صحافت اور ادب : ادبی صحافت کی تعریف و تاریخ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-24

صحافت اور ادب : ادبی صحافت کی تعریف و تاریخ

urdu-journalism

"مجلہ" بفتح المیم عربی لفظ ہے جس کے معنی رسالہ، جریدہ اور میگزین کے ہیں۔ اخبار اور مجلہ میں فرق یہ ہے کہ اخبار خبروں سے بھرا ہوا ہوتا ہے، جب کہ مجلہ علمی، ادبی ، سیاسی ، سماجی تہذیبی، سائنسی اور دیگر مضامین کا مجموعہ ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اخبار روزانہ کی خبروں پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ مجلے کے مضامین دستاویز اور تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔


جس طرح ہندوستان میں اخباری صحافت کے آغاز کا سہرا انگریزوں کے سر ہے اسی طرح مجلاتی صحافت کی ابتدا بھی انگریزوں کی ہی رہین منت ہے۔ مجلاتی صحافت سے مراد علمی اور ادبی صحافت ہے۔ ادب اور صحافت کے درمیان فرق ہے۔ ادبی نگارشات میں کوئی بھی ادیب اپنے نظریات ، خیالات یا احساسات کو پیش کرتا ہے، جب کہ ایک صحافی اپنے آس پاس موجودہ عہد میں جو واقعات پیش آتے ہیں ، انہی کی ترجمانی کرتا ہے۔
صحافی کو ہمیشہ وقت کے ساتھ چلنا ہوتا ہے ، اس کے برعکس ادب کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں۔ آج جو واقعہ پیش آیا ہے صحافت میں اس کی کل تک اہمیت باقی نہ رہے گی ، جب کہ ادب میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں کسی بھی زمانے کا واقعہ کسی بھی زمانے میں بیان ہو سکتا ہے۔
کسی واقعہ کو پیش کرنے میں صحافی اپنے احساسات یا خیالات سے خود کو باز رکھتا ہے، جب کہ ادب میں ادیب آزاد ہے۔
ایک شاعر ایک غزل لکھنے میں دو مہینے کا وقت بھی لگا سکتا ہے۔ ایک افسانہ نگار ایک افسانہ کی تخلیق میں چاہے تو چھ ماہ لگادے، ایک ناول نگار، ممکن ہے اپنے کسی ناول کی تکمیل میں پوری زندگی ہی گزار دے مگر صحافت میں ( خاص کر اخباری صحافت میں) وقت کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ یہاں ایک منٹ کی تاخیر سے کام بگڑ سکتا ہے، ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے ادب اور صحافت کے فرق کو اور بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے:
"صحافت اور ادب کے درمیان امتیاز بالکل بیکار سی بات ہے۔ تاوقتیکہ ہم ایسا سخت مقابلہ نہ کر رہے ہوں جیسے گبن کی 'تاریخ' اور آج شام کے اخبار کے درمیان ہے، اور یہ مقابلہ بذات خود اس قدر شدید ہے کہ بے معنی ہو جاتا ہے۔ آپ صحافت اور ادب کے درمیان کوئی مفید امتیاز صرف ادبی اقدار کی ترازو میں رکھ کر نہیں کر سکتے۔ یہ امتیاز ایک عمدہ تحریر اور ایک انتہائی عمدہ تحریر کے درمیان فرق کرنے سے بھی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے درجہ کا ناول صحافت نہیں ہے لیکن یقیناً اسے ادب بھی نہیں کہا جا سکتا۔"
(بحوالہ: ایلیٹ کی مضامین، مرتب: جمیل جالبی)


ادب کی تاریخ میں کئی مشہور ادیب ایسے بھی گزرے ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقات سے صحافت کی دنیا میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور کئی مشہور صحافی ایسے بھی گزرے ہیں جن کا ادب کی تاریخ میں قابل ذکر مقام ہے۔ اعتماد، دلیری اور بلند ہمتی سے صحافت میں کامیابی کی راہیں کشادہ ہوتی جاتی ہیں۔ آزادخیالی اور بصیرت صحافت کے اہم عناصر ہیں۔ صحافت ترقی کی نقیب اور مستقبل کی تصویر ہے۔ معاشرے کے لیے اخبار کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں۔ ادب اور صحافت میں کسی حد تک یکسانیت ہونے کے باوجود یہ دونوں الگ الگ شعبے ہیں۔ ادب اور صحافت کا مواد، موضوع، طرز اظہار جداگانہ نوعیت کا ہوتا ہے۔ ادب اور صحافت کے قاری کی ذہنی سطح اور مطالبات میں فرق ہوتا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا ادب اور صحافت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ:
"بحیثیت مجموعی ادب کسی زمانے کے خارجی حالات و واقعات کی بہ نسبت اس زمانے کے میلانات و رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔ چنانچہ ایک تاریخی جائزہ ایک ادب پارے سے اس حد تک مختلف ہے کہ جہاں مقدم الذکر کا دائرہ عمل واقعات کی ترتیب و تدوین تک محدود ہے، وہاں ادب ان احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا ہے جو ایک خاص زمانے کی پیداوار ہوتے ہیں اور جن کے باعث اجتماعی ملکی شعور ایک حد تک مرتب ہوتا ہے۔ ادب اور تاریخ کی ہر حد فاصل کچھ اور سمٹ کر ادب اور صحافت کی حد فاصل کا درجہ حاصل کر لیتی ہے اور یوں کہ جہاں تاریخی جائزے کا میدان کافی وسیع ہوتا ہے اور ایک خاص دور کے واقعات کو زیر بحث لاتا ہے، وہاں صحافت کی تگ و دو سمٹ کر ان ہنگامی واقعات تک محدود ہوتی ہے جو ایک وسیع تر تاریخی جائزے میں غالباً کم اہمیت رکھتے ہیں۔ تاریخی جائزے اور ہنگامی صحافت کا یہ بنیادی فرق صحافت اور ادب کی خلیج کو کچھ اور کشادہ کر دیتا ہے اور یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ادب کی حیثیت مستقل ہے، اور صحافت کی حیثیت محض ہنگامی، لیکن ادب اور صحافت کا فرق 'مواد' اور 'موضوع' تک محدود نہیں۔ دراصل اس کا نمایاں فرق وہ طریقِ اظہار ہے جو ادب کو ادب اور صحافت کو صحافت کا درجہ عطا کرتا ہے۔"
(بحوالہ: اردو ادب میں طنز و مزاح، از: ڈاکٹر وزیر آغا)


ایک ادیب کسی ادب پارے کی تخلیق کے عمل میں خارجی عوامل کے ساتھ ساتھ اپنے داخلی محرکات، جذبات و احساسات سے بھی متاثر ہوتا ہے جب کہ صحافی صرف خارجی عوامل ہی کو عام فہم زبان میں بیان کرتا ہے۔ صحافی کسی بھی خبر میں اپنا ردعمل یا نقطۂ نظر پیش نہیں کرتا ، یعنی جو بات ادب کی خوبی ہے وہی صحافت کی خامی بن جاتی ہے۔ اردو صحافت کی نشو و نما میں اردو کے شاعر اور ادیبوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہ ادیب صحافتی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اپنے ادبی ذوق کی تشکیل بھی کرتے تھے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اردوصحافت نے اردو ادب کی کوکھ سے جنم لیا۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر وحید قریشی لکھتے ہیں:
"اردو صحافت کے آغاز میں ادیبوں نے اس کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن اس صحافت کا قاری ادب کے قاری سے مختلف نہ تھا۔ اس لیے ابتدائی اخبار نویسی ادبی معیاروں اور ادبی نثر کے جملہ لوازم سے روشناس تھی۔ اس وقت صحافت پیشہ کے طور پر جداگانہ طور پر مشخص نہ ہوئی تھی، اس اعتبار سے صحافت ادب ہی کی ترجمانی اور ترسیل کا فریضہ ادا کرتی رہی لیکن انیسویں صدی کے آخر میں ادبی پرچوں اور ادبی اخباروں کی جگہ عام اخبارات نے لے لی۔ جزئیت کا عنصر لازمۂ صحافت ہو جانے سے ادبی نثر نویسی کی جگہ اخباری نثر نویسی کو فروغ حاصل ہوا اور عبارت آرائی کی جگہ مطالب نویسی کو اہمیت ملی۔ زبان و بیان کے عام اور متعارف سانچے صحافت کا جز و لازم ہوئے۔"
(بحوالہ: پیش نقطۂ مولف کتاب مسکین علی حجازی، از: ڈاکٹر وحید قریشی)


ادب کا کردار ایسا توانا اور بھرپور تھا کہ اس دور میں اخبارات کے مدیر بذات خود شاعر اور ادیب تھے اور ان کی ادارت میں چھپنے والے اخبارات و رسائل ان کے ادبی ذوق کے ترجمان تھے۔ عوام کا ذوق و مذاق صاف ستھرا اور نکھرا ہوا تھا۔ اس سلسلے میں میں یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
"اس اعتبار سے ادبی صحافت ضدین کے اجتماع کا ہنر ہے کہ وقت کی پابندی کے ساتھ ادبی نگارشات کا دل کش اور فکر انگیز مجموعہ قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔ یہ مدیر کی شخصیت ، اس کے ادبی مذاق اور حسن انتظام کی آزمائش ہے کہ وہ کتنے سلیقے سے بہترین اور معیاری تحریریں حسن ترتیب کے ساتھ وقت مقررہ پر شائع کر سکتا ہے، اسے پرچے کے خریداروں کی تعداد میں اضافہ بھی کرنا ہے اور ساتھ ہی ان کے ذوق کی تربیت بھی کرنی ہے۔ ادبی صحافت کی بنیادی شرط ادبی معاشرہ میں خود مدیر کی علمی و ادبی حیثیت کا استحکام و اعتبار ہے۔ اگر رسالے کا مدیر ہی ادبی معاشرے میں ساقط اور لا اعتبار ہوگا تو رسالے کا معیار اور اس کی ادبی حیثیت مشکوک ہوگی۔"
(بحوالہ: ذہن جدید ستمبر تا نومبر 2010، اردو کی ادبی صحافت، از: قاضی جمال حسین)


ادب اور صحافت کے مقاصد میں بنیادی فرق ہے اور یہی فرق ادبی اور صحافتی تحریر میں نمایاں ہوتا ہے۔ اخبار کے قارئین اور ادب کے قارئین اپنے داخلی رویوں اور ذوق سلیم میں بھی مختلف ہوتے ہیں۔ صحافی اپنے قاری کے لیے آسان اور سادہ اسلوب کو پیش نظر رکھتا ہے جو بغیر کسی ابہام کے اپنا ابلاغ کر سکے۔ صحافت میں عام طور سے عارضی موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں، بی موضوعات وقتی اور ہنگامی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ادب میں مستقل اور دائمی قدروں کو موضوع گفتگو بنایا جاتا ہے۔ ایک صحافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی کے ہنگامی موضوعات کو غیر جانب داری کے ساتھ بیان کرے۔ اسے اپنا ردعمل اور نجی فیصلہ شامل کرنے کا اختیار نہیں، یہ فیصلہ وہ قارئین پر چھوڑ دیتا ہے۔ ادب میں ایسی کوئی قدغن نہیں ہے۔ شاعر اور ادیب زندگی کی مستقل جہتوں میں جس چیز کو اپنی تخلیق کا موضوع بنائے گا وہ اس میں اپنی رائے اور نجی محسوسات شامل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ادب میں حقیقت کو داخلی اور تخلیقی سطح پر سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے، جب کہ صحافت میں حقیقت کو واقعاتی سطح پر بیان کیا جاتا ہے۔ ادب کردار اور واقعات کے بیان میں مبالغہ آمیز تجربے، تخیلی تعبیر اور انفرادیت پر زیادہ توجہ دیتا ہے اور یہی اس کی صفاقی جہت ہے، جب کہ صحافت صرف واقعہ کی خارجی صورت پر انحصار کرتی ہے۔ ادبی صحافت کے حوالے سے ڈاکٹر قمرالہدی فریدی رقم طراز ہیں:
"رسائل معاصر ادبی صورت حال ، رویے اور رجحانات سے واقفیت کا ذریعہ بھی ہیں اور قاری اور مصنف کے باہمی ترسیل و ابلاغ کے نتیجے میں رد و قبول کے پیچیدہ عمل سے گزرنے کے بعد ایک مستحکم فضا کی تشکیل کے ذمے دار بھی۔ زبان کی توسیع اور اس کا تحفظ، نئے ادب کی ترویج اور نئے قلم کاروں کی تربیت رسالے کرتے رہے ہیں، کرتے رہیں گے۔ جب ہی تو کہتے ہیں اچھے رسائل رجحان ساز بھی ہوتے ہیں اور تاریخ ساز بھی۔ جس طرح حال کو سمجھنے کے لیے رسائل ناگزیر ہیں اسی طرح ماضی کی ادبی و لسانی صورت حال ، رویے اور رجحانات سے آگاہی کے لیے رسائل سے رجوع کیے بغیر چارہ نہیں۔ اردو کی ادبی صحافت کا نقطۂ آغاز 'تہذیب الاخلاق' ہے۔"
(بحوالہ: ذہن جدید ستمبر تا نومبر 2010، اردو کی ادبی صحافت، از: قمر الہدی فریدی)


ادب اور صحافت کے درمیان فرق کو واضح کرنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ادبی صحافت سے مراد رسالے اور مجلے ہیں، خواہ وہ کسی نوعیت ( مذہبی ، سیاسی ، تہذیبی، علمی وغیرہ) کے ہوں۔ ان کی بنیادی شرط مقررہ وقت پر ان کا شائع ہوتا، مضامین کا معیاری ہونا ، مدیر کا باصلاحیت ہونا اور اس کا ادبی مذاق نکھرا ہوا ہونا ضروری ہے، ورنہ رسالے کے معیار اور اس کی اشاعت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
قارئین کا دائرہ وسیع کرنا ، لکھنے والوں کو ایک معیاری پلیٹ فارم مہیا کرانا اور ادب کی آفاقی و جمالیاتی قدروں کی توضیح و تفہیم کے لیے راہ ہموار کرنا اس عہد کے جرائد کا بنیادی مقصد ہے۔
ہندوستان میں اردو کی ادبی صحافت نے مختلف ادوار میں مختلف رنگ اختیار کیا۔ سیاسی اور سماجی صورت حال کا بھی اثر مجلوں کی نگارشات میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ داخلی اور خارجی دونوں رنگ یہاں نمایاں ہیں۔ ادبی رسالوں اور اس کے مدیر کے متعلق قاضی جمال حسین رقم طراز ہیں:
"ادبی رسالوں کے مدیر کو بہ یک وقت دو طرح کی مشکلوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک طرف تو اس رسالے میں شعر و ادب کے تقاضے ملحوظ رکھنے ہوتے ہیں کہ شائع ہونے والی تخلیقات معیاری ہوں، تحریر کی علمی و ادبی سطح بلند ہو، قارئین کی جمالیاتی آسودگی کے ساتھ ساتھ رسالے کے مشمولات ان کی بصیرت و آگہی میں بھی اضافے کا سبب ہوں۔ دوسری طرف صحافت کے تفاضے اور اس کی اپنی مجبوریاں، کہ رسالہ پابندئ وقت کے ساتھ شائع ہونا ہے ، تخلیقات یکجا کرنی ہیں ، ادیبوں اور شاعروں کو خطوط لکھنے ہیں ، تخلیقات جلد بھیجنے کا تقاضا کرنا ہے، تخلیقی ادب کے علاوہ علمی موضوعات پر سنجیدہ اور معیاری تحریریں بھی درکار ہیں ، رسالے کی اشاعت بڑھانے کے لیے عوامی دلچسپی کی تحریریں بھی چھاپنی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کتابت اور طباعت کی اپنی دشواریاں۔ یہ تمام مرحلے وہ ہیں جو پابندئ وقت کی راہ میں حائل ہیں۔ صحافت کا بنیادی تقاضا وقت کی پابندی اور مقررہ وقت پر پرچے کی اشاعت ہے، جب کہ ادب کے مطالبات یکسر مختلف ہیں۔ کسی شاعر یا ادیب پر آپ یہ پابندی عائد نہیں کر سکتے کہ ایک ہفتہ میں وقت کی پابندی کے ساتھ دو نظمیں یا چار غزلیں وہ ضرور کہہ لے، یا مہینہ میں تین کہانیاں اور سال بھر میں ایک ناول ضرور لکھ ڈالے۔ صحافت خواہ اخبار سے متعلق ہو یا مجلوں اور رسالوں سے، وقت مقررہ پہ اشاعت کا تقاضا کرتی ہے، جبکہ علمی و ادبی اقدار پر اصرار ہوتا ہے۔ چنانچہ وہی باتیں جو صحافت کی خوبی تصور کی جاتی ہیں، ادبی تحریر کا عیب بن جاتی ہیں۔
(بحوالہ: ذہن جدید ستمبر تا نومبر 2010، اردو کی ادبی صحافت، از: قاضی جمال حسین)


***
ماخوذ از مقالہ: اردو میں ادبی صحافت - 1935ء سے 1960ء تک (اہم رسائل کی روشنی میں)
پی۔ایچ۔ڈی مقالہ نگار: اکرم وارث (شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی - 2016ء)۔ نگراں: پروفیسر قاضی جمال حسین

Literary journalism in Urdu journalism. Essay by: Akram Waris

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں