اے عورت : معمارِ جہاں تو ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-18

اے عورت : معمارِ جہاں تو ہے

woman-architect-of-the-society

صنف نازک کو دنیا فطری و جسمانی طور پر کمزور سمجھتی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار بھی دنیا کے لیے مشکل ہے جسے علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں ظاہر کیا ؎
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں


اسلام کے عطا کردہ حقوق کا شعور عورت کو وہ مقام دیتا ہے جو آج آزادئ نسواں کے پُرفریب نعرے لگانے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ آج عورت کو عورت کا مقام یاد دلانے کی واحد وجہ یہ ہے کہ طوفان مغرب کا سیلاب اس کا وقار بہا لے گیا۔ وہ عورت جو چٹانیں چور کر دینے والے عزائم رکھتی ہو، ظلم کی داستانوں کا کردار کیوں بنی رہے؟
وہ عورت جسے حق کی شمشیر کے ساتھ حق و باطل کے معرکے میں بے خطر کود پڑنا تھا، آج وہ سود و زیاں کی قید سے باہر کیوں نہیں نکلتی؟
وہ عورت جس کی مشت خاک کا شرف بھی ثریا سے بڑھ کر ہو، آج مغربی رہزنوں کے نقش قدم پر کیوں رواں دواں ہے؟


یہ محض الفاظ نہیں ایک حقیقت ہے۔ آئیے اسلامی تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں جو آج ہمارے لیے واضح سبق ہے۔
اپنے گفتار اور کردار میں ایک مثالی اور صدق دل رکھنے والی مومنہ اور مجاہدہ سیدہ ام عمارہ جن کے بارے میں آپ صلی اللہ نے فرمایا تھا:
"جنگ کے دوران میں اپنے دائیں بائیں دیکھا تو اس حالت میں کہ وہ میرے دفاع میں لڑ رہی ہے"
اندازہ کریں وہ کیسے حوصلے ہوں گے جو تیروں کو اپنے جسم پر روک کر آپؐ کی حفاظت کر رہے تھے۔


رشد و ہدایت پر مبنی ذہانت و فطانت کی ملک اسلام کی دوسری باوقار خاتون اسماء بنت عمیس جن کی ذہانت اور فیصلے دیکھ لوگ انگشت بدنداں رہ جاتے۔
سیدہ خولہ جو میدان جہاد کی رونق وہ خولہ جن کی نصیحتیں امیر المومنین بھی غور سے سنتے۔ کیا عظیم کردار تھا کیا خوب نصیحتیں ہوں گی جسے امیر المومنین بھی غور سے سنتے تھے۔
دور جدید میں بھی زینب الغزالی جیسی مجاہدہ کا کردار ناقابل فراموش ہے جنہوں نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کر کے عورت کی بلند حوصلگی و بلند ہمتی کی تاریخ رقم کی اور یہ ثابت کیا کہ اقامت دین اور اس کی سر بلندی کی جدوجہد میں عورت مرد سے کسی بھی طرح کم نہیں اور یہ اعلان کر دیا کہ اپنے مقصد زندگی کی خاطر بڑی سے بڑی مشکلیں ہیج ہیں۔
مغرب کی بیباک ناقد مریم جمیلہ کا نام بھی قابل قدر ہے۔ یہ وہ خوش بخت خاتون ہے جنہوں نے یہودیت کو چھوڑ کر اسلام کی آغوش میں پناہ لی اور بہت جلد اسلام کی فکر و تہذیب کے سانچے میں ڈھل گئیں اور اپنے آپ کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کے دیا۔


حضرت آسیہ کا نمونہ پیش کرتے ہوئے تاریخ ہم سے صبر و استقامت کا سوال کرتی ہے جس نے رہتی دنیا تک اپنی مثال قائم کی۔ اسلامی تاریخ تو عورت کے عظیم کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ یہ تواریخ زندہ ضمیروں کو للکارتی ہیں کہ مقام ثریا یہاں ہے، پستیوں کے دلدل سے نکل آؤ۔ لیکن افسوس کہ عورتوں کے یہ تعمیری کردار نہاں ہیں، اور وہ کردار عیاں ہیں جن کی پیروی کرتے ہوئے معاشرہ بے حیائی کے دلدل میں گرتا چلا جائے۔


اسلام کو عورت کا وہ کردار مطلوب ہے جو صبح نو کی ضمانت دیتا ہو۔ گھر سے لے کر بازار تک، معیشت کے بازاروں سے لے کر سیاسی گلیاروں تک عورت ہر میدان میں لوہا منوانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہمارا وجود دنیا کی رنگینیوں میں رنگنے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے رنگ میں رنگ جانے کے لیے ہے۔ ہماری صلاحیتیں دنیاوی محفلوں کی زیبائش میں نہیں بلکہ اقامت دین کی راہ میں قربان ہونے کے لیے ہیں۔ تعمیرِ معاشرے میں اہم کردار اگر کہا جائے تو وہ ایک عورت کا کردار ہوگا۔


اسلام نے جو مقام ایک عورت کو دیا ہے اس کا صحیح فہم وہ لذت عطا کرتا ہے جو مغربی افکار کی تمام عشرتوں پر لعنت بھیجتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری خواتین اسلام کی تعلیمات میں غرق ہو کر اپنی حقیقت کو پہچان جائے۔ تاریخ کے محرابوں میں ہمارے لہو سے جلتے چراغ ہماری عظمتوں کا ثبوت ہے۔ ہمارا حال و مستقبل بھی ان ہی قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہماری آبادیاں فواحش کے نظاروں میں گم ہو جائیں، ہماری نئی نسلیں دنیا کی چکا چوند میں اپنا وقار کھو بیٹھیں تو پھر حالات پر رونا اور شکوے کرنے کے بھی ہم مستحق نہیں۔


بےشک عورت کی ذمےداری اور اس کا وظیفہ حیات نئی نسل کی تربیت اور جنت نما گھر کے خواب کی تکمیل ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک اہم ذمےداری معاشرے اور انسانیت کی تعمیر کے لیے فکر مند ہونا بھی ہے۔ خواتین اسلام اور صحابیات نے دین کے اس مزاج کو سمجھا اور تاریخ روشن کی۔ ابتدائے اسلام میں مسلم خواتین نے اپنا بھرپور تعمیری اور مثبت کردار ادا کر کے آنے والے وقتوں کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ اور قابل تقلید مثالیں قائم کی ہیں جو آج بھی مسلمان عورت کے لیے مشعل راہ ہیں اور رہیں گی۔


***
اسماء جبین بنت سید قدیر۔ ہنگولی، مہاراشٹرا۔
Email: syyedaasmajabeen[@]gmail.com

Woman, architect of our Society. Essay by: Asma Jabeen

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں