صنف نازک کا اعلیٰ مقام - اسلام کی تعلیمات میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-19

صنف نازک کا اعلیٰ مقام - اسلام کی تعلیمات میں

higher-status-of-women-in-islam

ہندوستان میں خواتین کی حیثیت میں گزشتہ چند ہزار سال میں بہت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ قدیم دور کی پست حیثیت والی عورت سے قرون وسطی تک کا دور، جس میں متعدد مصلحین کی طرف سے مساوی حقوق دیئے جانے تک، ان کی تاریخ بھرپور رہی ہے۔ لڑکی پر ظلم و زیادتی کی تاریخ جتنی قدیم ہے خاتون کے روپ میں اس کے عزم و ہمت کی داستان بھی اتنی ہی پرانی ہے۔


اسلام جب طلوع ہوا تو اس کے سورج کی کرنیں دوسرے شعبوں کے ساتھ لڑکیوں و خواتین کیلئے بھی سماجی اور اقتصادی مساوات کے حقوق کی روشنی لے کر نمودار ہوئیں۔
اسلام نے عورت کو اعلى مقام ديا ہے۔ اسلام کى نظر ميں انسانى لحاظ سے مرد اور عورت دونوں برابر ہيں، لہذا مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ شرم کى بات ہے۔ ہر فرد کی زندگی میں عورت کسى نہ کسى صورت ميں ايک موثر کردار ادا کرتى ہے۔ ايک متوازن اور ترقى يافتہ معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت کى بہت بڑى اہميت ہے۔ قرآن مجید اور سنتِ رسول میں عورت کے مقام کے بارے میں کئی ایک آیات و روایات موجود ہیں۔ عورت خواہ ماں، بہن، بیوی یا بیٹی ہو، اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق و فرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔


اسلام نے بيٹيوں کو زندگى کا حق ديا:

جہالت کے زمانہ ميں عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کو زنده دفن کر دیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی اور اسے زندہ رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا، قیامت کے دن خدا کو اس کاجواب دینا ہوگا۔
اللہ تعالى فرماتا ہے :
وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ
[تکویر:8،9]
(اور جب لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا- کہ وہ کس گناہ پر ماری گئی)


وَكَذلَک زُيِّنَ لِكَثِيرِ مِنَ المُشْرِکيِنَ قَتْلَ اَوْلادِهِمْ شُركَاؤهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَليَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِيْنَهُمْ وَلَو شَاءَ اللّه مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفتَرُونَ
[الأنعام /137 ]
( اسی طرح بہت سے مشرکوں کو ان کے شریکوں نے ان کے بچوں کو جان سے مار ڈالنا اچھا کر دکھایا ہے تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے دین کو ان پر خلط ملط کر دیں اور اگر خدا چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور ان کا جھوٹ)


اسلام نے لڑکیوں کو علم حاصل کرنے کاحق ديا:

انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہے اور کوئی شخص یا قوم علم کے بغير نہيں ره سکتی۔ يہ صرف مردوں يا کسى خاص طبقے کے لیے نہيں ہے بلکہ اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد و عورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ و پابندیاں تھیں، سب کو ختم کر دیا۔ اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی، جیسا کہ رسول صلی الّٰلہ علیہ وسلم نے فرمایا:
طلب العلم فریضة
ايک دوسری جگہ ابوسعید خدری کی روایت ہے کہ رسول الّٰلہﷺ نے فرمایا:
"جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔"


اسلام مرد و عورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت اور اخلاق و شریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکتی ہے؛ اس لیے مرد کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔


اسلام نے خواتین کو الگ مالياتى حقوق ديے:

عورت کا نفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کا نفقہ واجب کر دیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے تاکہ ہر حالت ميں عورت کى عزت و کرامت محفوظ رہے
" لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آَتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آَتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا "
[طلاق: 7]
( صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیئے۔ اور جس کے رزق میں تنگی ہو وہ جتنا خدا نے اس کو دیا ہے اس کے موافق خرچ کرے۔ خدا کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کے مطابق جو اس کو دیا ہے۔ اور خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا)



نبى کريم ﷺ کے وصال کے بعد نصف صدى تک امہات المؤمنين نے علمى خدمات سر انجام ديں۔ ان ميں سے حضرت عائشہؓ کا علمى مرتبہ بہت بلند اور وسيع ہے ، وه امتِ مسلمہ کے امور کی ماہر عالمہ تھيں۔ علمى ميدان ميں آپؓ نے علمى، عملى، اجتماعى، معاشرتى، وعظ و نصيحت اور امت کى تعليم وتربيت کے ليے بہت کام کيے۔ حضرت عائشہؓ کى اعلى صلاحيتوں کو رسول اللہﷺ کى تربيت نے جلا بخشى۔ اس لئے تمام دينى علوم ميں انهوں نے مہارت حاصل کى۔ اور آپؓ کے حلقۂ علم ميں کبار صحابہ کرام رضى اللہ عنھم بھى شريک ہوتے تھے۔ آپؓ کے شاگردوں کى تعداد سينکڑوں ميں تهى اور اکابر صحابہ کے طرح حديث، فقہ، فتاوى، طب، انساب، شاعرى، عرب کى تاريخ اور کئى علوم ميں مرجع کى حيثيت رکھتى تھيں۔


اسلام نے انسان کو جو‏ عزت و احترام دیا ہے اس میں مرد و عورت دونوں برابر کے شریک ہیں ، اور وہ اس دنیا میں اللہ تعالی کے احکامات میں برابر ہیں اور اسی طرح آخرت میں اجر و ثواب میں بھی برابر ہیں۔ بلکہ اسلام مردوں کو حکم ديتا ہے کہ انہیں عورتوں کے ساتھ (خواہ مسلم یا غیر مسلم) بڑی عزت سے معاملہ کرنا چاہيے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمايا ہے :
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوف ۚ "
[البقرۃ : 228 ]
(اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے )۔


اسلام امن و امان اور انسانيت کا دين ہے ايک ايسا نظام حيات ہے جس نے نہ صرف انسان بلکہ حيوان و نبات کى حفاظت کرنے کا حکم ديا اور اسلام ميں صنف نازک کو ہر حیثیت سے وہ مقام حاصل ہے جس کا وجود کسى اور مذہب ميں نہيں۔ اسلام مرد و عورت میں انسان کی حیثيت سے کوئی امتیاز نہیں کرتا اس میں نہ کوئی آقا ہے نہ کوئی غلام، دونوں کے کام کرنے کے شعبے ضرور الگ ہیں لیکن اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں اور دونوں یکساں طور پر انسانی حقوق، عزت و شرف کے مستحق ہیں۔
ارشادِ ربانی ہے
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ
[آل عمران : 3 ]
ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کرلیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔

***
ہاشمی ادیبہ مسکان (اودگیر ، مہاراشٹر)۔
Email: hashmiadeeba16[@]gmail.com

The higher status of women in the teachings of Islam. Essay by: Hashmi Adeeba

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں