احمد یوسف کا افسانہ - قصہ حجام کے ساتویں بھائی کا - تجزیاتی مطالعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-25

احمد یوسف کا افسانہ - قصہ حجام کے ساتویں بھائی کا - تجزیاتی مطالعہ

afsana-ahmad-yusuf-review

احمد یوسف کے افسانوی مجموعے "آگ کے ہم سائے" میں شامل افسانہ "قصہ حجام کے ساتویں بھائی کا" ایک بہت ہی عمدہ اور ان کا نمائندہ افسانہ کہا جا سکتا ہے۔ اس افسانے کی قرات کرتے وقت سریندر پرکاش کے مشہور افسانہ "بازگوئی" کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اس میں بیک وقت داستانوی ماحول اور افسانویت کی بازگشت صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔


افسانہ کا راوی حجام ہے، اس کے ساتویں بھائی کا نام 'بیزارہ' اس وجہ سے ہے، کیونکہ یہ آندھی طوفان اور گرجتے بادلوں سے سخت خائف رہتا ہے۔ اس افسانے کا کردار 'بیزارہ' سریندر پرکاش کے بازگوئی 'تلقارمس' سے ملتا جلتا ہے۔


افسانہ "قصہ حجام کے ساتویں بھائی کا" میں حجام کے ساتویں بھائی 'بیزارہ' کی معشوقہ شہزادی کا کردار بہت ہی زیادہ سفاک اور بے رحم ہے۔ جو اپنے ناپسندیدہ شہریوں/ عاشقوں کو آگ سے جلانے جیسی غیر شرعی اور اذیّت ناک سزا دیتی ہے، پھر اس پہ مزید اپنی عشوہ طرازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈھٹائی سے لوگوں کے سامنے آ کر مسکراتی بھی ہے:
"وہ تیز دھوپ میں کھڑے کھڑے بے دم سے ہو گئے کہ ان میں سے بہتیرے ایسے تھے کئی کئی وقت کے فاقے سے تھے۔ اتنے ہی میں شہزادی نے چشم و ابرو کے اشارے سے انہیں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے کا اشارہ کر دیا۔ وہ سامنے کے منظر میں ایسے گم تھے کہ انہوں نے پیچھے مڑ کر بھی دیکھنا گوارا نہیں کیا اور یوں ہی کھڑے کھڑے بیٹھ گئے اور تب ان مکّار دراز ریشوں نے جو ان کی پشت پر کھڑے تھے بڑی پھرتی سے ان کی کرسیاں کھینچ لیں اور وہ دھم سے زمین پر آ رہے۔ ان نافرمانوں نے کرسیوں کے نیچے کی انگیٹھیلیاں روشن کر دی تھیں۔
خداوند انہوں نے بڑی دلدوز چیخیں بلند کیں اور اِس سِرے سے اُس سِرے تک ایک قیامت کا سا سماں بندھ گیا۔
وہ آہ و زاری میں کھوئے تھے کہ سامنے سے شاہ زادی اٹھلاتی سو ناز و نخرے دکھاتی ان کے پاس آئی اور اپنے لبوں پر تبسم لاکر کمالِ محبت سے بولی کہ یوں بیٹھا جاتا ہے، تم پر لازم تھا کہ پیچھے مڑ کر دیکھ لیتے۔"


افسانے کے مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں یہ بات مترشح ہے کہ یہ شہزادی اپنے عشاق پر ہر طرح کے مظالم روا رکھنے کو نہ صرف جائز سمجھتی ہے، بلکہ اسے اپنا حق تصور کرتی ہے۔ شریعت اسلامیہ کی روشنی میں آگ کی سزا صرف اللہ کا حق ہے، لیکن یہ شہزادی اس کو بھی اپنے لیے روا اور جائز سمجھتی ہے۔ اس افسانوی مجموعہ "آگ کے ہم سائے" میں موجود متعدد افسانوں میں آگ کا استعارہ موجود ہے، جو اس افسانے میں بھی ہے۔


بسا اوقات انسان اپنی ارذلِ عمر اور کہولت سے آگے بڑھ کر اپنی طبعی عمر کو پہنچ جاتا ہے، جسے ہم پیرِ فرتوت کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ عمر کچھ لوگوں کے لیے ذلت و رسوائی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس افسانے میں موجود حجام اپنے بھائی بیزارہ کی موت کا دعا مانگتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حجام بھی اپنے بھائی کی ذلت وخواری کی زندگی سے مایوس ہو چکا ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں صرف موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کی نبوت کے لیے اللّٰه تعالیٰ سے دعا مانگی تھی، کیوں کہ عمومی طور پر دنیا میں پائے جانے والے اکثر بھائی یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے زمرہ میں آتے ہیں جن کے لیے علامہ اقبال نے بھی کہا تھا:
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی ڈالیں جو یوسف سا برادر پائیں


الغرض احمد یوسف کا یہ افسانہ بہت ہی عمدہ ہے، جو ان کے منتخب کردہ افسانوں میں سرِ فہرست جگہ پانے کا مستحق ہے۔


***
محمد اشرف (دہلی)

Email: mdashrafyaseen[@]gmail.com

محمد اشرف

Qissa Hajjaam ke satwein bhai ka, a short story by Ahmad Yusuf. - Review by: Mohd Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں