریری کانفرنس کلکتہ کی مجلس استقبالیہ کے صدر کی حیثیت سے مولانا کو کانفرنس کی شرکت کے لئے دعوت دینے گیا اور رخست ہوتے ہوئے مولانا سے پھر حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔مولانا نے بڑی شفقت کے ساتھ اجازت دی اور کہا کہ بھئی سنیچر کی شام کا آؤ روزہ رکھتے ہو یا نہیں رکھتے ہو لیکن میرے ساتھ افطار کرو۔ پھر مسکر ا کر کہنے لگے کہ تم اتنے بد ذوق تو ہو نہیں کہ اگر روزہ نہ رکھتے ہو تو افطار سے بھی پرہیز کرو ۔ میں نے تسلیم کی اور آئندہ حاضر ہونے کا وعدہ کر کے چلا آیا۔ تیسرے دن حاضر ہوا ۔ مولانا کو اطلاع کرائی۔ مولانا نیچے اترے اس حال میں کہ افطار کا خوان ان کے پیچھے پیچھے ایک ملازم کے ہاتھوں میں تھا۔ افطار کے بعد چائے آئی اور مولانا نے خود اپنے ہاتھوں سے چائے کی ایک پیالی بناکر میری طرف سرکائی ۔ مجھے اس دن زکام کی شکایت تھی میں نے عذر کیا۔ میرے اس عذر پر مولانا کچھ گھبراسے گئے اور کہنے لگے آپ چائے بالکل نہیں پیتے ہیں یا اس وقت کسی خاص وجہ سے نہیں پی رہے ہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ جی نہیں، پیتا تو ہوں ۔ اور شوق سے پیتا ہوں ۔ لیکن اس وقت زکام مین مبتلا ہوں۔ یہ سن کر اک ذرا بلند آواز سے فرمایا کہ الحمدللہ! میں نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ مولانا خدا کا شکر تو بہرحال کرنا چاہئے مگر اس وقت الحمدللہ کہنے کا کوئی کاص سبب؟ کہنے لگے بھئی معاملہ یہ ہے کہ ایسے لوگ جو چائے پینے سے پرہیز کرنے والے تھے جب جب میری زندگی میں آئے تو میرے لئے خطرناک ثابت ہوئے اور میں ایسے لوگوں سے ڈرنے لگا جو چائے جیسی نعمت سے پرہیز کرتے ہوں۔ یہ معلوم کرکے کہ تم چائے ایک خاص وجہ سے نہیں پی رہے ہو اطمینان سا ہوا اور میں نے خدا کا شکر ادا کیا ۔ اس کے بعد کچھ علمی بحثیں چھڑ گئیں جن کو اگر یہاں چھیڑا جائے تو اس مضمون کا سلسلہ اتنا دراز ہو کہ ایک چھوٹی سی کتاب بھی اس کے لئے کافی نہ ہوسکے ۔ یہ تو معلوم ہے کہ مولانا علم و فضل کے اتھاہ سمندر تھے اور اس کی ہر موج طوفانی ہوا کرتی تھی ، ہم نے چار پانچ سال مولانا کی خدمت میں بیٹھ کر مختلف علوم و فنون پر ان کی بصیرت افروز گفتگو سنی اور اپنی معلومات کی خالی جھولیاں بھرتے رہے لیکن میں اس مقالے میں مولانا کی علمی شخصیت سے گفتگو نہیں کروں گا ۔ اس لئے کہ اس پر مجھ سے بہتر لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ میں صرف اس مضمون میں مولانا کی نجی صحبت کی ایک ہلکی سی تصویر کشی کروں گا اور ان کے سنجیدہ مزاح کے بعض نمونے سنا کر مولانا کی یاد تازہ کروں گا؛


تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را


مولانا سے اس پہلی باضابطہ ملاقات کے بعد میں نے اکرو بیشتر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہنے کی اجازت چاہی اور یہ بھی پوچھا کہ اگر خاطر اقدس کو ناگوار نہ ہو تو بعض اور خو ش ذوق احباب کو بھی ساتھ لاؤں ۔ مولانا نے فرمایا کہ بھئی ناگوار خاطر ہونے کی کیا بات ہے میں تو خود چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے نوجوانوں سے باتیں کرنے کا موقع ملے تاکہ یہ اندازہ ہو کہ ہندوستان کی آئندہ نسلیں کیسی تیار ہورہی ہیں ۔ تم آؤاور ضرور آؤ اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لیتے آؤ۔ سنیچر کی شام میری ہمیشہ خالی رہتی ہے ۔ اس کے بعد سے ہمارا یہ دستور ہوگیا کہ ہم چند احباب ہر سنیچر کی سہ پہر کو مولانا کی خدمت میں حاضضر ہوتے اور آٹھ بجے رات تک برابر ان کے قدموں کے سامنے بیٹھ کر اپنا دامنِ تہی پھیلاتے اور جب اٹھتے تو اس دامن تہی کو مختلف علمی جواہر ریزوں سے لبریز پاتے ۔ اس اثنا میں مولانا کے دلچسپ فقرے بھی ہوتے رہتے جن کا زیادہ تر نشانہ میرے مرحوم دوست پروفیسر طاہر رضوی ہوتے۔ مولانا نے ان کی بھولی اور معصوم شخصیت سے دلچسپی لینی شروع کردی اور اس کا سبب یہ ہے کہ طاہر مرحوم نے ان ہی دنوں میں پارسی مذہب کے متعلق ایک کتاب لکھی تھی جس میں یہ ثابت کیا تھا کہ پارسی، یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح اہل کتاب ہیں۔ مولانا نے وہ کتاب ملاحظہ کی اور پروفیسر طاہر رضوی کی محنتوں کی بھرپور داد دی ۔ ایک دن پوچھنے لگے کہ بھئی طاہر اس کتاب کے لکھنے کا خیال آپ کے ذہن میں کس راستے سے آیا۔ میں مولانا کی خدمت میں ذرا گستاخ ہوچلا تھا ۔ طاہر رضوی کو سنانے کے خیال سے بولاکہ مولانا ممکن ہے محبت کے راستے آیا ہو ۔ مولانا مسکر اکر طاہر صاحب سے مخاطب ہوئے ۔ دیکھو بھوئی تمہارے یہ احباب بڑے ناقدر شناس ہیں۔ تمہارے علمی شغف کو ایک جذباتی انہماک کا نتیجہ بتلاتے ہیں ۔ یہ صریحی ظلم ہے ۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جب جب مجلس کچھ سونی سی ہونے لگتی تو مولانا طاہر صاحب کی طرف مسکرا کر دیکھتے اور پوچھتے کہ ہاں بھئی آپ کے احباب کا وہ شبہ اب تک قائم ہے یا رفع دفع ہوا۔ طاہر صاحب کا جھینپنا، مولانا کا مسکرانا اور جملہ احباب کا کھلکھلانا ابھی تک یاد آتا ہے ۔


ایک دوسرا لطیفہ بھی سنیے ۔ اسی اثناء میں بہار کے محبوب لیڈر پروفیسر عبدالباری بھی کلکتہ تشریف لائے اور ہم ہی لوگوں کے ساتھ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ وہ اتفاق سے ان لوگوں میں تھے جو چائے سے پرہیز ہی نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ ایک حد تک متنفر بھی تھے۔ میں نے جرأت کرکے مولانا سے پوچھا کہ مولانا آپ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ جو لوگ چائے نہیں پیتے وہ ہمارے لئے ہمیشہ خطرناک ثابت ہوئے ، پروفیسر باری بھی اتفاق سے ان ہی لوگوں میں ہیں جو چائے نہیں پیتے ۔ ان کے متعلق حضور کی کیا رائے ہے؟ ایک سنجیدہ اور متین تبسم مولانا کے ہونٹوں پر ابھرا اور ارشاد ہوا” نہیں خطرناک تو نہیں لیکن ایک گوشہ ان کے ذہن کا بہر حال خالی ہے سو وہ چائے نہ پیتے کا نتیجہ ہے ۔” باری صاحب شرمندہ سے ہوگئے اور مولانا نے ان کو شرمندہ دیکھ کر بہار کے سیاسی حالات کی طرف گفتگو کا رخ پھیر دیا۔


ایک مرتبہ طاہر صاحب کی انگلی میں زخم ہوگیا۔ وہ اپنی انگلی پر کپڑے کی پٹی لپیٹے ہوئے تھے مولانا کی نظر پڑ گئی پوچھا بھئی یہ کیا معاملہ ہے طاہر صاحب ؟ طاہر صاحب بولے مولانا ، ایک زخم ہے۔ یہ سن کر مولانا کلمے کی انگلی کو اپنے سینے کے بائیں طرف لے گئے اور دل کے قریب رکھ کر بولے طاہر صاحب اس کی جگہ یہاں تھی، کیا غلط جگہ چنی ہے آپ کے زخم نے ۔


ایک مرتبہ مجھے اختلاجِ قلب کی شکات ہوئی۔ مولانا نے مزاج کی کیفیت پوچھی تو میں اپنا حال بیان کرنے لگا۔ اور اس سلسلے میں میں نے یہ بھی کہا کہ جب تکیے پرسر رکھتا ہوں تو کان بولنے لگتے ہیں ۔ اور کچھ بدبداہٹ کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ گھبرا کر اٹھ بیٹھتا ہوں ۔ مولانا نے کہا گھبرانے کی کیا بات ہے ، بھئی یہ تو نبوت کے آثار ہیں۔


مولانا باتوںباتوں میں کچھ ایسے جملے بھی کہہ جاتے تھے کہ جن کی اگر شرح کی جائے تو ایک مقالہ ہوجائے مطالب کو سمیٹ کر دریا کو کوزے میں بند کرنا ، مولانا کے انداز تقریر کی خاص صفت تھی میں نے اکثر ان کی زبان سے علی السبیل تذکرہ ایسے جملے سنے کہ جب ان پر غور کیا تو فکرونظر کی ایک نئی دنیا سامنے آگئی ۔ 1937ء میں جب کانگریسی وزارت بنی اور اس کے ساتھ ہندوستانی کی کانگریسی تحریک کے باوجو د اخبارات میں ، اسمبلیوں میں ، سیاسی جلسوں میں، تقریر و تحریر دونوں کے اندر ہندی کے الفاظ کی فراوانی ہونے لگی تو ڈاکٹر اعجازحسین جعفری نے مولانا سے اس کا شکوہ کیا کہ مولانا یہ کانگریسی لیڈر ہندوستانی زبان کو خالص سنسکرت بنانا چاہتے ہیں۔ مولانا نے یہ سن کر آنکھیں بند کرلیں اور صرف یہ فرمایا، ہوسکتا ہے لیکن شخصی جذبات کو اور شخصی پسند کو کسی قاعدیے اور قانو ن کا پابند نہیں کیاجاسکتا ۔ ڈاکٹر جعفری صاحب جب باہر نکلے تو کہنے لگے کہ مولانا نے ایک ایسا فقرہ کہا کہ مجھ پر زبان کے سلسلے میں تمام مباحث روشن ہوگئے۔ 1948ء میں جب مولانا آخری مرتبہ پٹنہ تشریف لائے اور ڈاکٹر محمود صاحب کی کوٹھی پر ٹھہرے تو میں ان سے ملنے کے لئے گیا ۔ شہر کے کچھ مسلان روسا بیٹھے ہوئے تھے اور مولانا سے ہندوؤں کی فرقہ پرستی کی شکایت کررہے تھے ۔ مولانا کچھ دیر تک ان کی باتیں سنتے رہے اور اس کے بعد ایک جملہ کہا جو میرے خیال میں ہندوستان کی پچاس سالہ تاریخ سیاست کا نچوڑ ہی نہیں تھا بلکہ ہماری آئندہ سیاست پر ایک ایسا تبصرہ تھا جس پر مستقبل کا مورخ ہمیشہ ماتم کرے گا فرمانے لگے کہ بھئی یہ تو ہوگا ہی اور اس کو ہونا ہی ہے ۔ مسلم فرقہ پرستی کو جو کرنا تھا کرچکی ۔ اس نے ملک کو دو حصوں میں بٹوادیا اور ہم باوجود کوشش کے اسے روک نہ سکے ۔ اب اس کے رد عمل میں ہندو فرقہ پرستی کو جو کرنا ہے وہ کرے گی۔ جب ہم اسے نہ روک سکے تو اسے کیا روک سکیں گے ۔ یہ سن کر وہ مسلمان روسا شرمندہ سے ہوگئے اور جب باہر نکلے تو یہ اعتراف کرتے ہوئے نکلے کہ مولانا نے سچ کہا جو کچھ ہورہا ہے وہ ہماری ہی فرقہ وارانہ سر گرمیوں کا لازمی و منطقی نتیجہ ہے ایک جملے میں حیققت کا پورا جائزہ لے لینا۔ ایک جملے میں مستقبل کی طرف اشارہ کردینا ۔ ایک جملے میں ماضی و حال کی پوری تاریخ پر تبصرہ کردینا۔ مولانا کی وہ خطیبانہ خصوصیت تھی جو غالباً ان کے ساتھ ہمیشہ کے لئے قبرمین دفن ہوگئی ۔


اب ہم ان خصوصیتوں کو یاد کر کے صرف آنسو ہی بہا سکتے ہیں۔ ایک ٹھنڈی سانس بھر سکتے ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے ۔ میں اور میر دوست احباب سالہا سال تک مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے ۔ مولانا نے علاوہ اپنے علمی فیضان کے ہماری نجی زندگی سے دلچسپی لی ۔ ہم میں جو بیکار تھے انہیں باکار بنانے کی کوشش کی۔ جو لوگ مولانا پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ مولانا کے پاس دماغ تو تھا، لیکن سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل نہیں تھا ، میرا تجربہ ان کے اس الزام کی تردید کرتا ہے ۔ مولانا کے پاس دماغ بھی تھا اور دل بھی تھا اور دل بھی ۔ وہ اپنے دوستوں اور معتقدوں کے حالات سے متاثر بھی ہوتے تھے لیکن ان تاثرات کے اظہار کو سنجیدگی اور متانت کے منافی سمجھتے تھے ۔ عقل ہر حال میں ان کے جذبات کی رہنما رہی اور سنجیدگی ہر حال میں ان کے قلبی اضطراب کی پردہ پوش ۔ مولانا کے کردار کی اس خصوصیت نے بہت سی غلط فہمیاں پیدا کیں ۔ لیکن مولانا نے اپنا یہ مدبرانہ اور عاقلانہ رویہ نہیں بدلا۔


مولانا سے بعض ناواقف کاروں کو یہ بھی شکایت ہے کہ وہ لوگوں سے ملنے جلنے میں فیاض نہ تھے۔ یہ شکایت مولانا کے کرسی وزاررت پر آنے کے بعد اور قوی ہوگئی اور لوگوں نے عام طور سے کہنا شروع کیا کہ مولانا کو اقتدار کا نشہ ہوگیا ہے ۔ ان کی ڈیوڑھی پر سنگینوں کا پہرہ رہتا ہے ۔ کوئی غریب و شریف مسلمان یا ہندوستانی مشکل سے وہاں پھٹک سکتا ہے ۔ یہ بات جتنی زیادہ مشہور ہے اتنی ہی زیادہ غلط ہے ۔ بلا شبہ مولانا طبعاً مجلسی ہونے کے باوجود کم آمیز تھے ملنے جلنے کے سلسلے میں ان کا ایک ضابطہ تھا ، ایک معیار تھا جسے وہ اس وقت بھی برتتے تھے جب کہ وہ مسند اقتدار پر نہ تھے ۔ بلکہ ایک درویش کی طرح کلکتہ میں زندگی بسر کرتے تھے۔ اس زمانے میں بھی مولانا ے یہاں حاجب و دربان رہا کرتے تھے اور ہر شخص مولانا سے بآسانی مل سکتا تھا اس میں چھوٹے بڑے امیر و غریب کی کوئی قید نہ تھی ۔ مولانا کی نیم درویشانہ اور نیم فلسفیانہ طبیعت اپنے وقت کی آپ مالک رہنا چاہتی تھی ۔ وہ جب ادبی موڈ میں ہوں تو اس وقت نہ سیاسی گفتگو پسند کرتے تھے ، نہ سیاسی لوگوں سے ملنا چاہتے تھے ۔ وہ جب علمی موڈ میں ہوں تو اس وقت ادب و مزاح یا اس قسم کے لوگوں کی ان کے یہاں گنجائش نہ تھی۔ اور جب کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف ہوں تو پھر ان کا کسی سے ملنا سینے پر پہاڑ رکھنے کے برابر تھا ۔ ان کا خلوت کدہ ان کی ایسی محدود دنیا تھی جس میں وہی آسکتا تھا جو مولانا کے معیار پر پورا اترتا۔ اس کے علاوہ مولانا کا وقت معین تھا ۔ جب وہ اپنے خاص دوستوں سے ملتے ہوتے تو اس وقت عام لوگوں کو بالکل باریابی نہ ہوتی وہ کتنے ہی مقتدر اور صاحب عزت کیوں نہ ہوں ۔ اگر مولانا کسی خاص مشغلے میں منہمک ہیں تو انہیں واپس آنا پڑتا ۔ استاد محترم مولانا رضا علی وحشت مرحوم جو مولانا کے بچپن کے دوستوں میں تھے، ناقل تھے کہ ایک مرتبہ وہ مولانا کی خدمت میں تھے شعروشاعری کا تذکرہ تھا کہ دفعتاًموٹر کے ہارن کی آواز آئی ۔ خادم خاص نے ایک کارڈ لاکر دیا ۔ مولانا نے کارڈ دیکھ کر کہا کہ کہہ دو اس وقت میرے بہت ہی پرانے اور خاص دوست آئے ہوئے ہیں اور ان سے میں نجی گفتگو کررہا ہوں ۔ یہ کہہ کر مولانا نے جب کارڈ میز پر رکھا تو حضرت وحشت نے دیکھا کہ وہ کارڈ مسٹر سی۔ آر۔ داس کات ھا جو اس وقت بنگال کے بے تاج بادشاہ تھے ۔ میرا خود یہ تجربہ ہے کہ ہم چند غریب طالب علم بیٹھے ہیں مولانا کی خدمت میں، کہ ایک مرتبہ سر ناظم الدین اور ایک مرتبہ سر عبدالحلیم غزنوی واپس کردیے گئے ۔ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کا بیان ہے کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں او گاندھی جی تشریف لائے تو مولانا نے یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ اس وقت فرصت نہیں ہے ۔ شام کو میں خود آپ سے ملوں گا ۔ جب مولانا کا یہ عالم اس زمانے میں تھا جسے ہم زمانہ درویشی کہہ سکتے ہیں تو پھر والیان ملک ، وزرائے سلطنت، اور حکام ذی وقار زمانہ وزارت میں اگر واپس کردیے گئے تو کون سی بڑی بات ہوئی ۔ لیکن اس کے باوجود مجھے یقین ہے کہ شاید ہی کوئی غریب ان کی ڈیوڑھی سے بغیر ملے ہوئے واپس آیا ہو۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ادھر تین سال کے عرصے میں ہر سال دلی گیا اور بعض ایسے اوقات میں پہنچا کہ مولانا بہت مصروف تھے اور ان کے سکریٹری مولانا اجمل خاں صاحب نے مجھے مطلع کیا کہ مولانا اتنے مصروف ہیں کہ فلاں مہاراجہ یا فلاں وزیر کو وقت نہ دے سکے میں نے ان سے کہا کہ خیر میرا نام مولانا کی خدمت میں پہنچا دیجئے ، یہی کافی ہے ۔ لیکن جب مولانا کی خدمت میں میرا نام پہنچا تو مجھے بلا لیا گیا۔ اور مجھے وقت دیا گیا ۔


میرے ایک عزیز خاص سید اختر حسین رئیس اکبر پور کا بیان ہے کہ مولانا سب کچھ برداشت کرسکتے تھے ۔ لیکن غریب کے آنسو نہیں برداشت کرسکتے تھے ۔ انہوں نے اپنے ایام وزارت میں ضابطے کے خلاف کوئی کام نہیں کیا ۔ لیکن کبھی کبھی غریب کے آنسوؤں کی دھار میں اس ضابطے کا حصار بھی ٹوٹ جایا کرتا تھا ۔ مولانا اپنی کوٹھی سے باہر نکلے ہیں ، موٹر پر سوار ہورہے ہیں۔ ایک غریب برساتی میں کھڑا ہے ۔ مولانا کو دیکھ کر ہاتھ جوڑ کر آگے بڑھتا ہے اور رونے لگتا ہے ۔ مولانا اجمل خان صاحب کو آواز دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھئی یہ جو چاہتے ہیں کہ وہ غریب بہت پریشان حال معلوم ہوتا ہے ۔


یہ تھے ہمارے مولانا ابوالکلام آزاد ، جنہیں دنیا نے ان کی زندگی میں ہمیشہ غلط سمجھا ۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ جب مولانا کی زندگی کی سچی تصویر دنیا کے سامنے آئے گی تو وہ محسوس کرے گی۔


تو ظہوری زفلک آمدہ بودی چو سچ
باز رفتی و کسے قدر تو نشناخت ولے


***
ماخوذ از رسالہ: ایوان اردو (شمارہ: دسمبر 1988ء)
خصوصی شمارہ "مولانا ابوالکلام آزاد نمبر"

Maulana Azad - Some personal memories. Essay: Jameel Mazhari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں